*رات دن گردش میں ہیں سات آسماں*
*ہو رہے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا*
16/ جون2024/ کو سول سروسز کا پریلیمنری (ابتدائی ) امتحان تھا، یہ امتحان حکومتی ادارہ یو پی ایس سی (Union Public Service Commission ) منعقد کراتا ہے، ویسے تو یہ امتحان دنیا کے مشکل ترین امتحانات میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے، جو تین مراحل(prelims/ Mains/ Interview ) سے گزر کر اختتام پذیر ہوتا ہے، کامیابی کی شرح بھی ایک فیصد سے کم ہوتی ہے، تاہم پریلمس ان تین مراحل میں سب سے اہم ہے، چنانچہ اسے یو پی ایس سی کا Iron gate(آہنی دروازہ ) کہا جاتا ہے، جہاں 6/7 لاکھ امیدوار میں سے صرف 13/ 14/ ہزار ہی Mains کے لئے کوالیفائی کر پاتے ہیں،
عموما 11/12/ لاکھ امیدوار فارم بھرتے ہیں، جن میں سے 6/7/ لاکھ امتحان میں شریک ہو پاتے ہیں،
پریلمس میں دو پیپر ہوتے ہیں، ایک GS جنرل اسٹڈی کا اور دوسرا CSAT
(Civil Services Aptitude Test)
کا،
پہلے پیپر میں تاريخ، جغرافیہ، معاشیات، سیاسیات جیسے مضامین پر معروضی(Objective type ) سوالات ہوتے ہیں، دوسرے میں حساب، Reasoning(منطق) اور Comprehension(عبارت فہمی ) سے متعلق سوالات ہوتے ہیں، اول میں 100/ اور ثانی میں 80/ سوالات ہوتے ہیں اور ہر ایک پیپر 200/ نمبر کا ہوتا ہے، ثانی کوالیفائنگ نیچر کا ہوتا ہے، اس سے کٹ آف نہیں بنتی، بس اسے 33% سے پاس کرنا ہوتا ہے۔ جب کہ پہلے پیپر پر آگے کے مراحل موقوف ہوتے ہیں
سوشلیائی دور میں یو پی ایس سی امتحانات نے کچھ زیادہ ہی شہرت حاصل کر لی ، لاک ڈاؤن نے اسے مزید عروج بخشا، بڑے بڑے کوچنگ ادارے یوٹیوب، انسٹاگرام، فیس بک پر اپنی ویڈیوز شیئر کرنے لگے، جس سے عوام و خواص اس امتحان سے واقف ہوئے، ہم جیسے خالص مولوی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، نٹ جے آر ایف کوالیفائی کرنے بعد ارادہ ہوا کہ یو پی ایس سی میں بھی بیٹھ لیا جائے، یہ سوچ کر کہ
*کیوں ڈریں زندگی میں کیا ہوگا*
*کچھ نہ ہوگا تو تجربہ ہوگا*
چنانچہ یوٹیوب اور ٹیلی گرام کے سہارے سول سروس امتحان سے کچھ شد بد پیدا کی ،ادھر اپریل 2023/ میں فارم بھی آگئے، اپنے برادر اصغر محمد غفران کو کہا کہ فارم بھر دو، آگے دیکھا جائے گا، مئی کا مہینہ آیا تو دوسری مشغولیات کے سبب ارادہ ہوا کہ امتحان میں شریک نہیں ہونا ہے، لیکن جب جون کے شروع میں ایڈمٹ کارڈ آئے تو چند مخلص دوستوں سے تذکرہ کیا، سب نے ہمت بڑھائی، خصوصا سینئر رفیق مفتی صفوان صاحب نے کہا کہ ضرور شریک ہوئیے،
خیر، 16/ جون کی تاریخ بھی آگئی، اور ہمت جٹا کر امتحان گاہ پہنچا، چونکہ اس امتحان میں موبائل، اسمارٹ واچ اور دوسری غیر ضروری چیزیں سختی سے ممنوع ہیں، اس لئے موبائل گھر رکھ کر گیا اور اس طرح 8/9 گھنٹے بغیر موبائل کے گزارنے کا بھی تجربہ ہوا،
پہلا امتحان 9:30/ سے 11:30 اور دوسرا 2:30/ سے 4:30/ پر تھا، لیکن مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے پہنچنا لازم ہے، ورنہ داخلہ نہیں دیا جاتا، امتحان گاہ پہنچے، جو "نیو انگلش اسکول” باندرہ ایسٹ میں تھا، خاصی گہما گہمی دکھی، ہر چند کہ دلی جیسی بھیڑ بھاڑ نہ تھی،
کچھ امیدوار نے درخواست کی،کہ ہمارے بیگس اندر کہیں رکھوا دئے جائیں، لیکن نگراں حضرات نے صاف منع کر دیا، یہاں تک کہ سب کو اپنا بیگ گیٹ کے باہر ہی زیرِ دیوار بے یار و مددگار چھوڑنا پڑا، تب مجھے احساس ہوا کہ موبائل نہیں لایا، اچھا کیا، ورنہ مرحوم ہونے کے امکانات تھے،
بیس منٹ پہلے Answer sheet دی گئی، اس پر ضروری خانے بھرے گئے،
پانچ منٹ رہ گیا تو booklet(سوالات کاپی) لائی گئی ،جو سر بمہر تھی، سب امیدواروں کو دکھایا گیا ہے کہ سوالات کے پرچے سیل ہیں، ان سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی ہے، ٹھیک مقررہ وقت پر الارم بجتے ہی سوالات کا کتابچہ شرکاء کے حوالے کیا گیا، جسے کھول کر چک کرنے کی اجازت تھی، کوئی پرنٹنگ مسٹک ہو تو شکایت کر سکتے ہیں، مگر جوابات شروع کرنے کی اجازت نہیں تھی، تھوڑی دیر میں دوسرا الارم بجا اور جوابات شروع کرنے کو کہا گیا،
حسبِ استعداد جوابات اٹیمپٹ کئے گئے، اور یوں ایک نئے تجربے سے آگاہی ہوئی۔ اور یہ خیال قائم ہوا کہ درست انداز میں محنت ہو تو پیپر کریک کیا جا سکتا ہے،
نتیجہ اللہ کے حوالے، میری لئے یہی کامیابی ہے کہ اس ٹف اگزام میں مولویانہ وضع قطع کے ساتھ شریک ہوا، مقصد یہ تھا کہ ہم نہ سہی، کسی اور کو گائڈ تو کر سکیں گے اور یہ کہہ سکیں گے، من نہ کردم ،شما حذر بکنید،
*نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی*
*نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی*
محمد رضوان اعظمی(نزيل ممبئی )