تحریر: مولانا ڈاکٹر محمد اؔبو اللیث خیرآبادی
تعلیم انسان کا زیور ہے، اس سے انسان اپنے اور بچوں کے مستقبل کو سنوارتا ہے، اگر انسان زیور تعلیم سے آراستہ ہوتا ہے تو اسے زندگی گزارنے کا سلیقہ آتا ہے ؛ انسان کے بات کرنے کے انداز سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہے یا گنوار؛ اسی لیے ﷲ تعالی نے فرمایا: "قُلۡ هَلۡ یَسۡتَوِی ٱلَّذِینَ یَعۡلَمُونَ وَٱلَّذِینَ لَا یَعۡلَمُونَۗ إِنَّمَا یَتَذَكَّرُ أُو۟لُوا۟ ٱلۡأَلۡبَـٰبِ ٩﴾ [الزمر ٨-٩] یعنی کیا تعلیم یافتہ اور جاہل دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ یعنی نہیں! تعلیم یافتہ کی رفتار سے، گفتار سے، کھانے پینے کے انداز سے، رہن سہن سے، گویا اس کی ہر چیز سے یہ فرق نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے، تعلیم چاہےکسی بھی میدان کی ہو دینی ہو دنیاوی ہو اس سے بحث نہیں، فقط تعلیم اسے ہر چیز کا ڈھنگ سکھادیتی ہے۔
موجودہ حالات میں جب کہ نہ تو اسلامی حکومت ہے اور نہ ہی اسلامی تعلیم کی کوئی وقعت و اہمیت کہ اس کے ذریعے سرکاری ملازمت تو ملنے سے رہی ؛ بل کہ مسلمان بھی اسے بہت قدر کی نظر سے نہیں دیکہتے ؛ ایسے حالات میں تعلیم کس چیز کی حاصل کرنی چاہئے ؟
کیا سب علمِ دین حاصل کرکے مولوی بن جائیں اور پھر کسی مدرسے میں پڑھائیں ؟ مسجد میں اذان دیں، امامت کریں، جلسوں میں تقریریں کریں، نکاح پڑھائیں اور نمازِ جنازہ پڑھائیں اور تعزیتی تقریر کریں، یا صرف دنیاوی علوم حاصل کرکے انجینئر، ڈاکٹر، اکنامک، بزنس مین، وغیرہ بن جائیں اور اپنے کو دینی زندگی سے الگ کریں؟
یہ دونوں سوچیں غلط ہیں ؛ وہ اس لیے کہ شریعت میں دونوں طرح کے علم میں درک حاصل کرنا فرض کفایہ ہے ؛ لیکن اس حد تک شریعت کا علم فرض عین ہے، جس سے آپ ایک اسلامی زندگی گزار سکیں : ایمان کیا ہے ؟ ایمان کے ارکان کیا ہیں ؟ عبادتیں کتنی ہیں اور کیسے ادا کی جایئں؟ اللہ اور بندوں کے ہمارے اوپر بنیادی حقوق کیا ہیں اور وہ کیسے ادا کیے جائیں ؟ اس حد تک علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض عین ہے، باقی مولوی بننا، مفتی بننا، اسی طرح ڈاکٹر انجینئر وغیرہ بننا فرض کفایہ ہے۔
بہت پہلے سے یہ بات مشہور چلی آرہی ہے: کہ علم دو طرح کے ہوتے ہیں : ایک دینی اور دوسرے دنیاوی، حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو سارے علم دینی ہیں دنیاوی کوئی ہے ہی نہیں ؛ کیونکہ جس علم کے سیکھنے اور اس پر عمل کرنے سے ثواب اور اس کے نہ سیکہنے اور اس پر عمل نہ کرنے سےعقاب آتا ہو وہ دنیوی نہیں ہوسکتا ؛ مثال کے طور پر ڈاکٹری لے لیجئے! کیا علم طب سیکہنا اور اس کے مطابق مریضوں کا علاج کرنا دنیوی عمل ہے ؟ کیا اس پر ثواب و عقاب کا ترتّب نہیں ہوتا؟ اسی طرح روزی کمانے کے لیے کسی بھی جائز پیشے کا علم حاصل کرکے اسے ایمان داری سے کیا جائے توکیا اس کو دنیوی علم کہیں گے ؟ بل کہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں : کہ ہر وہ علم جو انسان و حیوان کی خدمت کے لیے ہو وہ دینی ہے، دنیوی نہیں ہے ؛ یہی وجہ ہے ہمارے اسلاف میں لوگ فقیہ، محدث بھی ہوتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی معاش کا علم حاصل کرکے اسے بھی رو بہ عمل لاتے تھے، تاریخ میں بہت سے ایسے علماء ہیں جو بؔزاز، حؔدّاد، نؔسّاج اور عَؔلّاج کے نام سے مشہور ہوئے۔
یا پھر دینی علم کی دو قسم کی جائیں: ایک علم دین خاص اور دوسرے علم دین عام،
علم دین خاص سے وہ علم مراد لیا جائے جسے سیکہنے کے بعد مولوی کی ڈگری یا خطاب ملتا ہے اور علم دینی عام سے مراد ہر وہ علم لیا جائے جس سے انسان و حیوان کی خدمت ہوتی ہو اور اسے خدمت خلق کے لیے استعمال کیا جائے۔
ان تمہیدی کلمات کے بعد” آمدم برسر مطلب ” مَیں اصل مدعا کی طرف آتا ہوں کہ اسلامی مدارس اور عصری یونیورسٹیوں میں دینی تعلیم میں کیا فرق ہے ؟ میں چونکہ اسلامی مدارس سے بھی فارغ ہوں اور عصری یونیورسٹیوں کا بھی پڑھا ہوا ہوں ؛ اس لیے شاید میں ان دونوں میں فرق کو واضح کرسکوں:
1) پہلا فرق تو یہ ہے اسلامی مدارس عام مسلمانوں کے ہوتے ہیں اور ان ہی کے صدقات و خیرات سے چلتے ہیں؛ اس لیے مدرسین اور ان میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں، جس سے ان کی ضروریات زندگی بمشکل ہی کسی طرح پوری ہوتی ہیں اور یونیورسٹیاں حکومت کے خرچ سے چلتی ہیں ؛ اس لیے ان میں کام کرنے والے سارے لوگوں کی تنخواہیں اتنی ہوتی ہیں جن سے ان کی ساری ضروریات پوری ہوجاتی ہیں ۔
2) دوسرا فرق یہ ہے کہ اسلامی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ فیس نہیں دیتے؛ بل کہ ان کے رہنے سہنے، کھانے پینے، علاج و معالجہ اور درسی کتابوں کا سارا خرچ مدارس اٹھاتے ہیں، جبکہ سعودی عرب کے علاوہ دیگر ملکوں کی یونیورسٹی میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ تعلیم کی فیس الگ دیتے ہیں اور اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے، علاج و معالجہ اور درسی کتابوں کا خرچ بھی وہ خود ہی اٹھاتے ہیں ۔
3) تیسرا فرق یہ ہے کہ اسلامی مدارس میں کسی بھی مضمون کو مضمون کی حیثیت سے نہیں پڑھایا جاتا ؛ بلکہ ان میں نظام سنہ ہونے کی وجہ سے ایک کتاب مقرر ہوتی ہے اور اسے ختم کیا جاتا ہے، جب کہ یونیورسٹی میں مضمون کو مضمون کی حیثیت سے پڑھایا جاتا ہے؛ اس لیے جو گہرائی اور گیرائی اسلامی مدارس میں آتی ہے وہ یونیورسٹی میں نہیں آتی۔
4) چوتہا فرق یہ ہے کہ اسلامی مدارس میں مقالے وغیرہ لکہنا داخل درس نہیں ہوتا، جب کہ یونیورسٹیوں میں ہر مضمون میں کم از کم ایک (اور زیادہ کی کوئی حد نہیں) مقالہ لکہنا ضروری ہوتا ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ اسلامی مدارس کے عام فضلاء مقالے لکہنا نہیں جانتے اور یونیورسٹوں کے فارغ التحصیل کے لیے مقالے لکہنا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔
5) پانچواں فرق یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کے طلبہ اپنے اساتذہ کا جو ادب و احترام کرتے ہیں وہ بات یونیورسٹی کے طلبہ میں اتنی نہیں ہوتی۔
6) چھٹا فرق یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم مخلوط نہیں ہوتی ؛ جبکہ سعودی عرب کے علاوہ دوسرے ملکوں کی یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم ہوتی ہے، کلاس میں ایک طرف لڑکے اور دوسری طرف لڑکیاں بیٹھتی ہیں ؛ اور ایسا اس لیے ہے کہ چہرہ پردے میں داخل ہے یا نہیں ؟ اس اختلاف کی وجہ سے یا برقعہ کے رواج ہونے نہ ہونے پر چلتا ہے ۔
ان چھے فرقوں کے علاوہ بھی کچھ فروق اور ہیں ؛ لیکن ہم نے اہم فروق کی نشاندہی کی ہے۔
( سرگزشتِ حیات، صفحہ:102، طبع:مکتبہ ضیاء الکتب، خیرآباد، ضلع: مئو)
✍🏻… محمد عدنان وقار صدیقی
سلسلہ نمبر: 104
انتخاب مطالعہ