شکستہ آئینہ میں رسالت محمدی کی زندہ گواہی؟

عبد العزیز

ادب و شعر کی دنیا میں سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی میں شیخ سعدی ؒ کا یہ مصرعہ ” بعد از خدا بزرگ توئی قصہ¿ مختصر“ کو جو فوقیت حاصل ہے وہ شاید ہی کسی شعر و مصرعہ یا قول وکلام کو حاصل ہے ۔ یہ مبالغہ سے دور ہے سچائی اور حقیقت کی ایسی بے لاگ ترجمانی اور تفسیر ہے جس پر کوئی پرستار خدا اور عاشق رسول چوں چرا نہیں کر سکتا۔ یہ حقیقت بھی بیان کر نا غلط نہ ہوگا کہ جو کم علم مسلمان دوسرے مسلمانوں کو عشق ِرسول کے تعلق سے کوستے ہیں، شیخ سعدیؒ نے ان کا منہ ہمیشہ کےلئے بند کر دیا ہے کیونکہ اس واضح حقیقت پر سارے مسلمانوں کا یقین محکم ہے۔

مولانا رومؒنے آنحضرت ﷺ کے بارے میں بھی فرمایاہے کہ

نا م احمد نام جملہ انبیاءاست ….چونکہ صد آمد،نو دہم پیش ماست

یعنی جب سو کہہ دیا تو اب ایک سے ننانوے تک جو کچھ ہے ،سب آگیا اور جب کہا ایک ،دو، دس، پچاس تو فالحقیقت ذکر ” سو ۰۰۱ “ ہی کا ہوا۔علامہ اقبالؒ جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی آ تے ہی اپنی آنکھوں کوآسوﺅں سے تر کر لےتے نہایت والہانہ انداز میں رسول عربی ﷺ کے لئے درجہ ذیل لفظوں میں خراج عقیدت پیش کر تے ہیں

وہ دانائے سُبُل ، ختم الرسل، مولائے کل جس نے …. غبارِ ر اہ کو بخشا ، فروغ و ادی سینا

نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر …. وہی قرآن، وہی فرقان، وہی یٰسین، وہی طٰہٰ

تکلف بدایونی نے اردو زبان و ادب میں یہ کہہ کر

رخ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ …. نہ ہماری چشم خیال میں نہ دکان آئینہ ساز میں

اپنے قلم اور صلاحیت کی ساری توانائی نچوڑ کر رکھ دی ہے،مگر یہ حقیقت ہے کہ سب کے سب اللہ کے رسولﷺ کے دیوانے اور پروانے ہیں ان کی ہر بات کو کفروشرک کی دنیا یہی کہے گی یہ رسول عر بی صلی اللہ علیہ وسلم کے سپاہی اور وفادار ہیں اور جہاں تک صحابہ کرامؓ کا تعلق ہے وہ توآنحضرت کی ایک آوازپر سب کچھ نچھاور کر نے کےلئے تیار رہتے تھے ۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ خدا کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دور اول کے مسلمانوں نے کس طرح والہانہ اندازمیں پیار کیا جو تاریخ انسانیت کا حسین ترین باب بن چکا ہے۔

خدا پرستی کے نور میں نہائی ہوئی یہ شخصیت روح و دل کے ان اندھوں کو بھی دکھائی دیتی ہے جن کو ان کا خدا نظرنہیں آتا۔ پتھروں کے بے حس پجاری بھی اس دلکش کردار پر نظر ڈالتے ہیں تو فرط ِ عقیدت سے سر دھننے لگتے ہیں اور کامل چالیس سال تک اس کو ”امین و صادق“ کہتے کہتے ان کی زبانیں سوکھنے لگتی ہیں۔ پھر جب انسان تک اپنا آخری پیغام پہنچانے کےلئے خدائے عزل و جل اس انسان کامل کو رسالت کے خلعت فاخرہ سے مشرف فرما دیتا ہے اور اس وقت کے کفار و مشرکین کی پتھرائی ہوئی آنکھیں اس کو اس بلندی پر پہچاننے سے عاجز ہوکر قہر و انتقام کی آگ اگلنے لگتی ہیں۔ تو روشن ضمیر روحوںکے قافلے آگے بڑھتے ہیں اور”ہم تجھ پر نثار،ہمارے ماں باپ تجھ پر قربان!“کے والہانہ نعروںسے حرم کی فضائیں گونج اٹھتی ہیں۔ یہ نعرے کھوکھلے الفاظ نہ تھے بلکہ دلوں کی دھڑکنوں اور روحوںکی بے تاب چیخیں ان میں سمٹ آئی تھیں۔ یہ سپردگی و جاں نثاری کے نعرے آج بھی تاریخ کے سینے پر خون و دل و جگر سے سرخ و تازہ نظر آتے ہیں۔ یقینا دنیا کی یہ بات درست ہے مگر ان دیوانوں کی جاں نثاریوں سے بھی دنیا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہی لیکن اب خدا کے ایسے بھی بندے ہیں جنہیں قبولِ حق کی توفیق نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ رسول اللہ کے دیوانوں میں سے ہیں وہ عیسائیت،ہندومت اوردیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ان کی زبانوں پر یا ان کے نوک قلم سے وہ بات نکل جا تی ہے جو حق و صداقت پر مبنی ہو تی ہے۔ انہیں صداقت پسند انسانوں مےں سے اےک مائیکل اےچ ہارٹ (Michael. H. Hart) ہےں، جو امریکہ کے عیسائی ہےں جو ورجینیا (Virginia) کے رہنے والے ہےں،جس نے دس پندرہ سال پہلے ”دی ہینڈریڈ (The 100) نا می کتا ب لکھی ہے۔ اس کتاب میں دنیا کی سو بڑی شخصیتوں کا موازنہ کیا ہے اور دنیا پر ان کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ان شخصیتوں کو نمبر وار اپنی کتا ب کے صفحات پر ان کی خدمات اور اثرات کو ایک ایک کر کے گنایا ہے۔ عیسائی ہوتے ہوئے بھی سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑی اور سب سے عظیم شخصیت کادرجہ اور رتبہ دیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ میرے اس کام اور جائزہ سے دنیا کو حیرت ہوئی ہو گی کہ آخر عیسائی ہو تے ہوئے کیسے اور کیوںکر رتبہ اور درجہ میں اوّل نمبر پر لکھا ہے مگر(وہ کہتا ہے کہ) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کارنامہ مذہبی اور دنیاوی طور پر اداکیا ہے وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام سے نہیں ہو سکا۔ان کے ادھورے کام کو تو ان سے بھی زیا دہ سینٹ پال(St. Paul) نے پورا کیا ہے جس کی وجہ سے عیسائیت کو فروغ و ترقی حاصل ہوئی ہے ۔

مائیکل نے یہ بھی لکھا ہے کہ عیسٰیؑ مسیح نے جو کچھ کہا ہے وہ مذہبی اور اخلاقی سطح تک ہی اس کا دائرہِ عمل ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف مذہبی سطح پر اپنے اثرو نفوذ ڈالے ہیںبلکہ سیکولر سطح پر بھی کامیاب و کامران نظر آتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہHe was the only man in history who was supremely successful on the religious and secular levels. یہاں سیکولر کے لفظ سے کچھ لوگوں کو حیرانی ہو سکتی ہے مگر جو یہ جانتے ہیں کہ عیسائی کا تصور مذہب محدود ہے وہ عبادت،رہبانیت، اخلاقی کلامات،پیار محبت کی باتوں سے زیادہ مذہب کے دائرہ کو بڑھانے سے قاصر ہیں،اسی سوچ کی بنیاد پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف مذہبی لیڈر نہیں کہتے بلکہ مذہبی اور دنیاوی یعنی سیکولر لیڈر بھی کہتے ہیں۔ عیسائیوں نے اپنی سوچ اور فکر کو اس انداز سے دنیا بھر میں پیش کیا ہے کہ مسلمان عالم اور دین دار پڑھے لکھے بھی اسی تصور (Concept) کے شکار ہو گئے ہیں جبکہ اسلام ہمہ گیر اور ہمہ جہت دین ہے جو زندگی کے ہر شعبہ¿ حیات میں دخیل ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کسی راہب اور دنیا کے مسائل و معاملات سے کنارہ کش ہو کر نہیںگزاری ہے۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ذکر و فکر، محض مراقبہ وسجوداور فقط تسبیح و تحلیل نہیں۔ وہاں بیویوں سے دل لگی بھی ہو رہی ہے ۔کبھی بازار میں گھوم کر خرید و فروخت کے آداب بتا رہے ہیں، تو کبھی منبر پر وعظ وتلقین فرما رہے ہیں۔ ادھر آنے والے وفد سے گفتگو ہو رہی ہے تو اُدھر اصول سمجھا رہے ہیں،کبھی میدانِ جنگ میں کمان فرمارہے ہیں اور کبھی صلح نامے کی دفعات لکھو ارہے ہیںاور کبھی مسجدمیں اشعار سن کرتبسم فرمارہے ہیں۔ کبھی بی بی عائشہؓ کوحبشیوںکا کھیل دکھارہے ہیں۔سنجید گی کا یہ عالم کہ کبھی کوئی زبان کھولنے کی جرائت نہیں کر سکتا اور کبھی کسی بڑھیا سے طبیعت مزاح بھی ہو رہا ہے۔ کہیںمقدمات کے فیصلے سنارہے ہیں اور کہیں مزدوروں کی طرح پھاﺅڑے چلا رہے ہیں۔ غرض زندگی کی ساری بو قلمونیاںایک ذات کے اندر موجود ہیں مگر ان میں توازن کا حسن اور تناسب کا جمال اپنے پورے کمال کے ساتھ موجود ہے، نہ کہیں کوئی زیادتی ہے نہ کوئی کمی۔ مائیکل ہارٹ ان باتوں اور ان خوبیوںکےلئے جو اصطلاح ڈھونڈنکالا ہے وہ ہے سیکولر،جبکہ ہندستا ن کے پس منظر میں اس کے بہت سے معنی لئے جاتے ہیں جس میں ایک لا مذہبیت بھی ہے،مگر مائیکل ہارٹ کے نزدیک سیکولر کے معنی یکساں بر تاو¿ اور سلوک ہے، ترقی اور بھلائی ہے،امن اور انصاف ہے۔

مائیکل ہارٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کئی ملکوں کے فتوحات بھی گناتا ہے اور ان ملکوں میں اثر ونفوذ کا بھی ذکر کر تا ہے اور یہ کہتا ہے کہ یہ سب ممالک تک دائرہ کو وسیع کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔

وہ قرآن مجید کا ذکر کر تا ہے کہ قرآن جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب ہے وہ جس میںترتیب و تفصیل کے ساتھ چیزوںکو جامع انداز میں پیش کیا گیا ہے عیسیٰ ؑ کی کتا ب میںدیکھنے کو نہیں ملتی۔ مائیکل غالباً آسمانی کتاب پر یقین نہیں رکھتا، اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے اور عیسیٰ ؑ پر جو کتاب نازل ہوئی تھی وہ بھی اللہ کی کتاب تھی مگر وہ اب نا پید ہے۔ اس کی زبان بھی مر چکی ہے جو کچھ ہے وہ تحریف شدہ اور سینٹ پال کے ذہن کی پیداوار ہے۔

آخر میں وہ رقمطراز ہے کہ ”ساتویں صدی کے عرب فتوحات کا رول اس وقت سے لیکر اب تک انسانی تاریخ میںموثر اور اہم ہے۔ یہ مذاہب اور سیکولر اثرات کی غیر معمولی دین ہے جس کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانی تاریخ میں ان کے اثرات اےسے ہیں کہ جس کا کوئی مدِ مقابل (Parallel) نہیں ہے“۔

مائیکل کی یہ درجہ بندی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں رشدی اور تسلیمہ کے شیدائیو ں کے منہ پر ایسا زوردار طمانچہ ہے جس کے نشانات صدیوں تک اجاگر رہےں گے۔ مائیکل کی کتاب کو دنیا کے بڑے بڑے اخبارات ، رسالے اور بڑی بڑی شخصیتوں نے سراہا ہے۔ ان سب کے اقوال کتاب کے صفحہ آخر پر سنہرے حرفوں میںدرج ہےں۔ کئی سال ہو نے کو آئے مگر کوئی ادنیٰ وا علیٰ شخص اس کتاب کا جواب نہیں لکھ سکا۔ ہمارے ہندستانی بھائیوں نے اعتراض کیا ہے کہ مائیکل کی کتاب میں گاندھی جی کا نام نہیں ہے، اس پر اس نے کہا کہ ”مجھے معاف رکھا جائے، دنیا کے دوبڑے قاتلوںیعنی ہٹلر اور اسٹالین کا بھی جو اثر دنیا میںپاےا جاتا ہے وہ بھی گاندھی جی کا نہیں ہے۔ یہاں سو سے زائد افراد کا جب میںکبھی تذکرہ کروں گا تو ہو سکتا ہے کہ گاندھی جی کا بھی نام فہرست میں شمار کئے جانے کے لائق ہوجائے۔

ہم مسلمان یقینا مائیکل کی کتاب اور اس کی درجہ بندی سے خوش ہوں گے،ہونا بھی چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری دیوانگی اور محبت ایک بہت بڑا سرماےہ ہے۔ اسے کم نہیں ہونے دینا چاہئے اور ختم کرنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن ایک سوال ضرور ہے کہ کیا ہم مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے مقصد سے غافل نہیں ہیں؟ جس غرض کےلئے آپ دنیا میں تشریف لائے اس کےلئے ہمارے اندر ٹھیس اور چبھن ہے؟ تو آخر کیا وجہ ہے کہ ربیع الاوّل کے مہینے میں ہم بہار کی خوشیوں کا جشن تو مناتے ہیں مگر بادِ سموم کے جھونکوں سے جو دنیا میں پامالیاں سر چڑھ کے بول رہی ہےں، ان کےلئے نہ ہم ہاتھ پاو¿ںمارتے ہیں، نہ کوئی پروگرام بناتے ہیں اور نہ منصوبہ سازی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟ کیا اسی کا نام عشقِ رسول ہے؟ کیا اسی کو وفادار یِ رسول کہتے ہیں؟

دنیا جہنم کدہ کا منطر پیش کرے اور ہم عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کھوکھلے نعروں میں اپنے آپ کو محصور ہو کر دنیا کو یہ باور کرائیں کہ ہم محمد ﷺ کے نام لیوا ہیں اور ان کے وفاداروں اور ان کے سپاہیوں میں سے ہیں۔اور دنیا اگر مڑ کر دیکھے تو ہم میں گفتار کے سوا کوئی چیز نظر نہیں آئے گی۔ اخلاق و کر دار کا کوئی شائبہ دور دور تک نہ دکھائی دے گا۔دنیا یقینا یہ پوچھے گی کہ کیا یہی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی ہے؟ کیا یہی حق کی شہادت ہے؟ ذرا غور کیجئے ! آج سے چو دہ سو سال پرانے انسان نے حضرت محمدعربیصلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں جس حق و صداقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اس کو آج کا انسان کہاں اور کس طرح دیکھے؟ تاریخ ایک واقعہ کی یاد دلا سکتی ہے۔ ایک احساس، ایک تصور ہی دے سکتی ہے، دکھلا نہیں سکتی، مشاہدہ نہیں کرا سکتی۔ دنیا کو ماضی کے مشاہدہ کرانے والے ہم تھے۔ ہم خود کو مسلمان شمار کر تے ہیں مگر یہ آئینہ! آئینہ ہوتے ہوئے بھی بے حسی، آخرت فراموشی کے گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے، کردار کی زنگ آلود تہوں سے دبا پڑا ہے جس میں ہمیں خود اپنی بگڑی ہوئی شکل بھی نظر نہیں آتی۔ پھر سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اس شکستہ اور خستہ حال آئینہ میں رسالت محمدی پر کسی زندہ گواہی کو آنکھوں سے دیکھ سکتی ہے؟

https://www.facebook.com/profile.php?id=100004922253008

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے