بقلم: مفتی امداد الحق بختیاراستاذ حدیث وصدر شعبہ عربی زبان وادب جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد
اسلام ایک مکمل نظام حیات (Complete System Of Life) کا نام ہے، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے، جس میں اسلام نے انسان کو آزاد چھوڑ دیا ہو، اسے اس کی مرضی اور اس کی رائے کے حوالے کر دیا ہو؛ بلکہ تمام شعبہ ہائے حیات میں اسلام انسان کی رہبری، رہنمائی اور دستگیری کر تا ہے؛ عقائد کا باب ہو یا عبادات کا، معاشرت کا ہو یا اخلاقیات کا نیز معاملات کا ہو یا سیاسیات کا، ہر ایک کا اسلام سے گہرا تعلق ہے، کسی ایک کو بھی اسلام اور دینی رہنمائی سے جدا نہیں کیا جا سکتا؛ ورنہ اس کے بھیانک نتائج نکلیں گے، دیگر مذاہب کی طرح اسلام صرف کچھ مذہبی اعمال اور عقائد وعبادات کا نام نہیں ہے؛ بلکہ یہ ضابطہ حیات ہے، زندگی کے ہر شعبے، ہر مرحلے اور ہر میدان کو محیط ہے۔
انسانی زندگی کے بیشتر مراحل صحیح سیاست کے محتاج ہیں، اس کے بغیر پُر امن اور خوش گوار انسانی زندگی کا تصور تقریباً ناممکن ہے؛ لہذا یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ زندگی کا یہ اہم شعبہ اسلامی رہبری سے خالی ہوتا؛ چنانچہ قرآن وحدیث اور سیرت طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کے میدان میں بھی اسلام انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے، جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ سیاست کا اسلام سے گہرا تعلق ہے، اسلام کے بغیر صحیح سیاست کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
سیاست کے حوالے سے دو غلط نظریات:
مسلمانوں میں سیاست کے حوالے سے افراط وتفریط پر مبنی دو غلط نظریات پائے جاتے ہیں:
(١) مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقہ میں یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ اسلام کا مقصد ہی سیاسی قوت حاصل کرنا اور حکومت واقتدار پر فائز ہونا ہے، دیگر تمام شعبے، جیسے عبادات،معاملات اور معاشرت وغیرہ سب ذیلی اور ثانوی درجہ کے ہیں اور یہ سب سیاست کے تابع ہیں؛ لہذا وہ اپنی مکمل جد وجہد سیاسی استحکام میں ہی صرف کرتے ہیں، دین کے دیگر شعبوں پر ان کی توجہ بہت کم ہوتی ہے۔ یہ افراط اور غلو پر مبنی ایک غلط نظریہ ہے، کیوں کہ سیاست دین کا ایک حصہ اور باب ہے جیسے معاملات اور معاشرت وغیرہ؛ لہذا سیاست کو ہی اصل اور مقصود اعلی سمجھنا درست نہیں ہے۔ البتہ دین کے تمام شعبوں میں اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے فرقِ مراتب ضرور ہے۔
(٢) دوسرا نظریہ یہ پایا جاتا ہے کہ دین اور مذہب انسان کا انفرادی معاملہ (Individual Choice)ہے، اس کا سیاست اور حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ نظریہ در اصل عیسائی تھیوکریسی کی خرابیاں سامنے آنے پر ردّعمل کے طور پر ظاہر ہوا۔ اور اب سیکولرزم میں یہ ہی نظریہ پایا جاتا ہے،سیکولرزم کے فروغ کے ساتھ ساتھ اس نظریہ کو بھی کافی فروغ ملا۔ اسی طرح اسلام کو دوسرے مذاہب پر قیاس کرنے کی وجہ سے بھی یہ نظریہ پیدا ہوا، جو بالکل غلط ہے؛ کیوں کہ دیگر مذاہب وادیان کی طرح اسلام صرف عقائد وعبادات اور معاملات کا ہی نام نہیں؛ بلکہ وہ زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے، جس میں سیاست بھی شامل ہے۔
مسلمانوں میں یہ نظریہ بعض اُن دینی حلقوں میں پایا جاتا ہے، جنہوں نے اپنے آپ کو سیاست سے بالکل منقطع کر لیا اور عقائد وعبادات وغیرہ تک وہ محدود ہوگئے، اور جن حضرات نے سیاست میں قدم رکھا، ان پر انہوں نے تنقید کی۔
ہندوستان میں آزادی کے بعد بہت سے دینی حلقوں نے اسی نظریہ کو عملی طور پر اختیار کیا، اور طویل جد وجہد اور نا قابل بیان قربانیاں پیش کرنے کے بعد حاصل ہونے والی آزادی کے بعد اپنے آپ کو سرگرم سیاست سے ان حضرات نے دور کر لیا اور بہت سی مسلم جماعتوں اور تنظیموں نے بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں بند کرنے اعلان کر دیا، جو کہ میرے خیال سے ایک اجتہادی غلطی (Bonafide Mistake)تھی، جس کے بھیانک نتائج سے آج امت مسلمہ ہندیہ دو چار ہو رہی ہے۔
اسلام میں سیاست کا مقام
در اصل سیاست نام ہے، ایسے نظم ونسق اور انتظام وانصرام کا، جس کے ذریعہ کسی خطہ میں امن وامان کا ماحول قائم ہو، فتنہ وفساد، ظلم وغارت گری اور لوٹ کھسوٹ سے اس کی حفاظت ہو، وہاں تجارت، معیشت، تمدن اور علم وفن کو ترقی ملے۔
لہذا اب غور فرمائیں کہ کیا مکمل اسلامی نظام کے بغیر ان چیزوں کو عملی شکل میں لانا ممکن ہے۔ اور کیا اسلام ان کو بروئے کار لانے کی ہدایت اور تاکید نہیں کرتا؟ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ. (آل عمران، 110.)
(ترجمہ: تم بہترین امت ہو؛ لوگوں کے نفع کے لیے بھیجے گئے ہو، تم صحیح بات بتاتے ہو اور غلط سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔)
اس آیت میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ مسلمان تمام انسانوں اور اقوام کی فلاح وبہبود کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، تمام اقوام کی صحیح رہنمائی کرنا، مفید اور نفع بخش چیزوں کی طرف ان کی رہبری کرنا اور غلط، نقصان دہ اور ضرر رساں چیزوں سے انہیں روکنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔
لہذا اس آیت میں صاف وضاحت ہے کہ مسلمانوں کو دنیا میں اس لیے بھیجا گیا ہے؛ تاکہ وہ تمام انسانیت کی قیادت کریں، ان کے رہنما بنیں، انہیں صحیح راستے کی طرف رہبری کریں اور غلط چیزوں سے انہبں متنبہ کریں، یعنی مسلمانوں کے اوپر لیڈرشپ اور قوموں کی قیادت وسیادت کی ذمہ داری ہے، مسلمان اس دنیا میں دوسروں کے تابع بن کر، محکوم بن کر اور ما تحت رہ کر زندگی گزارنے کے لیے نہیں آیا ہے؛ بلکہ اسے رہبری اور رہنمائی کا فریضہ انجام دینا ہے۔ اور مسلمانوں کو یہ مقام سیاست میں سرگرم حصہ لیے بغیر نہیں مل سکتا۔
وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِکَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ. ( النور:٥٥)
(ترجمہ: اللہ نے وعدہ کیا ہے، ان لوگوں سے جو ایمان لائے تم میں سے اور اچھے اعمال کیے، اللہ ان کو ضرور بالضرور زمین کی خلافت عطا کرے گا، جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت عطا کی، اور مستحکم کر دے گا ان کے اس دین کو جسے اللہ نے ان کے پسند کیا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا، (کیوں کہ)وہ میری عبادت کرتے ہیں، میرے ساتھ کسی شریک نہیں کرتے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے گا، تو وہی لوگ نافرمان ہیں۔)
اس آیت میں بھی یہ مذکور ہے کہ صالح مسلمانوں کو اللہ تعالی زمین کی خلافت یعنی حکومت وسلطنت اور قوت اقتدار عطا کرے گا؛ کیوں کہ اس کے ذریعے دین حق کو استحکام نصیب ہوسکتا ہے اور شرعی قوانین واحکام کے نفاذ کا ماحول میسر آسکتا ہے؛ اس لیے کہ سیاسی اقتدار کے بغیر دین کا استحکام اورقوانین کا نفاذ ممکن ہی نہیں۔ اسی طرح یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ سیاسی انقلاب کے بعد ہی معاشرے سے خوف وغم کی حالت کو بدلا جا سکتا ہے اور اس کی جگہ امن و سلامتی کا ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے۔
انبیاء علیہم السلام اور میدان سیاست
اللہ تعالی کی طرف سے نازل کر دہ دین میں سیاست کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انبیاء علیہم الصلاة والتسلیم نے بھی علمی اور عملی طور پر سیاست میں حصہ لیا ہے اور نہ صرف حصہ لیا ہے؛ بلکہ وہ اس میدان میں امامت کے منصب پر فائز رہے، بہت سے انبیاء علیہم السلام کی سیاسی سرگرمیوں اور میدان سیاست اور حکومت واقتدار میں ان کے کارناموں کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بھی بیان فرمایا ہے، جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر میں بادشاہت کی کمان سنبھالی اورقوم کی فلاح وبہود اور خیر خواہی کے لیے اپنی اہلیت اور صلاحیت کا اظہار فرماتے ہوئے، خود وزارت خزانہ کا عہدہ طلب فرمایا، چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلَی خَزَآئِنِ الأَرْضِ ِنِّیْ حَفِیْظ عَلِیْم. (سورة یوسف: ٥٥)
(ترجمہ: یوسف نے کہا: مجھے مقرر کردیں زمین (یعنی ملک) کے خزانہ پر؛ کیوں کہ میں حفاظت کرنے والا، علم والا ہوں۔)
حضرت داؤد علیہ السلام کو حکومت واقتدار عطا کیا گیا، حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت تو انسان، جنات، چرند پرند، خشکی کے اور دریا کے جانور حتی کہ آب وہوا پر تھی، اتنی وسیع حکومت تو آج تک کسی انسان کو نصیب نہیں ہوئی، قرآن کریم نے متعدد آیتوں میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے۔
خود فخر الموجودات، سید الاولین والآخرین، رحمة للعالمین نبی آخر الزماں حضرت محمد ۖ نے سیاست، حکومت اور اقتدار کے میدان میں اپنے فرمودات اور عملی نمونے امت کی رہبری کے لیے چھوڑے ہیں، آپ ۖ جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے، تو آپ ۖ نے ایک تاریخی معاہدہ ترتیب دیا، جس میں مدینہ اور ا س کے قرب وجوار کے یہودی اور عرب قبائل کے درمیان بہت سے امور پر معاہدے ہوئے، جس میں خاص طور پر مدینہ کی ریاست کے امن وامان اور باشندگان کی سلامتی پر زور دیا گیا تھا، نیز رسول اللہ ۖ نے روم ، فارس اور دیگر بہت سے سر براہان ِ مملکت کے نام خطوط ارسال فرمائے، جن کی سیاسی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، نبی مصطفی ۖ کی سیرت طیبہ میں جس طرح عقائد، عبادات، معاملات، تجارت، معاشرت کے حوالے سے روشن رہنمائی ملتی ہے، اسی طرح سیاست، حکومت اور اقتدار کے میدان میں بھی ہمیں آپ ۖ کی مبارک زندگی سے بیش قیمت؛ بلکہ انمول اصول وضوابط، ہدایات، تعلیمات اور عملی نمونے ملتے ہیں؛ چنانچہ بطور نمونہ ذیل کی دو حدیثیں مطالعہ فرمائیں:
رسول اللہ ۖ کا ارشاد گرامی ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم: «ِذَا کَانَ أُمَرَاؤُکُمْ خِیَارَکُمْ، وَأَغْنِیَاؤُکُمْ سُمَحَائَکُمْ، وَأُمُورُکُمْ شُورَی بَیْنَکُمْ فَظَہْرُ الأَرْضِ خَیْر لَکُمْ مِنْ بَطْنِہَا، وَِذَا کَانَ أُمَرَاؤُکُمْ شِرَارَکُمْ وَأَغْنِیَاؤُکُمْ بُخَلَائَکُمْ، وَأُمُورُکُمْ ِلَی نِسَائِکُمْ فَبَطْنُ الأَرْضِ خَیْر لَکُمْ مِنْ ظَہْرِہَا. (سنن الترمذی، 2266.)
ترجمہ: جب تمہارے امیر (لیڈر)تم میں سے بہترین لوگ ہوں، اور تمہارے مالدار سخی ہوں، اور تمہارے باہمی معاملات مشورے سے طے ہوں، تو زمین کی پشت تمہارے لیے اس کے پیٹ سے بہتر ہے۔ اور جب تمہارے امیر تم میں کے بدترین لوگ ہوں، تمہارے مالدار بخیل ہوں، اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں، تو زمین کا پیٹ تمہارے لیے بہتر ہے اس کی پشت کے مقابلہ میں۔
اسی طرح سے ایک اور بہت بنیادی حدیث کا مطالعہ فرمائیں:
لَنْ یُفْلِحَ قَوْم وَلَّوْا أَمْرَہُمُ امرأة. (صحیح البخاری، 4163) جب رسول اللہ ۖ کو خبر ملی کہ ایران والوں نے کسری کی بیٹی کو اپنا بادشاہ بنایا ہے، تو فرمایا: وہ قوم کامیاب نہیں ہو سکتی، جس نے اپنا معاملہ کسی عورت کے سپرد کیا ہو۔ یعنی کسی عورت کو ملک کا سربراہ بنا یا ہو۔
جمہوری نظام میں سیاسی قوت حاصل کرنا
جن ممالک میں جمہوری نظام قائم اور مستحکم ہے، ایسے ممالک میں اپنی پوزیشن مضبوط اور موثر بنانیکے لیے، وہاں کے مسلم باشندوں کے لیے بے حد ضروری ہے کہ عملی سیاست میں سرگرم حصہ لیں، اسی طرح وہ اس ملک میں اپنی ذات اور اپنے دین ومذہب کا تحفظ کر سکتے ہیں، ایسے ممالک میں مسلمانوں کا سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا، انتہائی خطرناک اور تباہ کن ہوگا، سیاست سے دور رہ کر، نہ وہ اپنی جان ومال، تجارت ومعیشت اور امت کے نونہالوں کی حفاظت کر سکتے ہیں، نہ ہی اپنے دین، مذہبی تشخص، مذہبی آزادی، مساجد ومدارس اور دینی مراکز کی حفاظت کر سکتے ہیں، اس حوالے سے قرآن کریم کی درج ذیل آیت سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے:
وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ. (سورة الانفال: ٦٠).(ترجمہ: اور تیار رکھوں ان (مخالفین) کے لیے جو تم سے ہو سکے طاقت۔)
اس آیت میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ اپنے حریف اور مخالف کے مقابلہ کے لیے طاقت اور قوت جمع کر کے رکھیں؛ اور اس کے لیے لفظ ”قوة”کا استعمال کیا گیا ہے؛ لیکن اللہ تعالی نے اس قوت کی تفصیلات نہیں بتائی کہ کس طرح کی طاقت حاصل کرنی ہے؛ البتہ اس کی کچھ مثالیں بیان فرمائی ہیں۔
اور اللہ تعالی نے لفظ ”قوة” کی تفصیلات اس لیے بیان نہیں فرمائی کہ قوت اور طاقت کی شکلیں اور قسمیں زمانے، حالات اور جگہ کے بدلنے سے مختلف ہو سکتی
ہیں؛ لہذا اہل بصیرت کی رائے پر اس کو چھوڑ دیا گیا کہ وہ حالات اور تقاضے کے اعتبار سے جس طرح کی قوت اور طاقت کے حصول کو مناسب سمجھیں، اس کے مطابق اقدامات اور کوششیں کریں۔
آیت میں مذکور لفظ قوت ایک جامع لفظ ہے، جس میں وہ تمام طاقتیں شامل ہیں، جو نتائج اور فیصلوں پر اثرانداز ہو سکیں، یہ طاقت فوج کی بھی ہوسکتی ہے، افرادی قوت اور تعداد کی بھی اور علم و دانش کی بھی، جو ممالک جمہوری طرزِ حکومت کے حامل ہیں، ان کے یہاں ووٹ بھی ایک بڑی طاقت ہے، ووٹ کے ذریعہ تخت ِ اقتدار پر بیٹھا جا سکتا ہے اور ووٹ کے ذریعہ ہی کسی کو حکومت کے عرش سے فرش پر لایا جا سکتا ہے۔
جمہوریت میں سیاسی قوت حاصل کرنے کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہیں: (١) کوئی سیاسی پارٹی تشکیل دی جائے۔ (٢) اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کیا جائے۔ ان دونوں صورتوں سے قوت اور طاقت حاصل کرنا بھی آیت شریفہ میں مذکور لفظ ”قُوَّة ”کی ایک صورت اور ”وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم ” پر عمل کی ایک شکل ہے۔
لہذا جمہوری ملک میں رہنے والوں مسلمانوں کے لیے اپنے ووٹ کا استعمال کرنا نہایت ضروری ہے، اسی طرح وہ اپنی سیاسی حیثیت ملک میں مستحکم کر سکتے ہیں؛ البتہ اس سے زیادہ یہ ضروری ہے کہ ووٹ کا صحیح استعمال کیا جائے، ایسے امیدوار کو ووٹ دیا جائے، جو قوم و ملت کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہو، جس کا کیریر اور کردار بے داغ ہو، جو مخلص اور بے لوث ہو، امانت داری، صداقت اور صلاحیت کے ساتھ متصف ہو، جس کے کامیاب ہونے کے زیادہ امکانات ہوں، تاکہ ووٹ ضائع نہ جائے۔
محض اس بنیاد پر کسی کو ووٹ دینا کہ وہ ہمارا متعلق ہے، اس نے ہمارا کوئی کام کرا دیا تھا، وہ ہمارے محلہ کا ہے، یا ہمارے خاندان کا ہے، حالاں کہ معلوم ہے کہ وہ کرپٹ انسان ہے، یا تو وہ جیتے گا نہیں، یا کامیاب بھی ہو گیا، بجائے قوم وملت کی خدمت کے، وہ صرف اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لیے کام کرے گا، اس طرح کے امیدواروں کو ووٹ کرنا، ملک کے ساتھ بھی خیانت ہے، قوم وملت کے ساتھ بھی خیانت ہے؛ بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ بھی خیانت ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ۖ کا ارشاد عالی ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رضی اللہ عنہما قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم: مَنِ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنْ عِصَابَةٍ وَفِی تِلْکَ الْعِصَابَةِ مَنْ ہُوَ أَرْضَی لِلَّہِ مِنْہُ فَقَدْ خَانَ اللَّہَ وخانَ رَسُولَہُ وخانَ الْمُؤْمِنِینَ. ہَذَا حَدِیث صَحِیحُ الِْسْنَادِ وَلَمْ یُخَرِّجَاہُ ” (المستدرک علی الصحیحین: 7023)
ترجمہ: جس شخص نے کسی جماعت پر کسی شخص کو مقرر کیا (یعنی لیڈر بنایا)، حالانکہ اس جماعت میں اس سے زیادہ اللہ کو راضی کرنے والا دوسرا شخص موجود ہو، تو اس نے اللہ، رسول اور مومنین کے ساتھ خیانت کی۔
لہذا ہمارے لیے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنا نہایت ضروری ہے۔ ووٹ کے صحیح استعمال میں یہ بھی داخل ہے کہ ہم اپنے ووٹ کو بکھرنے اور منتشر ہونے سے بچائیں، سب متحد ہو کر کسی ایک ہی اچھے کنڈیڈیٹ کو ووٹ کریں؛ تاکہ ہمارا ووٹ ضائع نہ ہو اور وہ امیدوار کامیاب ہو سکے، اگر ایک ہی حلقہ سے ہمارے کئی لوگ امیدوار بن کر کھڑے ہوگئے اور ہماری قوم نے سمجھ داری کا مظاہرہ نہیں کیا، اور دونوں کو ہی کچھ کچھ ووٹ ملے، تو اس صورت میں دونوں ہی ناکام ہوں گے اور اس طرح ووٹوں کی ایک بڑی تعداد ضائع ہو جائے گی، جس کا خمیازہ کم از کم اگلے الیکشن تک ہمیں بھگتنا پڑے گا۔
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے