بقلم: مفتی امدادالحق بختیار
رئیس تحریر عربی مجلہ”الصحوة الاسلامیة” واستاذ حدیث وعربی ادب جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآبادـانڈیا
E-mail: ihbq1982@gmail.com – Mob: +91 9032528208
سوشل میڈیا بھی ایک کمیو نیٹی ہے، ایک آن لائن معاشرہ ہے، ایک برقی دنیا اور ورچول ورلڈ (Virtual World)ہے، جس طرح اس آف لائن دنیا میں ہماری ایک حقیقی پرسنالیٹی ہے، اسی طرح سوشل میڈیا پر ہماری ایک ورچول پرسنالیٹی (Virtual Personality) موجود ہے۔ تو جس طرح یہ دنیا ہمارے لیے آزمائش ہے، اسی طرح اس برقی دنیا میں بھی قدم قدم پر بہت سی آزمائشیں ہیں؛ بلکہ اس میں ہماری آف لائن دنیا کے مقابلہ میں آزمائشیں زیادہ ہیں۔ ہماری آف لائن دنیا میں جیسے بہت سے علاقے اور معاشرے اچھے ہوتے ہیں اور بہت سے معاشرے اور علاقے گندے ہوتے ہیں، اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی یہ تنوع (Diversity) پایا جاتا ہے، وہاں اچھے پیج (Pages)، اچھے گروپس (Groups)، اچھے دوست واحباب کا حلقہ (Circle Of Friends)بھی ہے، جن سے ہمیں بہت سی اچھی چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں، تو اسی طرح وہاں ایک بڑی دنیا ایسی بھی ہے، جہاں گندگی ہی گندگی، فحاشی، بے حیائی، بد نظری کے مواقع، دنیا اور آخرت کو تباہ وبرباد کرنے والے گروپس، پیچ اور افراد بھاری تعداد اور مقدار میں پائے جاتے ہیں؛ لہذا سوشل میڈیا پر وقت صرف کرنے والے حضرات کے لیے بہت محتاط رہنا اور قدم قدم پھونک کر رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ خطرہ ہے کہ کہیں شیطان کے شکار ہوکر گمراہیوں کی راہ پر نہ بھٹک جائیں۔ سوشل میڈیاکا مثبت (Positive) استعمال بھی ہوتا ہے؛ لیکن اس کی مقدار اور اس کا فائدہ ابھی بہت کم ہے۔ اور منفی (Negative) استعمال بھی ہوتا ہے، اور اسی کا ماحول ہے؛ چنانچہ ذیل میں ہم سوشل میڈیا کے کچھ منفی استعمالات کی نشاندہی (Point out)کرتے ہیں، اس دعا کے ساتھ اللہ تعالی ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔
فیک آئی ڈی بنانا
سوشل میڈیا کے بہت سے صارفین (Users) دوسرے کے نام اور دوسرے کی تصویر کے ساتھ اپنی آئی ڈی بناتے ہیں، بہت سے لڑکے، لڑکیوں کے نام اور تصویر سے آئی ڈی بناتے ہیں اور اس کا الٹا بھی ہوتا ہے، واضح طور پر جان لینا چاہیے کہ یہ دنیا کی نگاہ میں بھی فراڈ (Fraud)ہے اور اسلام نے بھی اس کو دھوکہ قرار دیا ہے اور دھوکہ اور فراڈ کی مذمت اور اس کی قباحت اس طرح بیان کی ہے کہ رسول اللہا کا ارشاد گرامی ہے: ”مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ من”.ترجمہ: جو دھوکہ دے، وہ مجھ سے نہیں ہے، یعنی اس کا مجھ سے تعلق نہیں ہے۔(صحیح مسلم، 102.) لہٰذا اس طرح کی دھوکہ دہی میں اپنے آپ کو ڈال کر، اپنا رشتہ رسول اللہ ۖ سے اور دینِ اسلام سے کاٹنا افسوس کا باعث ہوگا!
سوشل میڈیا پر دوستوں کا حلقہ
کیوں کہ سوشل میڈیا پر پاؤں پھسلنے، بھٹکنے اور بگڑنے کے امکانات (Chances)زیادہ پائے جاتے ہیں؛ اس لیے ہمیں وہاں اپنے دوستوں کا حلقہ (Circle Of Friends)اچھے لوگوں کو بنانا چاہے؛ اس لیے کہ ہمیں اچھوں کے ساتھ رہنے کا حکم ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَکُونُواْ مَعَ الصَّادِقِیْنَ).ترجمہ: اے ایمان والوں! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔ (التوبة: ١١٩) اس آیت میں اشارہ ہے کہ جب ہمارے احباب کا حلقہ اچھے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے، تو ہمارے اندر بھی اچھائیاں پیدا ہوتی ہیں، ہم تقوی کی صفت کے ساتھ متصف ہوتے ہیں؛ لہٰذا ہمیں اپنا فرینڈشپ سرکل اچھے لوگوں کا بنانا چاہیے۔ جب ہمارا فرینڈ شپ سرکل اچھے لوگوں کا ہوتا ہے تو اچھی اور مفید پوسٹ ہماری ٹائم لائن پر ظاہر(Appear) ہوتی ہیں اور جب غلط لوگوں کا سرکل ہوگا تو غلط پوسٹ ظاہر ہوں گی، جس کا ہمارے اخلاق، کردار، طرز ِزندگی، طرز ِگفتگو اور ہماری پوری زندگی پر اثر پڑتا ہے،بسا اوقات زندگی تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے اور آخرت برباد ہو جاتی ہے۔ اسی طرح کے دوستوں پر افسوس کرتے ہوئے کل قیامت کے دن انسان کہے گا، جس کی ترجمانی قرآن نے کی ہے: ( یَا وَیْْلَتَی لَیْْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیْلاً . لَقَدْ أَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ ِذْ جَاء نِیْ وَکَانَ الشَّیْْطَانُ لِلِْنسَانِ خَذُولاً).(الفرقان: ٢٨،٢٩) ترجمہ: ہائے میری ہلاکت! کاش فلانے کو اپنا دوست نہ بناتا، اس نے مجھے صحیح راستہ سے گمراہ کردیا؛ جب کہ صحیح راستہ میرے پاس آ چکا تھا، اور شیطان، انسان کو رسوا کرنے والا ہے۔
لڑکے لڑکیوں کا آپس میں دوستی کرنا
سوشل میڈیا پر بہت سے لڑکے، لڑکیوں کے ساتھ دوستی قائم کرتے ہیں اور لڑکیاں بھی لڑکوں کے ساتھ دوستی قائم کرتی ہیں؛ جب کہ ایک غیر محرم کا (چاہے وہ مرد ہو یا عورت)دوسرے غیر محرم کے ساتھ دوستی کرنا، میسیج کا تبادلہ کرنا، بات چیت کرنا، ایک دوسرے کو دیکھ کر لطف اندوز ہونا، مزے لینا، سب ناجائز اور گناہ کا عمل ہے، لڑکوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے، جو لڑکیوں کو فرینڈ شپ رکویسٹ (Request)بھیجتے ہیں، لڑکیوں کی پوسٹ، پیج اور گروپ کو لائک (Like)اور فالو (Follow)کرتے ہیں، جب کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے لڑکے اور لڑکی دونوں کو اپنی نگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے: ( قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ ِنَّ اللَّہَ خَبِیْر بِمَا یَصْنَعُونَ . وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ ) (سورة النور:٣٠،٣١) (ترجمہ: آپ کہہ دیجیے مومن مردوں سے کہ وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور حفاظت کریں اپنی شرم گاہوں کی، یہ عمل ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے، یقیناً اللہ کو سب خبر ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ اور آپ کہہ دیجیے مومنہ عورتوں سے کہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور حفاظت کریں اپنی شرم گاہوں کی اور ظاہر نہ کریں اپنی خوبصورتی۔
سوشل میڈیا پر وقت صرف کرنے والے لڑکے، لڑکیوں اور مرد و خواتین کو یہ دونوں آیتیں توجہ سے پڑھنی چاہیے، ان کے معانی پر غور کرنا چاہیے اور تھوڑی دیر رک کر اپنی حرکتوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ اسی طرح رسول اللہ ا کا ارشاد گرامی ہے: ”مَا تَرَکْتُ بَعْدِی فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَائِ”.(بخاری شریف، باب ما یتقی من شؤم المرأة، نمبر :٤٨٠٨) میں نے نہیں چھوڑا اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ۔ یعنی مردوں کے لیے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا فتنہ ہے۔
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہا کا فرمان ہے: ”وَالنِّسَائُ حَبَائِلُ الشَّیْطَانِ”. عورتیں شیطان کا پھندہ ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، نمبر:٣٤٥٥٢) اس حدیث کو سمجھنا ہو تو سوشل میڈیا پر دیکھ لیں کہ لڑکیوں کی پوسٹ پر کتنے زیادہ لائیک، کمنٹ اور شیئر رہتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح لڑکے شیطان کے اس پھندے کے شکار ہو رہے ہیں۔
سوشل میڈیا – ارتداد کا دروازہ
مسلمان بچے، بچیوں اور خواتین کی ایک تعداد ایسی بھی ہے، جو سوشل میڈیا پر غیر مسلم افراد سے دوستی قائم کرتے ہیں، پھر یہ دوستی آہستہ آہستہ اپنی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے اور آن لائن سے آف لائن دنیا میں داخل ہو جاتی ہے، آپس میں جسمانی تعلقات قائم کرنے، ایک ساتھ رہنے اور شادی تک نوبت پہنچ جاتی ہے، ایک دوسرے کا نہ دین وایمان دیکھا جاتاہے اور نہ مذہب وملت سے واسطہ ہوتا ہے، آنکھوں نے اس کے بہت سے واقعات دیکھے ہیں اور کانوں نے اس طرح کی بہت سی خبریں سنی ہیں؛ کتنی ہی بچیاں سوشل میڈیا کے راستہ ہی ارتداد کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں، کتنے گھر اس نے اجاڑدیے ہیں، کتنی شادی شدہ زندگی اس نے تباہ کر دی ہے؛ لہٰذا اپنے ماتحتوں پر کڑی نگرانی رکھنا بہت ضروری ہے؛ ورنہ اس وقت ندامت کے آنسوں بہانے پڑیں گے، جب معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔
سوشل میڈیا ـ بد نگاہی کا سیلاب
سوشل میڈیا پر بدنگاہی کے مواقع جتنی آسانی اور جتنی مقدار میں میسر ہیں، کہیں اور نہیں ہیں، غیر محرم مرد اور عورتوں کی ویڈیوز، فحش اور شہوانی تصاویر اور ویڈیوز، لڑکیوں کے ڈانس، گانے، عشق ومحبت کی بے حیا داستان کی شورٹ فلمیں، ریلز (Reals) کا سوشل میڈیا پر سیلاب ہے، بند کمرے میں بیٹھ کر یہ سمجھ کر مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے، انسان دنیا بھر کی قسم قسم اور رنگ برنگ کی گندی تصاویر، ویڈیوز اور ریلز سے اپنی آنکھوں کی شہوت پوری کرتا ہے؛ حالانکہ اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا اللہ اس کو دیکھ رہا ہے، فرشتے اس کی ہر نقل وحرکت کو ریکارڈ کر رہے ہیں، خود اس کا جسم اس کی تمام سرگرمیوں کو محفوظ کر رہا ہے، کل قیامت کے دن اس کی زبان، اس کی کھال، اس کے ہاتھ پیر اس کے خلاف ہی اللہ کے سامنے گواہی دیں گے، جب وہ حیرت زدہ رہ جائے گا۔
(وَلَقَدْ خَلَقْنَا الِْنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ ِلَیْْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْد)ترجمہ: اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات آتے ہیں، ان سے ہم خوب واقف ہیں اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں، اس وقت بھی جب (اعمال کو)لکھنے والے دو فرشتے لکھ رہے ہوتے ہیں، ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب بیٹھا ہوتا ہے۔(سورة ق: ١٦،١٧) لہٰذا یہ ہماری بھول ہے کہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا ہے، جتنی چاہے، فحش تصاویر، ویڈیوز، ریلز اور ویب سائٹ دیکھ لو، اللہ تعالی کی نگاہ سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ انسان ہر وقت اللہ کی سی. سی. ٹی. وی نگرانی میں ہے، جب ہماری تمام معلومات، ہماری پسند، نا پسند وغیرہ ہر چیز سوشل میڈیا کو معلوم ہے، تو آپ اندازہ کریں کہ اللہ تعالی کو ہماری کتنی معلومات ہوگی۔ گوگل ہر مہینہ کے لاسٹ میں ہماری ایک رپورٹ دیتا ہے کہ ہم نے پورا مہینہ کہاں اور کیسے گزارا ہے، یعنی ہمارا نامہ اعمال یہیں تیار ہو رہا ہے، تو اللہ کا فرشتہ جو نامہ اعمال تیار کر رہا ہے، اس کے بارے میں بھی ہمیں سوچنا چاہیے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ بنانا
سوشل میڈیا پر ہم تحریر (Text) میں، یا تصویر اور ویڈیو میں کوئی پوسٹ بناتے(Create) ہیں، تو ہمیں اس کا پورا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ایک مفید پوسٹ ہو، اگر ہم غلط پوسٹ بناتے ہیں، کوئی فحش تصویر یا ویڈیو اپلوڈ (Upload)کرتے ہیں، تو اس غلط پوسٹ بنانے کا بھی ہمیں گناہ ہوگا اور جتنے لوگ اس پوسٹ کو پڑھیں گے، یا دیکھیں گے، ان کا گناہ بھی ہمیں ہوگا، جس کی تعداد لاکھوں اور کبھی کروڑوں میں بھی ہو سکتی ہے؛ کیوں کہ جب ہم کوئی پوسٹ سوشل میڈیا پر بناتے ہیں، تو کتنے لوگ اسے شیئر (Share)اور فارورڈ (Forward)کرتے ہیں، ہمیں نہ اس کا اندازہ ہوتا ہے اور نہ یہ چیز ہمارے کنٹرول میں ہوتی ہے، وہ پوسٹ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے؛ بسا اوقات اگر اس پوسٹ، تصویر یا ویڈیو کو ہم اپنے پیج سے ڈلیٹ کر دیں، تب بھی وہ دوسروں کے پاس سے ڈلیٹ (Delete)نہیں ہوتی اور سوشل میڈیا سے غائب نہیں ہوتی؛ بلکہ ہزاروں لوگوں کے گناہ کا سبب بنتی ہے؛ کیوں کہ بہت سے لوگوں نے اسے ڈاؤن لوڈ (Download)کرلیا ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں کوئی بھی پوسٹ بنانے سے پہلے اس پر بہت غور کرلینا چاہیے۔
سوشل میڈیا ـریاکاری کی دنیا
آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے دکھاوا اور ریاکاری (Showing off)نے بھی وبائی شکل اختیار کر لی ہے، جو بھی کوئی اچھا کام کرتا ہے، سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر اور اظہار ضرور کرتا ہے، یہ کہاوت مشہور ہو رہی ہے: ”نیکی کر فیس بک پر ڈال”۔ نماز پڑھ رہے ہیں تو تصویر سوشل میڈیا پر ڈالی جا رہی ہے، عمرہ کر رہے ہیں، تو سوشل میڈیا پر اظہار ہو رہا ہے، حج کر رہے ہیں تو، کسی کو کھانا کھلا رہے ہیں تو، کسی کی مدد کر رہے ہیں تو، الغرض آف لائن دنیا میں بھی انسان اتنا دکھاوا نہیں کرتا، جتنا سوشل میڈیا پر آسانی سے اس کا رواج عام ہو گیا ہے، جب کہ ریاکاری سے ہماری نیکی اور عبادت کی روح ختم ہو جاتی ہے، نہ صرف یہ کہ اس نیکی اور عبادت کا ہمیں کوئی ثواب نہیں ملتا؛ بلکہ دکھاوے کی وجہ سے الٹے ہم گنہ گار ہوتے ہیں، ریاکاری کو احادیث میں ”شرک خفی” کہا گیا ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو اس شرک سے محفوظ فرمائے۔
برائی ـنہ رہا احساسِ برائی
سوشل میڈیا پر اتنی کثرت اور اس انداز سے برائی اور غلط حرکتیں ہو رہی ہیں کہ آہستہ آہستہ برائی کی قباحت بھی ہمارے دلوں سے ختم ہو رہی ہے، ہم آف لائن دنیا میں کسی نا محرم کو دیکھنے کو غلط سمجھتے ہیں؛ لیکن سوشل میڈیا پر بلا جھجک بدنگاہی کرتے ہیں، غلط چیزیں دیکھتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے بہت تشویش کا مقام ہے، جب برائی کی قباحت ختم ہو جاتی ہے، تو اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان اس سے پرہیز نہیں کرتا؛ بلکہ اس میں زیادہ سے زیادہ مبتلا ہو جاتا ہے، جس سے اس کے گناہ بے شمار ہو جاتے ہیں، دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان گناہوں سے توبہ کی توفیق نہیں ملتی؛ کیوں کہ جب ہمارے دل سے اس گناہ کے گناہ ہونے کا احساس ہی ختم ہوگیا تو پھر اس سے توبہ کا احساس کیسے پیدا ہوگا!لہذا یہ بہت بڑی انسانی تباہی ہے۔
سوشل میڈیا سوشل صلاحیتوں کا قاتل
آج کا انسان چوں کہ سوشل میڈیا پر وقت زیادہ گزار رہا ہے، جس کا اس کے اخلاق وکردار پر بہت بُرا اثر پڑ رہا ہے، لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، ان کے ساتھ وقت گزارنے اور ان کے ساتھ معاملہ کرنے کی صلاحیت اس میں پیدا نہیں ہو رہی ہیں؛ جس کی وجہ سے اس میں چڑ چڑا پن، بد اخلاقی، ہر کام میں جلد بازی، گفتگو اور جواب میں بے ادبی جیسی غیر اخلاقی صفات پروان چڑ رہی ہیں، سوشل میڈیا سے انسان کی سوشل صلاحیتیں (Skills)فنا ہو رہی ہیں۔سماجی رابطہ کی صلاحیت بھی کم ہورہی ہے؛ کیوں کہ ہوشمن ٹو ہوکمن ٹچ (Human to Human Touch)بالکل ختم ہو کر رہ گیا ہے، اس کے نتیجہ میں جلد بازی کی کیفیت ، عدم احترام، طلاق (Divorce)کی کثرت ہو رہی ہے، ہماری اخلاقی اقدار، ویو ہز(Values)، اور مورلز (Morals)سب پر غلط اثر پڑ رہا ہے؛ لہٰذا ضرورت ہے کہ اس کو کم سے کم استعمال کریں۔
سوشل میڈیا ایک ٹائم کلر ٹول(Time Killer Tool)
یومیہ چوبیس گھنٹے کی ایک بڑی مقدار انسان سوشل میڈیا کی نذر کر دیتا ہے، دیر رات تک جاگ کر سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنا، حتی کہ تعلیم کے اوقات میں بھی اس کا استعمال کرنا، ہر تھوڑی دیر کے بعد اپنے انسٹا گرام، فیس بک، ایکس، وہاٹس ایپ وغیرہ کو چیک کرتے رہنا، یہ آج کے انسان کی عام عادت ہوگئی ہے، سوشل میڈیا کے اس کینسر نے تعلییب ڈھانچہ کو کھوکلا کر کے رکھ دیا ہے، صلاحیتوں کے جنازے نکال دیے ہیں،سوشل میڈیا کی زنجیر میں ہم اس طرح جکڑ گئے ہیں کہ ہمارے پاس سوچنے اور غور کرنے کے لیے وقت نہیں ہے، ہمارے پاس کسی سے ملنے کے لیے وقت نہیں ہے، ہمارے پاس کوئی اچھا کام کرنے کے لیے وقت نہیں ہے، نماز کے لیے وقت نہیں، قرآن کے لیے وقت نہیں، اللہ کے ذکر کے لیے وقت نہیں، آج ہر انسان کہتا ہے کہ وقت بہت کم ہے، بہت مشغولیت ہے، حالاں کہ وہ اپنے اوقات کا ایک بڑا حصہ سوشل میڈیا پر ضائع کرتا ہے، اس کی وجہ سے پتہ بھی نہیں چلتا اور دن، مہینے اور سال لمحوں میں گزر جاتے ہیں، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا بھی قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے، رسول اللہ ۖ کا ارشاد ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم: ”لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی یَتَقَارَبَ الزَّمَانُ، فَتَکُونَ السَّنَةُ کَالشَّہْرِ، وَیَکُونَ الشَّہْرُ کَالْجُمُعَةِ، وَتَکُونَ الْجُمُعَةُ کَالْیَوْمِ، وَیَکُونَ الْیَوْمُ کَالسَّاعَةِ، وَتَکُونَ السَّاعَةُ کَاحْتِرَاقِ السَّعَفَةِ ”.
ترجمہ: قیامت قائم نہیں ہوگی؛ یہاں تک زمانہ قریب ہو جائے گا، لہذا سال، مہینہ کی طرح، مہینہ، ہفتہ کی طرح، ہفتہ، دن کی طرح، دن، ایک گھڑی کی طرح اور ایک گھڑی، سوکھے پتے کے جلنے کی طرح گزرے گی۔ (مسند أحمد، 10943.) آج کل ہمارے اوقات کی صورت حال بھی اسی طرح ہے۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ رمضان المبارک جیسے مقدس مہینہ کے اوقات کا بھی ایک بڑا حصہ سوشل میڈیا کی نذر ہوجاتا ہے، روزہ کاٹنے اور رمضان کی راتوں کو جاگ کر گزارنے کا سوشل میڈیا ایک اچھا بہانا بن جاتا ہے، ایسے لوگ اللہ کی رحمتوں اور برکتوں سے کس قدر محروم ہیں!
سوشل میڈیا اور تنقید(Criticize)کی گرم بازاری
ایک بد اخلاقی یہ عام ہو رہی ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی عزتوں سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے، کسی کا کوئی جملہ نقل کر کے، اس کو عوامی عدالت میں مجرم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، فیس بکی مفکرین اور نام نہاد مصلحین(SoـCalled Reformers) کی ایک بڑی جماعت اس احمقانہ حرکت میں مبتلا ہے؛ حتی کہ سنی سنائی باتوں کی بنیاد (Base) پر بھی دوسروں کو بدنام کرنے کا رواج عام ہو رہا ہے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، بدنام کرنا، کسی کی تصویر کو توڑ مروڑ کر اپلوڈ کرنا، بہتان لگانا، دوسرے کی طرف غلط بات منسوب کرنا، الغرض دوسرے کی عزتوں کی پرواہ نہیں کی جارہی ہے، ان کی دھجیاں اڑا ئی جار ہی ہیں، ان کی امیج (Image)خراب کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، جب کہ اس حوالہ سے رسول اللہ ۖ کے ارشادات بہت سخت ہیں:
عن أبی ہریرة؛ قَالَ: قَالَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”کفی بِالْمَرْئِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ”.ترجمہ: انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے نقل کر دے۔(صحیح مسلم، 5)
اسی طرح نبی مصطفی ۖ کا فرمان ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: ”مَنْ سَتَرَ عَوْرَةَ أَخِیہِ الْمُسْلِمِ، سَتَرَ اللَّہُ عَوْرَتَہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَمَنْ کَشَفَ عَوْرَةَ أَخِیہِ الْمُسْلِمِ، کَشَفَ اللَّہُ عَوْرَتَہُ، حَتَّی یَفْضَحَہُ بِہَا فِی بَیْتِہِ”. ترجمہ: جس نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپایا، قیامت کے دن اللہ تعالی اس کے عیب کو مخفی رکھے گا، اور جس نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو ظاہر کیا، اللہ تعالی اس کے عیب کو ظاہر کر دے گا؛ حتی کہ اس کو اس کے گھر میں رسوا کر دے گا۔(سنن ابن ماجہ، باب الستر علی المومن… نمبر ٢٥٤٦)
ہم بعض اوقات جب کسی کی بھی پوسٹ پر کمنٹ(Comment) کرتے ہیں، تو اس کا خیال نہیں رکھتے کہ کس طرح کے الفاظ استعمال کریں، ہم نصیحت کرنے لگتے ہیں، اس کی ذات پر حملے کرنے شروع کر دیتے ہیں، اس کی برائی بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس کو بدنام اور رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ رسول اللہ ۖ کا ارشاد عالی ہے: عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ، عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: ”ِنَّ مِنْ أَرْبَی الرِّبَا الِاسْتِطَالَةَ فِی عِرْضِ الْمُسْلِمِ بِغَیْرِ حَقٍّ.ترجمہ: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بدترین سود یہ ہے کہ کسی مسلمان بھائی کی عزت میں ناحق دست درازی کرے۔(سنن ابی داؤد، باب فی الغیبة، نمبر ٤٨٧٦)
اسی طرح شب معراج کے موقع کی ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ۖ اس طرح کے لوگوں کے عذاب کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم: ”لَمَّا عُرِجَ بِی مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَہُمْ أَظْفَار مِنْ نُحَاسٍ یَخْمُشُونَ وُجُوہَہُمْ وَصُدُورَہُمْ، فَقُلْتُ: مَنْ ہَؤُلَائِ یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ: ہَؤُلَائِ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ، وَیَقَعُونَ فِی أَعْرَاضِہِمْ”.ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب اللہ تعالی نے مجھے معراج کرائی تو کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے میرا گزر ہوا کہ جن کے ناخن تانبے کے تھے، جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے،میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟تو انہوں نے کہا: یہ وہ لوگ ہیں، جو لوگوں کا گوشت کھاتے اور ان کی آبروریزی کرتے ہیں۔
آخری گزارش
سوشل میڈیا کے فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا؛ کیوں کہ اس وقت دین وایمان کی دعوت وتبلیغ کا بھی بڑا کام اس سے لیا جا رہا ہے؛ بہت سی مستند، مفید اور معلوماتی سائٹس دین کی بہترین خدمات انجام دے رہی ہیں، بہت سے چینل دعوت وتبلیغ کا فریضہ جدید انداز اور زبان میں ادا کر رہے ہیں، بہت سی معتبر شخصیات کے گروپس اور پیچیز سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ استفادہ کر رہے ہیں؛ لیکن اس کے باوجود یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے نقصانات کے مقابلہ میں، اس کا فائدہ پانچ فیصد بھی نہیں ہے؛ لہذا ہمیں حتی الامکان سوشل میڈیا سے پورے طور پر احتراز (Avoid)کرنا چاہیے، یا کم سے کم وقت وہاں گزارنا چاہیے اور جتنا بھی وقت وہاں گزاریں، اس کا صرف اور صرف مثبت استعمال کریں، سوشل میڈیا انسانیت کے لیے ایک خطرناک آزمائشی، دجالی اور شیطانی دنیا ہے؛ لہٰذا وہاں بہت محتاط رہنا نہایت ضروری ہے۔
mvm