ڈاکٹر عبدالملك رسول پوری
ذاكر حسین دہلی كالج،دہلی یونیورسٹی
malikqasmi@gmail.com
قرآنی آیت ” وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون“ كی روشنی میں دیكھیں تو صفحہ ہستی پر انسانوں كی بعثت كا مقصود اصلی باری تعالی كی عبادت ہی ہے ؛ البتہ ان انس وجن كے مابین انبیاء ورسل كی بعثت كی غرض وغایت خدا تعالی كی طرف سے اپنے بندوں پر اتمام حجت اور ان كو اپنےہی جیسے دیگر انسانوں كی غلامی و عبودیت سے نكال اور علم وحكمت كی باتیں سكھاكرایك مہذب بااخلاق شہری بنانا اور ان كے مابین قانون وعدالت كے ذریعہ انصاف قائم كرنا بتایا گیا ہے ، ان تمام نكات كا تذكرہ خود قرآن پاك میں متعدد آیات میں موجود ہے۔
دوسری طرف جب دنیااپنے آخری دور میں پہنچنے والی تھی تو آخری رسول كو بھی اسی مذكورہ بالا غرض وغایت كے لیے مبعوث كیا گیا، انھوں نے سابقہ انبیاء ورسل كی طرح ایك بار پھر مخلوق كو اللہ رب العزتے كے بتائے ہوئے راستے پر گامزن كیا اور مطمئن ہوكر بارگاہ قدسی میں حاضری كو ترجیح دی۔ مابعد كے لیے نصیحت كی كہ اب كوئی دوسرا نبی نہیں آنے والا ہے، اب بس قیامت آئے گی؛ البتہ میرے اور قیامت كے مابین مختصردورانیے میں میری امت كے علما ء سابقہ انبیاء كی طرح اصلاحی كام كرتے رہیں گے،یہی میرے وارث ہوں گے اور یہی وراثت میں حاصل شدہ اصلاحی تحریك كو زندہ و پائندہ ركھیں گے۔
آج كے دور میں كتاب وسنت سے واقف ان علماء كو مدرسوں كی ٹكسال میں ڈھالا جاتا ہے، وہیں ان كی تربیت كی جاتی ہے كہ یہ نبیوں كے وارث بن كر ان كی تعلیمات كو مخلوق كے مابین فروغ دیتے رہیں اور بعثت رسل كے اہداف و مقاصد كو حاصل كر نے لیے ہمیشہ ہمہ تن كوشاں وسرگرداں رہیں۔
مدارس اور علماء كی اس ذمہ دارانہ تمہید كے بعدآیئے ہندوستان میں موجود مسلمانوں كی دینی مشكلات كا جائزہ لیتے ہیں۔ جیسا كہ ہم نے گذشتہ مضمون میں اشارہ كیاتھا كہ اس اكیسویں صدی اور دیوبند وندوہ جیسے مدارس كے قیام كو ڈیڑھ سوسال گزرنے كے بعد بھی، ملكی جغرافیے كے دور درزا علاقوں میں ابھی بھی ایسے گاؤوں اور چھوٹے پوروے ہیں ،جہاں نہ تو كوئی نائب رسول پہنچا ہے اور نہ ہی كوئی علم كی شمع روشن كی گئی ہے، جس كی وجہ سے وہاں بسے ہوئے مسلمانوں كے یہاں ابھی بھی ”سب سے بڑا اللہ میاں اور ان كے بعد گأندھی جی“ جیسے عقیدےپائے جاتے ہیں۔ ان كے خانگی امور ،معاشرتی تہذیب اور رسم ورواج میں اسلامی تہذیب وثقافت كا دور كا بھی شائبہ نہیں نظر آتا ہے۔ اب كیا ہم ان غیر تعلیم یافتہ مزدور مسلمانوں كو خارش زدہ اونٹ كی مانند بے آب وگیاہ صحرا میں قرآنی آیت” ایحسب الانسان ان یترك سدی “كے مصداق بے توجہ پڑا رہنے دیں گے یا ان پر” قد من اللہ علیہم اذ بعث فیہم رسولا“ كی طرح ”العلماء ورثۃ الانبیاء“ یا ”علماء امتی كانبیاء بنی اسرائیل“ والی موروثہ مہم اور تحریك كے ضمن میں ان غیر معروف مزدور مسلمانوں كے مابین بھی كوئی نائب اور نمائندہ بھیج كر لطف وكرم اور احسان كریں گے؟ اور اگر اسلامی مدرسے شعار اسلامی كے تحفظ كے لیے قلعے یا اسلامی تعلیم كو فروغ دینے كے لیے منارہ علم ہیں تو كیا ہم یہ قلعے اور منارے ان دور دراز كے علاقوں میں جہاں مسلمان سماجی طور پر كم ترین درجے كی اقلیت ہیں، بھی تعمیر اور قائم كریں گے؟
اس مشكل كو حل كرنے كےلیے ہماری متوقع نظریں صر ف دو اداروں كی طرف اٹھتی ہیں، گرچہ ملك میں مختلف مكاتب فكر كے بڑے ادارے اور بھی ہیں وہ بھی اپنی وسعت و طاقت كے حساب سے درج ذیل تجویزوں كو عملی جامہ پہنا سكتے ہیں ؛ لیكن چوں كہ یہ دونوں ہمارے اپنے ادارے ہیں ہماری نسبت انھیں دو اداروں سے زیادہ مربوط ہے اس لیے ہم بھی انھیں سے امیدیں باندھیں گے اور انھیں سے گزارش كریں گے كہ یا تو خود كوئی حل وضع كریں یا اپنے چھوٹوں كے ذہن میں وارد ہوئے خیالوں كو عملی جامہ پہناكر پیغام الہی كے فروغ میں العلماءورثۃ الانبیاء والا اپنا كردار اداكریں۔ ان دونوں اداروں میں پہلا ادارہ تو دیوبند كا دارالعلوم ہے ،ہندوستان كے طول وطویل جغرافیے میں یہی وہ ادارہ جس كو مسلمانوں كے مابین زیادہ رجوع اورزیادہ مركزیت حاصل ہے اور یہی وہ ٹكسال ہے جہاں نبوی مشن اورتحریك كے لیے ان كے نائبین كی تربیت كی جاتی ہے۔
اس مشكل كے لیے خاكسار كے ذہن میں جو تدبیریں اور پالیسیاں جنم لے رہی ہیں وہ یہ ہیں كہ ہم درج ذیل دو نكتوں پر كام كریں، اولا جس طرح رسولوں كی موجودگی میں دیگر علاقوں اور قبائل میں انبیاء كی بعثت كا سلسلہ جاری وساری تھا ، جس طرح حضرت موسی علیہ السلام كی معیت میں حضرت ہارون اور جس طرح حضرت ابراہیم كی سرپرستی میں حضرت لوط علیہم السلام نے پیغام الہی كی پیمبری كی تھی بالكل اسی طرح ہم بھی بڑے علماء كی سرپرستی میں چھوٹے نائبین انبیاء كی بعثت كا سلسلہ شروع كریں اورمدارس سے فضیلت كی شہادت حاصل كرنے والے ان جدید فاضلین كو دوردراز كے علاقوں میں اپنا نمائندہ اور مبعوث بناكر بھیجیں، جہاں یہ بڑے علماء كے بتائے ہوئے طریقوں كے مطابق دینی و اصلاحی كام كو فروغ دیں اور نبوی مشن كاحصہ بن كر الہی پیغام كی پیمبری میں نیابت نبی والا اپنا كردار اداكریں۔
اس كے لیے ہمیں اس بعثت اور نمائندگی سے قبل اپنے ادارے میں ” تدریب الائمہ والمعلمین“ نام كے ایك شعبے كا اضافہ كرنا ہوگا، جس كے لیے ایك یك سالہ تربیتی نصاب ترتیب دیا جائے، جس میں دعوتی اسلوب،سماجی علوم، نفسیاتی رحجانات اور جغرافیائی معلومات ،ساتھ ہی مطلوبہ حفظ وتجوید اور منبر ومحراب كی خطابت جیسے موضوعات كی تعلیم كے ساتھ علاقائی زبانوں كے بارے میں بھی معلومات فراہم كی جائیں۔ اس شعبے كے لیے نئے فارغ ہونے والے علماےكرام میں سے اساتذہ كی نشاندہی اور علما كے ذاتی شوق وترجیحات كی بنیاد پر پچاس یا سو ایسے افراد كا انتخاب كریں جو ان علاقوں میں بحیثیت مبعوث كام كرنے كے لیے مستعد اور مطمئن ہوں۔بعد ازاں ہم علاقائی مدارس اور تبلیغی جماعت كے تحصیل اور تعلقہ والے ذمہ داروں كے ذریعہ ایسے گاؤوں ، پورووں اور من جملہ علاقوں كا سروے كرائیں اور ان سے حاصل شدہ تفصیلات كی روشنی میں ہر سال كچھ علاقوں كا انتخاب كریں اور ان ائمہ ومعلمین كو وہاں مبعوث بناكر بھیجیں۔
یہ مبعوث ائمہ ومعلمین بلاواسطہ دارالعلوم كے با مشاہرہ ملازم ہوں ، ان كے مشاہرے كی مقدار جائے عمل كی متوسط زندگی نہیں؛ بلكہ دارالعلوم كے نظام كے مطابق ہی ، بس اس كو دو حصوں میں تقسیم كر كے پچھتر فی صد مشاہرہ دارالعلوم كے فنڈ سے اور پچیس فی صد علاقے سے وصول كیا جائے۔ اس كی وجہ یہ سمجھی جائے كہ ان پس ماندہ گاؤوں میں كام كر نے كےلیےكوئی لاكھ اخروی ثواب اور اجر جزیل كے وعدے كرے، اس حسی اور شعوری دنیا میں كوئی بھی وہاں كام كرنے كے لیے تیار نہیں ہوگا ؛كیوں كہ خالق انسان نے اپنی انسانی مخلوق كے اندر ترقی اورعروج كا عنصر ودیعت كیا ہے اور گاؤوں كی زندگی میں نہ تو روحانی عروج ہوگا اور نہ ہی مالی؛ كیوں كہ شہر كے ماحول میں خارجی اوقات میں دیگر اعمال كے ذریعہ مزید پیسے كمانے كے مواقع گاوؤں كی بہ نسبت بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے مناسب ہوگا كہ ہم انھیں خانگی ضروریات كے تعلق سے بالكل فارغ كردیں اور پچیس فی صدر اہل قریہ سے بھی لیں تا كہ مفت كی ریوڑی سمجھ كر نہ وہ علم ودین كم حیثیت اور نہ اہل ان معلمین كو نادانستہ طور پر كم مرتبہ سمجھنے كی گستاخی كریں۔
جمعیۃ علماء ہند كے منصوبے كے تحت دارالعلوم دیوبند میں بھی شوری كی طرف سے كافی پہلے یہ تجویز پاس ہوچكی ہے كہ ادارہ اپنے مكمل بجٹ كا دس فی صد مبلغ قیام مكاتب اور تعلیم مكاتب پر خرچ كرے گا، تو سمجھیے كہ دارالعلوم دیوبند كا رواں سال میں سالانہ بجٹ 56 كروڑ ہے، جس كا دس فی صد پانچ كروڑ ساٹھ لاكھ ہوا، اب اگر اس مبلغ كو ہم معلمین كو دیےجانے والےمجوزہ پندرہ ہزار روپیے میں تقسیم كریں تو تقریبا تین ہزار سات سو معلمین كو ملازمت دی جاسكتی ہے ۔ اور ہماری معلومات كے مطابق گزشتہ سال دارالعلوم كے جملہ مصارف كے بعد بجٹ میں اس مبلغ سے زیادہ رقم تحویل میں باقی رہ گئی تھی۔ اگر اس تجویز پر عمل كیا جائے تو نہ صرف اپنے اكابرین كی منظور شدہ تجویز پر عمل ہوگا؛ بلكہ قوم میں ایك انقلاب بھی برپا ہوجائے گا اور دارالعلوم كو ہندوستانی مسلمانوں كی سربراہی میں امتیاز اور خصوصی مقام بھی حاصل ہوجاے گا۔
ملك میں عربی چہارم تك ذیلی شاخوں كا قیام
دوسر ی سمت جب یہ طے ہے كہ علوم اسلامی كے یہ مدارس دین كی شمعیں اور الہی نور كے منارے ہیں اور اللہ ر ب العزت نے ہر قوم كے لیے ہادی ورہنما بھیجے ہیں تو ہندوستان میں بسنے والے ہرعلاقے میں ان رہنماؤں كی تعلیمات كو فروغ دینے كے لیے نئی نئی شمعیں اور نئے نئے منارے قایم كیے جانا چاہئے، یقینا بہت سے علاقے اس باب میں خوش نصیب اور سعادت مند ہیں كہ وہاں اہل علاقہ نے مدارس ومكاتب قایم كئے ہوے ہیں؛ البتہ ابھی بہت سے ایسے علاقے موجود ہیں جہاں دور دور تك كوئی مدرسہ نہیں نظر آتا ہے اگر ہے بھی تو وہ ہمارے مكتب فكر كا نہیں جب كہ وہاں مكتب فكر سے مربوط كچھ نہ كچھ آبادی ضرور ہے، ایسے میں دارالعلوم جوكہ ایك سربراہ ادارہ ہے كو چاہئے كہ ان علاقوں كا انتخاب كرے اور وہاں پرائمری، ناظرہ ،حفظ اور عربی چہارم تك كی تعلیم كے نئے مدرسے قائم كرے۔ مثلا لكھنؤ كا علاقہ یہاں چالیس پچاس كلو میٹر كے دائرے میں دیكھیے كہ دیوبندی مكتب فكر كا كون سا بڑا مدرسہ ہے، قصبہ بنكی میں یقینا مدرسہ دارالرشاد قائم ہے لیكن ذرا علاقے كی مسلم آبادی كا تناسب اور مدارس كی تعداد كا جائزہ لیجے تو صحیح تقاضے اور بھی مجلی ہو كر واضح ہوجائیں گے ۔ ایسے میں اگر بارہ بنكی كی مملوكہ اراضی میں درجہ چہارم تك كی ایك ذیلی شاخ قایم كردی جائے تو نہ صرف علاقے كی ضرورت پوری ہوكی بلكہ مشرق میں دارالعلوم كا اپنا وجود بھی مضبوط ہوجائے گا اور ن شاء اللہ اچھے نتائج بھی برآمد ہوں گے ۔ اسی طرح شاہ جہاں پور ،بریلی ،پیلی بھیت ان تینوں ضلعوں میں دیوبندی مكتب فكر كا ایك بھی مدرسہ نہیں نظر آتا ہے، جو ہیں وہ بہت چھوٹے اور شخصی ہیں، ان علاقوں میں بریلوی مكتب فكر كی سرگرمیاں زیادہ ہیں، اگر یہاں اس طرح كی ذیلی شاخیں قایم كی جائیں، تو فكر دیوبند سے مربوط ان علاقوں میں بسنے والے اہل اسلام كے لیے بہت مفید ہوں گی اور فكركے فروغ میں یہ شاخیں اچھا كردار ادا كریں گی۔ دہلی كےاوكھلا كی دسیوں لاكھ كی آبادی میں ایك بھی مدرسہ نہیں ہے۔ معلومات كے مطابق ابھی كچھ روز قبل دارالعلوم نے حضرت نظام الدین میں اپنا دفتر قائم كرنے كے لیے بڑی رقم سے كوئی فلیٹ یا پلاٹ خریدا ہے ۔ اگر درج تحریر تجویز كے مطابق كچھ اور رقم صرف كر كے ایك بڑی جگہ اوكھلا یا زید پور كے علاقے میں خریدی جاتی ا ور وہاں پرائمری سے چہارم عربی درجے تك كا مجوزہ مدرسہ قایم كیا جاتا ،تو شایدہ زیادہ بہتر اورزیادہ سود مند ہوتا ایك طرف دفتری مشكلیں بھی حل ہوتی اور دوسری طرف علاقے كے لوگوں كو تعلیمی فائدے بھی ہوتے۔
یہ دو چار جگہوں كے نام محض مثال كے طور ذكر كیے گئے ہیں اگر مسقل سروے كرایا جائے تو پورے ملك میں ایسے بہت سےعلاقے ملیں گے جہاں چالیس كیا اسّی كلومیٹر كے دائرے میں كوئی بڑا مدرسہ نہیں نظر آئے گا ، ان علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں كو بھی ایك علمی منارے اور ایك ہادی ورہنما كی ضرورت محسو س ہوتی ہوگی یہ لوك بھی قد من اللہ علیكم اذ بعث فیكم رسولا كی تلاوت كرتے ہوئے منتظر ہوں گے كہ كب نائبین انبیاء اس مہم كو پورا كر كے اہل علاقہ پر احسان عظیم كریں گے۔
یہ گزارشات ایك ادارے كے تعلق سے ہیں دوسرے ادارے كے بارے میں ان شاء اللہ آئندہ كسی مجلس میں۔ یار زندہ صحبت باقی.