حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقیؒ کے سانحۂ ارتحال پر من جانب مظاہرعلوم تعزیتی مکتوب

جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقیؒ کے سانحۂ ارتحال پر من جانب مظاہرعلوم تعزیتی مکتوب جو اساتذۂ مظاہرعلوم مولانا محمد معاویہ سعدی ،مولانا محمد خالد سعید اعظمی اور قاری احمد ہاشمی من جانب مدرسہ لکھنؤ حضرتؒ کے صاحبزادگان و پس مانگان کی خدمت میں من جانب مظاہرعلوم لے کر پہونچے اور تعزیت مسنونہ کے بعد دستی پیش کیا ۔عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی

مکرم و محترم مولانا عبدالباری فاروقی و برادران زید مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تقریباً ایک ماہ قبل سے آپ کے والد گرامی منزلت مخدوم محترم حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی کی علالت کی خبریں مل رہی تھیں اورمظاہرعلوم سہارنپور اور خاص طور سے مخدومنا حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نوراللہ مرقدہ سے حضرت والا کے عقیدتمندانہ و ارادتمندانہ تعلق کی بناء پر کئی مرتبہ دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ آپ سے رابطہ کرکے صورت حال معلوم کی جائے ،آپ سے تو رابطہ نہیں ہوا ،البتہ برادر عزیز مولانا مفتی ارتضاء الحسن رضی صاحب سے حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی خیریت معلوم کی،انہوں نے بتلایا کہ طبیعت میں پہلے سے افاقہ ہواہے ،اس سے اطمینان ہوگیا تھا ، لیکن بروز بدھ جب کہ احقر سفر میں تھا ، صبح بذریعہ واٹس ایپ یہ اندوہناک خبر ملی کہ آپ کے والد بزرگوار ،جانشین امام اہل سنت ،ترجمان دیوبندیت حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئے ،انا للہ و انا الیہ راجعون ،إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمّى، فلتصبر ولتحتسب
مولانا کی رحلت سے دل کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اُن کے چلے جانے سے علمی و ملّی دُنیا میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے اس کا پُر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ وہ اپنی سادگی، منکسرالمزاجی، ملنساری اور انسانیت نوازی کی وجہ سے ہر طبقے کے لوگوں میں مقبول تھے۔ وہ امام اہل سنت مولانا عبدالشکور فاروقی کے پوتے اور مناظر اسلام مولانا عبدالسلام فاروقی کے جانشین اور ان کی روایتوں کے امین اور پاسبان کی حیثیت سے معروف تھے۔
مولانافاروقی رحمۃ اللہ علیہ نے مظاہرعلوم سہارنپور میں(۱۳۸۶ھ/۱۹۶۶ء)شرح جامی بحث اسم ، نوارالانوار ، شرح وقایہ،قطبی وغیرہ کے سال داخلہ لیااور حضرت والد صاحب اور ماموں محترم حضرت مولانا زبیر الحسن رحمہما اللہ کے درسی ساتھی رہے،سہارنپور پڑھنے کے دوران یہاں کے اساتذہ خاص طور سے حضرت مولانا شاہ اسعداللہ صاحب اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نوراللہ مراقدہما سے قربت رہی ،جس کا اثر حضرت مولانا کی زندگی میں خوب نمایاں رہا ۔دار جدید کی مسجد میں ماہ مبارک میں اعتکاف میں ملک و بیرون ملک کے بہت سے علماء کی حاضری ہوتی تھی ، حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقیؒ بھی تشریف لایا کرتے تھے اور حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کے دور میں تو باقاعدہ مسجد میں معتکفین کے درمیان ان کا بیان بھی ہوا کرتا تھا ۔
مولانا مظاہرعلوم سہارنپور کے ہمیشہ ارادتمندرہے ،جب بھی دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ میں شرکت کے لئے دیوبند تشریف لاتے تو موقع نکال کراکثر مظاہرعلوم اور خانقاہ خلیلیہ میں حاضری کا نظام بناتے ۔ مظاہرعلوم کی دینی تعلیمی اور تصنیفی خدمات کے مولانا فاروقی ہمیشہ معترف رہے اور اس سلسلہ میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے تعلقات بڑے استوار رہے ،چنانچہ ۲۰۱۶ءمیں جب مظاہرعلوم کی مجلس شوریٰ نے تحفظ ختم نبوت کے عنوان سے ایک بڑے اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ کیا تو اس کے لئے مقرر خصوصی کی حیثیت سے حضرت والدصاحب نوراللہ مرقدہ نے من جانب مدرسہ مظاہرعلوم بطور خاص آپ کو شرکت کی دعوت دی، حضرت مولانا فاروقی صاحب نے اس دعوت کو نہ صرف قبول فرمایا بلکہ تشریف لائے ، مجمع عام سے خطاب فرمایا اور حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے مدعو کئے جانے کو اپنے لئے ایک اعزاز بتایا ۔
آپ نے پورے ملک ميں مختلف اسٹيج سے حضرات صحابہ رضى الله عنہم كى سيرت بيان کی اور خاص طور پر مدح صحابہ كے عنوان سے جو جلسے ہوتے تھے اس ميں آپ كى شركت اور آپ كے مواعظ حسنہ سے مستفيد ہونے كا عوام كو موقع ملتا تھا۔آپ كى خدمات كا دائره كافى وسيع تھا، آپ دارالمبلغين لکھنؤ كے مہتمم تھے اور اسی ادارے کو اپنی توجہات کا مرکز بنا رکھا تھا، جس كے تحت محرم الحرام كے عشرۂ اولى ميں جلسہ ہوتا تھا اور اس اجلاس سے ملک كے نامور علمائے كرام كے خطاب ہوتے تھے۔آپ نے پورے ملک میں مدح صحابہ کی تحریک چلائی، آپ مجلس تحفظ ناموس صحابہ کے سربراہ تھے، اس کے علاوہ متعدد اداروں، تنظیموں کے سرپرست تھے،اس ادارہ کو آپ نے تحريک مدح صحابہ كے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا،وقت کے نامور علماء ان جلسوں میں شرکت کرتے، یہاں سے جو پیغام دیا جاتا، پورے ملک میں اس کى گونج سنائی دیتی، آپ کی کوششوں کے نتیجہ میں لکھنؤ میں اہل تشیع کا زور کم ہوا، عام لوگوں کے اندر اپنے عقائد کو سمجھنے میں دل چسپی پیدا ہوئی اور ان کے دل میں صحابہ کے تئیں عقیدت واحترام میں اضافہ ہوا۔
آپ كو جمعیۃ علماء ہند سے خصوصى لگاؤ تھا اور اس كے مختلف مناصب آپ كے پاس رہے، حضرت مولانا سيد اسعد مدنى نور الله مرقده كے زمانۂ صدارت ميں آپ۱۹۹۵ء سے۲۰۰۲ء تك اس كے ناظم عمومى رہے، اور دوباره حضرت مولانا سيد ارشد مدنى صاحب دامت بركاتہم كى صدارت ميں۲۰۰۸ء سے ناظم عمومى كا عہده سنبھالا اور ۲۰۲۰ء تك اس عہدے پر كام كرتے رہے، اور۲۰۲۰ء ميں ممبئى كے اجلاس منتظمہ ميں آپ كو جمعیۃ علماء ہند كا نائب صدر نامزد كيا گيا جس پر اپنى وفات تک كام كرتے رہے۔
اللہ تعالی حضرت مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے ،جنت کی باغ و بہار عطا فرمائے ، دفاع صحابہ اور مدح صحابہ کے سلسلہ کی ان کی تمام کوششوں کو ان کے لئے سعادتِ اخروی کا ذریعہ فرمائے اور ان کے نیک کاموں کی تقلید اور اتباع کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔
اللہ رب العزت آپ سب حضرات کو صبر و سکون ،ہمت و حوصلہ مرحمت فرمائے اور حضرت مولانا کے تمام دینی،ملی کاموں کو آپ حضرات کے ذریعہ جاری رکھے،آپ حضرات کی بھرپور نصرت و حفاظت فرمائے۔آمین
مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور آپ سب کے غم میں برابر کا شریک ہے اور الحمدللہ ایصال ثواب کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔میں اپنی طرف سے اور مدرسہ مظاہرعلوم کی طرف سے آپ سب حضراتِ پس ماندگان کی خدمات میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں ۔
دعوات صالحہ میں یاد فرمائی کی درخواست کے ساتھ ۔ والسلام

بندہ محمد صالح الحسنی
۱۷؍شوال ۱۴۴۵ھ/۲۷؍اپریل ۲۰۲۴ء

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے