حضرت مولانا عبد العليم صاحب فاروقى رحمہ اللہ کی وفات

ملت اسلاميہ كے ليے عظيم سانحہ

عبيد الله شميم قاسمى

آج بروز بدھ 24/ اپريل 2024ء اذان فجر كے بعد يہ جانكاه خبر موصول ہوئى كہ جانشين امام اہل سنت حضرت مولانا عبد العليم صاحب فاروقى ايک طويل علالت كے بعد اس دارفانى سے دار آخرت كو رخصت ہوگئے، إنا لله وإنا إليه راجعون، إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمّى، فلتصبر ولتحتسب

حضرت مولانا كچھ عرصہ سے بيمار چل رہے تھے اور لكھنؤ ہى ميں علاج چل رہا تھا، دو روز پہلے ڈاكٹروں نے نا اميدى ظاہر كردى تھى اور اہل خانہ گھر لاكر ديكھ بھال كر رہے تھے، آپ كى صحت كے ليے مسلسل دعائيں ہو رہى تھيں اور اميد تھى كہ آپ بہت جلد شفا ياب ہو جائيں گے مگر آپ كا وقت موعود آچكا تھا اور آپ بارگاه الہى ميں حاضر ہوگئے۔

يہ دنيا چند روزه ہے، ہر نفس كو موت كا مزه چكھنا ہےمگر ايسے وقت ميں جب كہ فتنوں كا دور دوره ہے اور ان فتنوں سے مقابلہ كرنے والے افراد بہت كم ہيں، حضرت مولانا فاروقى رحمتہ الله عليہ كى ذات گرامى ان فتنوں كے ليے سد سكندرى كا كام كرتى تھى، آپ كى وفات سے بہت بڑا خلا پيدا ہوگيا، الله تعالى آپ كى مغفرت فرمائے اور ملت اسلاميہ ہنديہ كو آپ كا نعم البدل عطا فرمائے۔

حضرت مولانا عبد العليم صاحب فاروقى ايسے خانوادے سے تعلق ركھتے تھے جس نے ہميشہ حق كى آواز كوبلند كيا اور جو ہميشہ باطل كے خلاف بر سر پيكار رہے، آپ كے دادا امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشكور صاحب فاروقى رحمتہ الله كى ذات گرامى سے شايد ہى كوئى اہل علم ناواقف ہوگا۔

حضرت مولانا كى ولادت لكھنؤ كے اس علمى خانوادے ميں1367ھ مطابق 1948ء ميں ہوئى جس كا شہره عام تھا، آپ كے دادا حضرت مولانا عبد الشكور صاحب فاروقى اور آپ كى والد حضرت مولانا عبد السلام صاحب نے آپ كى تربيت كى، ابتدائى تعليم لکھنؤ میں حاصل کی اور عربی کی تعلیم جامعہ حسینیہ محمدی، لکھیم پور میں حاصل کی۔

اس كے بعد متوسطات كى تعليم كے ليے جامعہ مظاہر علوم سہارن پور كے ليے رخت سفر باندھا جہاں اس وقت شيخ الحديث حضرت مولانا محمد زكريا صاحب كاندھلوى نور الله مرقده اور حضرت مولانا اسعد الله صاحب رام پورى رحمہ الله جيسے آفتاب وماہتاب علم كا دريا بہا رہے تھے اور ان سے ايك عالم فيض ياب ہو رہا تھا، آپ نے وہاں داخلہ لے کر تین سال وہاں رہ كر شرح جامی سے مشکاۃ المصابیح تک کی کتابیں پڑھیں۔

مظاہر علوم سہارن پور ميں آپ نے حضرت مولانا شيخ محمد يونس صاحب جون پوری ، حضرت مولانا محمد سلمان صاحب اور حضرت مولانا محمد عاقل صاحب دامت بركاتہم اور ديگر اساتذه كے سامنے زانوئے تلمذ تہ كيا، آپ زمانۂ طالب علمى ميں حضرت مولانا اسعد الله صاحب رحمتہ الله عليہ كے خاص خادم تھے اور ان سے علمی اور روحانی طور پر استفادہ کرتے رہے۔ مشكوة شريف تک تعليم حاصل كرنے كے بعد آپ نے دارالعلوم ديوبند ميں داخلہ ليا اور 1389ھ مطابق 1969ء ميں دورۂ حديث شريف سے فراغت پائى، دارالعلوم ديوبند ميں آپ نے اُس وقت كے ماہرين فن اساتذه كے سامنے زانوئے تلمذ تہ كيا، دورۂ حديث شريف ميں جن اساتذه سے آپ نے حديث كا درس ليا اس كى تفصيل درج ذيل ہے۔

بخارى شريف: حضرت مولانا فخر الدين احمد مراد آبادى عليہ الرحمہ

بخارى شريف جلد ثانى: حضرت مفتى محمود حسن صاحب گنگوہى عليہ الرحمہ

مسلم شريف، وابن ماجہ: حضرت شريف الحسن صاحب ديوبندى عليہ الرحمہ

ترمذى شريف مع شمائل: حضرت مولانا فخر الحسن صاحب رحمتہ الله عليہ

ابو داود شريف: حضرت مولانا عبد الاحد صاحب ديوبندى رحمتہ الله عليہ

نسائى شريف: حضرت مولانا حسين احمد صاحب بہارى رحمتہ الله عليہ

طحاوى شريف: حضرت مولانا اسلام الحق صاحب كوپاگنجى رحمتہ الله عليہ

شمائل ترمذى: حضرت مولانا سيد حسن ديوبندى رحمتہ الله عليہ

موطأامام مالك: حضرت مولانا نصير احمدخان صاحب بلند شہرى رحمتہ الله عليہ

موطأ امام محمد: حضرت مولانا نعيم احمد صاحب ديوبندى سے پر پڑھى۔

فراغت كے بعد آپ نے تدريسى ميدان ميں قدم ركھا اور اپنے والد اور دادا كى علمى وراثت كو آگے بڑھايا، آپ نے بھى پورے ملک ميں مختلف اسٹيج سے حضرات صحابہ رضى الله عنہم كى سيرت كو بيان فرمايا اور خاص طور پر مدح صحابہ كے عنوان سے جو جلسے ہوتے تھے اس ميں آپ كى شركت اور آپ كے مواعظ حسنہ سے مستفيد ہونے كا عوام كو موقع ملتا تھا۔

آپ كى خدمات كا دائره كافى وسيع تھا، آپ دارالمبلغين لکھنؤ كے مہتمم تھے اور اسی ادارے کو اپنی توجہات کا مرکز بنا رکھا تھا، جس كے تحت محرم الحرام كے عشرۂ اولى ميں جلسہ ہوتا تھا اور اس اجلاس سے ملک كے نامور علمائے كرام كے خطاب ہوتے تھے۔

آپ نے پورے ملک میں مدح صحابہ کی تحریک چلائی، آپ مجلس تحفظ ناموس صحابہ کے سربراہ تھے، اس کے علاوہ متعدد اداروں، تنظیموں کے سرپرست تھے،اس ادارہ کو آپ نے تحريک مدح صحابہ كے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا، جس زمانے ميں پورے ملک میں شہدائے اسلام کے جلسوں کے چرچے تھے، وقت کے نامور علماء ان جلسوں میں شرکت کرتے، اس وقت یہاں سے جو پیغام دیا جاتا، پورے ملک میں اس کى گونج سنائی دیتی، آپ کی کوششوں کے نتیجہ میں لکھنؤ میں اہل تشیع کا زور کم ہوا، عام لوگوں کے اندر اپنے عقائد کو سمجھنے میں دل چسپی پیدا ہوئی اور ان کے دل میں صحابہ کے تئیں عقیدت واحترام میں اضافہ ہوا۔

آپ ملک كے طول وعرض ميں پھيلے مختلف مدارس ميں بحيثيت مقرر تشريف لے جاتے تھے، آپ بہترين خطيب تھے، آپ كا بيان علماء اور عوام ميں كافى مقبول تھا، آپ كو مختلف جلسوں ميں سننے كا موقع ملا، آپ مدلل گفتگو فرماتے اور بسا اوقات كتابوں كے حوالے جلد اور صفحہ نمبر كے ساتھ ديتے۔

آپ كو جمعیۃ علماء ہند سے خصوصى لگاؤ تھا اور اس كے مختلف مناصب آپ كے پاس رہے، حضرت مولانا سيد اسعد مدنى نور الله مرقده كے زمانۂ صدرات ميں آپ 1995ء سے 2002ء تك اس كے ناظم عمومى رہے، اور پھر جب جمعیۃ علماء ہند كى تقسيم ہوگئى تو دوباره حضرت مولانا سيد ارشد مدنى صاحب دامت بركاتہم كى صدارت ميں 2008ء سے ناظم عمومى كا عہده سنبھالا اور 2020ء تك اس عہدے پر كام كرتے رہے، اور 2020ء ميں ممبئى كے اجلاس منتظمہ ميں آپ كو جمعیۃ علماء ہند كا نائب صدر نامزد كيا گيا جس پر اپنى وفات تک كام كرتے رہے۔

حضرت مولانا كو اپنى مادر علمى دارالعلوم ديوبند سے بہت زياده لگاؤ تھا، آپ وہاں كى موقر شورى كے اہم ركن تھے اور 1419ھ مطابق 1998ء سے وفات تک تقريبا 26/ سال اس كے اجلاس ميں برابر شريک ہوتے رہے اور اہم مشوروں سے نوازتے تھے۔

اسى طرح طلبۂ دارالعلوم كے ساتھ آپ كا رويہ بہت ہى مشفقانہ ہوتا تھا، طلبہ كى دعوت پر مدنى دارالمطالعہ كے پروگرام اور شعبۂ مناظره كے سالانہ جلسوں ميں كثرت سے شركت فرماتے تھے۔

آپ خوش اخلاق اور خوش اطوار تھے، اكابر كا احترام اور چھوٹوں كے ساتھ بہت ہى مشفقانہ برتاؤ فرماتے اور كام كرنے والوں كى حوصلہ افزائى فرماتے۔

آپ نے مختلف كتابيں تصنيف فرمائیں جو اپنے موضوع پر نہايت اہم ہيں، جن ميں امیر معاویہ اور معاندین کے اعتراضات، آئینۂ مرزا اور مذہب شیعہ کا علمی محاسبہ كافى مشہور ہيں۔

آپ مختلف مناصب اور عہدوں پر فائز رہے، ندوۃ العلماء کے رکن،دینی تعلیم ٹرسٹ، لکھنؤ کے چیئرمین، اور امیرِ شریعت، اترپردیش بھى تھے۔ آپ كو حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب كاندھلوى رحمتہ الله عليہ كى جانب سے اجازت و خلافت حاصل تھى اور رمضان المبارك ميں خاص طور پر آپ كى مجالس ہوتى تھيں اور آپ قرآن پاک كى تفسير بھى بيان فرماتے تھے۔

آپ کے انتقال سے خدمات كا زريں سلسلہ بند ہوگيا، الله تعالى آپ كى خدمات كو قبول فرمائے، اپنے شایان شان بدلہ عطا فرمائے، آپ كى مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے اور امت مسلمہ كو آپ كا نعم البدل عطا فرمائے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے