تعارف کتاب "الزیادۃ علی القرآن بخبر الواحد، تحلیلٌ و تطبیقٌ و استعراضٌ علميٌ”

شریعتِ اسلامیہ میں قوانینِ الٰہی اور احکامِ خداوندی کی تدوین و تقنین میں فقہاء عظام کی جہد و کاوش معروف ہے، تدوینِ احکام کی اس اہم ترین خدمت سے ہی آج اسلام ایک منظم اور مرتب شکل میں نظر آ رہا ہے۔
فقہاء عظام کے اس بے مثال کارنامے کی ابتداء گرچہ کسی بھی صورت میں ہوئی ہو؛ لیکن یہ یقینی ہے کہ چاروں مذاہب کی تدوین و تنظیم میں مجتہدین کے پیشِ نظر بعض بنیادی اصول و ضوابط بھی تھے، اور ان ہی ضابطوں کی رعایت کرتے ہوئے غیر واضح اور غیر منصوص احکام کا استنباط عمل میں آتا رہا ہے۔

چنانچہ دیگر فقہاء کی مانند فقہاء احناف نے بھی احکام و مسائل کے استخراج میں مختلف قواعد و ضوابط کو ملحوظ رکھا، اور وہ قواعد بھی طبع زاد یا ایجادِ بندہ کی قبیل سے نہیں تھے؛ بلکہ ان کے پسِ منظر میں کوئی قرآنی کلیہ، خدائی ضابطہ یا نبوی فیصلہ موجود تھا۔
احناف کے ان ہی فقہی قواعد میں ایک معروف اصل یہ ہے کہ: خبرِ واحد کے ذریعے قرآن پر زیادتی درست نہیں، خواہ مطلق کی تقیید کے طور پر ہو یا عام کی تخصیص کے طور پر.

اس ضابطے کا پس منظر واضح ہے کہ قرآن کریم شروع تا آخر متواتر و موثوق ہے، اس لیے اس کا ایک ایک حرف علم یقینی کا حامل ہے، وہیں حدیث صحیح کی تین معروف اقسام میں سے خبر واحد، متواتر تو کیا ہوتی، مشہور بھی نہیں ہے، اس لیے قرآن کے مقابلے میں تو بہرطور خبر واحد قبول نہیں ہوگی، کہ خبر واحد کے ذریعہ قرآن کے بالکل برعکس اور متضاد حکم ثابت ہو، ساتھ ہی قرآن میں بیان کردہ کسی حکم پر زیادتی بھی خبر واحد کے ذریعے نہیں ہوسکتی، کہ قرآن کریم میں مذکور کسی مطلق حکم کو خبر واحد کے ذریعہ مقید کردیا جائے یا اس کے کسی حکمِ عام کو خاص کردیا جائے۔

فقہاء احناف اس ضابطے میں منفرد اور اکیلے ہیں؛ چنانچہ فقہ حنفی کے علاوہ کسی اور مکتبِ فقہ میں یہ فقہی ضابطہ موجود نہیں ہے، بلکہ دیگر مذاہب و مکاتبِ فقہ (شوافع، حنابلہ اور مالکیہ) اس ضابطے کے برعکس رائے رکھتے ہیں اور ان کے یہاں خبر واحد کے ذریعہ کتاب اللہ پر زیادتی جائز ہے، اسی وجہ سے شروع سے ہی دیگر مذاہب نے اس ضابطے سے اختلاف کیا اور مختلف زاویوں سے اس کو بے معنی قرار دینے کی کوشش کی۔
ان کوششوں میں سب سے پہلی کوشش امامِ مجتہد حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کی جانب سے دیکھنے میں آئی، امام صاحب نے اپنی کتاب "الام” میں اس ضابطے کا رد کیا اور ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کہ خود احناف بھی بعض مسائل میں اس ضابطے کو ترک کرنے پر مجبور اور خبر واحد کے ذریعے کتاب اللہ پر زیادتی کے مرتکب ہیں۔
امام شافعی کے بعد علامہ ابن قیم الجوزیہ نے اس ضابطے کو اعتراضات کا نشانہ بنایا اور اپنی کتاب "اعلام الموقعین” میں بڑی شدت سے یہ دعویٰ کیا کہ احناف خود بھی اس ضابطے پر مکمل عمل نہیں کرتے؛ بلکہ جب جی چاہتا ہے عمل میں لاتے ہیں اور جب جاہتے ہیں ترک کر دیتے ہیں، اور محض اسی ضابطہ کو بنیاد بناکر پُر زور انداز میں علامہ ابن القیم نے احناف پر ترکِ حدیث کا بہتان لگایا اور احناف کو منکرین حدیث پر مشتمل وعیدوں والی احادیث کا مصداق قرار دے دیا۔
اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی فتح الباری میں یہ بات دوہرائی کہ احناف اس ضابطے پر خود بھی عمل نہیں کرتے اور تیرہ (13) مثالوں کے ذریعے اس دعوے کو تقویت دی۔

ان ائمۂ اعلام کی جانب سے اٹھاۓ گئے اس اعتراض کی تاریخ جتنی قدیم ہے، علماء احناف کی جانب سے اس کے تئیں بے توجہی بھی بھی اتنی ہی گہری (یا پرانی) تھی، چنانچہ ابن ابی شیبہ اور خطیب بغدادی کی جانب سے امام ابوحنیفہ اور فقہ حنفی پر وارد شبہات کے جوابات تو ایک سے زائد بار دیئے گئے؛ لیکن اس اہم فنی و تحقیقی اعتراض پر ایک جامع اور مستند کام کی ضرورت تھی۔

اس ضرورت کی تکمیل حضرت بحر العلوم مولانا نعمت اللّٰہ صاحب اعظمی کی دیرینہ تمنا اور قلبی خواہش تھی، جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے شعبہ تخصص فی الحدیث دارالعلوم دیوبند کے تین طلبہ کمربستہ ہوئے اور حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی کے حکم سے ان کی نگرانی میں ان تمام اعتراضات کے اصولی جوابات تحریر کیے، جن کو مولانا اعظمی نے ملاحظہ فرماکر پسندیدگی ومسرت کا اظہار فرمایا، پھر اس علمی دراسہ کو مزید اضافہ جات اور علمی تحقیقات سے مزین کرکے کتابی شکل دینے کے لئے اپنے انہی تین تلامذہ میں سے ایک (مفتی محمد اسامہ بنارسی) کو حکم دیا، جس کے بعد مفتی محمد اسامہ صاحب نے اس عمل کو انجام تک پہنچایا اور کتاب زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی۔

پونے تین سو صفحات پر پھیلی یہ کتاب دو ابواب میں منقسم ہے، پہلے باب میں اصلِ مذکور پر تفصیلی گفتگو ہے، اور اس کے ضمن میں سند و روایت کے علاوہ متن حدیث کی صحت اور اس سلسلے میں نقد و درایت کی اہمیت پر بھی بحث کی گئی ہے، نیز حدیث کو قرآن کی روشنی میں پرکھنے اور عرض الحدیث علی القرآن کے متعلق احناف اور دیگر ائمۂ متبوعین کی آراء ذکر کی گئی ہیں۔
دوسرا باب چار فصلوں پر مشتمل ہے، اور ہر فصل میں اصل مذکور پر وارد ہونے والے تمام اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ہے، جوابات میں ادب الاختلاف کی رعایت کے ساتھ، جامع اور مختصر اسلوب اختیار کیا گیا ہے اور اس طرح اس بابِ دوم میں (چون) 54 اعتراضات پر بہترین تحقیقی کلام دیکھا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ کتاب کے اندر سب سے پہلے حضرت اقدس مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی (مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) کی ایک جامع اور مختصر تحریر بنام "تصدیر” ہے، جس میں کتاب کی اہمیت اور افادیت کے ساتھ اس اہم کام کی تحسین کی گئی اور مؤلف کو تبریک پیش کی گئی ہے۔
اس کے بعد بحر العلوم حضرت علامہ اعظمی کا مختصر، مگر شاندار تقدمہ بہ عنوان "تقدیم” ہے، جس میں حضرت بتاتے ہیں کہ ان اعتراضات پر کام کی کیا اہمیت ہے اور اس ضرورت کی جلد تکمیل کے لیے میں کتنا شائق اور منتظر تھا، نیز اس کتاب کی تالیف میں میری کتنی شرکت ہے، چنانچہ حضرت والا کتاب کی ترتیب میں مؤلف کے منہج و عمل کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وكُلُّ ذلك كان بإشراف وتوجيهاتٍ مني، وبجد واجتهاد منهم، وبجودة وإتقان من فضل الله، وبالإحالة إلى الكتب المعتبرة، وتخريج الأحاديث الواردة مِنْ مَصادِرِها الأصلية.
وقد لاحظتُه بِإِمْعَانِ النظر فيه من أوَّله إلى آخره، غير مرة، وأدخلت فيه تصحيحات وتعديلات…. (صفحہ 9)

اور صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ صاحبِ کتاب کے بقول حضرت بحر العلوم نے بذاتِ خود اس پورے کام کا خاکہ تیار کیا اور چار بنیادی نکات پر مشتمل خطوط متعین کیے؛ بلکہ علامہ ابن قیم نے بنیادی اعتراض کے ساتھ جہاں جہاں ضمنی اعتراضات اٹھائے ہیں، ان ضمنی اعتراضات کے جوابات حضرت بحر العلوم نے خود املا کراۓ، جنہیں بعد میں حوالہ جات سے مزین کرکے شاملِ کتاب کیا گیا۔ ( صفحہ 35, 41)

کتاب کی تالیف میں حضرت والا دامت برکاتہم کی نگرانی کے علاوہ حضرت کی قلمی و لسانی شرکت کے تذکرے سے کتاب کی اہمیت کی جانب اشارہ مقصود ہے، کیوں کہ علمی دنیا میں حضرت بحر العلوم کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ہے، آپ بلا مبالغہ برصغیر کے عظیم ترین محدث اور صاحبِ نظر فقیہ و اصولی ہیں۔

حضرت بحر العلوم کی تحریر کے بعد حضرت مولانا مفتی عبداللہ معروفی (استاذ تخصص فی الحدیث دارالعلوم دیوبند ) کے قلم سے بیس صفحات پر مشتمل کتاب کا تعارف ہے، حضرت معروفی نے شاندار ادبی اسلوب اور پر وقار علمی انداز میں کتاب کے تعارف کے ساتھ، دارالعلوم دیوبند کے اندر تخصص فی الحدیث کے قیام کی تاریخ، اس شعبے کے مؤسس (حضرت بحر العلوم) کی موسوعی شخصیت، شعبۂ تخصص کا نصاب و نظام، اس نصاب میں شامل حضرت بحر العلوم اور دیگر محدثین کی تصانیف، تخصص کے دو سالہ کورس کا مکمل منہج اور حدیث و فقہ کے باب میں اس منہج کی اہمیت و انفرادیت کو اجاگر کیا ہے، حدیث اور علم حدیث پر اکیڈمک اور ادارہ جاتی خدمات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے مولانا معروفی کی اس تحریر میں استفادے کا بھرپور مواد ہے۔

کتاب کے تفصیلی تعارف کے بعد صاحبِ کتاب کا مقدمہ ہے، جس میں صاحب کتاب نے کتاب کا پس منظر، ابواب اور فصول پر منقسم مذکورہ کام کا منہج، علمی اسلوب میں اعتراضات کا مستند و تحقیقی جائزہ اور اس خدمت میں حضرت بحر العلوم اور مولانا معروفی دامت برکاتہم کی شرکت و معاونت کی تفصیل بیان کی ہے۔

اس کتاب کا پہلا ایڈیشن تقریباً نو سال پہلے منظر عام پر آیا تھا، جس کے بعد نئے ایڈیشن کے لیے از سر نو تنقیح و تہذیب اور اضافے کی ضرورت محسوس کی گئی، اس خدمت کے لیے مفتی محمد اسامہ بنارسی صاحب (استاذ مدرسہ شاہی مرادآباد) ایک بار پھر کمربستہ ہوئے اور مسلسل جد و جہد اور اساتذۂ تخصص سے مشاورت و رہنمائی کے بعد بالکل نئے اور جدید پیراۓ میں کتاب کو طباعت کے لیے تیار کیا۔

مولانا محمد اسامہ صاحب دارالعلوم دیوبند کے نوجوان فاضل اور علم و تحقیق کے رسیا ہیں، آپ کے اخّاذ ذہن نے بہت کم وقت میں علماء و اساتذہ سے کامیاب خوشہ چینی کی ہے، گذشتہ پانچ برسوں سے ملک کی معروف درس گاہ جامعہ قاسمیہ، مدرسہ شاہی مرادآباد میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، زیر نظر کتاب آپ کی پہلی اور بلاشبہ شاندار تصنیف ہے، امید ہے مولانا موصوف کے قلم سے مزید علمی و تحقیقی کاوشیں دیکھنے کو ملیں گی۔

کتاب کی اہمیت اور ضرورت کے پیش نظر دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ نے اس دوسرے ایڈیشن کے وقت یہ فیصلہ کیا کہ دارالعلوم کے اشاعتی شعبے مکتبہ دارالعلوم کے تحت اسے شائع کیا جاۓ، چناں چہ حضرت بحر العلوم کی نگرانی، مولانا معروفی کی معاونت اور مکتبہ دار العلوم کی اشاعت سے مشرف مفتی محمد اسامہ بنارسی صاحب کی یہ گراں قدر تصنیف ہمارے ہاتھوں میں ہے۔

مکتبہ دارالعلوم کی دیگر کتابوں کی طرح اس کا بھی ظاہری پیکر بہت خوب ہے، دیدہ زیب سر ورق، عمدہ کاغذ، صاف وجلی کتابت اور مضبوط جلد عام قارئین کو دعوتِ نظارہ بھی دے رہی ہے اور اہل علم و تحقیق کو دعوتِ مطالعہ بھی…

ابن مالک ایوبی

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے