حضرت مولانا محمد احمد صاحب فیض آبادی کا انتقال

(1937ء/1356ھ=2024ء/1445ھ)
عبید اللہ شمیم قاسمی

آج 25/ فرورى 2024ء مطابق 14/شعبان المعظم 1445 ھ بروز اتوار اچانک يہ اطلاع ملى كہ دارالعلوم ديوبند كے سابق ناظم تعليمات واستاذ حديث حضرت مولانا محمد احمد صاحب فيض آبادى كا صبح نو بجے دیوبند میں انتقال ہوگيا ہے، إنا لله وإنا إليه راجعون، إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمّى فلتصر ولتحتسب
موت ايك حقيقت ہے، اس سے كسى كو مفر نہيں، جو بھى اس دنيا ميں آيا ہے اسے موت كا مزه چكھنا ہے، ارشاد بارى تعالى ہے: {كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ} [العنكبوت: 57]
حضرت مولانا محمد احمد صاحب بہت سى خصوصيات كے حامل تھے، ان كى اصول پسندى اور وقت كى قدر دانى كے سبھى معترف تھے، انہوں نے اپنى پورى زندگى سادگى كے ساتھ گزار دى۔
آپ پریتم پور ضلع فيض آباد (موجوده امبیڈ کر نگر )کے رہنے والے تھے۔ 10 نومبر 1937ءكو آپ کی پیدائش ہوئی، آپ نے دينى ماحول ميں تربيت پائى جس كا اثر پورى زندگى آپ ميں نماياں رہا، آپ كے والد صاحب كانام حاجى عبد الرحمن تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم وطن میں اور عربی کی تعلیم مدرسہ فرقانیہ گونڈہ اور ضیاء العلوم مانی کلاں ضلع جون پور میں حاصل کی۔ مدرسہ فرقانیہ گونڈہ ميں آپ كے خصوصى استاذ حضرت مولانا افضال الحق صاحب جوہر قاسمى تھے، جن سے آپ كو بہت لگاؤ تھا، حضرت مولانا بھى آپ كو بہت مانتے تھے، جب كبھى دارالعلوم ديوبند تشريف لاتے تو آپ سے ضرور ملاقات كرتے۔ مدرسہ فرقانیہ گونڈہ ميں كچھ دنوں تعليم حاصل كرنے كے بعد آپ نے مدرسہ ضياء العلوم مانى كلاں ميں داخلہ ليا، مدرسہ كے روح رواں حضرت مولانا عبد الحليم صاحب نور الله مرقده بانى مدرسہ عربيہ رياض العلوم گورينى چونكہ فيض آباد كے رہنے والے تھے، اس وجہ سے اس اطراف كے طلبہ كى تعداد بھى مانى كلاں ميں زير تعليم تھى، آپ نے مدرسہ ضياء العلوم ميں حضرت مولانا عبد الحليم صاحب اور حضرت مولانا ضياء الحق صاحب فيض آبادى سے خصوصى طور پر تعليم حاصل كى اور ان كا شرف تلمذ حاصل ہوا، اس كے بعد آپ نے 1374ھ ميں دارالعلوم ديوبند ميں داخلہ ليا اور8 137ھ ميں دورۂ حديث سے فراغت ہوئى۔
دارالعلوم ديوبند ميں آپ نے اُس وقت كے ماہرين فن اساتذه كے سامنے زانوئے تلمذ تہ كيا، دورۂ حديث شريف ميں جن اساتذه سے آپ نے حديث كا درس ليا اس كى تفصيل درج ذيل ہے۔
بخارى شريف: حضرت مولانا فخر الدين احمد مراد آبادى عليہ الرحمہ
مسلم شريف، وترمدذى شريف: حضرت علامہ محمد ابراہيم بلياوى رحمتہ الله عليہ
ابو داود شريف: حضرت مولانا سيد فخر الحسن صاحب رحمتہ الله عليہ
نسائى شريف: حضرت مولانا بشير احمد صاحب بلند شہرى رحمتہ الله عليہ
ابن ماجه اور موطأ امالك: حكيم الاسلام حضرت قارى محمد طيب صاحب قاسمى رحمتہ الله عليہ
طحاوى شريف: حضرت مولانا ظہور احمد ديوبندى رحمتہ الله عليہ
شمائل ترمذى: حضرت مولانا سيد حسن ديوبندى رحمتہ الله عليہ
موطأ امام محمد: حضرت مولانا محمد جليل صاحب كيرانوى اور حضرت مولانا سيد حسن صاحب ديوبندى سے مشتركہ طور پر پڑھى۔ فراغت کے بعد فنون کی بھى تکمیل کی اور جامعہ طبیہ سے طب یونانی کا کورس بھی مکمل کیا۔ اور اس فن ميں مہارت حاصل كى۔
آپ كے رفقائے درس ميں حضرت مولانا رياست على بجنورى، مولانا رشيد الدين حميدى، مولانا محمد مسلم صاحب اعظمى (والد ماجد مفتى محمد راشد صاحب اعظمى)، مولانا جميل احمد اعظمى مدنى (والد ماجد مولانا عارف جميل صاحب مباركپورى) وغيره شامل ہيں۔
تعليم سے فراغت كے بعد آپ نے مختلف مدارس ميں تدريسى خدمت انجام دیں، جن ميں جامعہ قاسمیہ گیا صوبہ بہار ، مدرسہ انوار العلوم بھولے پور ہنسور ضلع امبیڈ کر نگر اور مدرسہ فرقانیہ گونڈہ شامل ہیں۔ 1395ھ میں مدرسہ شاہی مراد آباد میں آپ كا تقرر ہوا اور ترقی کرتے ہوئے ناظم تعلیمات اور شیخ الحدیث کے عہدوں پر فائز ہوئے۔
1411ھ میں تدریسی خدمات کے لیے دار العلوم میں تقرر ہوا ۔ اور يہاں مشكاة المصابيح اور ہدايہ اخيرين كا سبق بہت دنوں تك آپ سے متعلق رہا اور اخير ميں جب آپ كى صحت خراب رہنے لگى تو آپ نے صفر 1439ھ میں تدریسی خدمت سے مستعفى ہوگئے اور دار الشفاء میں بہ طور یونانی معالج خدمات انجام دينےلگے تھے۔
دارالعلوم ديوبند ميں تدريس كے ساتھ ساتھ نظامت تعليمات كى ذمہ دارى بھى آپ سے متعلق رہى اور اس شعبہ كے نظام كو چاق وچوبند اور متحرك كرنے ميں آپ كا بہت نماياں كردار رہا، خاص طور پر جب حضرت مولانا سيد ارشد مدنى صاحب ناظم تعليمات تھے اور آپ مدرسہ ثانويہ كے ذمہ دار تھے، درجات ثانویہ کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حاضرى كا نظام اور ہر دو مہينہ پر امتحان اور اس طرح كى ديگر اصلاحات كيں جس سے ثانويہ كى تعليم بہت ٹھوس ہوگئى۔
آپ وقت كے بہت پابند تھے اور دارالاقامہ كے بھى نگراں رہے، طلبہ كو وقت پر نماز كے ليے جگانا اور ان كى حاضرى وغيره كا آپ كے يہاں بہت التزام تھا۔
آپ ايک ماہر طبيب بھى تھے اور آپ كى حكمت كا لوگوں كو اعتراف بھى تھا، عصر كے بعد آپ كے يہاں مريضوں كى بھيڑ لگى رہتى تھى، آپ كو الله تعالى نے دست شفاء عطا فرمايا تھا۔
ميں جس وقت 1421ھ ميں دارالعلوم ديوبند ميں داخل ہوا اس وقت آپ كا سبق ہفتم اولى اور ہفتم ثالثہ ميں تھا، مشكاة المصابيح اور ہدايہ آپ سے متعلق تھى مگر افسوس كہ ہمارا (ہفتم ثانيہ) كوئى بھى سبق آپ سے متعلق نہيں تھا، اس وجہ سے آپ كى شاگردى سے محروم رہا، ليكن آپ كے صاحب زادے مولانا حبيب الرحمن سے تعارف تھا۔
دارالعلوم ديوبند سے تعليم مكمل كرنے كے بعد جب ميں 2006ء سے جامعہ اسلاميہ مظفر پور اعظم گڑھ تدريس سے وابستہ ہوگيا تو ہمارے جامعہ كے مہتمم حضرت مولانا عبد الرشيد صاحب قاسمى مرحوم جو آپ كے ہم قريہ تھے اور شاگرد بھى تھے آپ كا تذكره بہت والہانہ انداز ميں عقيدت ومحبت كے ساتھ كرتے تھے اور جب بھى ميرا ديوبند جانا ہوتا تو سلام كہلواتے اس وجہ سے تھوڑى بہت جان پہچان بھى ہوگئى تھى، آپ كے صاحب زادے سے بھى آپ كى خيريت ملتى رہتى تھى۔
گذشتہ چند سالوں سے آپ بيمار چل رہے تھے، درميان ميں بہت زياده علالت كى خبريں آرہى تھيں اور افاقہ بھى ہوجاتا تھا مگر آپ كا وقت موعود آچكا تھا بالآخر 87/ سال كى عمر ميں(قمرى اعتبار سے 89/ سال) آپ نے داعئ اجل كو لبيک كہا اور جان جان آفريں كے سپرد كردى، الله تعالى آپ كى مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائى اور جنت الفردوس آپ كا مسكن بنائے۔ آپ كے ہزاروں شاگرد جو دينى خدمات انجام دے رہے ہيں وه آپ كے ليے صدقہ جاريہ ہيں، اس كا ثواب آپ كو پہنچتا رہے گا۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے