فدائے قرآن حضرت الاستاذ قاری احمد اللہ صاحب بھاگل پوری

از : محمد طاہر سورتی

حرص و جنون عموما ناپسند سمجھے جاتے ہیں۔لیکن علم و فن کے معاملے میں پسندیدہ ہیں۔اور اگر قرآن اور تجوید و قراآت کے معاملے میں ہو تو کیا کہنے !
حضرت امام ابوداود رحمہ اللہ کے متعلق کسی نے بجا فرمایا کہ وہ دنیا میں حدیث کے لیے اور آخرت میں جنت کے لیے پیدا کیے گئے۔
استاذی المرحوم و المغفور کے شبانہ روز الحمد للہ اس گنہ گار نابکار کے لیے شنیدہ بل کہ دیدہ اور ایک حد تک چشیدہ بھی ہیں ؛ دیکھ کر بجا طور پر بلا خوف تردید یہ لکھنے میں حق بجانب ہوں کہ وہ دنیا میں قران کے لیے پیدا کیے گئے تھے۔اور وہاں ان شاء اللہ جنت کے لیے۔اپنے فن کے تئیں حضرت کا شوق حرص و جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔
لوٹ آئے جتنے فرزانے گئے
تا بمنزل صرف دیوانے گئے
ان‌ کی راتیں نماز میں کھڑے ہو کر تلاوت قرآن کے لیے وقف تھیں تو دن اس کی تعلیم ، تجوید تصحیح اور اس کی نشر و اشاعت کے لیے مختص تھے۔
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی

میرا آں مکرم سے پڑھنے کا زمانہ ١٩٨٦ تا ١٩٩٠ کا ہے۔خوب یاد ہے کہ ایک مرتبہ درس گاہ میں فرمایا تھا کہ : میری رات میں جب پہلی مرتبہ آنکھ کھلتی ہے تب فورا اٹھ جاتا ہوں اور ضروریات سے فارغ ہو کر نماز میں لگ جاتا ہوں۔ ، پھر نہیں دیکھتا کہ کتنے بجے ہیں۔
جامعہ ڈابھیل میں حضرت کی تدریس کا ابتدائی دور وہ رہا ہے جب گجرات میں تجوید و تصحیح قرآن کی وہ باغ و بہار اور آب تاب نہیں تھی جو اب نظر آ رہی ہے۔اور زہے قسمت کہ اس میں بلا واسطہ یا بالواسطہ بڑا حصہ حضرت استاذ مرحوم ہی کا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کے اجر و ثواب نیز درجات عالیہ کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔آپ کی حیات و معمولات تمام ہی علما و قراء کے لیے عموما اور تلامذہ و مستفیدین کے لیے خصوصا درس عبرت ہیں .
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھنڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
ہماری جماعت کو ثلاثہ دورۂ حدیث کے سال تہجد کے وقت میں پڑھایا۔اور یہ معمول نہ جانے کتنے سال رہا۔اور ایک اسی وقت کی کیا خصوصیت ہے ، اپنے سارے ہی اوقات کو تو اسی منور مشغلے کے لیے خاص کر دیا تھا۔
جامعۃ القراآت کے قیام کے ابتدائی دور میں ایک مرتبہ با قاعدہ دعوت نامے بھیج کر اپنے فاضل تلامذہ کو کفلیتہ مدرسے میں جمع فرمایا تھا صرف یہ کہنے کے لیے کہ فن تجوید و قراءت جو آپ لوگوں نے حاصل کیا ہے اس کی نشر و اشاعت کیجیے۔اس موقع تمام شاگردوں کو بہترین الارم گھڑی ⏰ بھی ہدیہ دی تھی۔
ایک عرصے تک یہ فکر انگڑائیاں لیتا رہا کہ یہ مبارک فن کسی طرح خواتین میں بھی منتقل کیا جائے تاکہ یہ صنف بھی محروم نہ رہے،نیز ان کے توسط سے اس کا دائرہ اور حلقہ وسیع سے وسیع تر ہو سکے۔
بس پھر کیا تھا توکلا علی اللہ کام کا آغاز کیا اور سارے جگ نے دیکھا کہ گجرات تو گجرات ؛ کشمیر تک سے قدر دانوں نے رخت سفر باندھا اور فن میں مہارت حاصل کی۔اور اپنے استاذ کی فرمائش پوری کرنے میں مصروف ہیں کہ خواتین میں بھی اس کی خوب نشر و اشاعت ہو۔
خوب یاد ہے کہ ایک مرتبہ فرمایا کہ : آج مفتی احمد خانپوری آئے تھے ، مجھے عطر کی شیشی ہدیہ کی اور فرمایا کہ میری طبیعت میں تقاضہ پیدا ہوا کہ آپ کو ہدیہ دوں۔اس لیے بلا تاخیر آگیا۔۔۔
پھر حضرت قاری صاحب نے فرمایا : سالک کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت قاری صاحب جامعہ کے بنگلے میں اور حضرت مرشدی مدرسے کے گھر میں رہائش پذیر تھے۔
دل استاذ مشفق کے فراق کے صدمے سے غم گین ہے۔
و انا بفراقک یا استاذنا لمحزونون۔
قارئین سے بصد احترام دعاء مغفرت و ایصال ثواب کی درخواست ہے۔
اکیاون سالہ قیام جامعہ ڈابھیل کے زمانے کے بلا واسطہ شاگردوں کے صرف نام ہی جمع کر لیے جائیں تو ایک کتاب تیار ہو جائے گی۔
ان میں سے بڑی تعداد ایک محسن استاد کے اچانک وصال کے غم سے بیتاب ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ پس ماندگان و جمیع تلامذہ کو صبر جمیل و اجر جزیل سے نوازے ۔
شکریہ عزیزم مفتی امتیاز مالگانوی کا کہ انہوں نے فرمائش کی تو چند سطریں سیاہ کرنے کا حوصلہ ہوا۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے