عبدالعلیم بن عبدالعظیم الاعظمی
استاذ محترم مولانا حبیب الرحمن اعظمی(علیہ الرحمہ) کو اجودھیا کی تاریخی سے خاص دلچسپی تھی، آپ نے اجودھیا کی تاریخ اور بابری مسجد وغیرہ پر کثرت سے خامہ فرسائی کی ہے، رسائل و کتب کے علاوہ ماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں اس موضوع پر آپ کے متعدد مقالات و مضامین شائع ہوئے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت سے قبل جب یہ قضیہ سیاسی گلیاروں میں زیر بحث تھا اور ہر شخص اپنی خود ساختہ کہانیوں کے ذریعہ جھوٹ و فریب پر مشتمل تاریخ بتا رہا تھا تو آپ نے مولانا اسعد مدنی رح کی ایماء پر "بابری مسجد حقائق اور افسانے” کے عنوان سے ماہنامہ دارالعلوم دیوبند میں ایک طویل اداریہ لکھا، بعد میں یہ اداریہ حک و اضافہ کے ساتھ کتابچہ کی شکل میں بھی شائع ہوا تھا، اس کتابچہ کے وجہ سے مولانا مرحوم کے بیرونی اسفار پر کچھ مدت کے لیے پابندی لگا دی گئی تھی، یہ اداریہ اب مولانا مرحوم کے مقالات کے مجموعہ "مقالات حبیب ” میں بھی شامل ہے،مولانا اس مقالہ کے شروع میں لکھتے ہیں :
"اس بے بنیاد اور من گھڑت افسانے کو ایک صحیح اور سچا واقعہ باور کرانے کے لئے علم و تحقیق کی آبرو کو بالائے طاق رکھ کر پوری جسارت کے ساتھ تزک بابری ،آئین اکبری اور عالم گیری نامہ جیسی اہم تاریخی کتابوں کا بالکل غلط طور پر حوالہ بھی دیا جارہا ہے۔
اس لئے جمعیت علماء ہند کی مجلس عاملہ منعقدہ 21/22/ فروری 1989ء نے ضرورت محسوس کی کہ بابری مسجد کی صحیح تاریخ عوام کے سامنے پیش کی جائے تا کہ سرکاری و غیر سرکاری ذرائع ابلاغ کی مدد سے پھیلائی ہوئی غلط فہمی کا یہ بادل چھٹے جس نے ملک کی فضاء کو خطرناک حد تک مسموم بنا دیا ہے ، اور ملک کا انصاف پسند طبقہ ، کذب و افتراء کی تاریکیوں میں جھانکنے کے بجائے اس انتہائی حساس اور نازک معاملہ میں علم و تحقیق کی روشنی میں غور کر سکے۔ چنانچہ جمعیت علماء ہند کے صدر محترم حضرت مولانا سید اسعد مدنی دامت برکاتہم نے یہ خدمت احقر کے سپرد کی مظلوم بابری مسجد کے سلسلہ میں یہ تحریر اسی حکم کی تعمیل میں سپرد قلم کی گئی ہے اور قارئین ماہنامہ دارالعلوم کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔”
1991ء میں مولانا مرحوم کی معرکۃ الآرا تصنیف "اجودھیا کے اسلامی آثار” شائع ہوئی، اس کے بعد بھی بابری مسجد کی شہادت، بابری مسجد پر کورٹ کے فیصلے، وغیرہ پر کئی مضامین ماہنامہ میں شائع ہوئے،ان میں سے ایک مضمون "بابری مسجد تاریخ کے مختلف مراحل میں ” قابل ذکر ہے، جو تین دو قسطوں میں شائع ہوا تھا، بعد میں ادارہ پیغام محمود نے کتابچہ کی شکل بھی میں شائع کیا تھا۔
مولانا مرحوم کی کتاب "اجودھیا کے اسلامی آثار” 200/ صفحات تین ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں اجودھیا کے علماء اور مشائخ کا تذکرہ کیا ہے، دوسرے باب میں اجودھیا کی تاریخی مساجد پر روشنی ڈالی گئی ہے، جس میں بابری مسجد اور عالمگیری مسجد پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ آخری باب میں اجودھیا کے مزارات اور مقبروں کا تذکرہ کیا ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا اجودھیا سے زمانہ قدیم ہی سے تعلق رہا ہے۔ مولانا مرحوم کی یہ کتاب مستند اور معتبر ماخذ کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہے، "دبستان قاضی اطہر” سے وابستگی کی وجہ سے مولانا مرحوم نے نہ صرف قدیم و جدید ماخذ و مصادر پر بھروسہ کیا؛ بلکہ اجودھیا جاکر اپنے مشاہدات کی روشنی میں بہت سی حقیقتوں کو واشگاف کیا، معروف مورخ سید صباح الدین عبد الرحمن نے اپنی کتاب ” بابری مسجد تاریخی پس منظر اور پیش منظر کی روشنی میں ” میں مولانا مرحوم کی تحقیق کو خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ قاضی اطہر مبارک پوری اپنی تقریظ میں لکھتے ہیں :
” یوں تو یہاں کے علماء ومشائخ مساجد و مقابر اور دوسرے آثار کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں ،مگر ایک ایسی جامع اور مستند کتاب کی ضرورت اب بھی شدت سے محسوس کی جارہی تھی جس میں ان بزرگوں اور آثار کے حالات علمی اور حقیقی انداز میں لکھے گئے ہوں ، خصوصا موجودہ وقت میں جبکہ بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے قضیہ نامرضیہ کی وجہ سے حقائق کے چہرے پر تعصب ، فرقہ واریت اور سیاست کے سیاہ پردے ڈال دیئے گئے ہیں، ایس کتاب کی سخت ضرورت تھی چنانچہ مولانا حبیب الرحمن صاحب قاسمی نے اس سلسلے میں چند تحقیقی مضامین ومقالات شائع کئے تو ملک کے بعض موقر مصنفین نے ان سے استفادہ کیا اور اپنی تصنیف میں ان سے مدد لی۔
اور اب اس سلسلہ میں مولانا موصوف کی علمی وتحقیقی کاوش کے بعد ” اجودھیا کے اسلامی آثار ” کے نام سے ایک مستقل کتاب ہمارے سامنے آرہی ہے، جس میں اجودھیا کے علماء و مشائخ مساجد اور مقابر کے بارے میں نہایت مستند و معتبر معلوت درج ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام سے سلمانوں کو کس قدر علمی و دینی اور روحانی وابستگی رہ ہے ، اس سے پہلے مولانا حبیب الرحمن صاحب کی کتاب "تذکرہ علماء اعظم گڑھ ” ” مقام محمود "اور "اسلام میں امارت کا تصور” وغیرہ کی مقبولیت وشہرت نے ان کے علم وقلم کا تعارف علمی حلقوں میں کرادیا تھا۔”
اپنے موضوع پر یہ ایک عمدہ اور تحقیقی کتاب ہے۔ بدلتے ہوئے ہندوستانی پس منظر میں اس کتاب کا ہر شخص کو مطالعہ کرنا چاھئے۔ کتاب مکتبہ دارالعلوم دیوبند یا دیوبند کے کسی بھی مکتبہ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔