مولانا مفتی اسعدالدین گونڈوی کا سانحۂ وفات

مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے

*مولانا ضیاء الحق خیرآبادی*

دنیا میں جو آیا ہے جانے ہی کے لئے آیا ہے، ہر شخص کو اپنی مقررہ مدت کے بعد اپنے دائمی مستقر کے لئے روانہ ہونا ہے، لیکن بعض حادثات ایسے ہوتے ہیں جو طبیعت کو اندر سے ہلا دیتے ہیں ، ایسا ہی ایک واقعہ آج پیش آیا ۔ صبح سات بجے موبائل اٹھایا تو محب گرامی مولانا مفتی محمد عفان منصورپوری کے ایک میسیج کو پڑھ کر دل دھک سے ہوکر رہ گیا ، انھوں نے خبر دی کہ :

*’’بڑے دکھ اور افسوس کے ساتھاطلاع دی جاتی ہے کہ ہمارے رفیق محترم مفتی اسعد الدین صاحب قاسمی رحمہ اللہ کا آج صبح تقریباً سوا پانچ بجے حیدرآباد میں انتقال ہوگیا ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔*

*باری تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائیں اور ان کے بزرگ والدین، اہل خانہ ، برادران اور متعلقین کو صبر جمیل نصیب فرمائیں۔‘‘*

مفتی اسعد الدین صاحب کی وفات کی خبر نے دل کی دنیا زیر وزبر کرڈالی ، موصوف میرے محب وکرم فرما مولانا معزالدین صاحب گونڈوی ؒ کے چھوٹے بھائی اور ایک باصلاحیت عالم ، بہترین مدرس ، اعلیٰ پایہ کے مقرر وخطیب،اچھے منتظم اور بڑے خلیق ومتواضع انسان تھے ۔ وہ ایک ایسے شخص تھے کہ ان سے ملاقات کے بعد پھر ملنے کا جی چاہتاتھا ، جب بھی وہ ملتے اپنی خوبیوں اور کمالات کا ایک نیا نقش دل پہ بٹھادیتے تھے ۔ ان سے آخری ملاقات چارماہ قبل مدرسہ فیض القرآن دیناجپور میں منعقدہ فقہی سیمینار میں ہوئی تھی ، سیمینار ختم ہونے کے بعد ہم لوگ دارجلنگ گھومنے کے لئے گئے تھے ۔ اس وقت تک وہ بالکل چاق چوبند اور صحت مند تھے ، اچانک 17؍ جنوری بدھ کو ’’محبان حبیب ‘‘ گروپ میں یہ خبر دیکھی کہ حیدرآباد کے ایک ہاسپٹل میں اپنے والد اور بھائیوں کی نگرانی میں مفتی صاحب زیر علاج ہیں اور اس وقت ان کے گردے کا آپریشن چل رہا ہے، یہ جان کر ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے کہ شافیٔ برحق مفتی صاحب کو شفاء کاملہ عاجلہ مستمرہ نصیب فرما۔دوسرے روز کامیاب آپریشن کی خبر سن کر قدرے اطمینان ہوا ۔ اس دوران معلوم ہوا کہ دسمبر میں ان کو فالج کا اٹیک ہوا تھا جس کا علاج کانپور میں ہوتا رہا،جس سے افاقہ تو ہوا لیکن طبیعت نارمل نہیں رہتی تھی، اتار چڑھاؤ لگا رہتا تھا ، مسلسل ہچکی آتی رہتی تھی جس کی وجہ سے کھانے پینے میں دقت ہوتی تھی۔

اسی دوران سردی کی شدت کی وجہ سے ان کے والد گرامی مولانا عبد الحمید صاحب مدظلہ حیدرآباد جارہے تھے جہاں مفتی صاحب کے بڑے بھائی مولانا قطب الدین اور چھوٹے بھائی مولانا اسجد الدین صاحبان تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ، حیدرآبادکا موسم بہت معتدل رہتا ہے۔ اس وقت سب لوگوں کی رائے ہوئی کہ مفتی صاحب کو بھی لے جاکروہاں کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں، وہاں جانچ کے بعد معلوم ہوا کہ ایک گردہ جو بچپن سے ہی قدرے متاثر تھافالج کے بعد اس کی کارکردگی صفر کے بقدر رہ گئی ہے ، اس لئے ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ اسے جلد از جلد نکال دینا چاہئے ، چنانچہ اس کا آپریشن حیدرآباد کے ورنچی ہاسپٹل میں ہوا جو کامیاب رہا ، طبیعت بہتر تھی ،لیکن مسلسل بیماری اور غذا کی کمی کے باعث کمزوری بہت تھی ،ابھی ہاسپٹل ہی میں تھے کہ رات ہارٹ اٹیک کا عارضہ پیش آیا اور صبح پانچ بجے کے قریب انھوں نے جان ،جاں آفریں کے سپرد کردی۔ اناللہ واناالیہ راجعون ،اللھم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ وادخلہ الجنۃ

مفتی اسعد الدین قاسمی مولانا معزالدین صاحب ؒکے چھوٹے بھائی تھے ، یہ کل چھ بھائی تھے ۔

۱، مولانا معزالدین صاحب(متوفی:۱۳؍ ستمبر ۲۰۲۰ء)

۲۔مولانا مفتی وحید الدین صاحب( مدرس وصدر مفتی فلاح دارین ترکیسر گجرات)

۳۔مولانا مفتی قطب الدین صاحب ( مدرس سراج العلوم سکندرآباد، حیدرآباد)

۴۔مولانا قمر الدین [م: مئی ۱۹۹۹ء]

۵۔مولانامفتی اسعد الدین صاحب[م: ۲۳؍ جنوری ۲۰۲۴ء]

۶۔مولانا اسجد الدین صاحب ۔

مفتی اسعد الدین نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی ، حفظ کا آغاز 1990ء میں مدرسہ فرقانیہ گونڈہ میں کیا اور تکمیل مدرسہ فیض ہدایت رحیمی رائے پور میں 1993ء میں کی ، یہاں ان کے بڑے بھائی مفتی وحید الدین صاحب اس وقت مدرس تھے۔ان کی عربی کی تعلیم دارالعلوم دیوبندمیں ہوئی، جہاں وہ 1995ء سے 2004ء تک یعنی دس سال رہے ، دورۂ حدیث سے 2001ء میں فارغ ہوئے ،ان کا شمار دارالعلوم کے ممتاز اور ذہین طلباء میں ہوتا تھا ،ڈاکٹر یاسر ندیم وغیرہ ان کے رفقائے درس میں سے ہیں ، کئی سال مدنی دارالمطالعہ کے ناظم بھی رہے۔ فراغت کے بعد افتاء بھی کیا اور معین مدرس بھی رہے۔ ان کے بھائی مولوی قمر الدین مرحوم میرے درسی ساتھی تھے،ہم لوگوں کی فراغت شعبان ۱۴۱۹ھ ( دسمبر 1998ء) میں ہوئی، مولوی قمر الدین ( اﷲ ان کی مغفرت فرمائیں)فراغت کے چند ماہ بعد مئی 1999ء میں علی گڈھ میں ایک ٹرین حادثہ میں شہید ہوگئے ۔

زمانۂ طالب علمی اور فراغت کے بعد ابتدائی دس بارہ سال میں ان سےملاقات یاد نہیں ہے ، فراغت کے بعد وہ جامعہ محمودیہ اشرف العلوم کانپور میں مدرس ہوگئے ، جہاں وہ ایک کامیاب، ہر دلعزیز اور مقبول مدرس تھے اور کئی سال سے صدارت تدریس کے منصب پر بھی فائز تھے، اہل انتظام بھی ان کے قدرداں اور ان سے مطمئن وخوش تھے ۔ ان سے پہلی تفصیلی ملاقات آٹھ دس سال پہلے جمعیۃ کے ایک پروگرام میں کانپور میں ہوئی ، جس میں ان کے والد گرامی مولانا عبد الحمید صاحب بھی شریک تھے ۔ ناشتہ میں نے ان کے گھر کیا تھا ، اس کے بعد کئی ملاقاتیں دہلی میں ہوئیں ۔ مولانا معزالدین صاحب کے انتقال کے بعد جب وہ ناظم امارت شرعیہ کی حیثیت سے دہلی آئے تو بکثرت ملاقاتیں ہونے لگیں، ان کے برادر گرامی سے جو مراسم تھے اس کا انھوں نے پورا پورا لحاظ رکھا اور حد درجہ اکرام وتعظیم کا معاملہ کرتے تھے ۔وہ تقریباً ایک سال یا اس سے کچھ زائد عرصہ دہلی میں رہے ، درحقیقت وہ درس وتدریس کے آدمی تھے اور دہلی میں ان کا جی نہ لگا اور وہ جامعہ محمودیہ کانپور میں اپنی سابقہ تدریسی خدمت پر واپس آگئے ۔

اس دوران کبھی فون پر بات ہوجاتی تو خیریت معلوم ہوجاتی یا کبھی کسی پروگرام میں ملاقات ہوجاتی، آخری ملاقات دیناجپور میں امارت شرعیہ جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے سیمینار میں ہوئی ، جہاں تین دن ساتھ رہا ، پروگرام کے بعد دارجلنگ کی سیر میں رفاقت رہی ، کیا معلوم تھا کہ یہ ان سے آخری ملاقات ہے۔ مولانا متین الحق اسامہ قاسمی ( بانی جامعہ محمودیہ اشرف العلوم کانپور) کے انتقال کے بعد ان کے خلف الرشید مولانا امین الحق عبد اللہ قاسمی نے ان کی حیات وخدمات پر ایک سیمینار کرانے کا فیصلہ کیا،جو ان شاء اللہ عید بعد ہوگا۔مفتی صاحب کی انتظامی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ان کو اس کا نگراں اور ذمہ داربنایا ، انھوں نے خود بھی مجھ سے مقالہ لکھنے اور سیمینار میں شرکت کے لئے تاکید کی اور مولانا محمد جنید گنج مرادآبادی( کنوینر سیمینار) سے تاکید کی کہ مجھ سے ضرور مقالہ لکھوائیں۔ ان شاء اللہ بہر صورت ان کے حکم کی تعمیل کی کوشش کروں گا۔ جب سےان کی وفات کی خبر سنی ہے دل کا عجیب حال ہے ، رہ رہ کر ان کے والد گرامی اوردیگر اہل خانہ کا خیال آتا ہے کہ جب دور رہنے والے ایک شخص کی یہ کیفیات ہیں تو ان خونی قرابت داروں کا کیا حال ہوگا، رب کریم ان تمام لوگوں کے ساتھ اپنے خصوصی رحم وکرم کا معاملہ فرمائے۔ پورا وجود دعاگو ہےکہ باری تعالیٰ مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائیں ،اعلیٰ علیین میں جگہ دیں ، ان کی قبر کو روضۃ من ریاض الجنۃ بنائیں ،ان کے والدین ، بھائیوں ، اولادوں ، اہلیہ اور جملہ اہل خاندان کو اپنے حفظ وامان میں رکھیں اور اپنے فضل خاص کا معاملہ فرمائیں۔آمین یارب العالمین

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے