مولانا عبيد الله شميم قاسمى
آج 23/جنورى 2024ء مطابق 11/ رجب المرجب 1445ھ بروز منگل صبح 6/ بجے كے قريب يہ اندوہناك خبر موصول ہوئى كہ نوجوان عالم دين اور جامعہ محموديہ اشرف العلوم جاجمئو كان پور كے صدر المدرسين حضرت مولانا مفتى اسعد الدين صاحب قاسمى بلرام پورى (گونڈوى) اس دار فانى سے عالم جاودانى كو رخصت ہوگئے، إنا لله وإنا إليه راجعون
مرحوم انتہائى سنجيده، ملنسار، خوش اخلاق وخوش اطوار اور اعلى صلاحيت كے حامل تھے مگر نوجوانى ہى ميں اپنا وقت مقرره پورا كركے مالک حقيقى سے جاملے۔
موت كا وقت مقرر ہے جو شخص بھى اس دنيا ميں آيا ہے اسے ايک نہ ايک دن موت كو گلے لگانا ہے، موت سے كسى كو رستگارى نہيں، موت ايسى حقيقت ہے جس كا كوئى شخص انكار نہيں كرسكتا، روزانہ سيكڑوں واقعات اور خبريں موت كى موصول ہوتى ہيں، آنا جانا لگا رہتا ہے مگر بعض شخصيات ايسى ہوتى ہيں كہ زندگى ميں اپنے كارناموں اور اعلى اخلاق وصفات كى وجہ سے لوگوں كے دلوں ميں بستى ہيں اور ان كے انتقال سے خلا پيدا ہوجاتا ہے اور ان كى ياديں كرب كا احساس دلاتى ہيں، مرحوم مفتى اسعد الدين صاحب كى شخصيت بھى ايسى ہى تھى وه ہر شخص كے دلوں ميں بستے تھے اور اپنے اعلى كردار كى وجہ سے ہر خاص وعام كے محبوب تھے۔
مفتى اسعد الدين صاحب نے بہت كم عمر پائى، 1980ء يا 1981ء كى پيدائش تھى، ان كا اصل وطن دتلو پور ضلع گونڈه تھا، جو اس وقت بلرام پور ضلع ميں آ گيا ہے، گھر ميں دينى ماحول ہے، ان كے والد مولانا عبد الحميد صاحب دامت بركاتہم ايک نامور عالم دين ہيں اور سبھى بچوں كو علم دينى كى دولت سے مالا مال كرايا اور بہترين تعليم دى اور تربيت كى، اكابر علماء ديوبند اور جمعيت سے بہت گہرا ربط ہے۔
مرحوم سے ميرى واقفيت دارالعلوم ديوبند كى زمانہ طالب علمى سے تھا، وه ميرے ليے اسعد الدين بھائى تھے، الله تعالى نے انہيں بہت سى خوبيوں سے نوازا تھا، انہيں خوبيوں كى وجہ سے وه اپنے ساتھيوں ميں فائق تھے اور طلبہ ميں مقبول تھے، ان كو افہام وتفہيم كا ملكہ قدرت نے وافر مقدار ميں عطا كيا تھا، تحرير كى صلاحيت سے مالا مال تھے، خطابت ميں ان كا كوئى ثانى نہيں تھا، نظم ونسق اور انتظام كى خداداد صلاحيت كى وجہ سے وه ايک منفرد مقام ركھتے تھے۔
يہ ناچيز جس وقت 2001ء ميں دارالعلوم ديوبند ميں داخل ہوا تو ہفتم ثانيہ كى درس گاه فوقانى منزل پر تھى اور اكثر دوپہر كو چھٹى كے بعد جب حضرت مولانا نصير احمد خان صاحب نور الله مرقده كا دورۂ حديث ميں بخارى شرف كا درس ہوتا يا مغرب كے بعد حضرت مفتى سعيد احمد صاحب پالن پورى رحمتہ الله عليہ ترمذى شريف كا درس ديتے تو اوپر سے ديكھنے اور سننے كا موقع ملتا اور جو طالب علم عبارت خوانى كرتا اس كو غور سے سنتے، انہيں ميں ايک نماياں نام اسعد الدين گونڈوى كا بھى تھا، جب كچھ دنوں بعد دارالعلوم ديوبند كى مقبول انجمن مدنى دارالمطالعہ سے منسلک ہوا تو اسعد الدين بھائى كو قريب سے ديكھنے كا موقع ملا، ان كے اندر حد درجہ متانت اور سنجيدگى تھى، دارالمطالعہ كى ميٹنگ ميں اكثر وه شريک ہوتے اور خاموشى سے پورى كارگزارى سنتے اور جب ان سے رائے طلب كى جاتى تو اپنى بہترين رائے سے نوازتے اور پروگرام كى ترتيب اور اس كو كامياب بنانے كے ليے جدو جہد كرتے، مدنى دارالمطالعہ كے كئى سال تک وه ناظم رہے۔
ان كے اندر انتظامى صلاحيت بھى تھى اور ساتھ ساتھ وه ايك بہترين مقرر تھے اور خطابت كا ان كا بہترين انداز تھا، مجھے ياد ہے كہ جب ماہنامہ ترجمان ديوبند كے مدير اور دارالكتاب كے مالک مولانا نديم الواجدى صاحب نے ايک مرتبہ شيخ الہند ہال ميں تقريرى مسابقہ كرايا، اس ميں دارالعلوم اور وقف دارالعلوم كے بہت سے طلبہ شريك ہوئے تھے تو اسعد الدين بھائى كى پہلى پوزيشن آئى تھى۔
ان كى استعداد بہت ٹھوس تھى، سبق كو سمجھ كر پڑھتے اور مذاكره كراتے تھے، ششماہى امتحان كے موقع پر دارالحديث ان كے مذاكرے كے وقت بھر جاتى تھى اور سالانہ امتحان كے موقع پر جب مسجد قديم فوقانى ميں ان كا مذاكره ہوتا تو يہى حال رہتا۔ ان كے رفقائے درس ميں بھى بہت سے اعلى صلاحيت اور مشہور طلبہ تھے، جن ميں ڈاكٹر ياسر نديم الواجدى، مفتى وقار احمد نالندوى، مفتى فخر الاسلام كشى نگرى وغيره مشہور ہيں۔
دارالعلوم ديوبند سے 2001ء ميں دورۂ حديث كے بعد انہوں نے افتاء كيا اس وقت بھى وه دارالمطالعہ سے منسلک رہے، اس كے بعد معين مدرس ہوگئے اور مصروفيت كے باوجود پروگرام كے وقت اپنے مفيد مشوروں سے نوازتے۔
دارالعلوم ديوبند سے تعلیم مکمل کرنے كے بعد وه كان پور كى مشہور دينى درس گاه جامعہ محموديہ اشرف العلوم جاجمئو ميں استاذ ہوگئے اور رفتہ رفتہ ترقى كركے وه صدر مدرس كے عہده تک پہنچ گئے، اپنى اعلى صلاحيت اور افہام وتفہيم كے ملكہ كى وجہ سے وه طلبہ ميں كافى مقبول تھے، اور ارباب انتظام بھى ان سے كافى مطمئن تھے۔
جب 24 محرم 1442 ہجری مطابق 13 ستمبر 2020 ء بروز اتوار كو ان كے برادر بزرگ اور دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز سپوت، معروف عالم دین حضرت مولانا معز الدین احمد صاحب قاسمی رحلت فرماگئے تو جمعيت علماء ہند كے اكابر كے حكم پر وه ناظم امارت شرعيہ كے عہده پر دہلى منتقل ہوگئے تھے، ان كے اندر انتظامى صلاحيت بھى تھى، بہت جلد انہوں نے دفتر كے كاموں سے واقفيت حاصل كرلى اور ان كے دستخط سے رؤيت ہلال كميٹى كے اعلانات شائع ہونے لگے،صحيح بات تو يہ ہے كہ وه درس وتدريس كے ميدان كے شہ سوار تھے، اس ليے انہوں نے بہت جلد سابقہ جگہ واپسى كرلى۔
كچھ عرصہ قبل معلوم ہوا كہ اسعد الدين بھائى بيمار ہيں، اس كو معمولى بيمارى سمجھا گيا، كيونكہ دو سال قبل مولانا شمشير احمد صاحب قاسمى مالک مكتبہ عكاظ ديوبند نے لجنتہ المؤلفين كے پليٹ فارم سے آن لائن پروگرام منعقد كيا تھا جس ميں ہر ہفتہ كسى نہ كسى مشہور عالم كى تقرير ہوتى تھى، ماشاء الله بہت خوش اسلوبى كے ساتھ كئى ہفتے يہ پروگرام ہوا اور كامياب بھى رہا، اسى ميں مفتى اسعد الدين صاحب كى منشيات اور نشہ كے نقصانات پر بہت ہى پر مغز خطاب ہوا تھا، اس وقت ديكھا تو كافى ہشاش بشاش تھے اور صحت بھى ٹھيک تھى، ليكن كچھ عرصہ بعد ان كى بيمارى كى خبر آگئى اور وه رو بصحت ہو رہے تھے مگر گذشتہ 17/ جنورى كو ان كے والد مولانا عبد الحميد صاحب دامت بركاتہم اور ان كے برادران انہيں حيدر آباد ليكر گئے جہاں ان كے گردے كا آپريشن ہوا اور آج صبح 23/ جنورى 2024ء كو ان كے انتقال كى خبر آگئى۔
ان كے انتقال كى خبر نے ہر جاننے والے كو صدمہ سے دوچار كرديا، جامعہ محموديہ اشرف العلوم اور ان كى خاندان كے ليے بہت ہى بڑا سانحہ ہے، خصوصاً ان كے والد صاحب جنہوں نے اپنى زندگى ميں اپنے تين جوان عالم دين صاحبزادوں كى موت كو ديكھا ہے اور ان كو قبر تک پہنچايا ۔
الله تعالى مفتى صاحب كى مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے اور پسماندگان خصوصاً ان كے والد صاحب، اہليہ اور بچوں كو صبر جميل عطا فرمائے۔