نام كتاب: المحلّى بحُليّ أسرار الموطأ۔
مؤلف: الشيخ سلام الله الدهلوي الرامفوري (المتوفى 1229ھ أو 1233ھ)
تحقيق: مولانا مفتى محمد شاكر نثار الاعظمى القاسمى المدنى
ناشر: مكتبہ اسماعيل برطانيہ
بقلم: عبيد الله شميم قاسمى
موطأ امام مالک كى مختلف شروح حضرات ائمۂ حديث اور علماء نے كى ہے، اس وقت ہندوستانى علماء ميں جس شرح كا زياده چرچا اور شہره ہے وه شيخ الحديث حضرت مولانا محمد زكريا صاحب كاندھلوى نور الله مرقده كى اوجز المسالک ہے۔ امام مالک رحمہ الله كى موطأ كو شروع ہى سے محدثين نے قدر كى نگاه سے ديكھا اور صحيح بخارى سے پہلے يہ سب سے پہلا مجموعۂ حديث تھا جو احاديث صحيحہ پر مشتمل تھا گوكہ اس ميں مرسل اور بلاغات بھى تھيں، اسى وجہ سے امام شافعى رحمتہ الله عليہ كا مشہور مقولہ آپ نے پڑھا اور سنا ہوگا: ما تحت أديم السماء كتاب أصحّ من موطأ الإمام مالك، مگر جب امام بخارى ابو عبد الله محمد بن اسماعيل متوفى 256ھ نے اپنے استاذ اسحاق بن راہويہ كى خواہش پر احاديث صحيحہ مجرده كا مجموعہ جمع كيا تو الله تعالى نے اسے ايسى مقبوليت عطا فرمائى كہ مصنف كے زمانے سے آج تک اس جيسى مقبوليت كسى دوسرے مجموعۂ حديث كو نہيں حاصل ہوئى اور ہر زمانے كے علماء نے اس كى شرح لكھنے كى كوشش كى اور اس كى شروحات اس وقت سب سے زياده ہيں۔
حضرت شيخ الحديث مولانا محمد زكريا صاحب نور الله مرقده نے لامع الدرارى كے مقدمہ ميں 131 شروحات وتعليقات كا ذكركيا ہے۔ اسى طرح اتحاف القارى كے مصنف شيخ عصام الحسينى نے 375 شروحات اور تعليقات كا تذكره اپنى كتاب ميں كيا ہے۔ اس وقت تو تعداد اور بھى زياده ہوں گى۔
زير نظر كتاب المحلّى بحُليّ أسرار الموطأ شمالى ہند ميں علم حديث كو پھيلانے كا اوليت كا سہرا حاصل كرنے والے شيخ عبد الحق محدث دہلوى (ولادت: 958ھ، وفات: 1052ھ ) كے علمى خانوادے سے تعلق ركھنے والے اپنے زمانے كے زبردست عالم، معقولات ومنقولات كے ماہر شيخ سلام الله دہلوى رحمہ الله كى مايہ ناز شرح ہے، شيخ سلام الله دہلوى رام پورى نے كئى كتابيں تصنيف فرمائيں، جن ميں المحلّى بحُلي أسرار الموطأ، كمالين شرح جلالين، بخارى شريف كى فارسى شرح، شرح شمائل امام ترمذى وغيره ہيں۔ ليكن يہ كتاب اب تک منظر عام پر نہيں آسكى تھى، مخطوطات كے خزينہ ميں مدفون تھى اور عام دسترس سے باہر تھى اور اس كے مخطوطات كا علم بھى كچھ ہى لوگوں كو تھا۔
قابل صد مبارک باد ہيں مولانا مفتى محمد شاكر نثار صاحب اعظمى قاسمى مدنى استاذ حدیث ونائب مفتی مدرسہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر جنہوں نے اس كتاب كى تحقيق اور مختلف نسخوں سے مقارنہ كرنے كے بعد اس كو خوبصورت انداز ميں قارئين علم حديث اور عالم عربى واسلامى كے اساتذه وطلبہ اور محققين كى خدمت ميں يہ علمى تحفہ پيش كر رہے ہيں۔
موطأ امام مالک کی بھی بہت سی شرحیں لکھی گئیں، امام قاضی عیاض نے نوّے سے زیادہ شروحات کے بارے میں لکھا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی نور اللہ مرقدہ نے اوجز المسالک کے مقدمہ میں موطأ کی خصوصیات اور اور اس کی شروحات کا بہت مفصل انداز میں ذکر کیا ہے اور بہت سی شروحات کا نام بھی لکھا ہے۔ (ديكھئے: مقدمہ اوجز المسالك (1/113-130)۔
موطأ امام مالک کی مقبولیت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ مالکی مسلک کے علماء کے علاوہ بہت سے حنفی وشافعی مسلک کے علماء نے بھی اس کی شرح لکھی ہیں۔
موطأ امام مالک کی مختلف انداز سے شرح کی گئی ہے، غریب الحدیث، رجال موطأ، تفسیر الحدیث ان تمام کا ذکر حضرت شيخ الحديث نور الله مرقده نے مقدمہ میں کیا ہے۔ اور آخر میں یہ لکھا کہ إحصاء الجميع متعذر
اس کتاب کے مصنف شیخ سلام اللہ دہلوی جیسا کہ پہلے بیان کیا گيا کہ حضرت شيخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ (متوفى 1052ھ) کے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، آپ نے علمی ماحول میں بارہويں صدى ہجرى ميں آنکھیں کھولیں، ہر طرف علم كا چرچا تھا، آپ كا بچپن اور تحصيل علم كا ابتدائى زمانہ دہلى ميں گزرا، مگر جب دہلى كے حالات خراب ہوگئے اور ہر طرف فتنہ وفساد كى شعائيں بھڑكنے لگيں تو آپ نے نواب فيض الله خان كے زمانے ميں رام پور ہجرت فرمائى اور اس زمين كو اپنا مسكن بناليا۔ آپ کے والد شیخ الاسلام محمد رحمہ اللہ زبردست عالم تھے، انہوں نے بخاری شریف کی فارسی میں شرح لکھی اور دادا شیخ فخر الدین صاحب بھی بڑے عالم تھے انہوں نے مسلم شریف کی فارسی میں شرح لکھی۔
المحلى كى كچھ خصوصيات:
اس ضخيم اور اہم شرح كى خصوصيت كا اندازه تو كتاب كے مطالعہ كے بعد ہى كما حقہ بيان كيا جاسكتا ہے، تاہم چند خصوصيت كى طرف ضمناً اشاره كيا جا رہا ہے۔
المحلی بحُلي أسرار الموطأ بہت ہی ضخیم شرح ہے جو تقریبا پانچ ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔اب دس جلدوں ميں منظر عام پر آئى ہے۔
مصنف نے اپنے پیشرو علماء کی کتابوں سے بھر پور استفادہ کیا اور اس شرح میں تمام علوم كو سمیٹ دیا ہے۔
مصنف نے ہر ہر لفظ کی شرح فرمائی ہے۔
اس شرح میں حدیث ، فقہ اور لغت ہر اعتبار سے مصنف نے شرح کی ہے نہ بہت زیادہ اطناب ہے جس سے مقصد میں خلل ہو اور نہ بہت ہی ایجاز واختصار ہے کہ مطلب ہی سمجھ میں نہ آئے۔
مصنف نے علمی منہج کو اختیار کیا ہے اور ایسے واضح انداز میں شرح فرمائی ہے کہ ہر قاری اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔
بسا اوقات صحاح ستہ میں وارد کسی خاص لفظ كى شرح پر بھی زور دیتے ہیں تاکہ پڑھنے والا دوسری شروحات میں بھی غور وفکر کے ساتھ مطالعہ کرے۔
بسا اوقات موطأ کے مختلف نسخوں میں الفاظ حدیث میں جو اختلاف ہے اس کو بیان کرتے ہیں۔
کبھی کبھی رجال حدیث پر بھی کلام کرتے ہیں۔
اکثر حدیث میں ائمہ اربعہ کے مذاہب کو بھی بیان کرتے ہیں۔ اور اس کے لیے ہر مسلک کی فقہی کتابوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں، تاکہ جس کی طرف جو قول منسوب ہے اس کو اصل كتاب ديكھنے كے بعد تشفی حاصل ہو۔
کبھی کبھی ائمہ کرام کے دلائل بھی بیان کرتے ہیں۔
اکثر موطأ کی دیگر شروحات اور ائمہ فقہ کی کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے اقوال کو بیان کرتے ہیں۔
کبھی ان ائمہ کرام کے اقوال جو شروحات میں ہیں اس کے بیان کرنے کے بعد اپنے خاندان کے محدثین کے اقوال کو ان کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں خاص طور پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی کے قول کو نقل کرتے ہیں۔
یہ شرح اگرچہ مطبوع نہیں تھی مگر موطأ امام مالک کے بر صغیر میں متداول نسخوں پر جو حواشی ہیں وہ اکثر اسی کتاب سے لیے گئے ہیں چاہے محشی نے اس کا ماخذ نہ ذکر کیا ہو۔
اس طرح بہت سی خصوصیات کی حامل ہے اور موطأ کی دیگر تمام شروحات سے اس میں استفادہ کیا گیا ہے اور بہت سی جگہوں پر اضافہ بھی ہے۔
كچھ محقق كتاب كے بارے ميں:
اس عظيم كتاب كے محقق نوجوان عالم دين اور علم حديث اور فقہ ميں امتيازى شان كے حامل مولانا مفتى محمد شاكر نثار قاسمى مدنى زيد مجده ہيں، مفتى صاحب نے ضلع اعظم گڑھ كے ايك اہم گاؤں منجير پٹى كے ايك علمى ودينى گھرانے ميں1986ء ميں آنكھيں كھوليں۔ آپ كے والد صاحب نور الله مرقده نہايت ديندار اور متقى شخص تھے، اہل الله اور علمائے دين سے بہت محبت فرماتے تھے، انہوں نے اپنے سبھى بچوں كو علم دين سے آراستہ كيا اور ماشاء الله ان كے تين بچے دارالعلوم ديوبند سے فارغ ہوئے اور جيد مفتى ہيں، ان كى دينى تربيت كا نتيجہ ہے كہ اس وقت ان كى اولاد ميں بہت سے حافظ اور عالم ہيں، ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء
مفتى محمد شاكر نثار صاحب نے ابتدائى عربى تعليم مدرسہ دينيہ اشاعت العلوم كوٹلہ سے حاصل كى، اس كے بعد دارالعلوم ديوبند سے 2004ء/1425ھ ميں فضيلت اس كے بعد تكميل ادب كيا اور تخصص فى الحديث ميں داخلہ ليكر كبار اساتذه حديث سے فيض ياب ہوئے، اسى طرح مظاہر علوم سہارن پور داخلہ ليكر ايك سال تمرين افتاء كى مشق كى اور فقہ كى متداول كتابوں كو پڑھا۔
ان علوم ميں مہارت حاصل كرنے كے بعد مدينتہ الرسول صلى الله عليہ وسلم حاضر ہوكر جامعہ اسلاميہ مدينہ منوره مسلسل چار سال تک مختلف اساتذه سے سيرابى حاصل كى اور وہاں كى بركات سے مستفيض ہوئے۔
تعليمى مراحل مكمل كرنے كے بعد تدريس سے وابستگى كے ساتھ مختلف كتابوں پر كام كيا جو منصۂ شہود پر آچكى ہيں اور كچھ ابھى تشنہ ہيں جو تكميل كے مراحل ميں ہيں۔
زيد تبصره كتاب المحلّى بحُليّ أسرار الموطأ پر ان كا تحقيقى كام ايک اہم علمى كارنامہ ہے، جو كام اكيڈمياں كرتى ہيں انہوں نے تنہا اس كام كو پندره سال كى مدت ميں نہايت عرق ريزى كے ساتھ انجام ديا، اس دوران كن مشكلات كا سامنا ہوا، مخطوطات كے حصول ميں كون كون سے دشوار گزار مسائل سامنے آئے اور كہاں كہاں تگ ودو كرنى پڑى اس كا علم تو اس راه كے مسافر كو ہى ہوتا ہے۔
كتاب پر كام كا منہج:
محقق كتاب مفتى محمد شاكر نثار صاحب نے اس كتاب كے چھ مخطوطات كو سامنے ركھ كر اس اہم علمى كام كو انجام ديا، جس كى تفصيل كلمة المحقق ميں موجود ہے، ان مخطوطات ميں ٹونک لائبريرى، راجستھان، مكتبہ آصفيہ حيدر آباد، ، رضا لائبريرى رام پور، مكتبہ دارالعلوم ديوبند، مكتبہ جامعہ الامام محمد بن سعود رياض، مخطوطات مكتبہ ملك فيصل رياض ، اسى طرح كتب خانہ مدرسہ رياض العلوم گورينى كا مخطوطہ جو نصف اول پر مشتمل ہے، اس كے علاوه ايک اور مخطوطہ بھى سامنے تھا جو بعد ميں حاصل ہوا، مگر صاف نہیں تھا، ان مخطوطات كے ليے الگ الگ رموز استعمال كيے گئے ہيں۔
محقق كتاب نے موجوده زمانے ميں رائج تحقيق كے تمام اصولوں كى رعايت كى ہے، اس كے ساتھ اغلاط كى تصحيح اور رموز اوقاف و املاء كى رعايت وغيره پر خاص زور ديا ہے، احاديث كى تخريج اور مختلف شروحات كا حوالہ اور فقہى مسالك ميں اصل كتابوں كى طرف رجوع كا اہتمام كيا گيا ہے۔ اس كے علاوه آيات قرآنيہ كى فہرست اور بہت سے اعلام جو دوران كتاب آئے ہيں ان كا تعارف بھى كرايا ہے۔
كتاب عالم عربى اور ہندوستان كے كبار علماء كرام كے مقدمات سے آراستہ ہے، سبھى نے بلند الفاظ كے ذريعہ محقق كتاب كى كوششوں كو سراہا ہے اور ان كے اس علمى كام پر تحسينى كلمات كہے ہيں۔
كتاب پر جامعہ ازہر مصر، جامعہ اسلاميہ مدينہ منوره اور بحرين كے مشہور عالم ومحقق علامہ نظام يعقوبى عباسى اور ان كے علاوه بھى علماء كے مقدمات ہيں، ہندوستان سے بحر العلوم حضرت مولانا نعمت الله صاحب اعظمى دامت بركاتہم، مہتمم دارالعلوم ديوبند حضرت مفتى ابو القاسم صاحب نعمانى اورحضرت مولانا عبد الله صاحب معروفى كا بہت ہى علمى مقدمہ ہے۔
ناشر كتاب نے فاضل محقق كا شكريہ ان الفاظ ميں ادا كيا ہے: إنا لنقدّم الشكر الجزيل إلى المحقق محمد شاكر نثار الأعظمي الذي نفض التراب عن هذا العلق النفيس، وسعى في إخراجه، جزاه الله عنا وعن الأمة خير الجزاء.
بہر حال يہ ايك بہت بڑا علمى كارنامہ ہے جس پر مفتى محمد شاكر نثار صاحب قاسمى مدنى اہل علم كى جانب سے خصوصى شكريہ كے مستحق ہيں، الله تعالى ان كے علم ميں بركت عطا فرمائے، ان كے اس كام كو قبول فرمائے اور اس كا نفع عام وتام فرمائے۔