اسلام میں مساجد کا مقام اور اصلاحی، اجتماعی وملی مقاصد کے لیے ان کا استعمال

از: مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

مساجد کو اسلام میں ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ مساجد کی تعمیر اور اس نماز، ذکر اور تلاوت سے آباد رکھنے کی جانب سب سے زیادہ اور سب سے پہلے توجہ دی گئی ۔ سورہ آل عمران میں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا :{إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ}بے شک سب سے پہلی عبادت گا ہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکّہ میں واقع ہے۔ اس میں خیر و برکت رکھی گئی ہے. اور تمام جہان والوں کے لیے اسے مرکزِ ہدایت بنایا گیا ہے ۔ روئے زمین پر جتنی بھی مسجدیں ہیں ان میں یہ دونوں صفات لازمی طور پر ہوتی ہیں، اول یہ کہ تمام مسجدیں مبارک اور خیر وبرکت کا مرکز ہوتی ہیں اور دوسری صفت یہ کہ تمام مسجدیں رشد ہدایت کا بھی مرکز ہوتی ہیں. اس لیے کہ تمام مساجد پرتو ہیں خانہ کعبہ کے، جس سمت میں خانہ کعبہ ہے اسی سمت میں تمام مساجد کی تعمیر ہوگی اور ان کے منبر محراب اسی کی سمت میں ہوں گے ، خانہ کعبہ کی طرح اس کی ملکیت بھی اللہ تعالیٰ کی ہوگی تو وہ شرعی طور پر مسجد شمار کی جائے گی، لہٰذا جب اپنی بنیاد اور صفتوں میں تمام مسجدیں خانہ کعبہ کی پرتو ہیں تو حقیقی معنوں میں بھی ہماری مسجدوں کو رشد ہدایت اور تمام اعمال خیر کا مرکز ہونا چاہیے. مذکورہ آیت کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلُ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى، قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: أَرْبَعُونَ سَنَةً، قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ: ثُمَّ حَيْثُ أَدْرَكْتَ الصَّلَاةَ فَصَلِّ؛ فَكُلُّهَا مَسْجِدٌ. وَأَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ. حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے. وہ کہتے ہیں کہ :میں نے عرض کیا :یارسول اللہ ! کون سی مسجد جو زمین میں بنائی گئی پہلی ہے؟ آپ نے فرمایا: ” مسجد حرام۔“ میں نے پوچھا: پھر کون سی؟ فرمایا: ”مسجد اقصیٰ۔“ میں نے (پھر) پوچھا: دونوں (کی تعمیر) کے مابین کتنا زمانہ تھا؟ آپ نے فرمایا: ”چالیس برس۔ اور جہاں بھی تمہارے لیے نماز کا وقت ہو جائے، نماز پڑھ لو، بلاشبہ وہی (جگہ) مسجد ہے۔“

اس حدیث کی رو سے دونوں مسجدوں کی تعمیر میں چالیس سال کا فاصلہ ہے، علماء نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں آدم علیہ السلام کی تعمیر کا ذکر ہے۔ انہوں نے اللہ تعالٰی کے حکم سے پہلے بیت اللہ خانہ کعبہ کی تعمیر کی ، پھر چالیس سا ل بعد بیت المقدس کی تعمیر کی۔ قرآن میں جو تعمیر کعبہ اور اس کی بنیادیں اٹھانے کی نسبت ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کی طرف ہے تو اس سے سابقہ منہدم عمارت کی بنیادیں ازسرنو اٹھانا اور اس کی تعمیر کرنا مقصود ہے، اہل کتاب کے نزدیک یہ روایت مشہور ہے کہ بیت المقدس کی تعمیر حضرت یعقوب علیہ السلام نے کی ۔اس کے مطابق بات بالکل واضح ہے کہ بناءِ آدم پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور اس کے چالیس سال بعد بناءِ آدم پر حضرت یعقوب علیہ السلام نے مسجد اقصٰی کی تعمیر کی جس کی تعمیر کا اعادہ واضافہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کیا. حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں پیدا ہوچکے تھے۔اس لیے چالیس سال بعد ان کے ہاتھوں مسجد اقصیٰ کی تعمیر قرین قیاس ہے.

مساجد کی اہمیت اس امر سے بھی نمایاں ہے کہ نبی اکرم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو مدینہ پہنچنے سے قبل راستہ میں” قبا” نامی محلہ پڑتا تھا. آپ وہاں ٹھہرے اور اس محلہ میں مسجد کی تعمیر کروائی جسے قرآن کریم نے "مسجد تقوی” قرار دیا، اس عمل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ پیغام دیا کہ کہ اسلام میں مسجد کی کس قدر اہمیت ہے! ۔

اللہ نے سورہ توبہ آیت نمبر 108 میں اسی مسجد کے بارے میں فرمایا کہ روز اول سے تقوی کی بنیاد پر قائم کی گئی مسجد میں آپ قیام کے زیادہ حقدار ہیں.

لَّمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْهِ ۚ فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا ۚ وَاللّـٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ (108)

البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس کے قابل ہے کہ تو اس میں کھڑا ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں پاک رہنے کو، اور اللہ پسند کرتا ہے پاک رہنے والوں کو۔

جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے تو بالکل ابتدائی مرحلے میں ہی مسجد نبوی کی تعمیر کی جانب توجہ دے کر اپنی قیام گاہ سے قریب کے کھلیان اور دو یتیم بچوں کی زمین کو بطور قیمت خرید کر اسلام میں مسجد کی اہمیت کو ایک مرتبہ پھر

آشکارا کیا۔

مساجد کی اہمیت اور حسب تفاوت اس کی مرکزیت کو اہل ایمان کے دل و دماغ میں پیوست کرنے کے لیے گھر میں نماز پڑھنے کے بالمقابل مساجد میں نماز ادا کرنے پر زیادہ اجر ثواب کا وعدہ کیا گیا.

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کسی شخص کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا ایک نماز کا ثواب ہے ،اور اس کا محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا پچیس نمازوں کا ثواب ہے اور ا س کا جامع مسجد میں نماز پڑھنا پانچ سو نمازوں کا ثواب ہے اور اس کا مسجدِ اقصیٰ میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور اس کا میری مسجد میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور ا س کامسجدِ حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب ما جاء فی الصلاۃ فی المسجد الجامع، ۲ / ۱۷۶، الحدیث: ۱۴۱۳)

مسجد کی اہمیت کے پیش نظر ہی مسلمانوں کو پنچ وقتہ نماز مسجد میں جاکر ایک امام کی اقتداء میں باجماعت ادا کرنے کا پابند بنایا گیا اور اسے زیادہ اجر وثواب کا ذریعہ بنا یا گیا.

مسجد میں داخل ہونے پر اس کے لیے ایک الگ نماز تحیۃ المسجد ” کو مشروع کیا گیا اور رمضان میں مسجد کی اہمیت و افادیت کو مزید واضح کرنے کے لئے اخیر کے دس دنوں میں روزے اور تراویح کے ساتھ مزید عبادت و تلاوت اور شب قدر کے حصول کے لیے دس دن کا اعتکاف مسنون قرار دیا گیا۔ مسجد کو صرف نماز کے لئے ہی خاص نہیں کیا گیا بلکہ اسوۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندازہ ہوتا ہے کہ متعدد مقاصد کے لیے مسجد کا استعمال کیا جاسکتا ہے. نبی اکرم نے ہجرت کے بعد ابتدائی دنوں سے ہی مسجد نبوی میں واقع چبوترہ پر

"اصحاب صفہ” کے ساتھ درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع

کر کے اسے ایک تعلیمی مرکز بھی بنا دیا۔

اہم ترین موقعوں پر مشورہ کے لئے بھی مسجد کا انتخاب کیا گیا اور کبھی کبھی تو جنگی معاملات ، باہر سے آنے والے وفود کے استقبال اور ان کی رہنمائی اور دیگر اہم امور پر غور و خوض کے لئے بھی مسجد ہی کو منتخب کیا گیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں مسجد صرف عبادت گاہ ہی نہیں بلکہ ہر طرح کی سماجی، اصلاحی، تعلیمی اور اہم قومی وملی ضرورتوں کی تکمیل کا اہم ادارہ اور مرکز ہے ۔ اسی لیے مساجد کی تعمیر اور اس میں حصہ داری کی اسلام میں بڑی ترغیب دی گئی ہے. حضرت عثمان سے مروی ایک حدیث میں اللہ کے لیے مسجد بنانے والے کو جنت میں گھر کی بشارت دی گئی ہے :من للہ مسجدا بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ ،(بخاری)

امام ترمذی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: 《إذا رأیتم الرجل یتعاہد المساجد فاشہدوا لہ بالإیمان،فإن اللہ تعالی یقول:(إنما یعمر مساجد اللہ من آمن باللہ والیوم الآخر وأقام الصلاۃ وآتی الزکاۃ)》، (سنن الترمذی، أبواب الإیمان، باب ما جاء فی حرمۃ الصلاۃ: ٢٦١٧)۔

جس شخص کو تم مسجد کی دیکھ بھال اور نگہداشت کرتے یا مسجد میں بار بار آ تے جاتے دیکھو اس کے ایمان کی گواہی دو، کیوں کہ یہ لوگ مسجدوں کو آباد کرنے والے، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ،اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، نمازوں کے پابندی کرتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے، توقع ہے کہ یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں“ (سورۃ التوبہ: ۱۸)

انھیں بشارتوں کے مدنظر مسلمانوں میں مسجد کی تعمیر کی جانب خصوصی توجہ اور خاص بیداری بھی پائی جاتی ہے۔

لیکن اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا ہماری مساجد بھی مرکز رشد ہدایت ہیں، کیا ہم بھی اپنی مسجدیں تعلیمی، سماجی ،اصلاحی رفاہی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، اگر نہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم مسجد کے جامع تصور اور مسجد کے اعلیٰ مقاصد سے غافل ہیں. مسجد کا سب سے بڑا مقصد یقیناً پنج وقتہ نماز کی ادائیگی، تلاوت قرآن پاک اور ذکر اذکار کی ادائیگی ہے، لیکن دیگر مقاصد بھی پیش نظر رہنا چاہیے. مسجدوں کو صرف نمازوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ان عمومی ضرورتوں اور مقاصد کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے جن کے لئے نبی اکرم کے زمانے میں مسجدوں کا استعمال ہوتا تھا۔ بیک وقت ہم اسے تعلیم گاہ ،دینی اصلاحی مرکز اور ملی دینی مشورہ کی جگہ اور دیگر رفاہی و تعلیمی کام کیلئے بھی استعمال کرسکتے ہیں اور لازمی طور پر کرنا چاہیے ۔ الحمد للہ حرم مکی، حرم مدنی، مسجد قباء اور دیگر بہت سی قابلِ ذکر مساجد کے ساتھ تحفیظ القرآن کے منظم حلقے اور صحیح قرآت کے ساتھ دروس قرآن، دروس حدیث، کتب عقائد وفقه

دیگر موضوعات پر دروس کے سلسلے جاری ہیں، یہ عمل قابلِ تقلید ہے اور ضروری ہے کہ ہم اس سلسلے کو وسعت دینے کی کوشش کریں اور اس سلسلہ نہایت مثبت اور قابل تقلید امور کو اپنے علاقے کی مسجدوں میں بھی نافذ کر یں۔

حالیہ دنوں میں نکاح اور شادی بیاہ میں فضول خرچی، رسم و رواج ، جہیز، بارات اور سماج پر بوجھ بنے والی دیگر رسمیں اور اس سے پنپنے والی سماجی برائیوں سے بچنے کے لیے مسجدوں کے لیے بھی ہم مسجدوں کا استعمال کرسکتے ہیں، بلکہ کرنا چاہیے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا. اعلنوا ھذا النکاح واجعلوہ فی مساجدکم. (سنن ترمذی 1089) یعنی نکاح اعلانیہ کیا کرو اور اسے اپنی مسجدوں میں منعقد کیا کرو.

اگر مسجد میں نکاح کی مجلسیں منعقد کرنے کے اس نبوی حکم پر عمل کرلیا جائے تو امید ہے کہ شادی کی پچاس ساٹھ فی صد اسراف فضول خرچیوں اور غیر شرعی رسم رواج کا خاتمہ ہوجائے گا.

اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ مساجد کی عمومی افادیت کے ساتھ ان کے منبر محراب کی خاص الخاص اہمیت ہے، جمعہ کے خطبہ کو سننے کے لیے نہادھوکر صاف ستھرے لباس پہن کر ذہنی وفکری گندگی کو باہر چھوڑ کر جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس خطبہ میں کہی ہوئی باتیں اثر انداز ہوتی ہیں؛ اس لیے خطبہ جمعہ کو یعنی جمعہ سے قبل کے اردو خطاب کو اصلاح معاشرہ اور ذہنی وفکری تربیت اور صالح معاشرتی انقلاب اور تعلیمی بیداری کے لیے استعمال ہو یقینی بنایا جائے تو ملت اسلامیہ کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا. مناسب سمجھتے ہیں کہ اپنی اس تحریر کا اختتام سلطان القلم مفکر جلیل حضرت علامہ مناظر احسن گیلانی نوراللہ مرقدہ کے بصیرت افروز جملوں پر کریں. علامہ لکھتے ہیں:

مساجد کا اجتماعی نظام:

"محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جس امت کو چھوڑ کر دنیا سے روپوش ہوتے ہیں۔ اس کے پاس تو بحمد اللہ سب کچھ ہے، ضرور ت اس امت کیلے اگرکسی چیز کی رہ گئی ہے تو صرف اس بات کی کہ جو کچھ اس کے پاس موجود ہے اس سے استفادہ کی راہیں کھولے۔ بلا مبالغہ عرض کر رہاہوں کو لاکھوں نہیں کروڑوں بلکہ اریوں کالفظ استعمال کیا جائے تو شاید واقعہ سے بعید نہ ہوگا؛ روپے کی اتنی مقدار مسلمانوں سے حاصل کر کے کس کام میں لگانا نہیں ہے بلکہ روپے کی یہ مقدار مسلمان جیبوں سے نکال چکے ہیں خرچ کرچکے ہیں اور

اس خرچ کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں ۔

آخرمیں پوچھتا ہوں کون گن سکتا ہے۔ ان مسجدوں کو؛ ایشیا افریقہ اور یورپ کے بھی بعض دور دراز حصوں مں پھیلی ہوئی ہیں؛ کیسی مسجدیں ؟ جن میں دلی کی جامع مسجد بھی ہے اور احمد بن طولون کا جامع بھی، جامع اموی دمشق بھی اور قاہرہ کی مسجد از پر بھی۔ بڑی مسجدوں سے دیہاتوں اور قریوں کی چھوٹی سفال پوش مسجدوں تک؛ سب پر جو کچھ خرچ ہو چکا ہے. کیا یہ مبالغہ ہوگا اگر اربوں میں اس رقم کا تخمینہ کیا جائے؛ جوان مسجدوں کی تعمیر کیلے مسلمان اپنی جیبوں سے نکال چکے ہیں؛ ان مسجدوں کی گنجائش کے سوا ہر مسجد جو تقریباً اپنے ارد گرد وقفی زمین کا کا حصہ بھی رکھتی ہے جن کو خریدنے پر ہم آمادہ ہوں؛ تو کروڑوں کی رقم بھی کافی نہیں ہوسکتی. ہم ان مسجدوں کی ان ملحقہ زمین سے کام بھی لےسکتےہیں۔ اگر مساجد کی عمارت کافی نہ ہو۔

کیا کیا کام لے سکتے ہیں؟ مدارس کا کام؛ اطراف کی زمینوں میں طلبہ کی قیام گاہوں کی تعمیر کاکام. اور شفاخانہ کا کام اور باخود یا پنچایت کے اصول پر لڑائی جھگڑوں کے چکانے کیلئے دارالقضاء کا کام، مسازوں کی قیام گاہ کا کام عمارت کی خاص قسم جس کا نام المسجد ہے محمد رسول اللہ قائم کیا ہو ایک نظام ہے.

سب سے پہلی مسجد جو مدینہ منورہ میں بنائی گی، وہ پانچوں وقت کی نماز کی جگہ ھی تھی، اسی کے حصہ میں صفہ کا مدرسہ بھی تھا اسکے ملحقہ حصہ میں مسافر بھی ٹھہرائے جاتے تھے اور زخمیوں کیلئے خیمہ بھی اسی حصے میں گاڑا جاتا تھا۔ مقدمات بھی اسی عمارت میں طے ہوتے تھے. بس ہمیں جو کچھ کرنا ہے سب کانمونہ اسی پہلی مسجدمیں قائم کیا گیا تھا بلکہ عہد فاروقی میں اسی کے متصل ادب و شاعری کے چرچے کیلئے اک جگہ بھی مختص کردی گئ تھی۔ اسلامی ملک کےطول و عرض میں ہر میل دو میل پر عمارتیں بھی بن چکی ہیں. کافی اراضی ان عمارتوں کے ارد گرد حاصل کر لی گئی ہں، صرف ان ہی کا موں کو کرنے کی ضرورت ہے جو سب سے پہلی مسجد میں انجام دیئے جاتے تھے۔” (بحوالہ ہفت روزہ نقیب. پھلواری شریف پٹنہ بابت 14 ستمبر 1994)

بندہ خالد نیموی قاسمی

صدر جمعیت علماء بیگوسرائے ورکن الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین دوحہ قطر

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے