راشد شاذ اور وحدت امت کا کھوکھلا دعوی

نسیم ظفر بلیاوی

راشد شاذ Rashid Shaz صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں، کئی کتابوں کے آپ مصنف ہیں، مجھے آپ کی باتیں عموماً سطحی اور غیر معقول معلوم ہوتی ہیں، آپ اپنی ہر تحریر کے اندر مسلمانوں کی زبوں حالی اور ان کے باہمی اختلاف و انتشار کا رونا روتے ہیں اور وحدت امت کا راگ الاپتے ہیں، مگر اپنی ذکر کردہ باتوں پر شاید غور نہیں کرتے کہ میں جو فرسودہ باتیں کہہ رہا ہوں، امت مسلمہ پر اس کے کیسے منفی نتائج و اثرات مرتب ہوں گے؟ ٹھیک ہے مان لیتے ہیں امت مسلمہ کے تئیں آپ کے نیک جذبات ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ایا آپ کے جذبات پوری امت کے لیے نفع بخش ہیں یا مزید باعثِ اختلاف و انتشار؟ اور مجھے نہیں لگتا کہ آپ کی غیرتحقیقی باتوں سے سوائے مخصوص جماعت کے کسی کو نفع بھی پہنچ رہا ہوگا ۔

قابل غور بات یہ ہے کہ جس شخص یا کتاب کی عظمت و رفعت اہل علم، تمام محدثین اور جمہور علماء کے دلوں میں جاگزیں ہے، ُاسی کی عظمت آپ کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے، مثلاً "بخاری شریف” جس میں امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث ہی جمع کی ہیں اورصحیح کے انتخاب میں بڑی دقت نظری اور باریکی بینی سے کام لیا ہے، انہوں نے ایسی حدیث کا اخراج کیا ہے، جس کے تمام رواۃ کا ثقہ ہونا ناقدین کے نزدیک متفق علیہ ہے، یہی وجہ ہے لوگوں نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا ہے اورعند اللہ و عند الناس اس کو مقبولیت تامہ حاصل ہوئی ہے، اس لیے علمائے اسلام صحیح بخاری کے مجموعہ احادیث کو صحت کے اعتبار سے قرآن کے بعد دوسرا درجہ دیتے ہیں اور اس کو ا”صح الکتب بعد کتاب اللہ” کے درجے پر فائز مانتے ہیں ۔ مگر آپ کو ان چیزوں سے کوئی سروکار نہیں ہے، آپ کا مطمح نظر صرف یہ ہے کہ "بخاری شریف” ” کسی انسان کی کاوش ہے اور خدا کا ہم سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ ہم انسانی علمی کاوشوں پر آسمانی کتابوں کی طرح ایمان لے آئیں، اللہ نے امام بخاری کو "صحیح بخاری” لکھنے پر مامور نہیں کیا تھا تو پھر ہم اسے جزو دین کیوں کر قرار دیں ؟ نیز اگر یہ کتاب وحی کا اظہار ہوتی تو ان کی روایتوں میں اس قدر اختلاف نہ ہوتا، اس لیے "صحیح بخاری” کے ثقہ کا مکمل دعوی نہیں کیا جا سکتا” راشد شاذ صاحب میرا آپ سے سوال ہے چوں کہ آپ کے نزدیک انسانی کاوشیں معتبر نہیں اس معنی کر کہ اللہ نے انسانوں کو اس کے لیے مامور و منتخب نہیں کیا، پھر آپ کے نزدیک کون سا احادیث کا ذخیرہ (کتاب) معتبر ہے ؟ اور اللہ نے کس کو احادیث کی تجمیع و تدوین کے لیے خاص طور پر مامور کیا ہے ؟ جب آپ انسانی کاوش کو مانتے ہی نہیں تو آپ دیگر کتب احادیث کو بھی نہیں مانتے ہوں گے بریں وہ بھی انسانی ہی کاوشیں ہیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست حدیث کا حصول بالکل محال اور خلاف از عقل ہے ان سب سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ دبے لفظوں انکار حدیث کی راہ ہموار کررہے ہیں ۔

اور بقول آپ کے بخاری کو نہ ماننے کا اصرار صرف محدثین اور راویوں کے سلسلے میں اختلاف ہے، تو پھر کون سی ایسی کتابیں ہیں، جن میں بالکل اختلاف نہیں پایا جاتا ؟ بزبان دیگر جس کتاب میں اختلاف ہوگا اس کو ترک کر دیا جائے گا ، نیز آپ نے ایک حدیث لکھی ہے کہ "لا تکتبوا عنی غیر القرآن” یعنی مجھ سے سوائے قرآن کے کچھ نہ لکھو۔ آپ نے اس حدیث سے کیا مفہوم اخذ کیا ہے ؟ چوں کہ آپ مکمل کلام سے گریز کرتے ہیں، آدھی اھوری اورغیر تحقیقی بات کرتے ہیں، اس لیے اس کی وضاحت درکار ہے ؟ آپ کے دو، تین صفحہ کے اس اقتباس میں ہمیں اتنی غیرمعقول، اور غیرتحقیق شدہ باتیں ملیں، (جن کے جوابات تفصیل طلب ہیں) تو پوری کتاب میں آپ نے نہ جانے کیا کیا گل کھلائے ہوں گے، بہرکیف ممکن ہو تو آپ احقر کے مذکورہ چند سوالات کے جوابات عنایت فرما کر ہماری کم فہمی کو ضرور دور فرمائیے گا ۔

ہم بس اتنا باور کرانا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں باہمی اختلاف و افتراق کا رونا رونا اور وحدت امت کا نعرہ بلند کرکے لوگوں کو بےقوف بنانا بند کیجیے، پہلے آپ اپنے نقطۂ نظر کو درست کر لیجیے، کیوں کہ جس مسئلے پر تمام علماء اسلام اور محدثین کا اتفاق ہے، اس سے رو گردانی کرنا اور اس کی بےجا تاویل کرنا، اختلاف و انتشار کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے اورصحیح بخاری (جس کی احادیث کڑی چانچ پڑتال کے بعد ہی معیار صحت پر پوری اتریں ہیں) کو محض انسانی کاوش کی وجہ سے ناقابل تسلیم اور قابل ترک قرار دینا دراصل یہ حدیث دشمنی اور احادیث کی اہمیت کا انکار ہے اور امام بخاری سے بغض و کینہ کا مظہر ہے، آپ چاہے اس کی جو تاویل کرلیں مگر میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اصل چیز روایت کی استنادی حیثیت ہے اور وہ الحمدللہ مسلّم ہے، اب چاہے کوئی حدیث کی حجیت کو مشکوک بنانے، راویان حدیث کو ہدف طعن بنانے اور محدثین بالخصوص "امام بخاری” کی جمع کردہ روایات میں خردگیری کرنے والے اس کو مانیں یا مانیں، اہل اسلام اور علماء اسلام کا ماننا کافی ہے اور انہی کی رائے کا اعتبار ہے، باقی تو من شذّ شُذ….. کا مصداق ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا وہ تبصرہ آپ بھی ملاحظہ فرما لیں، جو انہوں نے امام بخاری کی عظمت اور شان گھٹانے والوں کے بارے میں لکھا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے :

"صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی بابت محدثین کا اتفاق ہے کہ ان میں جتنی بھی مرفوع متصل احادیث ہیں، وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور وہ اپنے مصنفین تک متواتر ہیں نیز یہ کہ جو شخص بھی ان دونوں (مجموعہ ہائے حدیث) کی شان گھٹاتا ہے، وہ بدعتی ہے اور مومنوں کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کا پیروکار ہے” (حجۃ اللہ البالغہ:134)

بتاریخ: ۵/۱/۲۰۲۴

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے