بقلم #محمد_توصیف_قاسمی

مسئلہ کفو اور پس منظر کا نکتہ آغاز یہ ہے کہ عوام تو عوام، خواص و علماء بھی کفو اور اونچ نیچ میں خلط ملط کردیتے ہیں۔

یہی بدفہمی جماعت اسلامی کے لوگوں کو ہے ، جس کے سبب وہ اس عنوان پر عوام کو اکابر خصوصا اکابر دیوبند سے بدظن کرتے ہیں، کئی کتابوں کو ان کی سرسری دیکھا ہے۔

کفو اسلام کا بے لاگ مسئلہ ہے ۔

مگر اسے اونچ کا سبب سمجھنا یا بنانا دونوں برا ہے ، سمجھنے کا کام عوام نے کیا ، بنانے کا کام چند نا فہم یا نام نہاد مولویوں نے۔

محدث کبیر علامہ حبیب الرحمن اعظمی رح کی کتاب پر نظر پڑی تو تو یہ دیکھ کر ضرور احساس ہوا کہ ہمارے بعض علماء اس مسئلہ میں کہیں کہیں لفظی بے احتیاطی ہے اور کفو کے مسئلہ کچھ بظاہر اصول کسے عدول ہوا ہے۔

مگر یہ کہنا کہ اکابر مستند نہیں، وہ خود ملوث ہیں، بری دلیری اور زعم ہے۔

اس لئے بغیر کسی کی سرپرستی میں اس مسئلہ میں جانے سے رک گیا ، شاید یاد ہو کہ میں یہاں (مرکز البحوث ) بھی استفسار کیا تھا ، جواب نہیں ملا ،پھر میں بھی دوسرے کاموں میں لگ گیا۔

کفو اور اونچ نیچ میں خلط مبحث آج کے مودودیوں، جماعت اسلامی والوں نے خوب کیا ہے، فقہاء نے کفو کو بیان کیا ہے، مودودیوں کی بدفہمی و بدزبانی کی زد میں وہ سب آتے ہیں۔

اس سلسلے میں ان کی تحریروں کو آنکھ کے ساتھ ذہن کو کھول کر پڑھنے کی ضرورت ہے، ورنہ تو گریز بہتر ہے۔

حضرت مولانا عتیق بستوی صاحب دامت برکاتہم سے بارہا یہ قصہ سنا ہے کہ ایک محفل جس میں دنیوی تعلیم یافتہ اور ماہرین زیادہ تھے اور سب کفو کے مسئلہ کو برادری کی طرح مان کر اس کے خلاف متفق تھے ، اور ان کی نظریں سائلانہ فقیہ اسلام قاضی مجاہد الاسلام نور اللہ مرقدہ پر ٹکی ہوئی تھیں۔

حضرت قاضی صاحب نے مختصر تمہید کے بعد ان سے کہا کہ آپ حضرات نے کفو کو سمجھا نہیں، ہم لوگ کپڑے خریدتے ہیں، اس میں "میچنگ و یگانگت ” کا خوب خیال کرتے ہیں، اتنا کہ میچنگ ملانے کے لئے دسیوں دکانوں کے چکر کاٹتے ہیں کہ بے جوڑ کپڑا پہننا معیوب سمجھا جاتا ہے، میچ نہ ملے تو اس کا سلانا بھی موقوف ہوجاتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے زوجین کو لباس سے تشبیہ دی ہے:

هُنَّ لِبَاسࣱ لَّكُمۡ وَأَنتُمۡ لِبَاسࣱ لَّهُنَّ.

کفو بس اسی لباس کی میچنگ اور یکسانیت کا نام ہے، کفو کی تلاش جوڑ اور ہم مزاجی کے لئے ہے، جو نہایت معقول ہے ، بس اسی کا نام کفو ہے۔اھ

آج کے عہد میں بھی یہ میچنگ ہوتی ہے ، لیکن نہایت خطرناک اور حیاء سوز طریقوں سے ، اسلام میں فطری طریقوں سے کفو اور میچنگ کی حدود بتائے جسے فقہاء نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، اپنی طرف سے اونچ نیچ کے قواعد نہیں گھڑے۔

ہندوستان دوسری اقوام کے سبب چھوا چھو۔ت کا مرکز رہا ، یہاں اسلام پھیلا تو مگر تہذیبی غبار سے آج تک دامن اٹا پڑا ہے، صرف یہاں ہی ایسا نہیں، عرب کے سوا تقریبا ہر جگہ خارجی تہذیبوں کے اثرات کسی نہ کسی طرح مسلمانوں پر پڑے ہیں، ضرورت اس دھول کو جھاڑنے کی ہے، دامن چاک کرنے کی نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ایک مولوی صاحب کی پوسٹ پر تبصرہ )

اسلام میں انچ نیچ اور اچھوتیت نہیں، مگر نسل اور خاندان کو ایک حقیقت مانا گیا ہے، یقینا اس سلسلہ میں عملی و فکری طور پر عوام سے خواص تک میں بڑی بے احتیاطی آج کے وقت پائی جاتی ہے، جس سے نمٹنے کے ذمہ داری علماء کی ہی ہے ۔

مگر آپ کی اس سلسلہ کی تحریروں میں سخت بے اعتدالی اور خلاف شرع حد تک تصور اور تشدد دیکھتا ہوں، آپ کو اس سلسلہ کو سر دست روک کر اکابر اہل تحقیق سے رہنمائی حاصل کرنا چاہئے ، اسلامی خطوط و حدود کو سمجھے بغیر آپ اس عنوان پر لکھ اور بول رہے ہیں جو آپ اور سب کے لئے خطرناک ہے۔

مثلا آپ نے لفظ سید و سادات کو ہی مورد طعن قرار دیا ہے، یعنی اس کے واضعین شرع ؛ علماء و فقہاء اور اہل اسلام سب کے سب کو خبیث جیسی بدترین گالی دی ہے۔

فیسبک پر ایک تبصرہ میں آپ نے تقسیم نسل اور قبیلہ کو "بے حکمت” بتایا ہے، جو باری تعالی پر الزام اور قرآن پاک کی آیت : "و جعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا” کی معنویت کا انکار ہے ، اللہ تعالی کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں، اور آپ بے دغدغہ کہہ دیتے ہیں کہ مجھے اس میں حکمت نظر نہیں آتی؟

آپ ہیں کون ؟

اپنی حیثیت و سطح کو سمجھے بغیر کام کرنا سخت نتائج کا اندیشہ ہے۔

ایسا نہیں کہ یہ موضوع کام کا نہیں، بندہ کے نزدیک مستقبل میں اس مسئلہ میں مسلمانوں کے لئے سخت ابتلاء نظر آتی ہے، ابھی تو معاملات و معاشرات تک مسئلہ ہے، مگر آئندہ ملی و ملکی سیاست میں اس کے استعمال کا خدشہ ہے۔

مگر ظاہر ہے کہ زہر کو زہر سے مارنے کا فارمولا اسلامی نہیں، افراط کی تفریط یا تفریط کی افراط سے اصلاح نہیں ہوسکتی ۔ واللہ ولی التوفیق

Source: Facebook

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے