تذکرہ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ: تاریخ وفات 31/12/1952
دل کو روئوں کہ یا جگر کو میرؔ
میری دونوں سے آشنائی ہے
آج سے بائیس تیئس سال پہلے حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے واقفیت اس ماحول میں ہوئی جو مدرسہ امینیہ دہلی میں حضرت مفتی صاحب اور حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیری کے نفوس قدسیہ سے قائم تھا، جاننے والے جانتے ہیں کہ اپنے وقت کے ان دو بے مثال عالموں میں گہرے، مخلصانہ اور بے تکلفانہ تعلقات قائم تھے جو اس وقت کی سردی اور گرمی کے باوجود ایک رفتار پر قائم رہے. ہر دو بزرگوں کے ان تعلقات کی بنیاد یہ تھی کہ دونوں سیدنا حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد اور ازہر ہند دارالعلوم کے فاضل تھے، دونوں مذہبی اور سیاسی عقائد میں فکرو مذاق کی یکسانیت رکھتے تھے، دونوں جمعیۃ علماء کے صف اول کے رہنما تھے،دونوںعلم و فضل کے بحر بے کراں کے شناور تھے اور دونوں ایک دوسرے کی علمی و عملی صلاحیتوں اور کمالات کے مرتبہ شناس تھے.
حضرت علامہ انور شاہ کاشمیری نے اگر ’’عالم الدین و الدنیا‘‘ کہہ کر مفتی صاحب کو خراج تحسین ادا کیا اور مختلف مواقع پر ان کے متعلق مدح و تعریف کے وہ کلمات کہے جو اپنے معاصرین میں سے کسی شخص کے متعلق ان کی زبان پر نہیں آئے تو حضرت مفتی صاحب نے بھی حضرت شاہ صاحب کی رفاقت و دوستی کا حق ادا کیا، ہمیشہ ان کے احترام میں اپنی آنکھیں بچھائیں، ہمیشہ ذاتی معاملات میں انہیں خیرخواہانہ مشوروں سے مستفید فرمایا. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت شاہ صاحب کی وفات پر حضرت مفتی صاحب مرحوم نے سہ روزہ ’’الجمعیۃ‘‘ میں خود اپنے قلم سے تعزیتی اداریہ سپرد قلم فرمایا تھا اور اس حادثۂ عظیم پر اپنے دلی تاثرات کا اظہار کچھ ایسے وزنی اور وقیع الفاظ میں فرمایا تھا کہ آج تک میں اپنے قلب و دماغ میں ان کا اثر محسوس کرتا ہوں.
آج سے پچاس سال پہلے (دارالعلوم دیوبند کے انعامی جلسہ منعقدہ ۱۳۲۸ھ سے پہلے) کی بات ہے، دارالعلوم سے چند نوعمر فاضل نکلے، مولوی امین الدین صاحب، مولوی محمد کفایت اللہ صاحب شاہ جہاں پوری، مولوی محمد قاسم صاحب دیوبندی اور محمد ضیاء الحق صاحب۔ ابتداءً ان حضرات نے مختلف مقامات پر کام کیا، پھر اس ارادہ سے دہلی میں جمع ہوگئے کہ یہاں ایک مدرسہ قائم کریں گے اور فکرو و نظر کی آزادی کے ساتھ دینی اور علمی خدمت انجام دیں گے.
سنہری مسجد دہلی میں ’’مدرسہ امینیہ‘‘ کے نام سے انہوں نے چھوٹا سا مدرسہ قائم کیا، مولوی امین الدین صاحب اس مدرسہ کے مہتمم قرار پائے، مولوی محمد قاسم صاحب اور مولوی ضیاء الحق صاحب مدرس اورمولوی محمد کفایت اللہ صاحب صدر مدرس ،دہلی میں اس وقت فتح پوری مسجد کا مدرسہ بھی قائم تھا، امینیہ کے قیام کے بعد فتح پوری مسجد کے مدرسہ میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم، مولانا عبدالسمیع صاحب دیوبندی مرحوم اورمولانا محمد ابراہیم صاحب بلیاوی مدرس بن کر آگئے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا عبدالسمیع صاحب رحلت فرما چکے ہیں۔ اس قافلہ کے صرف ایک مسافر مولانا محمد ابراہیم صاحب بلیاوی دیوبند میں موجود ہیں۔ انہوں نے ہی حضرت مفتی صاحب کے انتقال کے بعد ہمیں سنایا کہ سنہری مسجد میں مفتی صاحب کس طرح در س دیتے تھے، مولوی امین الدین صاحب مدرسہ کا اہتمام و انتظام کس طرح کرتے تھے اور بے مائیگی اور بے سروسامانی کے باوجود یہ حضرات کس طرح اپنے مقصد پر اکٹھے رہے، انہوں نے کتنی تکلیفیں جھیلیں مگر نہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے اور نہ اپنے مدرسہ کو خالص دینی مسلک اور سادہ و صاف زندگی کی راہ سے ہٹایا.
امینیہ کے قیام کے کچھ عرصہ بعد حضرت مفتی صاحب مرحوم نے حضرت مولانا انور شاہ صاحب کو بھی اپنے پاس بلایا جو دارالعلوم سے فراغت اور سفر حجاز کے بعد قصبہ بارہ مولہ (کشمیر) میں مدرسہ ’’فیض عام‘‘ کے نام سے خود اپنا ایک مدرسہ قائم کرچکے تھے اور کامیابی کے ساتھ درس و افتاء اور وعظ و تقریر کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ امینیہ کے پاس اس وقت نہ کوئی عمارت تھی اور نہ چندہ، دفتر تھا اور نہ کتب خانہ، مطبخ تھا اور نہ دارالاقامہ، مگر یہ چند نوخیز علماء جنہیں مستقبل میں رازی و غزالی اور ابن دقیق العید، ابن حجر و ابن ہمام کی حیثیت اختیار کرنی تھی، روکھی سوکھی روٹیوں پر سنہری مسجد میں جمع رہے، دس اور پندرہ روپئے ماہوار سے زائد کسی مدرس کی تنخواہ نہیں تھی اور یہ معمولی سی تنخواہ بھی قلت آمدنی کے باعث کئی کئی ماہ تک نہیں ملتی تھی۔ آج کے دور میں جب امیرانہ شان و شوکت اور بنگلہ، موٹر، فرنیچر، ریڈیو اور ٹیلی فون کے ساتھ چند تقریریں کرنے اور چند بیانات شائع کرنے کو بہت بڑا ایثار اور بہت بڑی قومی اور ملکی خدمت کہا جاتا ہے، چالیس پچاس سال پہلے کے اس تصور کو کون سمجھ سکتا ہے کہ چند نوجوان جن کی جبینوں میں مستقبل کی عظمت و کامیابی اور عظیم الشان شخصیت کا نور جھلک رہا تھا، روٹیوں سے محتاج، لباس سے محروم اور ضروریات زندگی کی فراہمی سے مجبور مطلق، بے مائیگی اور تہی دستی کے ساتھ سنہری مسجد میںجمع تھے اور دینی علوم کی خدمت کے لئے اپنے دن رات ایک کر رہے تھے.
مظفرنگر میں حکیم فتح محمد خاں صاحب، حضرت شاہ صاحب کی اس زندگی کے ایک شاگرد اب تک موجود ہیں، علاج کے سلسلے میں کئی دفعہ حکیم صاحب کے پاس جانے کااتفاق ہوا اور اس دور کے کچھ حالات سے بھی سنے، حکیم صاحب کی یہ بات مجھے نہیں بھولتی کہ ’’اس وقت ادب عربی اور فنون میں ڈپٹی نذیر احمد صاحب کی قابلیت مسلم تھی اور دہلی میں ان ہی کا ڈنکا بجتا تھا، میں شرح چغمنی پڑھنے کے ارادہ سے ان کی خدمت میں حاضر ہوا، مگر انہوں نے پیرانہ سالی کی وجہ سے اس محنت سے معذوری ظاہر کی۔ حکیم صاحب کہتے تھے کہ پھر میں سنہری مسجد میں شاہ صاحب کے پاس گیا اور یہ کتاب ان ہی سے پڑھی”.
حضرت شاہ صاحب چند سال امینیہ میں رہے، پھر اپنے استاد حضرت شیخ الہندؒ کے ارشاد اور مولانا حافظ محمد احمد صاحب اور مولانا حبیب الرحمن عثمانی کی تجویز پر دارالعلوم میں تشریف لائے مگر مفتی صاحب سے آخری دم تک بہترین تعلقات قائم رہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ اپنی وفات سے ۸؍سال پہلے دارالعلوم سے جدا ہو کر جامعہ اسلامیہ ڈابھیل تشریف لے گئے تھے۔ اس ہجرت میں مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی، مولانا شبیر احمد صاحب، مولانا محمد حفظ الرحمن صاحب حضرت شاہ صاحب کے ہم قدم تھے. ڈابھیل آتے جاتے ہوئے حضرت شاہ صاحب ایک دو روز امینیہ میں مفتی صاحب کے پاس ضرور قیام فرماتے تھے۔ یہ بات آج سے بیس بائیس سال پہلے کی ہے مگر تصور کی نگاہ اس منظر کو اب بھی دیکھ رہی ہے کہ صبح دس بجے حضرت شاہ صاحب کشمیری دروازہ میں امینیہ کی عمارت کے سامنے تانگہ سے اترے اور بڑی بے تکلفی کے ساتھ مدرسہ کے مہمان خانہ میں تشریف لے گئے۔ حضرت شاہ صاحب کے ساتھ ۸؍۱۰؍سال کی عمر کا ایک بچہ بھی تھا، مدرسہ کی بالائی منزل پر اپنے ایک کمرہ میں کتابوں اور کاغذوں کے ڈھیر میں عینک لگائے،ایک صاحب کو بیٹھے دیکھا، قریب پہنچا تو یاد آیا کہ ابھی ایک دو سال پہلے انجمن خدام الدین لاہور کے جلسہ میں ان صاحب نے تقریر بھی کی تھی، ان صاحب سے کسی نے کہا اور انہیں خاص طور پر خبر دی کہ حضرت شاہ صاحب تشریف لائے ہیں۔ بڑے شوق و محبت کے ساتھ یہ صاحب اٹھے اور مہمان خانہ میں آکر شاہ صاحب سے برادرانہ بے تکلفی مگر کمال متانت و سنجیدگی کے ساتھ ملے، دوپہر کا کھانا مفتی صاحب کے لئے گھر سے آتا تھا، مگر شاہ صاحب کی مہمان داری امینیہ میں ہوتی تھی اور مہمان خانہ ہی میں کوئی صاحب کھانا تیار کرتے اور دونوں دوست جمع ہو کر کھانا کھاتے.
شاہ صاحب کو اپنے ذاتی معاملات میں مفتی صاحب کی رائے پر اعتماد کامل تھا، اپنے گھر کی ضروری باتیں بھی مفتی صاحب سے فرماتے اور ان سے مشورہ لیتے. کسی موقع پر شاہ صاحب کی اہل خانہ نے اپنی بچیوں کے لئے کچھ زیور اور کپڑے مہیا کرنے کی فرمائش کی، اچھی طرح یاد ہے کہ دہلی پہنچ کر حضرت شاہ صاحب نے مفتی صاحب سے اس کا ذکر فرمایا اور ان کا دانش مندانہ مشورہ حاصل کیا.
دیوبند میں حضرت مفتی صاحب ایک دفعہ حضرت شاہ صاحب کے گھر پر تشریف فرما تھے، مکان سے متصل شاہ صاحب کی ایک افتادہ زمین تھی وہاں لے جاکر مفتی صاحب سے پوچھا کہ حضرت یہاں ایک چھوٹا سا مکان مہمانوں کے لئے بنانے کا ارادہ ہے۔ مفتی صاحب نے انکار فرمایا اور شاہ صاحب نے پھر کبھی اس ارادہ کا اعادہ نہیں کیا، ان واقعات سے دونوں کے باہمی تعلقات کی پختگی کا اندازہ کیجئے.
میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ حضرت شاہ صاحب آخر زندگی میں بعض انتظامی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے دارالعلوم سے الگ ہو کر ڈابھیل تشریف لے گئے تھے، جن مسائل میں انہیں ذمہ داران دارالعلوم سے اختلاف تھا ان میں ایک یہ بھی تھا کہ دارالعلوم کی مجلس شوریٰ میں کار گذار ارکان جمع کئے جائیں۔ حضرت شاہ صاحب نے حضرت مفتی صاحب، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی مدظلہٗ اور حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی کو ممبری میں لینے کا واضح الفاظ میں مطالبہ فرمایا تھا، حضرت مفتی صاحب اپنے اعتدال فکر، سنجیدگی و متانت، حق گوئی اور مختلف الخیال افراد کو باہم جمع کرلینے کی صلاحیت میںمشہور ہیں، ان کی ان صفات کا بڑا اچھا مظاہرہ دارالعلوم دیوبند کے اس زمانۂ اختلاف میں ہوا، جس کا میں ذکر کر رہا ہوں، ایک طرف حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحب اور مولانا حبیب الرحمن عثمانی سے بھی ان کے تعلقات تھے اور دوسری طرف حضرت شاہ صاحب اور ان کی جماعت کے بھی وہ معتمد تھے، اختلافات کے اس زمانہ میں کئی بار دیوبند تشریف لائے، معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی اور کئی دفعہ بڑے ہولناک فتنوں کو اپنے تدبر و تفکر سے پیچھے ہٹا دیا. مگر معاملات میں جانبداری کی بو کبھی پیدا نہیں ہوئی، خالص تعمیری نقطۂ نظر سے دارالعلوم کے مفاد کی حفاظت فرمائی، شخصیات سے کبھی اپنا دامن آلودہ نہیں ہونے دیا اور پھر دو مخالف جماعتوں سے اس طرح نباہ کی کہ حق گوئی کے باوجود دونوں کی نگاہ میں معزز و مکرم رہے، دنیاوی معاملات کا تجربہ رکھنے والے حضرات سمجھ سکتے ہیں کہ دو فریقوں کے درمیان حق گوئی کے ساتھ اپنی آزادانہ اور غیرجانبدارانہ رائے کو محفوظ رکھنا اور پھر دونوں کی نگاہ میں مقبول رہنا کتنا مشکل کام ہے.
مجھے یاد نہیں کہ ملتان کی اسارت کے وقت کا واقعہ ہے یا گجرات کا بہرحال حضرت مفتی صاحب نے تحریک کشمیر کے سلسلہ میں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی امداد کے لئے رنگون سے آئی ہوئی ایک امدادی رقم ان کے پاس جو کئی ہزار پر مشتمل تھی، جیل خانے سے پہلے حضرت مفتی صاحب نے اپنے صاحبزادہ مولانا حفیظ الرحمن واصف کو دے کر تاکید فرمائی کہ یہ رقم حضرت شاہ صاحب کے پاس منتقل کردی جائے، وہ اس کے مصرف میں اسے خرچ کریں گے اور آصف صاحب نے حکومت کی قید و بند سے بچ بچا کر آہستہ آہستہ یہ رقم حضرت شاہ صاحب کو بھیج دی.
یہ واقعہ بہت پرانا ہے مگر بعض واقعات حافظہ میں اپنا اتنا گہر ااثر چھوڑ جاتے ہیں کہ ماہ و سال کی گردشیں ان کی تروتازگی کو فنا نہیں کرسکتیں۔ دیوبند میں ملتان سے کھلا ہوا حضرت مفتی صاحب کا ایک کارڈ آیا کہ میں کل شام جیل سے رہا کردیا گیا ہوں اور دہلی روانہ ہو رہا ہوں، پرسوں صبح دہلی پہنچوں گا.
یہ سطریں حضرت شاہ صاحب کے لئے ایک پیغام مسرت ثابت ہوئیں، وسیع علمی مشاغل اور بے حد سنجیدگی و وقار کے باوجود مسکراہٹ ان کے چہرے پر کھل گئی. تیسرے دن دہلی تشریف لے گئے اور امینیہ کے دروازہ پر علم و فضل کے یہ دوسرمایہ دار پرتپاک طریقہ پر ایک دوسرے سے ملے.
دنیا کی بے ثباتی اور فنا پذیر طریقہ رفتار اور ان دردناک سانحات کی کثرت نے آنکھوں سے آنسو بھی خشک کردئیے ہیں. کہنا چاہئے کہ دل بالکل مرگیا ہے، حوصلہ اور شوق ختم ہوگیا ہے، اب نہ جینے کی آرزو ہے اور نہ اسباب زندگی جمع کرنے کا شوق۔ بزرگوں کے زیر سایہ زندگی کی آنکھ کھولی اور جوانی کا قدم اٹھایا تھا، جن کے دامن علم و فضل پر ہمارے بچپن نے شوخیوں کی اجازت پائی تھی اور جن کے تفریحی کلمات، حوصلہ افزا اور محبت آمیز لفظوں سے ہم بے شعوروں، ناسمجھوں اور نامرادوں نے کام کرنے کے ولولے حاصل کئے تھے، آج ان میں سے کتنے نکہت گل کی طرح فضائِ چمن میں بکھر کر رہ گئے ہیں، کتنے شہاب ثاقب کی طرح آسمان سے نیچے گر کر ٹوٹ گئے ہیں، کتنے شمعِ سحر بن کر بجھ گئے ہیں، کتنے آفتاب سرکوہ کی طرح ڈوب گئے ہیں، اپنا سب کچھ لٹ جانے کے بعد بھی اگر انسان اپنے دل کو زخمی اور مجروح نہ پائے تو اور کیا ہو؟
سچ کہا ہے حفیظ جالندھری نے کہ:
احباب ہی نہیں ہیں تو کیا زندگی حفیظؔ!
دنیا چلی گئی مری دنیا لئے ہوئے
آج دلِ غمزدہ اپنے بزرگوں کے مزارات پر ہجر و فراق کے آنسو بہارہا ہے، نگاہیں ایثار و تقویٰ کے ان بلند میناروں کو ڈھونڈتی ہیں جن کی بدولت اس آتش زار حیات میں سایہ تھا، چھائوں تھی، خنکی تھی اور راحت تھی۔ اِدھر حضرت مولانا انور شاہ کا علم و فضل یاد آتا ہے، اُدھر مولانا شبیر احمد عثمانی کی رعد آسا آواز کانوں میں گونجتی ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مفتی صاحب اب تک ہمارے درمیان ہی موجود ہیں.
دارالعلوم کے جلسۂ شوریٰ میں اب پھر کسی قریبی تاریخ میں وہ مولانا حفظ الرحمن اور مولانا مفتی عتیق الرحمن کے ساتھ ان کی کار میں تشریف لائیں گے، کار دارالعلوم کے احاطہ میں آکر رُکے گی اور مفتی صاحب اپنے پروقار انداز میں لمبے لمبے قدم زمین پر رکھتے ہوئے میرے دفتر کے سامنے سے گذر کر دارالمشورہ میں تشریف لے جائیں گے۔
ہائے! موت کے سخت گیر ہاتھ نے ہم سے بہت بڑی دولت چھین لی، ایک ایسا شخص ہم سے جدا ہوگیا جس نے معمولی سی چٹائی پر بیٹھ کر دین و شریعت کے مسائل سلجھائے، حکمت و سیاست کی گرہیں کھول دیں، معاملات کی پیچیدگیوں کو سلجھا دیا، جو خاموش رہ کر صرف اپنے شخصی اثر اور ذاتی وجاہت سے مسائل کو ان کی اصل ضرورت کے معیار پر حل کرالیتا تھا، حق تعالیٰ ان سے راضی ہو کہ انہوں نے اللہ کے دین کے لئے بڑی محنت کی.
بذریعہ: علم وکتاب واٹس گروپ