"جامعہ عثمانیہ اور حیدر آباد کے قیام نے مولانا (مناظر احسن گیلانی رح) کے اندر ایک تبدیلی اور پیدا کر دی تھی، یا یوں کہیے کہ ان کے اندر کی ایک دبی صلاحیت کو ابھار دیا تھا۔ وہ یہ کہ نئے تعلیم یافتہ طبقہ کے بہت سے افراد کے مشاہدہ و تجربہ نے ان کو اس نتیجہ پر پہنچا دیا تھا کہ صرف ظاہر شکل و صورت پر کسی شخص کے قبح باطن یا اس کے بے دین ہونے کا فیصلہ نہ کیا جائے۔ نیز یہ کہ اس کے قلب و اندرون کی اسلامیت کی قدر کرتے ہوئے اس کے ظاہر کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اس طرزِ فکر اور اس طرزِ عمل کے بغیر کوئی شخص جدید حلقہ میں کوئی اصلاحی و دینی خدمت انجام نہیں دے سکتا۔ یہ راقمِ حروف ( یعنی مولانا ابو الحسن علی ندوی رح ) جب 56ء میں دمشق گیا تو وہاں اس نے مسلمان نوجوانوں اور خاص طور پر جماعت اخوان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں یہی دو متضاد پہلو پائے۔ ایک طرف ان کی ظاہری شکل وصورت ہم جیسے مدرسی اشخاص کے لیے انقباض و اعتراض کا موجب تھی۔ دوسری طرف ان کی ایمانی کیفیات ، ان کا جذبۂ اسلامی ، ان کی حمیتِ دینی ، ذوقِ جہاد، نمازوں کی پابندی، عرب قوم پرستی سے بیزاری اور رشتہ اسلامی پر کامل یقین ، الحاد اور اہلِ الحاد سے عداوت موجبِ مسرت و انبساط تھی اور بالآخر یہ دوسرا تاثر پہلے تاثر پر غالب آ جاتا ۔ میں نے مولانا (مناظر احسن گیلانی رح ) کی خدمت میں دمشق سے جو پہلا خط لکھا اس میں اپنی اس ذہنی کشمکش اور تاثر کا اظہار تھا۔ مولانا نے اس کا جو جواب دیا، وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
"بڑی مسرت اس بات سے بھی ہوئی کہ مسلمانوں کی نئی پود کے متعلق آپ پہلے آدمی ہیں جن کے قلم سے میری آنکھوں نے وہی لکھا ہوا پایا جس کا برسوں سے انتظار کرتا رہا۔ ممکن ہے کہ یہی نقطۂ نظر دوسرے ارباب فکر و بصیرت کا بھی ہو، لیکن جن جچے تلے الفاظ میں اپنے احساسات کا اس سلسلہ میں آپ نے اظہار خیال فرمایا ہے، خاکسار تو نکتیہ چینیوں سے اتنی جرات بھی نہیں کر سکتا۔ قالب و قلب میں اختلاف کی یہ صورت جب پیش آ جاتی ہے تو قلب ہی پر زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرے خیال میں تو قالب و قلب یا ظاہر و باطن کے اختلاف کی یہ شکل اسلامی تاریخ میں نئی نہیں ہے۔ آغاز تو عہدِ صحابہ ہی میں معلوم ہوتا ہے کہ ہو چکا تھا۔ عمامہ پر "پر عقاب” لگا کر مدینہ میں داخل ہونے کا واقعہ کیا آج کا ہے؟ اور "پر عقاب” ہی کیا، خز کے استعمال کی کثرت کے ساتھ ساتھ خود مدینہ منورہ کے باشندوں میں ، تابعین و تبع تابعین ہی کے عہد سے جو تبدیلیاں لباس میں، وضع قطع میں رہنے سہنے کے طریقوں میں مسلسل ہوتی ہیں، تاریخ ان کی شہادتوں سے معمور ہے، لیکن قلب اگر درست ہے تو قالب کی ان تبدیلیوں کو اکابر برداشت ہی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اخوان شام کے دینی جوش وخروش، اخلاص و صداقت، النصح لله ولرسوله وللمؤمنين (اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان کے لیے خیر خواہی ) کی جن قلبی خصوصیات کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، اس کو جانتے ہوئے صرف قالب کے مطالبات میں ان کی کوتاہیاں اپنا خیال تو یہی ہے کہ درگزر کے قابل نہ بھی ہوں ، لیکن قولِ لین کا مستحق ضرور بنا دیتی ہیں۔ ہمارے علما اگر ٖفظاظت و غلظت (سختی و سخت گیری ) ہی سے اس سلسلہ میں کام لینا ضروری قرار دیں گے تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کا نص محکم (لانفضوا من حولك…وہ تم سے دور ہو جائیں گے ) کی شکل میں ان کے سامنے نہ آئے۔” (28 مئی 1956ء)
(مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، مشمولہ، مولانا مناظر احسن گیلانی :عالم بے بدل، مرتبہ محمد اکرام چغتائی، ص 21، 22)