حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب فتح پوری کے ماتم میں قلم کی دیدہ تر ی ابھی تک ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ حضرت علامہ جامع المعقول والمنقول مولانا محمد ابراہیم صاحب بلیاوی مدرس اعلی دارالعلوم دیو بند کا ماتم کرنا پڑ گیا، حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب ۲۵ / رمضان المبارک ۱۳۸۷ھ ۲۸ دسمبر ۱۹۶۷ء پنج شنبہ کو فالج کے مرض میں فوت ہوئے ۔ رَحِمُهُ اللَّهُ رَحْمَةً وَاسِعَةً
اگر اپنے اپنے زمانہ میں ہندوستان کے علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی اور علامہ محمود جون پوری (جن کا مولد بھیر اضلع اعظم گڑھ تھا) پورے عالم اسلام میں علوم عقلیہ کے بلا اختلاف سب سے بڑے امام تھے تو بلا شبہ علامہ محمد ابراہیم بلیاوی اپنے زمانہ میں اسی حیثیت کے مالک تھے، ان کے بعد ہندوستان میں غزالی، رازی، جوینی و ماتریدی، اور اشعری کے علوم وفنون کا سمجھنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔
حضرت مولا نا محمد ابراہیم صاحب دارالعلوم دیو بند کی بزم علم وفن کی آبرو تھے، اور ان کی ذات پر جامعیت ختم تھی، ان کے حلقہ درس میں ہندوستان سے لے کر سمر قند و بخارا تک کے طالبان علم وفن یکساں فیض یاب ہوئے اور تقریبا نصف صدی تک ان کی نظر سے ہزاروں اہلِ علم کیمیا گر بن گئے، علوم دینیہ، فقہ، حدیث ، تفسیر میں مہارت تامہ رکھتے ہوئے منطق ، فلسفہ، ریاضی، ہیئت، اور علم کلام میں عبقریت کے مالک تھے، اب تو ہماری درس گاہوں میں توضیح تلویح، شرح
مطالع ، الافق المبین، ملاجلال، میر زاہد، مسامرہ، خیالی قطبی ،اقلیدس سبع شداد، شرح چغمینی ، تصریح، صدرا شمس بازغہ کے نام تک سننے میں نہیں آتے ،مگر حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب کے دم سے یہ کتابیں ان کی بزم تدریس کی زینت تھیں، در آں حالاں کہ جس شان سے مولانا ان کتابوں کو پڑھاتے تھے اور اپنے درس میں میر باقر داماد اور طوسی نہیں بوعلی سینا، ابونصر فارابی بل کہ افلاطون اور ارسطو سے ٹکراتے تھے، اسی شان سے احادیث رسول کا درس دیتے ،صحیح مسلم شریف ، اور جامع ترمذی شریف کا درس تو کہنا چاہیے کہ ان ہی کا حصہ تھا۔ دار العلوم دیو بند کے اساتذہ و شیوخ کی خصوصیت خاصہ روحانی نسبت ہے، اس میں بھی مولانا مرحوم اپنا ایک خاص مقام رکھتے تھے، آج مولا نا دنیا میں نہیں رہے، مگر کئی ہزار کی تعداد میں ان کے تلامذہ اور تلامذہ کے تلامذہ دنیائے اسلام میں اپنے شیخ کی علمی ودینی وراثت تقسیم کر رہے ہیں ،ساتھ ہی مولانا مصنف بھی تھے سلم کی شرح چھپ چکی ہے، ترمذی شریف کی نہایت جامع شرح عربی زبان میں کئی جلدوں میں لکھی ہے، جس سے ان کے علم حدیث رسول میں تبجر اور مہارت و بلوغت کا پتہ چلتا ہے۔
برصغیر ہند و پاکستان کا علمی دینی نقصان بڑا سانحہ عظیم ہے، اللہ تعالی حضرت مولانا کوان کی دینی و علمی خدمات کی بہترین جزا دے اور جنت الفردوس کے غرفہ میں وہ خوش ہوں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کے ساتھ ہمیں نعم البدل دے۔ (البلاغ جنوری ۱۹۷۹ء)
https://telegram.me/ilmokitab