حضرت مولانا نذیر احمد صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ

یاد تھے یادگار تھے تم تو 😢

ارشد جمال عمار

قوتِ سماع نے جب یہ خبر سنی کہ مولانا اس ناسوتی ظلمت کدے کو الوداع اور فرشتہ اجل کو لبیک کہہ گئے تو دل کو ایک صدمہ سا لگا، اور لگتا بھی کیوں نہ ؟ مولانا میری پسندیدہ شخصیتوں میں سے ایک تھے۔

مولانا کے اخلاق کریمانہ کا ہر فردِ بشر معترف، اور اقوال حسنہ و طرزِ تکلم کا ہر بندہ خدا شیدائی تھا، مولانا کم گو تھے، لیکن بولتے تو باتوں سے پھول جھڑتے تھے۔

ان کے خطابت کا انداز بھی منفرد تھا، الفاظ کا چناؤ، لہجے کا اتار چڑھاؤ اتنا سحر انگیز ہوتا کہ سامعین پر سکتہ طاری ہوجاتا، جمعہ کی نماز کے بعد دو تین منٹ بولتے تھے، مگر اتنا جامع اور پر مغز بیان ہوتا کہ آدھے گھنٹے شعلہ بیانی سے زیادہ مؤثر ہوتا، بول کر جب خاموش ہوتے تو ہر کوئی چاہتا کہ کاش دو چار جملے اور بول دیتے، کاش کچھ دیر اور لب کشائی کرتے، گویا کہ شدید تشنگی میں کسی انسان کے منھ میں پانی کے دو چار قطرے ٹپکا دئے گئے ہوں، جس سے اس کے پیاس کی شدت تڑپ میں بدل گئی ہو۔

مولانا ایک مدت تک جامع العلوم کے شیخ الحدیث رہے، اور بہت دنوں تک جمیعت علماء کی جنرل سکریٹری کی حیثیت سے خدمت کی، اور وہ مولانا سید اسعد مدنی صاحب کے اخص الخاص اور چہیتوں میں سے تھے۔ اس کے علاؤہ انہوں نے مسجد مسجد درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا تھا، جو ایک وقت بام عروج پر تھا، گرچہ فی الحال اس کی لو مدھم پڑ چکی ہے، لیکن یہ سلسلہ بہت نفع بخش ثابت ہوا۔

کہا جاتا ہے کہ کوپاگنج کی تین شخصیات ایسی گزری ہیں جو اپنے فن میں اپنی مثال آپ تھیں، ایک مفتی خلیل صاحب، جو فقیہانہ گفتگو کرتے تھے، ان کو اصول فقہ پر زبردست عبور حاصل تھا، دوسرے مولانا مبین صاحب، جو تاریخی خطاب کرتے تھے، ایسا نقشہ کھینچتے جیسے انہوں نے سارا منظر آنکھوں سے دیکھا ہو اور ہمیں انگلیوں کے اشارے سے دکھا رہے ہوں، تیسرے مولانا نذیر احمد صاحب، جو حالات حاضرہ پر زبردست گرفت رکھتے تھے، اور ایسی اصلاحی گفتگو کرتے کہ عوام میں بیداری کی روح پھونک دیتے۔

مولانا سے مجھے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع تو نہیں ملا مگر یہ خوش بختی رہی کہ وہ والد صاحب کے اساتذہ میں سے تھے، اور یوں ہم پر ہمیشہ ان کا دشتِ شفقت دراز رہا، اسی باعث ہمارے گھر آنا جانا لگا رہتا اور گاہے بگاہے ملاقات ہوتی رہتی تھی، مولانا کے چہرے پر ایک عجیب قسم کا نور تھا، چہرہ ہمیشہ کِھلا کِھلا سا رہتا، ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ سجی ہوتی تھی، جیسے انہیں طمانینت قلب حاصل ہوگئی ہو۔

ان کے نذدیک محمود و ایاز کا امتیاز بالکل نہیں تھا، دنیاوی چمک دمک سے مرعوب نہیں ہوتے تھے، بڑوں سے جس شائستگی سے ملتے، چھوٹوں سے بھی اتنی ہی مشفقانہ گفتگو کرتے تھے، ان کے اطوار و اخلاق سے اسلاف کی رمق جھلکتی تھی، وہ تواضع و انکساری کا مجسم پیکر تھے۔

ہمارا کوپاگنج ہر روز ایک علمی گوہر سے محروم ہوتا جا رہا ہے، بڑی بڑی شخصیتیں اس علمی خطے کو یتیم چھوڑ جا رہی ہیں، ابھی کچھ دن قبل مولانا محفوظ الرحمن صاحب داغ مفارقت دے گئے، ایک سال پہلے مولانا مبین صاحب اخروی سفر پر نکل گئے، گزشتہ چند سالوں میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جس کا پُر ہونا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں ہماری بدنصیبی رہی کہ ہم ایسے دور میں پیدا ہوئے کہ دشواریوں کے ساتھ محرومیاں بھی ہمیشہ دامن گیر رہیں، مخدوش حالات کے بعد سب سے بڑی محرومی یہ رہی کہ ہم ماضی کے فرشتہ خصلت، نیک طینت لوگوں کے جاں افروز قصے اور سوانحی قصیدے ہی سن سکے، اور اگر معدودے چند لوگوں کو پایا بھی تو کما حقہ قدر نہ کر سکے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مولانا مرحوم کی قبر کو نور سے بھر دے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطاء فرمائے۔ اور باقی رہ گئی علمی شخصیات کی قدر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

https://www.facebook.com/profile.php?id=100058235643477

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے