تالیف مفتی عبدالشکور ترمذی رحمہ اللہ
تعارف: مفتی عبدالقدوس ترمذی
حضرت علامہ ظفر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ علمی دنیا میں ایک عظیم مقام کے حامل ہیں حدیث تفسیر وفقہ تمام علوم و فنون پر آپ کو مکمل عبور حاصل تھا۔ حدیث میں اعلاء السنن فقہ میں امداد الاحکام اور تفسیر میں احکام القرآن آپ کی قابلیت اور مقبولیت پر شاہد ہیں ۲۳ ذوالقعدہ ۱۳۹۴ھ میں آپ کی وفات کا حادثہ پیش آنے کے بعد ضرورت تھی کہ آپ کی ایک مفصل سوانح حیات لکھی جائے چنانچہ اس ضرورت کو آپ کے خلیفہ ارشد احقر کے والد ماجد قدس سرہ نے پورا فرمایا اور ایک سال کی شب و روز محنت سے تذکرۃ الظفر کے نام سے ۵۲۸ صفحات پر مشتمل کتاب تحریر فرما دی جس میں درج ذیل نو باب قائم فرمائے۔
باب اول ۔ خاندانی حالات۔ باب دوم – علمی خدمات ۔ باب سوم ۔تصنیفات و تالیفات ۔ باب چہارم تبلیغی جد و جہد ۔ باب پنجم ۔ مولانا کی اصلاحات۔ باب ششم ۔ سلوک و تصوف اور تربیت باطن ۔ باب ہفتم علماء اور مشائخ زمانہ کے ساتھ تعلقات ۔ باب ہشتم مذہب و سیاست ۔ باب نہم سفر آخرت اور مرض وفات کے حالات ۔
حضرت والد صاحب نے اس میں حضرت علامہ عثمانی کی خود نوشت سوانح انوار النظر کو اصل بنیاد بنایا ہے اور مختلف رسائل وکتب کے علاوہ خانگی حالات کیلئے حضرت پیرانی صاحب رحمہا اللہ تعالیٰ سے بھی معلومات لیں اور جس رسالہ اور مضمون و کتاب سے آپ کے حالات سے متعلق مواد ملا اس کو جمع فرمایا اس کیلئے آپ نے لاہور ٹو بہ وغیرہ کے متعد د سفر فرمائے اس کی ترتیب میں جناب مولانا قمر احمد عثمانی صاحب نے بہت مدد دی حضرت کے لکھے ہوئے پورے مسودہ کو پڑھ کر اسے مرتب فرمایا: کتاب میں علامہ عثمانی کے حالات اور علمی کمالات فقہی تفسیری دینی خدمات کے علاوہ تحریک پاکستان میں آپ کی سیاسی جدوجہد کا مفصل تذکر کیا گیا ہے نیز آپ کی بلند علمی تصانیف میں اعلا السنن ، امداد الاحکام اور احکام القرآن کا مفصل تعارف بھی اس تذکرہ میں آگیا ہے۔ کتاب حضرت عثمانی کے صاحبزادگان اور حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی قدس سرہ کی خصوصی کاوشوں سے شائع ہوئی۔ علمی حلقوں اور حضرت کے متوسلین میں اس کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی حضرت شیخ الحدیث نے پوری کتاب کو سن کر اپنی خاص مسرت کا اظہار فرمایا اور پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش انڈیا سعودی عرب وغیرہ میں اس کے نسخے بھیجوائے ۔ حضرت اقدس مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں:
"مولا نا مفتی عبدالشکور صاحب مہتمم مدرسہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا خلیفہ حضرت مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی تھانوی نے حضرت ممدوح کی سوانح عمری تحریر فرمائی متوسلین اور مسلمین پر احسان کیا ایسے زبر دست عالم دین اور شیخ کا تعارف کرایا جن کی مثال اس زمانہ میں مشکل ہی ہے۔ مفتی صاحب موصوف نے حضرت مولانا کے سیاسی واشر فی مسلک کی بھی خوب وضاحت کی ہے اور مہتمم حقانیہ نے اس کی حقانیت سامنے لاکر رکھدی ہے. اس مسلک کی تشریح و توضیح بہت ضروری چیز تھی اللہ تعالی جناب مصنف کو جزائے خیر عطا فرمائے اور تمام مسلمانوں کو حق کی پیروی کی توفیق دیں ۔ ایں کا راز تو آید و مرداں چنیں کنند۔
حضرت مفتی صاحب نے اس کا تاریخی نام "مرادنظر بر جواہر ظفر” (۱۳۹۵-۱۳۹۵ھ ) تحریر فرمایا تھا یہ اس کا سن تالیف ہے اشاعت کی نوبت دو سال بعد ۱۳۹۷ھ ۱۹۷۷ء میں آئی اس تذکرہ میں حضرت علامہ عثمانی کے علمی افادات کا حصہ خاصہ کی چیز ہے جس کو علما کرام نے بہت پسند فرمایا۔ تذکرہ کی تصنیف کے وقت حضرت علامہ عثمانی کی بہت سی کتابیں غیر مطبوعہ ہونے کی وجہ سے سامنے نہ تھیں خود اعلاء سنن بھی عربی ٹائپ پر اس وقت تک طبع نہیں ہوئی تھی اسی طرح امداد الاحکام اور احکام القرآن بھی دستیاب نہ تھا اس لئے حضرت کے بہت سے علمی افادات تفسیری حدیثی اور فقہی شہ پارے اس کتاب میں درج نہ ہو سکے اسی طرح بعض حالات اور مضامین و مقالات نیز عربی قصائد بھی بعد میں نظر سے گذرے جن کا ذکر اس وقت تذکرہ میں نہ ہوسکا اس لئے اب ضرورت ہے کہ اس پورے مواد کو سامنے رکھ کر تذکرۃ الظفر کو از سر نو مرتب کیا جائے تا کہ ایک ضخیم سوانح تیار ہو کر طبع ہو سکے والله الموفق والمعین ۔ حضرت علامہ عثمانی کے احوال اور سوانح کے سلسلہ میں اس وقت تک تذکر ة الظفر ہی ایک مستند اور بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے بعض حضرات نے اس کو سامنے رکھ کر ایم ۔ اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی اس موضوع پر حاصل کر لی ہے والحمد للہ علی ذالک۔
