برطانیہ میں چند روز (2)

از : مفتی محمد عفان منصورپوری

دوسری اور آخری قسط

مدارس اسلامیہ :

برطانیہ میں موجود اسلامی چہل پہل اور مسلم شناخت و پہچان کے حامل افراد کی موجودگی میں بڑا کردار مدارس اسلامیہ اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی جماعت : جماعت دعوت و تبلیغ کا ھے ، ھند و پاک کی نہج پر اسلامی مدارس اور دینی مکاتب نیز جماعت دعوت و تبلیغ سے منسلک حضرات کی سرگرمیوں نے دینی اعتبار سے ماحول میں صالح انقلاب برپا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ھے چنانچہ دعوت اور تعلیم دونوں اعتبار سے یورپ میں برطانیہ کو مرکزی حیثیت حاصل ھے ۔

ام المدارس

1973 میں مانچسٹر کے قریب بری نامی چھوٹے سے شھر میں ھولکمب پہاڑی پر ” دارالعلوم بری ” کے نام سے یہاں پہلا مدرسہ قائم ھوا ، جس کی داغ بیل حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ کی ھدایت پر ان کے شاگرد رشید اور خلیفہ و مجاز ، ایک فعال و متحرک عالم دین حضرت مولانا محمد یوسف صاحب متالا نور اللہ مرقدہ نے ڈالی ، حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ بھی دارالعلوم بری کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لئے دو مرتبہ یہاں تشریف لائے ، دارالعلوم بری کو برطانیہ ھی نہیں پورے یورپ میں ام المدارس کی حیثیت حاصل ھے ، اس مدرسہ کے قیام کی برکت سے دہریت اور لادینیت کے سیلاب بلا خیز سے مسلم سماج کو محفوظ رکھنے میں بڑی کامیابی ملی ، اس کے بعد متعدد مدارس قائم ھوئے اور ماشاء اللہ علماء کی کھیپ تیار ھونی شروع ھوگئی ، حضرت مولانا محمد یوسف صاحب متالا رحمہ اللہ پوری زندگی اھل برطانیہ کے مرجع رھے اور ان کی سرپرستی و نگرانی میں بہت سے مکاتب و مدارس قائم ھوئے اور متعدد میدانوں میں امور خیر انجام دئے جاتے رھے ، یہ سب چیزیں ان شاء اللہ حضرت کے لئے بہترین صدقہ جاریہ ھوں گی ۔

مولانا ابو عمار زاھد الراشدی صاحب ایک مضمون میں برطانیہ میں مدارس کے کردار سے متعلق رقمطراز ھیں :

” دارالعلوم بری کی ایک تقریب میں مجھے بھی شرکت اور خطاب کا موقع ملا ، میں نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا تو اچانک میرے ذہن کی اسکرین پر لارڈ میکالے کا نام بار بار ابھرنے لگا ، میں نے اس کو جھٹکنے کی بھی بہت کوشش کی مگر بالآخر اس کا نام میری زبان پر آھی گیا اور یوں گذارش کی کہ میرا جی چاہتا ھے کہ برطانیہ کے کسی چوک میں نصب کیا ھوا لارڈ میکالے کا مجسمہ تلاش کروں اور اس کے سامنے کھڑا ھوکر اسے مخاطب کرکے کہوں کہ میکالے قال اللہ اور قال الرسول کی جن درسگاہوں کی بساط لپیٹنے کے لئے تم نے برصغیر پاک وھند اور بنگلہ دیش میں ایک نئے نظام تعلیم کی تدوین پر اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کردی تھیں وہ درسگاہیں آج بھی زندہ بلکہ خود تمہارے ملک میں ایک نئے فکری و معاشرتی انقلاب کی نوید بنکر ھولکمب بری کے مقام سے تاریخ کے ایک نئے سفر کا آغاز کرچکی ھیں ” ۔

اس وقت برطانیہ میں لڑکوں کے لئے 12 بڑے اقامتی مدارس ھیں اور لڑکیوں کے لئے چار جن کے اسماء درج ذیل ھیں :

دارالعلوم بری
مدرسہ مدینۃ العلوم کدی منسٹر
ڈیوزبری مرکز
جامعۃ العلم و الہدی بلیک برن
مدرسہ مفتاح العلوم بلیک برن
دارالعلوم بولٹن
الہدی اکیڈمی بولٹن
دارالعلوم پریسٹن
مدرسہ دعوت الایمان بریڈفورڈ
دارالعلوم لیسٹر
اسلامک دعوہ اکیڈمی لیسٹر
دارالعلوم لندن

برائے بنات :

جامعۃ الامام محمد زکریا بریڈفورڈ
جامعۃ الکوثر لنکاسٹر
جامعہ الہدی نوٹنگھم
مدرسہ روضۃ العلم و الہدی بلیک برن

ان اقامتی مدارس کے علاوہ 118 سے زائد غیر اقامتی مدارس ھیں جس میں بچوں اور بچیوں کے لئے تعلیم کا معیاری بندوبست ھے

ماشاء اللہ جملہ مدارس میں تعلیم و تربیت کا نظام بہت پختہ اور مضبوط ھے ، استعداد سازی کے ساتھ ساتھ کردار سازی پر بھی بھرپور توجہ دی جاتی ھے ، طلبہ کی سخت نگرانی ھوتی ھے ، مختلف مفید کاموں میں ان کو مشغول رکھا جاتا ھے اور موبائل کے استعمال پر کلیۃ پابندی عائد ھے ، دوران تعلیم یا فراغت کے بعد اکثر طلبہ اپنے اساتذہ کرام یا صاحب نسبت بزرگوں سے اصلاحی تعلق بھی قائم کرلیتے ھیں جس سے ان میں عملی اعتبار سے بڑی پختگی آجاتی ھے اور بڑوں کی رھنمائی اور ان کے مشورے سے چلنے کا مزاج بن جاتا ھے جس میں بڑی خیر مضمر ھے ۔

اسے بھی حسن اتفاق کہا جائے یا خوش بختی کہ اکثر بڑے مدارس کے بانیان ، روح رواں اور ذمےدار علماء کرام سرزمین گجرات سے وطنی نسبت رکھنے والے ھیں ، یہ ان کے لئے شرف کی بات ھے کہ اللہ پاک نے ان کی جان و مال کو دینی خدمات کے لئے قبول فرمایا ھے جبکہ ھر مدرسہ میں زیر تعلیم طلبہ میں اکثریت بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والوں کی ھے ۔

تدریس کی زبان عام طور پر انگریزی ھی ھے جبکہ کہیں کہیں اردو میں بھی سبق ھوتا ھے کہیں سمجھانے کی ضرورت پیش آتی ھے تو انگریزی کا بھی سہارا لے لیتے ھیں ۔

ھمارے خیال میں ان مدارس میں زبان ھی کے طور پر صحیح اردو زبان کی تعلیم کا سلسلہ جاری رھنا چاھئے تاکہ بزرگان دیوبند کے علوم سے براہ راست استفادے کی راہیں کھلی رھیں ۔

ایک خاص بات یہ ھے کہ تمام ھی مدارس میں درس نظامی کے ساتھ عصری علوم اور اسکولی نطام تعلیم شامل ھے کیونکہ حکومت کی جانب سے مقررہ نصاب کی تعلیم دینا لازمی ھے اس کے بغیر مدرسوں کو چلانے کی اجازت نہیں مل سکتی ، چنانچہ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بچوں کو لازمی عصری تعلیم کے ساتھ درس نظامی کی کتابیں پڑھا دی جاتی ھیں ، ھندوستان میں اگرچہ ابھی تک مدرسوں کو عصری تعلیم دینے پر مجبور نہیں کیا جارھا ھے لیکن پیش آمدہ حالات کو دیکھتے ھوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کب اس طرح کی پابندیاں یہاں بھی عائد کردی جائیں اسلئے سنجیدگی سے اس پہلو پر غور کرنے کی اور وقت سے پہلے مناسب طریقہ کار کو رو بہ عمل لانے کی ضرورت ھے ۔

لڑکوں کے لئے معیاری مدارس کے ساتھ لڑکیوں کے لئے بھی اقامتی اور غیر اقامتی اچھے اور مثالی مدارس یہاں قائم ھیں جن کے توسط سے بچیوں میں دینی شعور پروان چڑھ رھا ھے اور نسل نو کی اسلامی ماحول میں تربیت کی راہیں ھموار ھورھی ھیں ۔

مکاتب دینیہ

مدارس اسلامیہ کے علاوہ مکاتب دینیہ کا نظام بھی یہاں بڑا مستحکم ھے ، آج کل دن چھوٹا ھونے کی وجہ سے شام میں مکاتب میں تعلیم کا سلسلہ جاری تھا ، صبح اسکول میں پڑھنے والے بچوں کو بڑےاھتمام کے ساتھ والدین شام کے وقت مکاتب میں لاتے ھیں اور دو ڈھائی گھنٹے بعد واپس لے جاتے ھیں ، اھل گجرات اس سلسلہ میں بھی بڑی نمایاں خدمات انجام دے رھے ھیں اور جہاں جہاں وہ آباد ھیں مثالی اور معیاری مکاتب کا ایسا جال بچھا ھوا ھے کہ مسلمانوں کے کم ھی گھر ایسے ھوں گے جن کے بچے مکاتب سے مربوط نہ ھوں ، اسی طرح بنگلہ دیش کے احباب ملک کے جن علاقوں میں مقیم ھیں انہوں نے بھی مکاتب کا اچھا نظم قائم کیا ھوا ھے ۔
ھمارا یہ ماننا ھے کہ یہی وہ بنیادی خدمات ھیں جس کے صدقہ میں اللہ رب العزت و الجلال نے وھاں مقیم مسلمانوں کو دینی اعتبار سے بہت اچھے ماحول میں رکھا ھوا ھے ، باری تعالی اس سلسلہ کو جاری و ساری رکھیں اور مزید استحکام نصیب فرمائیں ۔

اسلامی ماحول میں عصری تعلیم

برطانیہ کی فضاء میں دینی اعتبار سے انقلاب لانے کا سہرا فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ کے سر بھی جاتا ھے جو مسلسل 27 سال بلاناغہ ھر سال برطانیہ کا سفر فرماتے رھے اور ملک کے طول و عرض میں رھنے والے مسلمانوں کے درمیان جاکر اصلاحی گفتگو فرماتے اور ان کو دینی ذمے داریوں سے آگاہ فرماتے ، اخیر کے دس بارہ سالوں میں تو حضرت کی ھر تقریر میں مسلمانان برطانیہ سے یہ مطالبہ ھوتا تھا کہ اپنے اسکول کھولو اور اسلامی ماحول میں بچوں کو عصری علوم پڑھاؤ ، بعض دفعہ تو جلال میں آکر یہ فرمادیا کرتے تھے : اپنے بچوں کو عیسائی یا دہریہ بننے کے لئے یہاں نہ چھوڑو یا تو اپنے اسکول قائم کرو ورنہ اپنے اپنے ملک واپس چلے جاؤ
حضرت کی اس تحریک کا اثر یہ ھوا کہ آج برطانیہ کے چپے چپے میں مسلمانوں کے اسکول قائم ھیں اور بچے اپنے ماحول میں عصری علوم حاصل کررھے ھیں ۔
جہاں بھی گئے لوگوں نے حضرت فدائے ملت رح کو یاد کیا ان کی جفاکشی ، قربانی اور نئی نسل کے دین و ایمان کے تحفظ کے حوالے سے ان کی فکرمندی کو بیان کیا ، یقینا یہ تمام ادارے حضرت رحمہ اللہ کے لئے صدقہ جاریہ بنے رھیں گے ان شاء اللہ ۔
اس سلسلہ میں حضرت مولانا محمد حسن صاحب نور اللہ مرقدہ کا تذکرہ بھی ضروری ھے جو حضرت فدائے ملت رح کے خلیفہ تھے اور ھرسال بڑے نظم و ترتیب کے ساتھ پورے ملک میں حضرت فدائے ملت رح کے سفر کے پروگرام طے فرماتے اور جتنے دن حضرت کا برطانیہ میں قیام رھتا مولانا ساتھ ساتھ رھتے ، باری تعالٰی مولانا کی مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائیں

علماء کرام اور اھل دل

دوران سفر مختلف مقامات پر جید علماء کرام ، صاحب نسبت بزرگ اور اللہ والوں سے ملاقات ھوتی رھی ، یہ تمام علماء اور اکابر دامت برکاتہم ماشاء اللہ مضبوطی کے ساتھ اپنے اسلاف اور بزرگان دین کے نہج پر قائم ھیں ، سادگی ، للہیت ، اتباع شریعت و سنت ، حسن خلق اور نافعیت کا مرقع ھیں ، یہ حضرات اپنے اپنے مقام پر مرجع کی حیثیت رکھتے ھیں اور علمی ، دینی ، اصلاحی اور دعوتی میدانوں میں بیش بہا خدمات انجام دے رھے ھیں ۔
سرزمین برطانیہ میں ان حضرات علماء اور اھل اللہ کا وجود بسا غنیمت اور عامۃ المسلمین کے لئے ڈھال اور نعمت عظمی ھے اور ھم تو یہ سمجھتے ھیں کہ وہ دن دور نہیں جب انہی حضرات کی مخلصانہ کاوشوں اور کوششوں کے صدقہ میں ملک کی تقدیر ایسی بدلے گی اور ایسا صالح انقلاب آئے گا کہ ان شاء اللہ دنیا دیکھے گی ۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے