برطانیہ میں چند روز (1)

از : مفتی محمد عفان منصورپوری

       قسط اول

2 نومبر 2023ء قطر ائرویز سے دوحہ ھوتے ھوئے جب ھم لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ سے باھر آئے تو سب سے پہلے یخ اور ٹھنڈی ھواؤں کے خاصے تیز تھپیڑوں نے ھمارا استقبال کیا اور موسم کے بدلے تیور سے باخبر کردیا ، اس پر مستزاد ہلکی ہلکی بارش نے خنکی کو مزید دو آتشہ کردیا تھا ، ھمارے داعی و میزبان اور کرم فرما ، محب مکرم جناب حاجی سعید الحق صاحب ، مولانا نظام الحق صاحب اور مولانا محمد علی صاحب اپنے ساتھیوں کے ھمراہ باھری صدر دروازے پر موجود تھے ، اولا سب نے ظھر کی نماز پڑھی پھر قیام گاہ کی طرف روانہ ھوئے اور نماز عصر ادا کی ، آج کل یہاں دن چھوٹا ھے ، ظھر سے عشاء تک کی نمازوں میں وقفہ بہت کم رھتا ھے ، ساڑھے سات بجے طلوع آفتاب ھے اور ساڑھے چار بجے مغرب ھورھی ھے ، عشاء کی نماز لندن شھر کی مرکزی جامع مسجد میں ادا کی اور پہلے سے طے شدہ نظام کے مطابق تقریبا چالیس منٹ قرآن و حدیث کی روشنی میں گفتگو کا موقع میسر ھوا ، لندن کے چند روزہ قیام کے دوران ایک مرتب نظام کے مطابق مختلف علاقوں کی مساجد میں دینی گفتگو کی سعادت نصیب ہوئی۔
ھمیں دس دن میں مجموعی طور پر برطانیہ کے 18 شھروں میں جانے کا اتفاق ھوا اور روزانہ اوسطا چار مقامات پر بات چیت کی توفیق ملی ۔

برطانیہ رقبے کے اعتبار سے ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے برابر ھے البتہ اتر پردیش کی آبادی برطانیہ سے کم از کم تین گنا زیادہ ھوگی ، ھمارے پروگراموں کی یہ ترتیب خانوادہ مدنی سے گہری وابستگی رکھنے والی شخصیت اور حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی رحمہ اللہ کے منتسب خاص مولانا عبد الرحیم میر صاحب اور حاجی سعید الحق صاحب وغیرہ نے باھمی مشورے سے بنائی تھی ۔
لندن شھر کے سہ روزہ پروگراموں میں مولانا محمد علی صاحب ، مولانا حسن الاسلام صاحب ، مولانا اشرف صاحب اور مولانا نظام الحق صاحب کی ھمرہی میسر رھی ، یہاں سے فارغ ھوکر جب ھم برمنگھم پہنچے تو وھاں سے مولانا عبدالرحیم میر صاحب بھی ساتھ ھوگئے اور پھر انہی کی رھنمائی میں سفر کے اگلے مراحل طے ھوئے ، اس دوران جن اھم مدارس اسلامیہ اور مراکز دینیہ میں جانا ھوا اور جن موقر علماء کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ھوا ان کی تفصیلی روئداد تو بڑی وقت طلب ھوجائے گی البتہ اجمالی انداز میں کچھ تاثرات پیش کرنا اور آنکھوں دیکھی صورتحال کو ذکر کرنا فائدے سے خالی نہ ھوگا ۔

برطانیہ ایک پر فضاء اور خوشگوار آپ و ھوا کا حامل ملک ھے ، ھرطرف سبزہ ، صاف ستھری سڑکیں اور قدیم انگلش طرز پر یکساں انداز میں تعمیر شدہ مکانات اپنا ایک الگ حسن رکھتے ھیں ، نظام قدرت کے مطابق اور جائے وقوع کے اعتبار سے موسم کے حوالے سے یہاں بڑا عدم توازن پایا جاتا ھے ، کبھی راتیں اتنی دراز ھوتی ھیں کہ کاٹے نہیں کٹتیں تو کبھی دن اتنے چھوٹے ھوتے ھیں کہ گزرنے کا پتہ ھی نہیں چلتا اور بھاگ دوڑ بہت بڑھ جاتی ھے ۔
برطانیہ میں علاج و معالجہ کی اعلی درجہ کی سہولیات فری ھیں اور معیاری تعلیم بھی بغیر کسی فیس کے دی جاتی ھے ، لوگوں کے مزاج میں عامۃ نرمی اور ایمان داری ھے ، ایک دوسرے کا خیال رکھنا ، راہ گزرتے شخص کے لئے گاڑی روک لینا ، بات بات پر شکریہ ادا کرنا ، بغیر کسی نگراں کی ھدایت کے خود قطار اور لائن بنالینا عام بات ھے ، سڑک پر ایک سائڈ کی گاڑیاں اگر رکی ھیں تو ان کے پیچھے لمبی قطار لگتی چلی جائے گی کوئی آگے نکلنے کی کوشش نہیں کرے گا اگر چہ دوسری سائڈ بالکل خالی ھو ، ھارن بجانے کا رواج بالکل نہیں ھے الا یہ کہ کوئی ایمرجنسی ضرورت پیش آجائے ۔

عبرت آمیز واقعہ

اس سلسلہ میں یہ واقعہ بھی دلچسپی اور عبرت سے خالی نہیں ھوگا کہ ھمارا بریڈ فورڈ کے نواح میں ایک دیہات سے گزرنا ھوا ، ھمارے میزبان مولانا عبد الرحیم میر صاحب نے ایک فارم ھاؤس کے دروازے پر ایک بڑا بوکس لٹکا ھوا دکھایا جس میں مرغی کے دیسی انڈے تھے اور اس کی قیمت لکھی ھوئی تھی ، دور دور تک وھاں کوئی آدمی موجود نہیں تھا مولانا نے بتایا کہ یہاں بیچنے والا کوئی نہیں ھوتا لوگ بوکس میں سے ضرورت کے بقدر انڈے نکالتے ھیں اور پوری ایمانداری کے ساتھ پیسے اس بوکس میں ڈال کر چلے جاتے ھیں ، ایسے ھی بعض دفعہ سبزی والا تازی سبزیوں کے پیکٹ بناکر راستے کے کنارے رکھ کر چلا جاتا ھے اور اس پر قیمت لکھدی جاتی ھے لوگ آتے ھیں سبزیاں لیتے ھیں اور پیسے رکھ کر چلے جاتے ھیں ، بائع کو جب فرصت ملتی ھے آتا ھے اور پیسے لے لیتا ھے ۔
ھمارے لئے یہ عمل جہاں ایک طرف تعجب کا باعث تھا کہ نہ پیسے چوری ھوتے ھیں اور نہ کوئی بغیر پیسے رکھے انڈے اٹھاکر لے جاتا ھے وہیں عبرت کا سامان بھی تھا کہ غیر مسلم ھونے کے باوجود معاملات کی ایسی صفائی ؟ اور ایک ھم ھیں کہ اپنے سماج میں اس طرح کی مثالیں پیش کرنے سے قاصر دکھتے ھیں ، در اصل یہ کردار مسلمانوں ھی کا تھا اور یہ تعلیم بھی اسلام کی ھے لیکن ھم اس تعلیم پر عمل سے محروم ھیں اور غیروں نے اس کو اپنایا ھوا ھے ۔

آج کل لندن میں اسرائیل کے ظلم و جبر اور تشدد کے خلاف اور بے گناہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں بڑے بڑے مظاھرے ھورھے ھیں جس میں پورے ملک سے لاکھوں لوگ شرکت کررھے ھیں اور انسانیت کے خلاف ھونے والے مظالم پر آواز بلند کررھے ھیں ۔

دینی صورتحال :

یہ تو ایک حقیقت ھے کہ دینی اعتبار سے ساری دنیا کا اسلامی معاشرہ پست روی کا شکار ھے ، ماحول کی آزادی ، بے راہ روی کے اسباب اور دین سے غافل کرنے والی چیزوں کے عام ھوئے کی وجہ سے ھرجگہ کے مسلمان متاثر ھیں اور اس کا اثر برطانیہ میں بھی دیکھنے کو ملتا ھے ، چنانچہ یہاں مسلمانوں میں ایک طبقہ وہ بھی ھے جو غیر اسلامی کلچر سے بری طرح متاثر ھے اور اسی کے رنگ میں رنگا ھوا ھے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ یہاں مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ماحول کی زھرناکی اور ھرطرح کی آزادی کے باوجود بحمدہ تعالٰی مضبوط اسلامی بنیادوں پر قائم ھے اور ھم نے یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں کا یہ طبقہ نسل نو میں دینی جذبات کے تحفظ اور اسلامی اقدار کے بقاء کے حوالے سے مسلم اکثریتی ملکوں یا علاقوں میں رھنے والے مسلمانوں سے زیادہ حساس اور فکر مند ھے ، اس کی وجہ شاید یہ ھے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں رھنے والے مسلمان آئندہ نسلوں میں دینی جذبات کی بقاء کےسلسلہ میں یک گونہ مطمئن سے رھتے ھیں جبکہ یہاں ماحول کی آزادی اور غیر اسلامی تہذیب میں گھرے ھوئے ھونے کی بناء پر والدین بچوں کے سلسلہ میں زیادہ فکر مند رھتے ھیں اور یہی فکرمندی حتی الإمكان ان کو راہ راست پر گامزن رکھنے کا سبب بن رھی ھے ۔

مساجد اور گرجاگھر :

پورے ملک میں جگہ جگہ شاندار چھوٹی بڑی مسجدیں موجود ھیں جن میں گرم پانی اور صفائی ستھرائی کے بہترین نظم کے ساتھ ھر وضو کرنے والے کے لئے ٹشو یا الگ الگ دھلے ھوئے چھوٹے تولیے کا انتظام ھوتا ھے جسے استعمال کرکے مستعمل تولیوں کے خانے میں ڈال دیا جاتا ھے ، مسجدوں میں بڑی واشنگ مشین ھوتی ھے جس میں یہ تولیے دھوئے اور سکھائے جاتے ھیں ، میت کے لئے غسل و تکفین وغیرہ کا انتظام بھی بڑی مسجدوں کے ماتحت ھوتا ھے ، بعض مسجدوں کے احاطہ میں سرد خانے بھی ھیں جہاں ضرورت پڑنے پر دیر تک میت کو رکھا جاسکتا ھے ، غرضیکہ یہاں مساجد ھر طرح کے اسباب راحت سے آراستہ ھونے کے ساتھ ساتھ ماشاء اللہ مصلیان سے آباد بھی رھتی ھیں ، اکثر مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد زیادہ ھونے کی وجہ سے جمعہ و عیدین کی نمازیں متعدد مرتبہ ھوتی ھیں ، مسجدوں میں گو کہ نوجوانوں کے مقابلہ میں پختہ عمر کے لوگوں کی تعداد زیادہ ھوتی ھے مگر نئی نسل بھی اپنی حاضری اچھی خاصی درج کراتی ھے ، اس سلسلہ میں سب سے خوش آئند پہلو یہاں یہ دیکھنے میں آیا کہ پچھلے چند برسوں سے بڑے بڑے عالیشان اور صدیوں پرانے گرجاگھر مسلمان مسلسل خرید رھے ھیں پھر ان کو مسجد کی شکل دی جاتی ھے اور مکاتب قائم کئے جاتے ھیں ، ھم یہ سمجھتے ھیں کہ برطانیہ کا کوئی بڑا شھر یا علاقہ ایسا نہ ھوگا جہاں چرچ کو مسجد یا مدرسہ میں تبدیل نہ کردیا گیا ھو ، خدا کی قدرت دیکھئے یہی وہ لوگ ھیں جن کے سربراھوں نے دنیا کے کس کس ملک میں نہ جانے کتنی مسجدوں کو ڈھانے ، مسمار کرنے اور ویران کرنے کا کام کیا ھوگا اور آج ان کے اپنے عبادت خانے انہی کے ملک میں ان کے ھاتھ سے نکلتے چلے جارھے ھیں اور شرعی مسجدیں وھاں قائم ھورھی ھیں ، ایسا لگتا ھے کہ انگریز قوم کا یقین اپنے مذہب سے بھی اٹھتا چلاجارھا ھے اور الحاد و نیچریت کا دور دورہ ھے ، جو چرچ باقی بھی ھیں ان کے بارے میں بھی لوگوں کا کہنا ھے کہ اکثر ویران پڑے رھتے ھیں کوئی جھانکنے بھی نہیں آتا البتہ جن علاقوں میں یہودی آباد ھیں ان کے عبادت خانے بھی کھلے ھوئے ھیں اور وہ اپنے روایتی لباس ، مخصوص وضع اور مذہبی شناخت کے اعتبار سے بھی ممتاز دکھائی دیتے ھیں ۔

برطانیہ میں اسلام کا مستقبل

تجزیہ نگاروں کا کہنا ھے کہ برطانیہ میں سب سے تیزی سے مقبول ھونے والا مذہب اسلام ھے جو ملک کا دوسرا بڑا مذھب ھے ، گذشتہ دہائی میں یہاں مسلمانوں کی تعداد میں چوالیس فیصد اضافہ ھوا ھے ، اس میں بڑی تعداد ان مسلم تارکین وطن کی بھی ھے جنہوں نے ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں سے آکر برطانوی شہریت حاصل کی ھے ۔

دوسری طرف مسیحی طبقہ میں اپنے مذہب سے بیزاری کا رجحان تیزی سے بڑھ رھا ھے ، نئے اعداد و شمار کے مطابق ھر چار میں سے ایک برطانوی باشندہ کسی مذہب سے اپنا تعلق نہیں رکھتا ، اس طرح تقریبا دس لاکھ برطانوی کسی مذہب سے اپنی وابستگی ظاھر نہیں کرتے اور ایسے افراد کی تعداد میں گذشتہ دس سالوں کے درمیان دس فیصد اضافہ ھوا ھے

اھل ایمان کے لئے یہ بہترین موقع ھے کہ یہاں کے باشندوں کے سامنے منظم اور منصوبہ بند طریقہ سے اسلام پیش کرنے اور اس کے محاسن سے باخبر کرنے کا ، ” توا ” گرم ھے اپنے روایتی مذہب سے ان کا اعتقاد آٹھ چکا ھے اور وہ سکون کی تلاش میں شراب و کباب ، سگریٹ نوشی اور کتوں سے دل بہلانے میں مصروف ھیں ، ایسے وقت میں اسلام کی بلند اخلاقی تعلیم ، نبوی کردار کی ترجمانی اور فکر آخرت پر مشتمل معقول کلام دلوں کی دنیا بدل سکتا ھے اور ایک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ھوسکتا ھے

فکر کی بات

سننے میں آیا کہ یوروپین ملکوں میں نام نہاد تبلیغ اسلام کے نام پر قادیانی گروہ سرگرم رھتا ھے ، باطل طاقتوں کی پشت پناہی بھی انہیں حاصل ھوتی ھے اور وہ باقاعدہ مشن بناکر مختلف ذرائع سے لوگوں کے درمیان پہنچتے ھیں ، حتی کہ جیل میں بند قیدیوں تک رسائی حاصل کرتے ھیں ان کا بھی تعاون کرتے ھیں اور ان کے گھر والوں کی بھی کفالت کا ذمہ لیتے ھیں اور اس کی قیمت پورے گھرانے کو اپنا ھمنوا بنانے کی شکل میں وصول کرلیتے ھیں ، کہیں یہ صورتحال کمزور ایمان والوں کے ساتھ بھی پیش آتی ھے جو ان کو مسلمان ھی سمجھتے ھیں اور کہیں غیر مسلموں کو اپنایا جاتا ھے ، بہر حال صورتحال پر گہری نگاہ رکھنے اور مسلسل تیقظ اور بیداری کا مظاھرہ کرنے کی ضرورت ھے ورنہ غیر تو کیا راہ راست پر آتے اپنوں کا بھی دوسرے شکار کرکے ضلالت و گمراھی میں مبتلا کردیں گے ۔

خاندانی نظام

اسلام نے جس خوبصورت خاندانی سسٹم اور نظام اپنانے کی تلقین کی ھے اس کی افادیت اور اھمیت کا اندازہ ایسے علاقوں میں جاکر اور ھوتا ھے جہاں رھنے والے لوگ اس بیش قیمت نعمت سے محروم ھوتے ھیں ۔
جنسی بے راہ روی نے برطانیہ ھی نہیں پورے یورپ کے بیشتر غیر مسلم سماج سے خوبصورت خاندانی نظام کا جنازہ نکال دیاھے ، اولاد اور والدین کے درمیان محبت بھرے ، قدر و منزلت سے معمور اور شفقت سے لبریز رشتوں سے وہ محروم ھوتے چلے جارھے ھیں ، اولڈ ایج ھوم ( بڑی عمر کے لوگوں کے رھنے کی جگہ ) آباد ھیں اور گھر ویران ھیں ، بہت سے لوگوں کا ساتھی بڑھاپے میں کتا ھوتا ھے ، گھر میں تنہا بوڑھا مرد ھے جو کتے سے دل بہلاتا ھے یا تنہا بوڑھی عورت ھے جو صبح و شام کتے کو گھر سے باھر لیکر نکلتی ھے اور گھماپھراکر گھر واپس چلی آتی ھے ، حکومت کی طرف سے بوڑھے لوگوں کے لئے ماہانہ وظائف مقرر ھیں اسلئے انہیں کچھ کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ، اولاد یا تو ھوتی نہیں اور ھوتی بھی ھے تو وہ اپنی زندگی میں ایسے مگن ھوتے ھیں کہ انہیں ماں باپ کی کوئی پرواہ ھی نہیں ھوتی ، یہ تو اسلام ھی کی خصوصیت ھے کہ اس نے نکاح جیسے پاکیزہ عمل کی تعلیم دیکر نہ صرف زوجین کو ان کے حقوق بتائے بلکہ اولاد کے تئیں ان کی ذمے داریوں سے بھی باخبر کیا اور ساتھ ساتھ اولاد کو بتایا کہ ماں باپ اور رشتے داروں کے کیا حقوق ھوتے ھیں اور ان کی انجام دہی دنیوی و اخروی اعتبار سے کتنی بڑی سعادت کی چیز ھے ۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے