نایاب حسن
ڈاکٹر صہیب عالم(اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی) نہایت سنجیدہ،پیہم جہدوعمل میں مصروف رہنے والے صاحبِ علم و قلم ہیں،یہی وجہ ہے کہ اپنی عملی زندگی کے بہت کم عرصے میں انھوں نے عربی زبان و ادب کی تدریس کے علاوہ تصنیف،تالیف و تحقیق اور ترجمے کے حوالے سے کئی گراں قدر کارنامے انجام دیے ہیں،جن کا اعتراف عالمی سطح پر کیا گیا ہے۔صہیب صاحب نے ہندوستانی ثقافت و شخصیات کی نمایندگی کرنے والی متعدد اہم کتابوں کو عربی زبان میں منتقل کیا ہے جن میں علامہ سید سلیمان ندوی(عرب و ہند کے تعلقات)،عرش ملسیانی(ابوالکلام آزاد)،اے پی جے عبدالکلام(Wings of Fire,A Vision for Tomorrow’s India)، ایم چلاپتی راؤ(جواہر لعل نہرو) ،پروفیسر رضوان قیصر (Resisting Colonialism & Communal Politics: Maulana Azad & the Making of the Indian Nation) وغیرہ کی کتابیں شامل ہیں۔
اِس سال عربی زبان میں ان کی ۵۷۸ صفحات پر مشتمل ایک ضخیم اور اہم تحقیقی کتاب منظر عام پر آئی ہے،جس کا موضوع بڑا دلچسپ ہے۔کتاب کا نام ہے’’المملکة العربیة السعودیة في ضوء الرحلات الهندیة‘‘ہے،یعنی ہندوستانی سفرناموں کی روشنی میں مملکتِ سعودی عرب کی تاریخ ۔ اردو زبان میں سفرنامہ نگاری کی قدیم روایت ہے اور اب تک اس زبان میں سیکڑوں سفرنامے لکھے جاچکے ہیں۔یہ سفرنامے دنیا بھر کے مختلف ممالک کے اسفار کی رودادوں پر مشتمل ہیں،جن کے لکھنے والے بڑے ،چھوٹے اور متوسط ہر قد و قامت کے ادیب و مصنف ہیں۔ان کی ایک قسم ان سفرناموں کی ہے،جو حج یا عمرے کی روداد پر مشتمل ہیں اور اس زبان کی خوش قسمتی ہے کہ اس میں سفرنامہ ہائے حج و زیارت کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔صہیب صاحب نے اپنی اس تحقیقی تصنیف کا زمانی دائرہ ۱۹۰۲ء سے ۱۹۵۳ء تک محدود رکھا ہے؛تاکہ موضوع قابو میں رہے اور تحقیق و تجزیہ کا عمل کماحقہ انجام پا سکے۔ مقدمے میں وہ بتاتے ہیں کہ مذکورہ پچاس سال کے عرصے میں،ہندوستان کی مختلف زبانوں میں ۱۱۲ حج کے سفرنامے لکھے گئے ہیں۔ہندوستان میں لکھی جانے والی اس سلسلے کی پہلی کتاب شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی’’جذب القلوب الی دیارالمحبوب‘‘ ہے،جو ۱۵۹۳ء میں شائع ہوئی تھی، مگر وہ سفرنامے کے طرز پر نہیں لکھی گئی ہے،اس میں بنیادی طورپر مسجد نبوی و مدینہ منورہ کی تاریخ،شرعی حیثیت اور فضائل وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے،اس کی تصنیف کی شروعات شیخ نے مدینہ منورہ میں قیام کے دوران کی اور تکمیل دہلی میں ہوئی،یہ اصلاً فارسی زبان میں ہے اور بعد میں اس کا اردو میں بھی ترجمہ ہوا ہے، غالباً اس کا پہلا اردو ترجمہ ۱۹۳۰ء میں ’’مرغوب القلوب معروف بہ تاریخ مدینہ‘‘ کے نام سے مولوی عبدالحق بریلوی کا شائع ہوا تھا۔بعد میں بھی اس کے ترجمے ہوئے ہیں۔ معروف معنوں میں پہلا سفرنامۂ حج شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے شاگرد مولانا رفیع الدین فاروقی نے تحریر کیا تھا، البتہ یہ بھی فارسی میں تھا،اس کا ایک قلمی نسخہ پروفیسر خلیق احمد نظامی کے ہاں مولانا نسیم احمد فریدی کو ملا،جس کے بعض مقامات کرم خوردگی کے باعث واضح نہیں تھے، پھر انھیں رضا لائبریری میں اس کے ایک نسخے کی موجودگی کا سراغ کا لگا،تو انھوں نے اس سے مقابلہ کرکے متعلقہ عبارتوں کی تحقیق کی اور اس کا اردو ترجمہ کیا،جسے ۱۹۶۱ء میں مکتبہ الفرقان لکھنؤ نے شائع کیا تھا۔مولانا فریدی نے تاریخ حرمین سے متعلق تحریروں اور کچھ واقعات و حکایات کا ترجمہ غیر ضروری جان کر نہیں کیا ہے،صرف سفرنامے والا حصہ ترجمہ کیا گیا ہے۔یہ ایک مختصر کتاب ہے اور محض ۹۳ صفحات میں مکمل ہوجاتی ہے،مگر ہے بہت دلچسپ، مصنف نے اپنے تمام سفر کا احوال بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔
صہیب صاحب نے اپنی زیر نظر تحقیقی کتاب میں تیس سے زائدحج کے سفرناموں کو پیش نظر رکھا ہے۔ یہ سب اردو میں ہیں(سواے صدیق حسن خاں انبالوی کی سفری یاد داشت کے، جو انگریزی میں ہے )۔ ان میں پہلا سفرنامہ’’مرآۃ العرب یعنی سفرنامۂ نادر ‘‘ہے،جس کے مصنف نادر علی ہیں، یہ میرٹھ کی عدالت میں وکیل تھے،ان کا یہ سفرنامہ ۱۹۰۲ء میں شائع ہوا تھا۔اس کے علاوہ نواب سلطان جہاں بیگم،خواجہ حسن نظامی، علامہ سیدسلیمان ندوی،مولانا ثناء اللہ امرتسری،مولانا حبیب الرحمن شروانی،پروفیسر الیاس برنی،مولانا عبدالماجد دریابادی،مولانا مناظراحسن گیلانی،مولانا غلام رسول مہر،شفیق جونپوری،غلام حسین پانی پتی،مولانا عاشق الہی میرٹھی،مولانا مسعود عالم ندوی وغیرہ کے سفرناموں کا مصنف نے تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔ ان میں ایک دلچسپ سفرنامہ ہے’’حج بذریعہ موٹر‘‘،جس کے مصنف شیخ ولی داد ہیں ،جو برطانوی گورنمنٹ میں اسٹیشن ماسٹر اور کٹنی (مدھیہ پردیش) کے رہنے والے تھے۔ان کے جی میں آیا کہ موٹرگاڑی سے حج کے سفر پر نکلیں؛چنانچہ سولہ افراد کے قافلے کے ساتھ انھوں نے ۱۹۳۴ء میں یہ سفر کیا اور ہندوستان سے براہِ دہلی ،پنجاب و بلوچستان ، ایران، عراق و کویت اور وہاں سے حجاز پہنچے اور حج و زیارت سے شرف یاب ہوئے۔اگلے سال انھوں نے یہ سفرنامہ لکھا جو آگرے سے شائع ہوا تھا۔اس میں انھوں نے سعودی عرب ہی نہیں،اس سفر کے دوران راہ میں پڑنے والے تمام ملکوں کی سفری روداد تحریر کی ہے۔
صہیب صاحب نے کتاب کو سات مفصل ابواب میں منقسم کیا ہے۔ ان سے قبل ان کا ایک بھرپور مقدمہ ہے، جس میں انھوں نے ہندوستان میں سفرِ حج لکھنے کی روایت کے تاریخی تجزیے کے ساتھ تحقیقی مطالعے میں شامل ۳۲؍سفرناموں کا مختصر تعارف بھی کروایا ہے۔ کتاب کا پہلا باب سعودی عرب اور ہندوستان کے تعلقات کے جائزے پر مشتمل ہے،جس میں قدیم و جدید دور میں سعودی عرب اور ہندوستان کے مابین سیاسی،ثقافتی،علمی و اقتصادی تعلقات کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں سفرنامہ ہاے حج کی روشنی میں سعودی عرب کے معاشرتی حالات کا بیان ہے،جس میں سعودی عرب کے مختلف شہروں کی جغرافیائی و سماجی کیفیت،وہاں کے لوگوں کے رہن سہن ، ان کی روزمرہ زندگی،وہاں کی عمارتوں، گزرگاہوں، سڑکوں، شاہراہوں، وادیوں کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں ثقافتی حالات ہیں، یعنی حج کے سفرناموں میں سعودی عرب کی علمی و ثقافتی حالت کی کس طرح عکاسی کی گئی ہے ،اس کا تجزیہ کیا گیا ہے۔چوتھے باب میں اقتصادی اور معاشی حالات، یعنی ان سفرناموں کی روشنی میں اس زمانے میں سعودی عرب کی معاشی حالت، کاروبار اور بازار کی نوعیت، مختلف قسم کے پیشوں ،پیشہ وروں،زراعت اور تیل کی دریافت وغیرہ کااحوال ہے۔ پانچویں باب میں اس دور میں سعودی عرب کے نظم و نسق کا بیان ہے ،چھٹے باب میں سیاسی حالات،ساتویں باب میں شاہ عبدالعزیز آل سعود سے متعلق ان سفرناموں میں پیش کردہ تاثرات کا بیان ہے۔
اس طرح اس کتاب کے مطالعے سے بیسویں صدی کے نصفِ اول کے سعودی عرب کا متنوع الجہات منظر نامہ سامنے آجاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس دور کے ہندوستانی اہلِ علم و قلم نے سعودی عرب کی کیسی عکاسی کی ہے ، یہ عکاسی یک رخی نہیں ہے؛بلکہ ہمہ جہت ہے،جس میں مملکت کی خوبیوں کا اعتراف بھی ہے اور خامیوں پر کھلی تنقیدیں بھی ہیں،اس کتاب کے مصنف نے بھی ان سفرناموں کے ہر پہلو کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد کاوش ہے،جس کے لیے ڈاکٹر صہیب عالم ڈھیروں مبارک باد کے مستحق ہیں۔انھوں نے اس کتاب کے ذریعے بیسویں صدی کے نصفِ اول کے سعودی عرب کی تاریخ کا ہندوستانی Perspective بڑی خوبی سے پیش کردیا ہے۔اسلوب بھی متین و باوقار اور طرزِ نگارش سلیس و شان دار ہے،خشکی،پیچیدگی اور ژولیدگی سے پاک ہے۔ اس اہم کتاب کی اشاعت مکتبة الملک عبدالعزیز ، ریاض کے زیراہتمام ڈیڑھ دو ماہ قبل عمل میں آئی اور عرب اہلِ علم کے درمیان اسے بڑی پذیرائی حاصل ہورہی ہے،اب تک اس پر عربی کے موقر اخبارات و رسائل اور ویب سائٹس پر ایک درجن سے زائد تبصرے شائع ہوچکے ہیں۔
Source: Facebook