ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے….
بہار کی ایک عظیم علمی شخصیت حضرت مولانا یحییٰ ندوی صاحب سانحہ بیگو سرائے اب اس دنیا میں نہیں رہے. کچھ دیر قبل جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول کے صدر مدرس محترم مفتی انصار احمد قاسمی نے یہ افسوسناک خبر سنائی. انا للہ وانا الیہ راجعون.
مفتی انصار احمد صاحب کو دراصل میرے اور مولانا یحییٰ ندوی صاحب کے مشفقانہ تعلقات کا علم تھا اس لیے یہ جانکاہ خبر دینے میں انہوں نے کوئی دیر نہیں کی.
ہماری علمی محفلوں میں جب صوبہ بہار کی علمی شخصیات کا ذکر چھڑتا تو میں میری زبان پر بے ساختہ حضرت مولانا یحییٰ ندوی رحمہ اللہ کا نام نامی ضرور آجا تا. چونکہ میں ان کے علم اور وقار سے بخوبی واقف تھا.
دوران ریسرچ کئ بار ان سے استفادہ کا موقع ملا. علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی اور جب ضرورت محسوس ہوئی تو ان کے گاؤں سانحہ بیگو سرائے جاکر اپنی علمی تشنگی بجھائی. اور اس دوران کئی کئی روز وہاں رکنا بھی پڑتا تھا.
حضرت مولانا یحییٰ ندوی صاحب کو کئ بزرگوں اور علمی ہستیوں سے قربت حاصل تھی. آپ کا شمار ابو الماثر حضرت مولانا حبیبِ الرحمن اعظمی محدث کبیر وفقیہ کے ممتاز شاگردوں میں ہوتا تھا.
مولانا یحییٰ ندوی رحمہ اللہ کو رب کریم نے طویل عمر عطا فرمائی. اس وقت ان کی عمر سو سال کے قریب رہی ہوگی . مگر ان کی زندگی کا بیشتر وقت علوم حدیث کی تلاش و جستجو میں صرف ہوا.
آپ کو خاندان رحمانی مونگیر سے کئ نسبت حاصل تھی. آپ کی سسرال بھی وہیں تھی. بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ آپ کا نکاح رئیس القلم حضرت مولانا مناظر حسن گیلانی رحمہ اللہ علیہ نے پڑھایا تھا. یہ اپنے آپ میں خود بڑے اعزاز کی بات ہے.
موجودہ امیر شریعت مولانا فیصل ولی رحمانی مد ظلہ العالی کو مولانا یحییٰ ندوی سے ہی سند حدیث کی اجازت حاصل ہے.
مولانا ایک زمیندار گھرانے کے اکلوتے چشم وچراغ تھے. ندوۃ العلماء لکھنؤ. علی گڑھ مسلم یونیورسٹی. عثمانیہ یونیورسٹی . اور دیگر اہم علمی اداروں سے بڑی نسبت حاصل رہی ہے.
علوم اسلامیہ بالخصوص علم حدیث اور اس میں بھی اسماء الرجال پر خاص دسترس حاصل تھی. السماء الرجال جیسے اہم فن کا علم وہ بھی اس درجہ بہار میں شاید بہت کم اہل علم کو حاصل ہوگا.
جب تک صحت نے ساتھ دیا سال میں پورے ملک کا ایک مرتبہ ضرور علمی سفر فرماتے اور اہم لائبریریوں میں جاکر اپنے مطلب کی کتابوں کی ورق گردانی کرتے تھے. حدیث پر اگر کوئی نئ کتاب چاہیے دنیا کے جس کونے میں بھی شایع ہوئی ہو مولانا تک اگر اس کی جانکاری پہنچتی تو اسے منگوا نے کی کوشش کرتے. اگر کتاب نہیں مل پاتی تو کسی جاننے والے سے اس کا زیروکس منگواتے. مگر جب تک اس کتاب تک رسائی نہیں ہوجاتی چین سے نہیں بیٹھتے..
ان کی ذاتی لائبریری میں بہت سی نایاب کتاب اور نادر مسودے و زیروکس موجود تھے پتہ نہیں اب وہ کتابیں ہیں یا خانقاہ رحمانی مونگیر منتقل ہو گئین.
مولانا یحییٰ ندوی کو ایک بڑی نسبت یہ بھی تھی کہ آپ حضرت مونگیر ی رحمہ اللہ علیہ کے پوتے و علمی جانشین حضرت مولانا فضل اللہ جیلانی سابق صدر شعبہ دینیات عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد کے تربیت یافتہ فیض یافتہ تھے. مولانا فضل اللہ جیلانی کی مشہور تصانیف میں فضل اللہ الصمد فی توضیح الادب المفرد شامل ہے. یہ کتاب ضخیم دو جلدوں میں ہے اور اس کے متعدد ایڈیشن عرب ممالک میں شائع ہوچکے ہیں. اہل علم ومحقیقین اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ سیدنا الامام البخاری رحمہ اللہ کی اہم ترین تصنیف الادب المفردپر اب تک جتنی بھی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں تقریبا سبھی مصنفین نے فضل اللہ الصمد سے استفادہ کیا ہے.
مولانا یحییٰ ندوی مولانا فضل اللہ جیلانی رحمہ اللہ علیہ کی صحبت میں کافی عرصے تک رہے ہیں اس لئے ان سے بہت زیادہ انسیت کا اظہارِ فرماتے تھے..
شیخ الحدیث مولانا حبیبِ الرحمن العظمی کی سوانح حیات میں مولانا یحییٰ ندوی کا خاص شاگردوں میں کیا گیا ہے. مولانا کی لائبریری میں بہت سے اہم خطوط بھی موجود تھے جن میں ملک کی مقتدر علمی شخصیات سے روابط و تعلقات کا علم ہوتا تھا. میں ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں جن کو مولانا یحییٰ ندوی سے بہت کچھ حاصل ہوا ہے. بد قسمتی سے ایک طویل عرصے سے اپ سے کوئی رابطہ نہیں تھا مگر ہماری علمی مجالس میں ان کے تذکرے ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے انشاءاللہ. مولانا کے ساتھ بہت سے علمی راز بھی دفن ہوجائین گے. بلکہ ہوگیے. اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین




ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی
سینئر سب ایڈیٹر روزنامہ انقلاب دہلی
17 رمضان المبارک 1444ھ مطابق 9 اپریل 2023