مدارس اسلام کے قلعے ہیں، ان کا وجود نعمت خداوندی سے کم نہیں، برصغیر ہندو پاک میں جن لوگوں نے مدراس و مکاتب قائم کرنے کا اہتمام کیا ہے، ان کا امت پر بہت بڑا احسان ہے، انہوں نے خلوص و للہیٰت کے ساتھ امت کی دینی و فکری اور اخلاقی تربیت کرنے میں خود کو سب سے مقدم رکھا، یہی وجہ ہے کہ دینی علوم کا قیام اور اس کی نشرو حفاظت کا سلسلہ آج تک جاری ہے ۔
آج تقریباً ہر ضلع میں پچاسوں، سینکڑوں مدارس ہوں گے، جن میں کہیں تعلیم معیاری نہیں ہوگی، کہیں اساتذہ ہوں گے، طلبہ نہیں، کہیں اس کے برعکس، کہیں اساتذہ، طلبہ اور مدرسے کا بیک گراؤنڈ سب اچھا ہے ، لیکن خلوص نہیں، طلبہ کے اصلاح کی فکر نہیں، ان کی صحیح سےنگرانی نہیں ، اساتذہ کی عزت نہیں، ان کی خوبی پر خاموشی اور خامی پر بےحد دشت درازی، اساتذہ کو وقت پر تنخواہ نہیں دی جاتی، دی بھی جاتی ہے، تو احسان جتلا کر، نیز اپنے ادارے کی تعلیم کو معیاری بنانے کا تو ذرہ برابر بھی شوق نہیں ۔
مذکورہ چیزوں کے فقدان کی سب سے بڑی وجہ "مال کی حرص، خود غرضی، بغض و حسد، اندرونی و بیرونی رنجشیں، دین سے دوری اورتکبر ہے” آج بعض ذمہ داران نے مدارس کو اپنی جاگیرسمجھ لیا ہے، مال و دولت کے حصول کا ذریعہ بنا لیا ہے، وہ اپنے دل کی بھڑاس مدارس کے اساتذہ و طلباء پر نکالتے ہیں، موقع میسر آتا نہیں کہ مدرسے میں ہی اپنی ذاتی دشمنی بھی پوری کرنے لگتے ہیں اور آج بیشتر مدرسوں کے ذمہ داران کا یہی حال ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بہت سے مدارس تعلیم و تربیت کے اعتبار سے اپنی پسماندگی کی آخری شاہراہ پر ہیں ۔
یہ بھی المیہ ہے کہ ہر وہ استاذ قابل احترام اور صلاحیت کا مالک سمجھا جاتا ہے، جو منتظمین مدرسہ کے خیال کے مطابق ہو، خواہ وہ کتنا ہی ناکارہ کیوں نہ ہو اور ہر وہ استاذ قابل ملامت، اس کی معمولی غلطیاں لائق گرفت ہوتی ہیں، جس کی انتظامیہ سے خارجی عداوتیں اور چپقلش ہوتی ہیں، خواہ وہ کتنا ہی ذی استعداد، صلاحیت مند اور صاحب فن و کمال کیوں نہ ہو، الغرض طلباء کے اصلاح کی کوئی فکر نہیں ہوتی، ان کے مستقبل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، اپنے ادارے کی تعلیمی ترقی مقصود نہیں ہوتی، اگر ان کے نزدیک سب سے زیادہ کوئی چیز معنی رکھتی ہے تو "مہینہ کی سلیری” غیر پسند اساتذہ کو پریشان کرنے کے لیے بےمطلب کا دباؤ اور ان کی تذلیل کی جاتی ہے، معمولی اور قابل امر معاف امر پر چٹکیوں میں باہر کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے آج ادارہ باصلاحیت افراد سے محروم ہے، آپ کو بتاتا چلوں کہ یہاں لکھنے کا مقصد ذمہ داران مدارس کی عیب جوئی ہرگز نہیں ہے، بس چند ذمہ داران کے منصب کی اہمیت پر روشنی ڈالنا مقصود ہے اورمحض اس درد کی جھلک پیش کرنا ہے، جس سے آج کے علماء کراہ رہے ہیں اور صبر و تحمل کا دامن تھامے ہوئے ہیں اس پر باقاعدہ آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ۔
ستم تو یہ ہے کہ ماہر استاذ کو نکالنے کے بعد اس کی جگہ بلایا بھی ایسے شخص کو جاتا ہے کہ جو سابق استاذ کا نعم البدل تو دور اس کا نصف بھی نہیں ہوتا، جب بھی ایسا معاملہ دیکھنے یا سننے کو ملتا ہے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث فوراً ذہن میں آتی ہے، جس میں اشارہ کیا گیا ہے کہ آخری زمانے میں قیامت کے قریب مسلمانوں کے ملی امور جاہل و فاسق لوگوں کے ہاتھ چلے جائیں گے اور اپنی فسق و جہالت کی وجہ سے غیر دانشمندانہ فیصلے کریں گے اور ملت کو تباہ و برباد کر دیں گے اور آج یہ سب کھلی آنکھوں دیکھی جا رہی ہے، دینی و ملی اداروں پر نااہلوں کا تسلط ہے اور علماء ان کے تابع و محکوم ہیں ۔
(و ینطق فیھا الرویبضۃ، قیل وما الرویبضۃ ؟ قال الرجل التافہ، یتکلم فی امر العامۃ” (سنن ابن ماجہ 4036)
اور رویبضۃ (گرے پڑے لوگ) قوم کی طرف سے نمائندگی کریں گے، عرض کیا رویبضۃ سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : وہ نااہل اور بےقیمت آدمی جو عام لوگوں کے اہم معاملات میں رائے زنی کرے ۔
نااہلوں کو عہدہ سپرد کرنے سے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ یوں فرمایا ہے کہ:
قال اذا وسد الٔامر غیر اھلہ فانتظر الساعۃ (صحیح بخاری 14/1)
"جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کو سپرد کردی گئی جو ان کے اہل اور قابل نہیں تو قیامت کا انتظار کرو”
واضح رہے کہ یہ مدارس دین کے قلعے ہیں اور یہ علماء اس کے ستون اور محافظ ہیں اور بعض دفعہ ستون کے گرنے سے عمارت خود بہ خود یا تو ڈہہ جاتی ہے یا بالکل کمزور ہو جاتی ہے، آج اگر ذمہ دار حضرات اپنے دولت کے نشے میں چُور مدارس کے نظام کو درہم برہم کررہے ہیں، دین کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اور لوگوں کے ساتھ غلط برتاؤ اور ناانصافی کررہے ہیں، تو کوئی بعید نہیں کہ کل اللہ تعالیٰ ان کی جگہ کسی اور کا انتخاب کرلےگا اور ان سے اپنے دین کی حفاظت کروائے گا اور یہ ان کی سب سے بڑی ناکامی ہوگی "وان تتولوا یستبدل قوما غیرکم ثم لا یکونوا أمثالکم” (سورہ محمد : 38)
"اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے "
مذکورہ آیت ایسے ذمہ داران کے لیے ایک بہت بڑی دھمکی ہے، اس لیے اب بھی وقت ہے ، ذمہ دار حضرات اپنے منصب و ذمہ داری کی اہمیت کو جانیں، دشمنی و عناد میں اس کو برباد نہ کریں، اپنی صلاحیت کو مدرسہ کی ہر ترقی میں خرچ کریں، تعلیمی معیار ہر اعتبار سے بلند کریں، اساتذہ و طلباء کے حقوق کا خیال رکھیں، اساتذہ کی حوصلہ افزائی اور وقت پر ان کو تنخواہ لازمی دیں اور طلباء کی تعلیم اورتربیت دونوں کا خاص خیال رکھیں، جو انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے مقاصد ہیں، "انما بعثت معلما” (سنن ابن ماجہ 229) ” ۔ "میں بھیجا ہی گیا ہوں معلم بنا کر”۔ ” انما بعثت لاتمّم مکارمَ الاخلاق” (مجمع الزوائد 9/18) "مجھے تو صرف اس (مقصد) کے لیے مبعوث کیا گیا کہ اخلاقی اقدار کی تکمیل کر سکوں ” خدا کے واسطے اپنی ذاتی دشمنی کی وجہ سے بچوں کا مستقبل برباد کریں اور نہ ہی اساتذہ کی تدریس میں مخل ہوں، اپنے آپ کو ایک خادم سمجھیں، سلطان نہیں، رحم دلی کا معاملہ کریں، تاناشاہی کا نہیں، تنخواہ ان کا حق سمجھ کر دیں، قرض دارسمجھ کرنہیں، سلوک انسانوں والا کریں، حیوانوں والا نہیں، نیز معلمین و مدرسین کو بھی چاہیے کہ وہ اخلاص اور صدق دل سے پڑھاتے رہیں، ان شاءاللہ کامیابی ہوگی، لوگوں کی مخالفت اور طعن و تشنیع کی پرواہ نہ کریں، کہیں زمین سخت ہوتی ہے، وہاں محنت کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے اور جو مدارس کے قیام کا اصل مقصد ہے، اس کو ذمہ داران مدرسہ ہرگز نظر انداز نہ کریں ورنہ مدارس کے قیام کی جو اصل روح اور اساس ہے، وہ بالکل فوت ہو کر رہ جائے گی ۔
نسیم ظفر بلیاوی
۳ جمادی الاول ۱۴۴۵ھ