اسلامک فقہ اکیڈمی کے 32 ویں سمینار میں منظور کردہ تجاویز

اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے 32 ویں سمینار منعقدہ 18- 20 نومبر 2023 ، جامعۃ الاسوۃ الحسنۃ ، پلاپٹی (تامل ناڈو) میں منظور کردہ تجاویز

[ 1 ]حرام کمائی سے متعلق بعض مسائل

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے ۳۲ ویں فقہی سمینار منعقدہ ۱۸-۲۰ نومبر ۲۰۲۳ ، بمقام جامعة الاسوة الحسنه پلا پٹی تمل ناڈو میں ‘حرام کمائی سے متعلق بعض مسائل‘ پر غور وخوض اور بحث ومناقشہ کے بعد درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں :

1 ۔ (الف) حرام ( سود ، غصب ، رشوت ، چوری ، جوا ، سٹہ اور عقدِ باطل ) کے ذریعہ حاصل شدہ مال قطعی حرام ہے ، جس کا حکم یہ ہے کہ اصل مالک کو لوٹا دیا جائے اور اگر اصل مالک کو لوٹانا ممکن نہ ہو تو دفعِ وبال کی نیت سے غرباء میں تقسیم کرنا واجب ہے ۔
(ب) اس طرح کا مال اگر وراثت میں حاصل ہوا ہو اور اس کا مالک معلوم ہو ، نیز واپس کرنا ممکن ہو تو مالک تک اس کا پہنچانا ضروری ہے اور اگر مالک معلوم نہ ہو ، یا معلوم ہو ، لیکن اس تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو اس مال کو بھی فقراء میں تقسیم کرنا واجب ہے ۔
(ج) اگر وارث نے وراثت میں ملے ہوۓ مالِ حرام سے کاروبار کیا تو اس کی آمدنی حلال ہوگی ، البتہ حرام مال کے بقدر اس پر صدقہ کرنا واجب ہے ۔
2 – اگر شوہر یا بیٹے کی پوری یا اکثر آمدنی حرام ہو اور عورت کے پاس گزارے کی کوئی اور صورت نہ ہو تو اس مجبوری کی صورت میں شوہر یا بیٹے کے مال کو استعمال کرنے کی گنجائش ہے ۔
3 – جس شخص کی تعلیم مالِ حرام سے ہوئی ہو ، وہ تعلیم پانے کے بعد کوئی جائز ملازمت کرے تو اس کی آمدنی حلال ہے ، البتہ بہتر ہے کہ کمائی کے بعد مالِ حرام کے بقدر حرام کی تلافی کی نیت سے صدقہ کر دے ۔
4 – اگر کسی کے پاس حلال و حرام دونوں مال ہو اور دونوں الگ الگ ہو اور یہ معلوم ہو کہ وہ حلال مال سے ہی خرچ کر رہا ہے تو اس کی دعوت قبول کرنا اور اس سے ہدیہ لینا جائز ہے – اگر متعین طور پر معلوم ہو کہ مالِ حرام سے دعوت کر رہا ہے تو اس کو قبول کرنا جائز نہیں ہوگا ۔ اگر حلال و حرام مخلوط ہوجاۓ تو جو وہ اپنے حلال حصے کے بقدر مال میں سے پیش کرے اس کو قبول کرنا درست ہے ، اور اگر اس کا علم نہ ہو ، لیکن حرام مال غالب ہو تو اس کے یہاں دعوت قبول کرنا یا ہدیہ لینا جائز نہیں ہے ۔
5 – اگر کسی کو معلوم نہ ہو کہ دعوت کرنے والے کا مال حرام تھا ، اس لیے اس نے دعوت کھالی اور بعد میں معلوم ہوا تو اب توبہ و استغفار کرے اور بہتر ہے کہ کھانے کے بقدر مال صدقہ کر دے ۔
6 – اگر کسی کے پاس حرام مال ہو اور اب وہ جائز کاروبار کرنا چاہتا ہے ، لیکن اس کو غیر سودی قرض نہیں مل رہا ہے اور تمام مال کو صدقہ کرنے میں شدید حرج ہے تو اس مال سے کاروبار کرنے کی گنجائش ہے اور بعد میں اس کو صدقہ کر دینا واجب ہے ۔
7 – اگر کسی شخص کو دورانِ ملازمت جائز و ناجائز دونوں طرح کے کام کرنے پڑتے ہوں اور کسی بھی شعبہ میں کام کرنا نادر نہ ہو تو ایسی ملازمت ناجائز ہے ۔
8 – فروخت شدہ سامان کی قیمت ، گاڑی یا مکان کا کرایہ اور کسی طرح کی فیس وغیرہ ایسے شخص سے وصول کرنا جائز ہے جس کا ذریعۂ آمدنی بہ ظاہر حرام ہے ۔
9 – سودی رقم کو کسی طرح کے بھی ذاتی مفاد میں استعمال کرنا درست نہیں ہے ۔

[ 2 ] تشبہ سے متعلق مسائل

اللہ تعالی نے ہر انسان کے اندر اپنا تشخّص قائم کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کا جذبہ رکھا ہے – اسلام اس جذبہ کو اہمیت دیتا ہے – اس لیے اگر غیرمسلم بھائیوں کا کوئی گروہ اپنے لیے اپنی مذہبی یا تہذیبی شناخت کو قائم رکھنا چاہتا ہو اور اس سے دوسروں کو کوئی ضرر نہ ہو تو مسلمانوں کو اجازت نہیں دیتا ہے کہ وہ اس میں رکاوٹ بنیں ، یا خلل پیدا کریں – اسی طرح اسلام مسلمانوں سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی مذہبی و تہذیبی شناخت کو قائم رکھیں اور دوسری قوموں کا ایسا اثر قبول نہ کریں کہ اس سے ان کی اپنی دینی و قومی شناخت متاثر ہوجاۓ – چنانچہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فر مایا ہے کہ جو کسی اور قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے : مَـنْ تـَشَبَّـهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ – آپﷺ کا یہ ارشاد معتبر طریقہ سے ثابت ہے اور اسی لیے فی الجملہ اس کے ضروری ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے – لہٰذا اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے ۳۲ ویں فقہی سمینار منعقده ۱۸-۲۰ نومبر ۲۰۲۳ء بمقام جامعۃ الاسوۃ الحسنۃ پلاپٹی تمل ناڈو میں ’تشبّہ سے متعلق مسائل‘ پر غور وخوض اور بحث و مناقشہ کے بعد درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں :

1 – کسی فرد یا جماعت کا کسی ایسی چیز کو جو کسی خاص قوم کی پہچان و امتیاز ہو ، بالارادہ اختیار کرنا تشبّہ ہے ۔
2 – جن امور کو عادتاً ایک طرح پر کیا جاتا ہے اور ان سے اسلام میں منع نہیں کیا گیا ہے تو ان کو اسی طریقہ پر کرنے میں تشبّہ نہیں ہے ۔
3 – نئی ایجادات اور عام ضروریاتِ زندگی سے متعلق امور میں تشبّہ مباح ہے ۔
4 – کسی بھی قوم یا مذہب کی وہ خاص علامت جس سے ان کی شناخت ہوتی ہو ، اس کو شعار کہتے ہیں ، اور کسی دوسری قوم کا شعار اختیار کرنا جائز نہیں ۔
5 – اگر کسی قوم کا کوئی مروّج عمل اتنا عام ہوجاۓ کہ اب اس کو اس قوم کی پہچان نہ قرار دیا جاۓ تو اس میں تشبّہ کی جہت ختم ہو جاۓ گی ۔
6 – وہ امور جن کا تعلق عقیدہ و عبادات سے یا مذہبی عُرف و عادت سے ہے ان میں تشبّہ حرام ہے اور ان کی بعض صورتوں میں کفر کا اندیشہ ہے ۔
7 – صلیب لٹکانا ، زُنّار پہننا ، قشقہ لگانا ، ہولی کھیلنا ، دیوالی میں دیا جلانا ، کرسمس میں شریک ہونا ، یوگا کرنا ، یا اس طرح کے دوسرے مذہبی اعمال ، یہ سب مذہبی تشبّہ کے دائرہ میں آتے ہیں اور یہ سب ناجائز ہیں ۔
8 – سرسوتی وندنا ، سوریہ نمسکار ، وندے ماترم ، بائبل یا گیتا سے مشرکانہ دعائیہ کلمات پڑھنا ، دیوی دیوتاؤں کے سامنے ہاتھ جوڑنا ، یا ان کے نام کے نعرے لگانا ، حضرت مسیح کے مجسّمہ و فوٹو کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہونا ، یہ سب دیگر مذاہب کے مذہبی شعار ہیں ۔ ان سے بچنا لازمی ہے اور ان کے ارتکاب کی وجہ سے دائرۂ ایمان سے نکل جانے کا اندیشہ ہے ۔
9 – لباس میں اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ اس سے ستر پوشی کے تقاضے پورے ہور ہے ہوں ، نیز دوسری قوموں کے مروّج لباس کی نقّالی بھی نہ ہو ، لہٰذا ساڑی ، دھوتی جن علاقوں میں غیرمسلموں کا لباس نہیں ہے اور وہ ساتر بھی ہوں اور ان کے پہننے سے شناخت مشتبہ نہ ہو تو ان کے استعمال کی گنجائش ہے – اسی طرح کوٹ پینٹ اور ٹائی ، جو اب کسی قوم کے ساتھ خاص نہیں ، ان کے استعمال کی بھی اجازت ہے ۔
10 – ٹکلی اور سندور کا استعمال جن علاقوں میں غیرمسلموں کے ساتھ خاص ہے وہاں اس کا استعمال مسلم خواتین کے لیے جائز نہیں ۔
11 – دوسری اقوام کی نقل میں یا نفع و نقصان کے عقیدہ سے ہاتھوں وغیرہ میں دھاگہ باندھنا ناجائز ہے اور مشرکانہ عمل ہے ۔
12 – مکانات کی تعمیر یا اس کی خریداری میں واستو کی رعایت کو ضروری تصور کرنا ، نیز مکان کے دروازوں اور نئی خریدی گئی گاڑیوں پر لیموں مرچ کا لٹکانا مشرکانہ عمل ہے ۔
13 – نیا سال منانا ایک غیر اسلامی عمل ہے – اسی طرح بچوں کے یومِ پیدائش اور شادی کی سال گرہ منانا وغیرہ بھی غیر اسلامی طریقہ ہے ، اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
14 – اپریل فول منانا دھوکہ اور جھوٹ پر مبنی ہونے کی وجہ سے قطعاً ناجائز ہے ۔
15 – مردوں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے ان کے طریقہ پر چھوٹے بال رکھنا خواتین کے لیے درست نہیں ہے ۔
16 – مردوں کے لیے کان اور گلے میں زیور پہننا ، ہاتھ میں سونا ، چاندی یا لوہے کا کڑا پہننا ناجائز ہے ۔
17 – عورتیں جس طرح کے شوخ رنگ اور چھینٹ کے رنگ کے کپڑے پہنتی ہیں ، مشابہت کی وجہ سے مردوں کو اس طرح کے کپڑے پہننا مناسب نہیں ہے ۔
18 – زیب و زینت میں مبالغہ مردوں کے لیے زیب نہیں ہے ، اس لیے مروّجہ راجستھانی شیروانی اور ایسے کپڑے جن میں تزئین کاری میں مبالغہ اختیار کیا جاۓ ، نامناسب ہے ۔
19 – زیب و زینت کے لیے مردوں کو ہاتھ پاؤں میں مہندی وغیرہ لگانا جائز نہیں ۔

[ 3 ] سرمایہ کاری سے متعلق بعض نئے طریقے

مال انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور بعض عبادتیں بھی اس سے متعلق ہیں ، اس لیے کسبِ معاش اسلام کی نظر میں ایک بہتر امر اور بعض حالات میں ضروری ہے – لیکن شریعت نے اس کے لیے حلال و حرام کی حدود مقرر کی ہیں ، جن کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا کوئی عمل اس کے خالق کی رضا کے خلاف نہ ہو اور اس سے دوسرے انسانوں کو ضرر نہ پہنچے – مگر افسوس کہ اس وقت دنیا میں جو معاشی نظام قائم ہے اس میں ایسی ممنوع باتیں بھی شامل ہیں جن کو شریعت میں بہ تا کید منع کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس میں انسانی سماج کا نقصان اور استحصال بھی ہے – اس صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ دور کے فقہاء نے شریعت کے دائرہ میں سرمایہ کاری کی شکلیں پیش کی ہیں ۔ اکیڈمی کے اس سمینار نے ان شکلوں پر غور کیا اور درج ذیل تجاویز منظور کیں :

1 – مضاربتِ استمراری یعنی عقدِ مضاربت میں سرمایہ کاری کی مدت کا متعین نہ ہونا اور درمیان سال میں نئے نئے اربابِ اموال کا داخل ہونا اور سرمایہ لگانے والوں کا حسبِ موقع اپنے سرمایہ اور اس کے نفع کو لے کر علیٰحدہ ہوجانا اصولِ شریعت کے مطابق ہے اور مضاربت کی معروف شکل کی طرح یہ بھی جائز ہے ۔

2 – کمپنی کے نقد اثاثے اور ٹھوس اثاثوں کی قیمت کا اندازہ لگاکر نفع و نقصان متعین کرنے کو ‘تنضیضِ تقدیری’ کہتے ہیں ، جو آج کل غیرسودی مالیاتی اداروں میں مروّج ہے اور یہ جائز ہے ۔
3 – شخصِ قانونی کا تصور اصولِ شریعت کے خلاف نہیں ، اس لیے کمپنی کو شخصِ قانونی کا درجہ دیا جانا درست ہے اور اس کا مُضارِب یا رَبُّ المال کی حیثیت سے معاملہ کرنا درست ہے ۔
4 – مالیاتی ادارہ یا فرد کے ساتھ مل کر کسی چیز کو خریدنے اور اس کے بعد شریک کے حصہ کو کرایہ پر لینے اور ساتھ میں مزید رقم ادا کر کے رفتہ رفتہ اس کے حصہ کا مالک بن جانے اور ملکیت کے تناسب سے کرایہ کے کم ہوتے رہنے کا معاہدہ کرکے اس کے مطابق معاملہ کرنا ، جس کو موجودہ غیر سودی مالیاتی اداروں کی اصطلاح میں ‘شرکتِ متناقصہ’ کہتے ہیں ، جائز ہے ۔
5 – غیر سودی مالیاتی اداروں میں مرابحہ کی رائج یہ شکل جس میں ادارہ مطلوبہ سامان کی خریداری کے خواہش مند کو ہی اپنی طرف سے کسی متعینہ جگہ سے خریدنے کا وکیل بنادیتا ہے اور خواہش مند ادارہ کی رہ نمائی کے مطابق خرید کر رسید اپنے نام سے بنوالیتا ہے اور اس کے بعد ادارہ کو اطلاع دے کر اس سے اپنے لیے ادھار خریدنے کا معاملہ کر لیتا ہے تو یہ طریقہ اختیار کرنا جائز ہے ۔
6 – جن کمپنیوں کا اصل کاروبار حلال ہو ، لیکن کمپنی جزوی طور پر حرام کاروبار میں بھی ملوّث ہو اور حرام کاروبار میں لگنے والا سرمایہ کمپنی کے کل سرمایہ کے ایک تہائی سے کم ہو تو ایسی کمپنیوں کے شیئر خریدنے کی گنجائش ہے ، بہ شرطے کہ کمپنی کی حرام سر مایہ کاری کے خلاف بقدر استطاعت اپنا اختلاف درج کرادے اور اس حرام سرمایہ کاری سے حاصل شدہ نفع کو صدقہ کر دے ۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے