مولانااسرارالحق قاسمی
اس وقت عالمِ اسلام عدیم المثال ابتلاء و آزمایش کے دور سے گزر رہاہے۔چند سال پہلے تک دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل اس وقت تڑپ اٹھتے تھے جب ارضِ فلسطین سے معصوم فلسطینیوں پر صہیونی ریاست اسرائیل کے مظالم کی خبریں آتی تھیں۔لیکن اب انتہا یہ ہے کہ عالم اسلام کے بیشتر حصو ں میں خود مسلمان ہی مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں،کہیں دہشت گردی کے نام پر تو کہیں مذہب کے نام پر اور کہیں مسلک کے نام پر۔خون مسلم کی اس ارزانی کے لیے آخر کون ذمہ دار ہے؟کیا یہ اسرائیل کی سازش ہے کہ مسلمان مسلک کے خانوں میں منقسم ہوکر آپس میں خون خرابہ پرآمادہ ہوگئے ہیں؟کیا یہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے امریکہ اور مغربی ملکوں کی سازش ہے؟اگر واقعی یہ اغیار کی اسلام اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کی سازش ہے تو آخر مسلمان اتنے معصوم کیوں ہیں کہ وہ سازش کا شکار ہوجاتے ہیں؟دراصل اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا ٹھیکراکسی اورکے سرپھوڑنا بھی بذات خود نہ صرف ایک سنگین نوعیت کی غلطی بلکہ حقیقت سے منہ موڑنے اوراپنی ذمہ داریوں سے راہِ فراراختیار کرنے کی ایک کوشش ہے۔آج آخرکیا وجہ ہے کہ دنیا کی دوسری قومیں اسباب،وسائل اور تعدادکی کمی کے باوجودسرخ روہورہی ہیں اور مسلمان تعداد،قدرتی وسائل کی کثرت کے باوجودنہ تعلیم و ترقی کی دوڑمیں آگے ہیں اور نہ ہی دنیا کو امن و سکون فراہم کررہے ہیں،بلکہ اس کے برعکس آج لفظ’ مسلمان‘ ہی دہشت گردی،قتل و غارت گری،بدامنی و انتشار کی علامت بن کر رہ گیاہے اور اس کا خمیازہ گیہوں کے ساتھ گھن پسنے کے مترادف ان مسلمانوں کوبھی بھگتنا پڑتا ہے جو ان لعنتوں سے کوسوں دور ہیں۔
ابھی سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک شیعہ باغیوں کو کچلنے کے نام پر یمن میں ان کے ٹھکانوں پر بم برسارہے ہیں۔یمن میں باغیوں کے خلاف اس فوجی کارروائی کے لیے امریکہ فوجی سازوسامان اور انٹیلی جنس سپورٹ فراہم کر رہاہے۔اس حملے میں بھی مسلمان کے ہاتھوں مسلمان ہی قتل و غارت گری کا شکار ہورہے ہیں۔ابھی تک زائد از۱۰۰/لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔حملوں کے باوجودشیعہ باغیوں کی پیش قدمی نہیں رکی ہے اورسعودی عرب کے کئی شہران کے اسکڈمیزائیلوں کے نشانہ پر ہیں۔سعودی عرب نے کہا ہے کہ یہ حملے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک کہ باغی ہتھیار نہ ڈال دیں۔فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ علاقائی عرب فوجی فورس بنانے اور یمن میں زمینی کارروائی شروع کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جنگ کئی ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔اگر شیعہ باغیوں نے جو تمام تر فوجی سازو سامان سے لیس ہیں،جوابی طور پر سعودی مشیروں پر میزائیل داغے تو امکان ہے کہ پاکستان بھی اس جنگ میں کود پڑے کیوں کہ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ اگر سعودی عرب کی سالمیت پر کوئی خطرہ نظرآیا تو وہ اسے نظرانداز نہیں کر سکیں گے۔
اس سے بھی اندازہ کیا جاسکتاہے کہ یہ لڑائی نہ صرف طویل ہوگی بلکہ اس کا دائرہ بھی بڑھے گا۔یمن کے صدر عبد ربہ منصورہادی جنھیں شیعہ باغیوں نے ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیاہے واضح طورپر کہاہے کہ شیعہ باغی ایران کے آلہٴ کارہیں۔مصر کے صدر السیسی نے بھی شرم الشیخ میں عرب قائدین سے خطاب کرتے ہوئے ایران کا نام لیے بغیر کہاکہ یمن میں بیرونی مداخلت(ایران)کی وجہ سے عرب ممالک کے استحکام کو زبردست خطرہ لاحق ہوگیاتھا لہذافوجی کارروائی ناگزیرہوگئی تھی۔لیکن ایران نے اس الزام کو لغوقراردیتے ہوئے سعودی کے زیر قیادت فوجی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ان الزامات اور جوابی الزامات کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس وقت پورا عرب علاقہ شیعہ،سنی کے مسلکی خانوں میں منقسم ہوگیاہے اور یہ لڑائی سعودی عرب بنام حوثی باغی نہیں بلکہ سنی بنام شیعہ ہے۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان رقابت کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس بار یہ رقابت جنگ میں تبدیل ہوگئی ہے جس کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
یمن کے شیعہ باغی اس ملک کی آبادی کا کم و بیش ایک تہائی حصہ ہیں۔اگر چہ یمن کے باغی اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ انھیں ایران سے کوئی مدد مل رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران ان کی حمایت کرتا رہاہے۔دوسری طرف یمن کے صدر عبدربہ منصورہادی کو سعودی عرب،کویت،بحرین،متحدہ عرب امارات،قطر،عمان پر مشتمل خلیج تعاون کونسل کی حمایت حاصل ہے۔اب یہ ممالک باغیوں کے خلاف فضائی حملے کر رہے ہیں اور ضرورت پڑی تو زمینی حملے بھی شروع کریں گے۔اس طرح یہ جنگ واضح طورپر شیعہ اور سنی کے درمیان جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔دوسری طرف داعش جو سنیوں کی جماعت ہے،شیعہ باغیوں کے خلاف اس جنگ میں اپنی شمولیت کے لیے زمین تلاش کر چکی ہے اور اس نے گزشتہ ہفتہ ہی شیعوں کی دو مساجد پرخود کش حملہ کرکے ۱۳۰/سے زائد لوگوں کوہلاک کر دیاہے۔سعودی حملے کے ساتھ اس قسم کے حملے یقینی طورسے شیعہ سنی خلیج کو وسیع کریں گے۔عراق اورشام میں شیعہ سنیوں کے درمیان کھلی لڑائی اب تک ہزارہامسلمانوں کا خون بہا چکی ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا کے جس خطے میں قرآن نازل ہوا اور جہاں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺکونبی آخر الزماں کے طورپرمنتخب فرمایا،آج وہ علاقہ مسلمانوں کے مابین نفاق اور تقسیم کی علامت بنتاہوا نظرآرہاہے۔نسل،مسلک،ثقافت،سیاسی نظریات کے نام پر مسلمان باہم برسرِ پیکار ہیں جبکہ اسلام کی تعلیمات صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کے مابین اتحاد و یکجہتی اور بھائی چارہ قائم کرنے پر زور دیتی ہیں۔عالم اسلام کے ان حالات پر نظرڈالیں تو اس لحاظ سے ہندوستانی مسلمان قابلِ تعریف ہیں کہ وہ کم ازکم ان لعنتوں سے دور ہیں،جن کی گرفت میں آج دنیاکے تقریباً سبھی ۵۷/ مسلم ممالک نظرآتے ہیں۔خواہ فلسطینی مسلمانوں پراسرائیل کے مظالم ہوں یاآرٹ آف لیونگ کے بانی شری شری روی شنکرکے خلاف داعش کی دھمکیاں؛تمام موقعوں پرہندوستان کے شیعہ سنی طبقات نے اتحاد کا ثبوت دیاہے اور یہی مسلمان ہونے کا تقاضہ بھی ہے۔کاش کہ آج دنیا بھر کے مسلمان قرآن کریم کی اس دعوت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے،جس میں اللہ نے ملت اور امت کی حیثیت سے تمام مسلمانوں کو ایک اور متحد ہونے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایاہے کہ”تم آپس میں مت جھگڑو کہ تم ناکام ہوجاوٴاورتمھاری ہوا اُکھڑجائے“(الانفال)آج عالمی سطح پر مسلمانوں کی ہوایقیناً اکھڑچکی ہے اور قرآن نے جس خطرسے انھیں پندرہ سو سال پہلے آگاہ کردیاتھا،ان کی غفلت،بے شعوری اور دین بیزاری کی وجہ سے وہ حقیقت بن کر ان سے چمٹ گیاہے۔دنیابھر میں مسلمان ذلت و خواری کی علامت اور نشانی بنے ہوئے ہیں،کہیں بھی نہ تو مسلمانوں کی جانیں محفوظ ہیں ،نہ مال اور نہ ہی عزت و آبرو۔کسی ملک میں ان کے پیچھے یہودونصاریٰ اور ہنودپڑے ہوئے ہیں،توکہیں وہ خود ہی اپنے بھائی کی گردن مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ایسی سنگین صورتِ حال میں اتحاد و اتفاق کے بغیرکسی بھی خیراورمثبت تبدیلی کی توقع فضول ہے۔
(مضمون نگار ممبر پارلیمنٹ اور آل انڈیا تعلیمی و ملی فاوٴنڈیشن کے صدرہیں)