شکیل رشید صاحب ( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز )
مولانا/ڈاکٹر محمد عارف عمری مدنی کے ”میراسفرِحج “پر کچھ لکھنا ، میرے لیے آسان نہیں ہے ، کیونکہ نہ میں عالمِ دین ہوں اور نہ ہی کوئی ادیب ۔ لیکن مولانا عمری کا اصرار تھا کہ میں ان کے سفر نامے پر مفصل یا مختصر ، جس صورت میں ممکن ہو ، کچھ لکھوں ، اور میں اُن کی بات ٹال نہیں سکا ۔ نہ ٹالنے کا ایک سبب تو یہ ہے کہ یہ سفر نامہ اپنی ابتدائی شکل میں میری ادارت میں نکلنے والے روزنامے ’ ممبئی اردو نیوز ‘ میں قسط وار شائع ہوا تھا ، اور میں ہی اس سفر نامے کا پہلا قاری تھا ۔ مجھے یہ سفر نامہ ابتدائی شکل میں بھی بھایا تھا ، اور اب جب کہ مولانا عمری نے اس میں کچھ ترمیم و تنسیخ کی ہے ، اور رودادِ سفر پیش کرنے کے لیے زبان کو مزید چست اور زیادہ رواں کیا ہے ، تو مجھے یہ سفر نامہ اور پسند آیا ہے ۔ نہ ٹالنے کا دوسرا سبب مولانا عمری کے والدگرامی حضرت مولانا مستقیم احسن اعظمیؒ صاحب مرحوم ہیں ، جن سے میرے خوش گوار تعلقات تھے ۔ مجھے مولانا عمری میں مولانا مرحوم کی جھلکیاں نظر آتی ہیں ، اور یہ تحریر لکھتے ہوئے یوں لگ رہا ہے جیسے کہ میں مولانا عمری کا نہیں حضرت مولانا مستقیم احسن اعظمیؒ کا سونپا ہوا کوئی کام کر رہا ہوں ، یہ احساس میرے لیے باعثِ سکون ہے ۔
سفر نامے عموماً دو قسم کے ہوتے ہیں ، ایک عام سفر نامے ، اور دوسرے وہ سفر نامے جو کسی خاص مقصد کے حصول کے لیۓ کیۓجائیں ، جیسے کہ سفرِ حج ۔ اگر اردو زبان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اردو زبان کا دامن ابتدا ہی سے ’ سفرنامے ‘ کی صنف سے بھرا رہا ہے ۔ ڈاکٹر انور سدید نے اپنی تحقیقی کتاب ’ اردو ادب میں سفر نامہ ‘ میں لکھا ہے کہ اردو زبان میں کوئی چار سو سفر نامے لکھے گئے ہیں ۔ اب اس تعداد میں مزید اضافہ ہو گیا ہوگا ، کیونکہ اس کتاب کی اشاعت کو تقریباً کئی دہائیاں گزر چکی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اردو کا پہلا سفرنامہ یوسف خاں کمبل پوش کا ’ عجائباتِ فرنگ ‘ ہے ، جسے ’ تاریخِ یوسفی ‘ بھی کہا جاتا ہے ، یہ پہلی بار 1847ء میں شائع ہوا تھا ۔ بعد کے برسوں میں لکھے جانے والے سفرناموں میں سرسید احمدؒ خان کا لکھا ہوا ’ مسافرانِ لندن، محمد حسین آزاد کا ’ سیرِ ایران ‘ ، علامہ شبلیؒ نعمانی کا ’ سفرنامہ روم و مصر و شام ‘ اہم ہیں ۔ منشی محبوب عالم کے سفرنامے ’ سفرنامہ یورپ ‘ کو بھی سفرناموں میں ایک اہم مقام حاصل ہے ۔ سورش کاشمیریؒ ، علامہ سید سلیمان ندویؒ ، سر عبدالقادرؒ ، قاضی عبدالغفار ، خواجہ احمد عباس ، احتشام حسین ، کرشن چندر ، اشفاق احمد ، مختار مسعود ، ابنِ انشا ، مجتبیٰ حسین اور یوسف ناظم وغیرہ کے سفرناموں نے بھی پڑھنے والوں کو متاثر کیا ہے ۔ یہ تمام سفرنامے مختلف ملکوں یا مختلف جگہوں کے ہیں ۔ اِیسے سفرنامے کچھ مشاہدات ، کچھ تاثرات اور کچھ معلومات پر مبنی ہوتے ہیں ، اور انہیں لکھنے والا اگر قلم کا دھنی ہے ، تو جس ملک یا جس جگہ کا سفرنامہ ہے ، اس ملک یا اس جگہ کی تہذیب ، ثقافت ، تاریخ اور کبھی کبھار سیاست کو اس طرح سے پیش کرتا ہے ، کہ ایک تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے ۔ لیکن یہاں ذکر کسی ایسے سفرنامے کا نہیں ہے جو کسی ملک یا جگہ کی سیر و سیاحت کے مقصد سے کیا گیا ہو ، ذکر ”میراسفرِ حج “کا ہے ، جس کا مقصد روحانی یا اعتقادی تھا ، یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں مقصد مذہبی یا دینی تھا ۔ اردو زبان میں سفرِ حج کی کمی نہیں ہے ، ایک بڑا ہی مشہور اور مقبول سفرنامۂ حج ’ لبیک ‘ کے نام سے ہے ، جسے اپنے دور کے معروف ادیب ممتاز مفتی نے تحریر کیا ہے ، اور ہند و پاک سے اس کے ان گنت ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔ آزادی سے قبل اکثر سفرِ حج فارسی یا عربی زبانوں میں لکھے جاتے تھے ، لیکن آزادی سے کچھ قبل چلن تبدیل ہونے لگا تھا اور اردو زبان میں حج کے متعدد سفرنامے تحریر کیے گیے ، جن میں مولانا ثنااللہ امرتسریؒ ، مولانا عبدالماجد دریابادیؒ ، مولانا غلام رسول مہرؒ ، مولانا سیدابوالحسن علی ندویؒ وغیرہ کے سفر نامے اہمیت رکھتے ہیں ۔ ان سفرناموں کی اہمیت کی دو وجوہ ہیں ، ایک تو یہ کہ ان میں ٖحج کی تاریخ اور اہمیت کے ساتھ قلبی واردات اور روحانی کیفیت بھی شامل ہے ، یعنی یہ سپاٹ سفر نامے نہیں ہیں ۔ کچھ سفر نامے ایسے بھی ہیں ، جن میں سفرِ حج کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ لوگوں میں اس مقدس فریضے کی ادائیگی کا شوق اور جذبہ پنپتا ہے ، اور ان کا دل دیدارِ مسجدِ نبوی ﷺ و خانۂ کعبہ کے لیے تڑپ اٹھتا ہے ۔ اس انداز میں سفرنامہ اسی وقت ممکن ہے ، جب لکھنے والا خود شوقِ دیدار میں تڑپا ہو ، اور مکہ معظمہ و مدینۂ منورہ کو اپنے دل میں بسا چکا ہو ۔
مولانا ڈاکٹر محمدعارف عمری کے اس سفرِ حج میں مقاماتِ مقدسہ کے تئیں اُن کی تڑپ کو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ مولانا ایک بہترین نثرنگار ہیں ، انہوں نے اپنے قلم سے مقاماتِ مقدسہ کا جو نقشہ کھینچا ہے ، ذہن و دل پر اس کی چھاپ بیٹھ جاتی ہے ۔ مولانا عمری اپنی اہلیہ کے ساتھ سالِ رواں یعنی ۲۰۲۳ ء میں ’ حج کمیٹی آف انڈیا ‘ کے زیرِ انتظام ۴۱ دنوں کے سفرِ حج پر گیے تھے ، اور جب وہیں تھے تو وہیں سے سفرِ حج کی قسطیں بھیجنے لگے تھے ، اور جب واپس لوٹ کر آئے تو تقریباََاس سفر کی تمام قسطیں مکمل ہوکر قسط وار شائع ہو گئی تھیں ۔ کتاب میں ’ عرضِ مصنف ‘ کے تحت مولانا عمری لکھتے ہیں ، ’’ پیش نظر تحریر اس مقدس سفر کی مختصر روداد بھی ہے اور اس خاکسار کے قدیم و جدید مشاہدات اور مناسکِ حج سے متعلق بعض علمی مباحث کے مطالعات کا مجموعہ بھی ۔ اس تحریر کو نہ ہی روایتی انداز کے سفر نامہ کی حیثیت حاصل ہے اور نہ ہی اس کو گائیڈ / رہنما کا مرتبہ حاصل ہے ، تاہم فریضۂ حج کی ادائیگی میں اتباع سنت کی اہمیت اور جذبات سے مغلوب غیرمنصوص حرکات و سکنات کی نشاندہی ضرور کی گئی ہے ۔‘‘ ۴۳ عناوین میں منقسم اس سفر نامہ میں جہاں حج کمیٹی کے کام کاج میں نمایاں اور مثبت تبدیلیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ، وہیں ممبئی ائیر پورٹ پر عازمینِ حج اور حجاج کے لیے خصوصی انتظامات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے اور سعودی ائیر لائنز کی خوبیوں پر بھی بات کی گئی ہے ۔ لیکن یہ سب باتیں تو ہر طرح کے سفرنامے کا حصہ بنتی ہیں ، اس لیے ان کا تذکرہ دیگر سفرناموں کی ہی طرح ہے ، لیکن جب مکہ مؑعظمہ اور مدینۂ منورہ ، خانۂ کعبہ اور مسجد نبوی ؑﷺ کا ذکر آتا ہے ، یا جب جنت البقیع ، ریاض الجنۃ اور روضۂ اطہر ﷺ کا ذکر ہوتا ہے ، تب مولانا عمری کی تحریر کی خوبیاں ، روانی اور سلاست عیاں ہوکر سامنے آتی ہیں ۔ ایک اقتباس ملاحظہ کریں ، ’’ مدینہ منورہ رسول اللہ ﷺ سے پہلے بخارزدہ یثرب تھا جہاں اوس و خزرج کے مقابلے میں یہود کو غلبہ و تسلط حاصل تھا ، رسول اللہ ﷺ کی آمد کی برکت سے یہ شہر طیبہ بن گیا اور اور یہاں کی آب و ہوا حیات بخش ہو گئی ، اور یہ گمنام شہر قیامت تک کے لیے روشناس ہوگیا ۔‘‘ مولانا عمری نے بعض شرعی مسائل کے حل تلاش کرنے اور فقہی توسع پر زور دیا ہے ، رمی جمار سے متعلق علامہ فراہیؒ کے نظریات سے اختلاف کیا ہے ، بابِ جبریل کے سامنے دھڑلے سے فوٹو کھینچنے کی بدعت پر افسوس کا اظہار کیا ہے ، اور مناسکِ حج پر تفصیل سے بات کی ہے ۔ مولانا/ڈاکٹر محمدعارف عمری،مدنی کی یہ کتاب حج کے سفرناموں میں ایک اہم اضافہ ہے ، اللہ اسے قبول کرے ۔ یقین ہے کہ ان کی یہ کتاب ، ان کی سابقہ کتابوں ’ دارالمصنفین کی عربی خدمات ، سرمایۂ قلم ، اور ’ اسلام اور مستشرقین ‘ کی طرح ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی ۔