متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
امیر: عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت
آج دنیا کا ہرشخص کامیابی کے حصول کے لیے محنت کرتا ہے اور ناکامی سے بچنے کی تدابیر اختیار کرتا ہے۔ محسن انسانیت خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی فرماتے ہوئے مختصر الفاظ میں جامع ہدایات ارشاد فرمائی ہیں جنہیں سمجھ کر ابدی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے اور ہمیشہ ہمیش کی ناکامی سے بچا جاسکتا ہے۔ چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے:”اس امت کی کامیابی کی بنیادی چیزیں یقین کرنا اوردنیا سے بے رغبتی ہے اور اس امت کی بربادی کی بنیاد دو چیزوں پر ہے اور وہ بخل اور لمبی امیدیں ہیں۔“
اس میں پہلی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمائی کہ کامیابی کے حصول کے لیے دو راستے ہیں جو شخص ان راستوں پر چلے گا یقیناً وہ کامیاب ہوگا ان میں پہلا راستہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین کرنے کا ہے۔ اس راستے پر چلنے سے اس کی زندگی میں خوشی ،سکھ ، چین ، راحت اور سکون واطمینان نصیب ہوگااور وہ ترقی کی تمام منزلیں آسانی سے طے کر لے گا۔ اس یقین کی چند اہم صورتیں ہیں۔
نمبر1:الیقین علی امر اللہ:
اس کا مطلب ہے کہ انسان اپنے دل و دماغ میں یہ بات اچھی طرح بٹھا لے اور اس پر یقین کر لے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے ، نفع و نقصان کی مالک و مختار صرف اللہ کی ذات ہے ، کامیابی دلانا اور ناکامی سے بچانا اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ، اس کے چاہنے سے ہی عزت ملتی ہے اور وہی ذلت و رسوائی سے بچا سکتا ہے ، رزق روزی اسی کے اختیار میں ہے دکھ سکھ اسی کے ہاتھ میں ہے ، زمین و آسمان اور کائنات کے ذرے ذرے میں اسی کی بادشاہت کار فرما ہے۔ قرآن کریم کی سورة التکویر میں اسی بات کو یوں سمجھایا گیا ہے:”تمہاری چاہت اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک دونوں جہانوں کے رب کی منشاء اس میں شامل نہ ہو جائے۔“ جس شخص یقین کا یہ درجہ پیدا ہو جائے اس کے دل سے مخلوق کا خوف نکل جاتا ہے اور حق بات کہنے میں کسی سے خوفزدہ اور مرعوب نہیں ہوتا۔
نمبر2: الیقین علی قدرة اللہ
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ رب العزت کی قدرت کاملہ پر یقین رکھے اور اس عقیدے پر اپنی زندگی گزارے کہ جو اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں لکھ دیا ہے وہ اسے ضرور ملے گانہ اس سے کم اور نہ ہی اس سے ایک ذرہ زیادہ۔ اور جو مقدر میں نہیں لکھا وہ اسے کبھی بھی نہیں مل سکتا۔مال و دولت ، آل و اولاد کا ملنا ہو یااس کا ختم ہونا،رزق کی فراخی ہو یا قلت وتنگدستی ، حوادثات زمانہ سے محفوظ رہنا ہو یا مصائب میں الجھنا الغرض ہر بات میں اللہ کی قدرت کاملہ اس کی ساری تدابیر پر غالب رہتی ہے۔جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہوجائے وہ دنیا کے حصول میں میانہ روی اختیار کر لیتا ہے اور غیر شرعی مصروفیات سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے ، خدانخواستہ کبھی نقصان ہو بھی جائے تو اس کا دل اللہ کی رضاء پر راضی رہتا ہے ، صبر و شکر کا عادی بن جاتا ہے جو اسے ذہنی ڈپریشن سے نجات دلاتی ہے۔
نمبر3: الیقین علی علم اللہ
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنا یہ عقیدہ بنائے کہ اللہ تعالی کو میرے ہر عمل کا علم ہے ، میرے قول و فعل اور ظاہر و باطن سے بخوبی واقف ہے ، وہ ذات رات کے اندھیروں میں ، دن کے اجالوں میں ، آبادیوں اور ویرانوں میں ، جنگلوں اور پہاڑوں میں ، زمینوں اور آسمانوں میں جو کوئی جو کچھ کر رہا ہے وہ اس کے احاطہ علم میں ہے۔ کوئی چیز بھی اس کی نظروں سے پوشیدہ اور غائب نہیں۔قرآن کریم کی سورة الرعد میں اس بات کو یوں سمجھایا گیا ہے :”اللہ کے علم میں ہے وہ جو حمل والی خواتین کے پیٹ میں ہے اور جو کچھ رحم مادر میں بڑھتا یا سکڑتا ہے ، اور ہر چیز کے لیے اس کے ہاں ایک پیمانہ مقرر ہے وہ پوشیدہ کو بھی جانتا ہے اور ظاہر کو بھی ، وہ سب سے بڑا اور برتر ہے اس کے ہاں برابر ہے کوئی آہستہ بولے یا زور سے وہ سب سن لیتا ہے اس طرح اس کے لیے یہ بات بھی برابر ہے جو رات کو چھپ جائے یا دن کو ظاہر ہو کر پھرے۔ “ جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہو جائے گا اس کے لیے ظاہر و باطن کی اصلاح کرنا آسان ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں فکر پیدا ہوتی ہے جو فکر دونوں جہانوں کی ترقیوں کا زینہ بنتی ہے۔وہ کھلے عام بھی برائیوں کو چھوڑ دیتا ہے اور چھپ کر بھی گناہ کرنے سے خود کو بچاتا ہے تاکہ اس کا اللہ ناراض نہ ہو جائے۔
نمبر4: الیقین علی یوم الجزاء :
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ عقیدہ اپنائے کہ ایک دن ضرور اپنے رب کے پاس پہنچے گا جہاں اس کو اپنے اعمال کی جزا یا سزا ملے گی ، نیکیوں کا صلہ بھی ملے گا اور گناہوں کا عذاب بھی اس دن اس کا ہر عمل اس کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ چنانچہ قرآن کریم کی سورة الزلزال میں اس بات کو یوں سمجھایا گیا ہے : ”جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ “ جس شخص میں یقین کا یہ درجہ پیدا ہو جائے وہ عبادت خداوندی اوراطاعت نبوی پر چل پڑتا ہے اپنے نامہ اعمال سے گناہوں کو ختم کرنے کے لیے روزانہ توبہ کرنے لگ جاتا ہے اور اس کا دل ہر وقت اللہ کی یاد میں رہنے لگتا ہے۔
یقین کے یہ چار درجے حاصل کرنے کے لیے ہمیں سنجیدگی سے فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد دوسری چیز جس پر کامیابی ملتی ہے وہ ہے زْہد(ز۔۔ پر پیش کے ساتھ پڑھنا ہے)
زْہدکیا ہے؟:
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا میں رہتے ہوئے خالق اور مخلوق دونوں کے حقوق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرے۔ لوگوں سے میل جول رکھے ، اچھا لباس ، اچھی خوراک ، عمدہ رہائش اگر میسر ہے تو اسے اللہ کی نعمت سمجھ کر استعمال کرے اور اس پر شکر ادا کرے۔ اس کا دل دنیا سے بے نیاز ہو اور ہر معاملے میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتا ہو۔ آخرت کے نقصان سے بچنے کے لیے دنیا کے نقصان برداشت کرنا اس کے لیے آسان ہو جائے۔ یہاں ایک اہم بات کی وضاحت ضروری ہیوہ یہ کہ بعض لوگ کم علمی ، کم فہمی کی بنیاد پرغلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں چنانچہ زہد کے بارے میں آج کل یہ تصور پیش کیا جا رہا ہے کہ پھٹا پرانا لباس ، بدحالی اور پراگندگی کی زندگی گزارنے کا نام زْہد ہے۔ یہ تصور سراسر غلط اور جہالت کی پیداوار ہے ، امام الاولیاء حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں زْہدیعنی دنیا سے بے رغبتی یہ نہیں کہ تم روکھا سوکھا کھاوٴ اور پھٹا پرانا لباس پہنو بلکہ زہد کی اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی امیدوں اور آرزوں کو کم کر دو۔ شریعت میں جائز اور حلال چیزوں سے نفع حاصل کرنے کو ناجائز خیال کر رکے رہنا زہد کی حقیقت نہیں بلکہ زہد کی حقیقت سے لا علمی ہے۔ہمارے ہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ دنیاوی کام کاج چھوڑدیتے ہیں ، ملازمت سے مستعفی ہو جاتے ہیں ، رزق حلال کمانا بند کردیتے ہیں ، ذرائع آمدن کو دنیا تصور کر کے اس سے الگ تھلگ ہوکر گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں اور اسے زہد سمجھتے ہیں حالانکہ یہ رہبانیت ہے جس سے اسلام نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے زہد کی یہ تعریف فرمائی ہے کہ طیب الکسب و قصر الامل۔ زرق حلال کمایا جائے اور دنیا کی لمبی آرزوں کو چھوڑ دینا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہادی کامل ہیں۔ صرف کامیابی کی روشن قندیلوں تک رہنمائی ہی نہیں کی بلکہ ناکامی کے راستوں کی نشان دہی بھی کر دی ہے تاکہ اس سے بچا جا سکے۔ چنانچہ آپ نے بخل اورامل (دنیا کی لمبی امیدوں )کو ناکامیوں کے تاریک راستے قرار دیا۔ جس پر چل کر انسان دونوں جہانوں میں ناکام و نامراد رہتا ہے۔
بخل کیا ہے ؟:
اس کا مطلب یہ ہے کہ خرچ کرنے کے مواقع پر بھی انسان خرچ نہ کرے ، اس سے دنیا کی محبت ، لالچ ، طمع اور حرص پیدا ہوتی ہے انسان ہر وقت پیسوں کو گن گن کر جوڑنے کی فکر میں رہتا ہے ، اپنے آپ پر ، آل اولاد پر ، عزیز واقارب پر اور ضرورت مندوں پر خرچ کرنا اور ان کے مالی حقوق ادا کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے ، اس کی طبیعت اور مزاج میں سب رشتوں کی قدر مال و دولت سے کم ہوتی ہے ،اللہ کے راہ میں خرچ نہ کرنا ، واجبی صدقات زکوٰة ، عشر اور قربانی نہ کرنا اور یتمیوں ،مسکینوں اور غریبوں سے انسانی ہمدردی ختم ہو جاتی ہے اس لیے وہ خالق اور مخلوق دونوں کی نظروں سے گر جاتاہے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بری صفت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اسے فساد امت کی جڑ قرار دیا ہے۔بعض لوگ کفایت شعاری اور بخل میں فرق نہیں کرتے جس کی وجہ سے غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں اور دونوں کو باہم خلط ملط کر دیتے ہیں۔ حالانکہ کفایت شعاری بہت ضروری چیز ہے اسے اپنانے کا حکم ہے جبکہ بخل ناپسندیدہ بات سے اس سے بچنے کا حکم ہے۔ کفایت شعاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان فضول خرچی سے بچے لیکن ضرورت کے مواقع پر مناسب طریقے سے خرچ کرے ، اپنی حیثیت کے مطابق اپنے آپ پر ، اہل خانہ ، آل واولاد پر ، قریبی رشتہ داروں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرے۔ جبکہ بخل کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کا خون سفید ہو جائے اور اس کی نگاہ میں خونی رشتوں ، انسانی قدروں اور معاشرتی تقاضوں کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے بس پیسہ ہی سب کچھ ہو۔
اَمَل کیا ہے ؟:
اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی لمبی لمبی امیدیں باندھنا اور ان امیدوں کی تکمیل میں آخرت کو بھول جانا۔ آج ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری حالت ایسی ہوتی جا رہی ہے کہ ہم نے اپنی دنیاوں امیدوں کو پورا کرنے کے لیے جائز وناجائز اور حلال و حرام کی پرواہ نہیں کرتے ، اپنی تمام تر توانائیاں فقط دنیاوی مال و متاع کے حصول میں لگا رہے ہیں ، آخرت کو بھول چکے ہیں ، موت ،قبر ، میدان محشر ،جنت ، جہنم اوراخروی انعام و عذاب کو یکسر بھول بیٹھے ہیں ہر وقت اپنے دھن میں لگے ہوئے ہیں۔ جبکہ ایک پل کا علم نہیں کہ کب جان نکل جائے۔ اس لیے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات پر چلنا ہوگا ورنہ دنیا و آخرت میں ہماری نجات ممکن نہیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔