مولانا سید محمد شاہد حسین فیض آبادی قاسمی ندوی

آج بروز سنیچر ۳۰ مئ ۲۰۲۰؁ کو ٹانڈہ جلال پور امبیڈکرنگر میں ۶۳ سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔

( إنا لله وإنا إليه راجعون )

وہ ادھر چند ماہ سے قلب کے عارضہ میں مبتلا تھے، دار العلوم دیو بند سے دورہ حدیث ۱۹۸۰؁ میں کیا، پھر دار العلوم ندوۃالعلماء میں ۱۹۸۲؁ میں تکمیل ادب کیا، اس کے بعد بھٹکل میں کچھ عرصہ پڑھایا، اسی کے بعد حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مد ظلہ کے ہی مشورہ سے مدرسہ ضیاءالعلوم تکیہ کلاں رائے بریلی ۱۹۹۱؁ میں پڑھانے آئے، اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کا بھی قرب حاصل کیا، پھر ان کی خانقاہ میں مہمانوں کی خدمت پر بھی مامور ہوئے، ان کا بیعت و ارادت کا تعلق حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے تھا، اسی کے ساتھ مدرسہ ام المومنین عائشہ للبنات بڑا کنواں رائے بریلی میں آخر تک استاد رہے جو مولانا محمد ثانی حسنی میموریل ایجوکیشنل سوسائٹی کے ماتحت چلنے والا مشہور و معروف ادارہ ہے سبھی حضرات سے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کی درخواست ہے۔

۳۰/۰۵/۲۰۲۰

 

محمد سمعان خلیفہ ندوی۔ بھٹکل

یوں تو بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو گل و بلبل سے محبت کرتے ہیں سوسن ونسترن چمبیلی ویاسمن کو چاہتے ہیں مگر یہی ذوق جمال نکھر کر انسان کی گفتگو میں آئے اس کی اداؤں میں جگہ پائے اور اس کی چال ڈھال اور کردار واطوار میں اسی ذوق جمال کی کارفرمائی اور جلوہ نمائی ہو اور وہ جب بھی لب کھولے پھول جھڑیں، اس کا کردار بھی گل فشاں ہو، گفتار بھی عطر فشاں، اس سے مخاطب ہونے والا، اس کے پاس آنے والا اور اس سے کچھ لمحوں ہی کے لیے سہی قریب ہونے والا بھی اس کے انفاس کی بھینی بھینی خوشبو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے ایک ایسی ہی گل بداماں، باغ و بہار اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک جناب مولانا شاہد قاسمی ندوی آج ہم کو داغ مفارقت دے کر سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔

مولانا نے شاید عمر کی باسٹھ یا تریسٹھ بہاریں دیکھیں مگر ہم گواہی دے سکتے ہیں کہ اس پوری زندگی میں آپ بے ضرر انسان بن کر رہے، پاکیزہ زندگی گزاری اور پاکیزگی کے ساتھ رخصت ہوئے، آپ نے کبھی کسی کا دل نہ دکھایا، چاہے آپ کا زمانۂ طالب علمی ہو یا پھر زمانۂ تدریس (تنگن گنڈی بھٹکل وقیام رائے بریلی) ہر ایک کے شاہدین ومشاہدین آپ کے حسن اخلاق کے شاہد ہیں، یہ وہ بڑا وصف ہے جو آج کل بہت کم لوگوں کے نصیب میں آتا ہے۔ 

صاف ستھرے، نفیس مزاج کے مالک، جفاکش، محنتی، بڑوں کے وفادار، اطاعت شعار اور خدمت گزار، شان استغنائی کے حامل، امانت دار اور دیانت دار، خوش مزاج، مِلن سار، خوش اخلاق، بااطوار اور خود دار، مزاج میں محبت اور گفتار میں شیرینی و حلاوت، رہن سہن میں رکھ رکھاؤ اور سلیقہ، الغرض مولانا کا جب بھی ذکر ہوگا حسن اخلاق کی ہر کوئی گواہی دے گا۔

مولانا کے ساتھ پانچ چھ سال ہم طعامی اور پھر اس کے بعد اب تک دس سال وقفے وقفے سے تکیہ حاضری پر انھیں دیکھا تو ہمیشہ اسی انداز میں پایا؛ کوئی تغیر نہ آیا، بس وہی انداز وہی اطوار، وہی گفتار وہی کردار، نومبر کے شروع میں حاضری پر بھی ان سے کافی باتیں ہوئیں ملاقاتیں ہوئیں ان کی سرپتیہ چائے اور ان کا دیسی گُڑ تو کبھی بھلائے نہ بھولے، اکثر ہم جیسے ان سے بہت چھوٹے بھی انھیں چھیڑتے اور ان کے جذبۂ مہمان نوازی کو تحریک دیتے تو اس سے پہلے سے ہی وہ بچھ گئے ہوتے اور چھوٹوں پر شفقت شروع ہوچکی ہوتی۔

قیام رائے بریلی کے دوران میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی سے لے کر جانشین مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ہر ایک کے وفادار بن کر رہے اپنے کو ہمیشہ مٹایا کبھی نمایاں نہ کیا، بلکہ اپنی اولاد تک کو صاحب زادگی کے زعم سے بچا کر اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھانے نہ دیا بلکہ دل چسپ بات یہ کہ جب بھی صاحب زادگان تکیہ حاضر ہوتے اور ہم لوگ پوچھتے کہ کون ہیں ؟ تو جواب میں مخصوص انداز سے گویا ہوتے کہ جاننے والے کچھ لوگ ہیں! 

اپنے محسنین کو ہمیشہ یاد رکھا، احسان شناس بن کر جیے، جس کسی نے معمولی سا بھی احسان کیا تو ہمیشہ اس احسان کو یاد رکھا اور یہی احسان شناسی انسان کو بڑا بناتی ہے، عند اللہ قبولیت اور عند الناس مقبولیت عطا کرتی ہے۔ حضرت مفکر اسلام اور جانشین مفکر اسلام کے ساتھ ساتھ اپنے استاد خاص مولانا حبیب الرحمن صاحب ندوی مرحوم کے بھی منظور نظر رہے۔

مزاج میں شگفتگی ایسی تھی کہ ان سے بات کرنے والے کو کبھی شکایت نہ ہوتی، دلوں کو موہ لیتے، باتوں باتوں میں رس گھولتے، الفاظ کے انتخاب میں بھی سلیقے کو ملحوظ رکھتے۔

جفاکشی ایسی کہ اخیر تک بھی مدرسہ عائشہ اور شہر اپنی سائیکل سے ہی جانا اور آنا رہا، اور ہمیشہ مدرسے کی معمولی تنخواہ پر گزارا کیا اور اس کو بھی بچابچا کر حلال کمائی کو اپنے گھر پہنچانے کی آخری درجے فکر رہی۔

امانت اور دیانت ایسی کہ بنگلے کا اور بنگلے کی چیزوں کا اپنے کو ہمیشہ امین اور محافظ ہی سمجھا کبھی بااختیار نہ سمجھا، امانت اپنے پاس رکھنے کا معاملہ ہو یا ایک ایک چیز کی حفاظت کا، یہاں تک کہ کھانے پینے کی چیزوں کا بھی بے جا استعمال نہ کرکے بچابچا کر رکھتے کہ یہ بڑوں کی امانت ہے بلکہ بعض اوقات سامنے والا ممکن ہے اس کو ان کے بخل پر محمول کردے مگر درحقیقت یہ ان کی آخری درجے امانت داری کی دلیل ہے۔

پھر اپنے بڑوں کے ایسے وفادار تھے کہ ان کے در پر آئے اور ایسے آئے کہ یک در گیر محکم گیر کے مصداق اس در کو چھوڑ کر پھر کہیں نہ گئے اور بنگلے کی ایک ایک چیز کی انھیں فکر رہی یہاں تک کہ جب کوئی چیز خراب ہوجاتی تو بس ایک ہی ان کی دھن دیکھنے کو ملتی۔

عبادت کا بھی پاکیزہ ذوق تھا مگر ہمیشہ چھپ چھپا کر اخلاص اور للہیت کا مظاہرہ کیا، نمازوں کا بڑا اہتمام تھا اور کسی کو اس میں کوتاہی کرتے دیکھتے تو انھیں بڑی کوفت ہوتی، آداب سحرخیزی کے خوب پابند تھے شاید ہی کبھی تہجد چھوٹتی، جلد سو کر جلد اٹھنا اور کلام اللہ کی تلاوت میں مشغول ہونا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

اس قدر متواضع بن کر رہے کہ اکثر چھوٹوں کے رہتے ہوئے بھی انھیں بنگلے کی صفائی ستھرائی میں مشغول دیکھا گیا، مزاج میں بڑی نفاست اور سلیقہ تھا اس لیے انھیں اس پر کوفت ہوتی جب کوئی چیز ادھر سے ادھر رکھ دی جاتی۔

ہم لوگوں سے بھی بڑی محبت کرتے تھے، اپنے بھٹکل کے قیام کو اکثر یاد کرتے اور منیری صاحب اور مولانا عبد الباری صاحب کو خوب یاد کرتے، آپ نے تقریباً سات آٹھ سال کا عرصہ تنگن گنڈی میں گزارا جب آپ وہاں کے مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے، بعد میں بھی ان سے تعلق قائم رہا بلکہ ادھر دو تین سال قبل بھی تشریف لائے تو اہلیان تنگن گنڈی کا مہمان بننا پسند کیا۔

جامعہ اور اہل جامعہ سے بھی بڑی محبت کرتے تھے، اکثر ہمارے اساتذہ کا ذکر کرتے تو بڑی قدر اور عزت کے ساتھ۔

ان کی ایک ادا دیدنی تھی جب بھی حرم کا ذکر چھڑ جاتا تو تڑپ اٹھتے، جب بھی قافلے سوئے حرم روانہ ہوتے اور جب کبھی واپس آتے تو ان کی آتش شوق بھڑک جاتی اور دل میں محبت کا دریا موج زن ہوتا، پہلے پہل جب ملٹی میڈیا موبائل کی آمد ہوئی تو اس کے ذریعے حرم شریف کے شوق دیدار اور نغمات حرم کے بڑے متمنی ہوتے۔ اللہ تعالی نے انھیں دیار حرم پہنچایا بھی اور خوب وہاں کی برکتوں سے فیض یاب بھی ہوئے اور ہمیشہ حرم کا ذکر کیا تو نم ناک اور شوق دیدار کے لیے بے تاب آنکھیں غم دل کے فسانہ کی حکایت کرتیں۔ 

ادھر آخر میں تین چار مہینے سے زیادہ بیمار تھے، کمزوری نمایاں تھی، ایک سال کم وبیش بیماری ہی میں گزرا، اور انھیں دم واپسیں کا احساس بھی ہوچلا تھا، ہمیشہ یہ کہتے ضرور تھے کہ میری وصیت ہے مجھے اپنے آبائی قبرستان میں دفنایا جائے شاید “رب اشعث اغبر لو اقسم علی اللہ لابرہ” کے مصداق اللہ تعالی نے اس بندے کی دعا سن لی اور رمضان کی رحمتوں اور مغفرتوں میں غوطہ دے کر انھیں اپنے پاس بلالیا اور وطن عزیز الن پور ٹانڈہ فیض آباد کے گنج شہیداں میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ 

کارواں سے کیسے کیسے لوگ رخصت ہوگئے

کچھ فرشتے چل رہے تھے جیسے انسانوں کے ساتھ

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے