منعقدہ: ۲۸/ صفر المظفر تا یکم ربیع الاول ۱۴۴۵ھ مطابق ۱۵-۱۷/ ستمبر۲۰۲۳ء بروز جمعہ، ہفتہ، اتوار
بمقام: ادارہ فیض القرآن ٹھکری باڑی اتر دیناج پور (مغربی بنگال)
بقلم: امدادالحق بختیار
استاذ حدیث وشعبہ افتاء جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد – انڈیا
+91 9032528208 ihbq1982@gmail.com
اتر دیناج پور
بنگلہ دیش کی سرحد پر واقع صوبہ ”بنگال“ کا ضلع ”اتر دیناج پور“ اپنی علم دوستی، علماء نوازی، دین کے تئیں جانثاری اور فداکاری کے حوالے سے معروف ہے، یہاں کے مسلمان نرم دل اور محبِ علماء واقع ہوئے ہیں، خلوص ووفاداری اور بے لوث خدمت ان کی شناخت ہے۔ اسی زر خیز ضلع کی مشہور بستی ”ٹھکری باڑی“ کا ستارہ اس وقت بلند ہوگیا، جب جمعیة علماء ہند کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ادارة المباحث الفقہیہ کے اٹھارہویں فقہی سیمینار کے انعقاد کا قرعہ فال اس کے نام نکلا؛ چنانچہ ۲۸/ صفر المظفر تا یکم ربیع الاول ۱۴۴۵ھ مطابق ۱۵-۱۷/ ستمبر۲۰۲۳ء بروز جمعہ، ہفتہ، اتوار کو ایک عظیم اور بے مثال تاریخی سیمینار وہاں منعقد ہوا، جس میں ملک وبیرون ملک سے تقریباً (۳۰۰) ارباب فقہ وفتاوی کا قافلہ وہاں فروکش ہوا۔ اتر دیناج پور نے اپنی سرزمین پر علماء اور فقہاء کا اتنا بڑا نورانی مجمع تاریخ میں پہلی بار دیکھا؛ جس کی خوشی ان کی آنکھوں سے چمک رہی تھی، مسرت ان کے چہروں کی تمتماہٹ سے آشکارا تھی، وہ اپنی خوشی پر نازاں تھے، ان کے جسم کا رواں رواں خوشی اور مسرت کے احساس سے لبریز تھا۔
صوبہ مغربی بنگال دو حصوں پر مشتمل ہے: (۱) دکھن بنگال (۲) اتر بنگال۔ آخر الذکر میں کل سات اضلاع آتے ہیں، اتر دیناج پور انہی میں سے ایک ہے، اس کا ضلعی صدر مقام رائے گنج اور سب ڈویزن اسلام پور ہے، اس ضلع کے مشہور مقامات: کرندیگھی، دلکولہ، پانجی پاڑہ، گوالپوکھر، چکلیہ، چوپڑا وغیرہ ہیں۔ ۲۰۰۱ء کی مردم شماری کے اعتبار سے یہاں مسلمانوں کی آبادی ۸۳/ فیصد ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق یہاں ۱۷/ فیصد آبادی شہری علاقوں میں اور بقیہ ۸۳/ فیصد آبادی دیہی علاقوں میں ہے۔ یہاں کے زیادہ تر مسلمان مزدور اور بغیر زمین کے ہیں، کچھ مسلمان کاشتکار ہیں اور کچھ چھوٹی موٹی تجارتوں سے وابستہ ہیں۔ U.N.D.P کی رپورٹ ۲۰۰۵ء کے مطابق یہاں کی پسماندگی اڑیسہ کے ”کالاہانڈی“ یا افریقہ کے ”صحرائی ممالک“ سے بھی بدترین ہے۔ دیناج پور کے اس پورے خطے میں مسلم برادریوں کے ہزاروں گاؤں ہیں، اب مدارس اور دعوت وتبلیغ کی برکت سے یہاں کچھ دینی شعور عام ہوا ہے، اور پہلے کے مقابلے میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ٹھکری باڑی اتر دیناج پور کا وہ دیہات ہے، جو پہلے کبھی لٹیروں اور ڈاکوؤں کا ٹھکانہ ہوا کرتا تھا، اسی بستی میں ادارہ فیض القرآن کا تناور درخت کھڑا ہے۔
ادارہ فیض القرآن
حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی رحمہ اللہ کی ایماء اور مولانا مجیب الرحمن رحمہ اللہ کے دست اقدس سے ۲۰/ شوال المکرم ۱۴۱۸ھ مطابق ۱۸ / فروری ۱۹۹۸ء بروز بدھ کو مسجد محمودیہ کے احاطہ میں نہایت سادگی کے ساتھ ادارہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا، پھر ۲۰۰۹ء میں ادارہ کو وسعت دیتے ہوئے یہاں تعمیرات کے ساتھ عربی درجات کی تعلیم شروع کی گئی، اور اِس تیزگامی کے ساتھ یہاں تعلیمی ترقی ہوئی کہ ۱۴۳۳ھ مطابق ۲۰۱۲ء میں ہی یہاں دورہ حدیث شریف کی تعلیم کا باضابطہ آغاز ہوگیا۔ سال رواں اس ادارہ کے دورہ حدیث شریف میں ۴۴ / طلبہ ہیں اور مدرسہ میں کل طلبہ کی تعداد: ۹۵۱ہے۔
ادارہ کو روز اول سے ہی بزرگان دین کی سرپرستی اور وقتا فوقتا ان کی آمد کا شرف حاصل رہا ہے، دار العلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارن پور، دار العلوم ندوة العلماء لکھنو اور دیگر مرکزی مدارس کے اکابر علماء کی تشریف آ وری، تعلیم وتر بیت کے حوالے سے ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی ادارہ کے لیے مشعل راہ ثابت ہورہی ہے۔یہ ادارہ شورائی نظام کے تابع ہے، ملک کے اکابر علماء اس کی شوری کے رکن رکین ہیں، فی الوقت ادارہ کے مہتمم حضرت مولانا محمد ممتاز عالم صاحب مظاہری دامت برکاتہم، ادارہ کے ناظم حضرت مولانا محمد اسلام الدین صاحب قاسمی دامت برکاتہم،شیخ الحدیث حضرت مفتی جسیر الدین صاحب مظاہر دامت برکاتہم اور ناظم تعلیمات حضرت مفتی نصیر الدین صاحب مظاہری دامت برکاتہم ہیں۔
آمدم بر سرمطلب
سیمینار اور تمام مہمان علماء اور مفتیان کرام کی ضیافت اسی ادارہ فیض القرآن ٹھکری باڑی نے کی اور مہمان نوازی نہیں کی؛ بلکہ اس کا حق ادا کردیا، کیا یہاں کے اساتذہ، کیا طلبہ، کیا ذمہ داران، حتی کہ مہتمم صاحب اور ناظم صاحب سب مہمانوں کے لیے بچھے جارہے تھے، ان کی آنکھوں میں خدمت کیجو جذبات اور خلوص کی جو چمک ہم نیدیکھی، وہ کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملی۔ علماء کرام کی راحت کی خاطر جنگل اور کھیتوں کے درمیان واقع اس مدرسہ کو انہوں نے کسی اعلی شہری سہولیات سے کم آراستہ نہیں کیا تھا۔
ہوا خیمہ زن کاروانِ بہار ارم بن گیا دامن کوہسار
چنانچہ گرمی کی شدت کے پیش نظر مسجد اور سیمینار ہال میں آناً فاناً اے سی لگوائی گئی، مہمانوں کی رہائش کے لیے مختص کمروں اور مکانات کی اصلاح اور تزئین کاری کی گئی، اعلی معیاری استنجاء خانے اور غسل خانے تعمیر کروائے گئے، دورانِ پروگرام سیمینار ہال میں ریفرشمنٹ کے لیے چائے، پانی، عمدہ انواع کی مغذیات وغیرہ کا ہمہ وقت نظم رہتا۔ مدرسہ کے وسطی میدان میں طعام ہال کے لیے خوبصورت شامیانہ بنایا گیا، جہاں نہ صرف صفائی کا سخت انتظام تھا؛ بلکہ ہر چیز سے نفاست پھوٹ رہی تھی۔ کھانے کی انواع واقسام میں بھی مغربی یوپی کے لذیذ پکوان شامل تھے، طباخ بھی وہیں سے بلوائے گئے تھے۔ کھانے کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے پھل لذت دوبالا کر رہے تھے، کولڈ ڈرنک اور ناریل پانی کا انتظام اس پر مستزاد تھا۔ طبی سہولیات کے لیے بھی ایک کیمپ لگایا گیا تھا، جس میں ڈاکٹر اور دواؤں کی سہولت ہمہ وقت رہتی تھی، احقر نے بھی اس سے استفادہ کیا، اس کیمپ نے بہت سے علماء کرام کی بروقت طبی خدمت انجام دی۔ مہمانوں کے لیے وہاں ہر وقت کاروں کی بڑی تعداد برائے خدمت تیار رہتی، قریب وبعید کہیں بھی جانے کے لیے ہمہ وقت ڈرائیور کے ساتھ کار کھڑی رہتی۔
ملک کے چپے چپے سے ارباب فقہ وفتاوی، اساتذہ اور اکابر علماء کرام کی اس سیمینار میں شرکت ہوئی، ہمارا قافلہ بھی حیدرآباد سے جمعہ کی صبح کو روانہ ہوا، حسن اتفاق کہ نواسہ شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد عفان صاحب منصور پوری دامت برکاتہم العالیہ کی بابرکت معیت ہمارے قافلہ کو حاصل ہوئی، حیدرآباد ائیرپورٹ سے انڈگو ائیر ویز کے ذریعہ پونے گیارہ بجے ہم باگ ڈوگرا ائیر پورٹ پہنچے، باہر نکلتے ہی استقبال میں علماء اور طلبہ کی ایک بڑی جماعت تھی، ائیرپورٹ سے ٹھکری باڑی تقریبا۹۰کیلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے، چنانچہ وہاں سے کاروں کا بہترین نظم تھا، فورا ً ایک عمدہ قسم کی کار کے ذریعہ ہم روانہ ہوئے، راستہ میں لکھنوی نام کے ایک ہوٹل میں ناشتہ کا نظم تھا، اس سے مستفید ہوئے اور پھر درمیان راستہ میں ہی حضرت مولانا ادریس صاحب رحمہ اللہ (خلیفہ اجل شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی) کا قدیم ادارہ مدرسہ حسینیہ کی عالی شان میں مسجد میں نماز جمعہ ادا کی، جس میں ہمارے قافلہ کے حضرت مولانا مفتی تنظیم عالم قاسمی صاحب کا قبل جمعہ مختصر اور جامع خطاب بھی ہوا۔ نماز کے بعد حضرت مولانا ادریس صاحب کے صاحبزادگان نے جو سب کے سب الحمد للہ قاسمی ہیں، ناشتے اور کھانے کا اہتمام کیا۔ حضرت مولانا ادریس صاحب کے صاحبزادے مولانا معروف صاحب ہمارے درسی ساتھی ہیں، وہ اگرچہ آسام کے دورے پر تھے، لیکن برابر رابطے میں رہے اور انتظامات فرماتے رہے۔
پھر تقریبا ً چار بجے ہم مدرسہ فیض القرآن ٹھکری باڑی پہنچے، جہاں اس پروگرام کے منتظم ڈاکٹر مولانا عبد لملک صاحب رسول پوری، ان کے رفقاء اور ادارہ کے ذمہ داران نے پرتپاک استقبال کیا۔ استقبالیہ کاؤنٹر پر اندراج کی خانہ پری ہوئی اور ایک اعلی کوالٹی کا کیبن سائز سوٹ کیس تمام مہمانوں کو پیش کیا گیا، جس میں نہانے دھونے سے متعلق روز مرہ استعمال کی چیزیں، ایک بھاگل پوری چادر اور تولیہ بھی شامل تھی۔ بعد میں کتابوں کا ایک بنڈل بھی تمام مشارکین کو ہدیہ کیا گیا، نیز جمعیة علماء کشن گنج کی جانب سے ایک خوبصورت ہینڈ بیگ مع بعض کتب تمام مہمانوں کی خدمت میں پیش کیا گیا۔
نماز عصر میں اساتذہ، اکابر علماء اور دوستوں سے ملاقات ہوئی، بعد مغرب پروگرام کی باضابطہ کاروائی کا آغاز ہوا، جس میں تلاوت اور نعت خوانی کے بعد سب سے پہلے حضرت مولانا ممتاز صاحب مظاہری مہتمم مدرسہ نے خوشی کے آنسووں کے ساتھ خطبہ استقبالیہ پیش کیا، پھر حضرت مولانا محمود اسعد مدنی دامت برکاتہم کی نیابت کرتے ہوئے حضرت مولانا محمد سلمان بجنوری دام ظلہ نے خطبہ صدارت پیش فرمایا، جس میں ادارة المباحث الفقہیہ کے تحت منعقد ہونے والے تمام سیمینار کی فہرست پڑھی گئی، اس کے منہاج ومزاج کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔ اور اس کے بعد جن دو فقہی موضوعات پر سیمینار کا انعقاد ہورہا تھا، ان میں سے ایک ”اجتماعی قربانی سے متعلق بعض تحقیق طلب مسائل“ کی تلخیص پڑھی گئی، بعد ازاں مشارکین علماء اور مفتیان کرام نے مناقشہ میں بھر پور حصہ لیا۔ رات کے دس بجے نشست کا اختتام ہوا، فورا نماز ہوئی پھر عشائیہ ہوا۔
دوسرے دن بروز ہفتہ کو صبح آٹھ بجے ناشتہ کے بعد سے دوسری نشست کا آغاز ہوا، جس میں ”مال حرام سے متعلق چند غور طلب امور“ کے موضوع پر ایک طویل تلخیص پڑھی گئی، بعدہ ڈیڑ بجے تک مناقشہ کا سلسلہ جاری رہا، درمیان میں کچھ کتابوں کا رسم اجرا عمل میں آیا اور بعض اکابر کی تاثراتی تقریریں بھی ہوئیں، پھر نماز ظہر اورظہرانہ کے بعد بیشتر مشارکین اگلے دن منعقد ہونے والی تجویز کی نشست تک کے لیے خالی ہوگئے۔
جب کہ مسودہٴ تجویز کی تیاری کے لیے تین کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، دو کمیٹیاں منتخب مشارکین مفتیان کرام پر مشتمل تھیں، ان دونوں کمیٹیوں کے تیار کردہ مسودہ پر نظر ثانی کے لیے اکابر علماء کرام پر مشتمل تیسری کمیٹی تشکیل دی گئی۔اور ان سب کے اوقات ِکار بھی متعین کردیے گئے۔
خالی وقت کو غنیمت جانتے ہوئے، ہم عصر کے بعد حضرت الاستاذ مولانا زاہد صاحب (استاذ حدیث وافتاء جامع مسجد امروہہ) کی رفاقت ِبابرکت اور مولانا انظام عالم صاحب کی رہبری میں پہلے جامعہ احمدیہ کاشی باڑی گئے، اس مدرسہ کو دیکھنے کا شوق اس لیے بھی تھا کہ یہاں ہمارے والد گرامی حضرت مولانا محب الحق نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی، یہ تقریبا (130) سالہ قدیم مدرسہ ہے، اس علاقہ کا سب سے قدیم ادارہ یہی ہے، یہاں کے اساتذہ اور طلبہ نے گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا، ناشتہ کے بعد حضرت الاستاذ کی دعا ہوئی پھر یہاں سے مدرسہ جامعہ عربیہ امیر الاسلام گوتیہارکے لیے روانہ ہوئے، مولانا انظار صاحب اس ادارہ کے ناظم ہیں، یہاں بھی اچھا استقبال ہوا۔
وہاں سے واپسی کے بعد حضرت مولانا نوشاد نوری اور حضرت مفتی امانت علی قاسمی صاحبان کی رفاقت میں بعد مغرب ”نوکٹہ“ کشن گنج کا سفر ہوا، جہاں مسجدِ صفہ کے تابع ایک مدرسہ میں پروگرام طے تھا، عوام پہلے سے منتظر تھی، ہمارے پہنچتے ہی پروگرام شروع ہو گیا، پہلے احقر کی تقریر ہوئی جس میں مسلمانوں کے اتحاد واتفاق اور تعلیم پر زور دیا گیا، پھر مفتی امانت علی صاحب کی شاندار اور ولولہ انگیز تقریر ہوئی، اور مسک الختام کے طور پر حضرت مولانا نوشاد نوری صاحب کا پرمغز خطاب ہوا، بعدہ ان کی رقت آمیز دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا، اسی دوران حضرت مولانا ضمیر الاسلام صاحب، حضرت مولانا زاہد صاحب اور حضرت مولانا ادریس صاحب کی قبر پر ایصال ثواب کے لیے حاضری کی سعادت ہوئی۔پھر وہاں سے ادارہ فیض القرآن کے لیے رات میں ہی واپسی ہوئی۔
صبح فجر کی نماز کے فوراً بعد تجویز کی نشست تھی، جس میں دونوں موضوعات کی تجاویز پڑھ کر سنائی گئیں اور بحث وتمحیص کے بعد شریک مفتیان کرام نے انہیں منظوری دی، قارئین کے افادہ کے لیے دونوں موضوعات کی منظور کردہ تجاویز پیش خدمت ہیں:
تجویز۱: مال حرام سے متعلق چند غور طلب امور
شریعت مطہرہ میں طیب اور حلال مال کو اختیار کرنے اور حرام مال سے اجتناب کرنے کی بڑی اہمیت ہے اور اس کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے؛ لیکن عصر حاضر میں مال حرام سے متعلق مختلف شکلیں وجود میں آرہی ہیں، جن کا فقہی اور شرعی حل پیش کرنا اہل علم کا فریضہ ہے؛ چنانچہ اس سلسلے میں بحث وتمحیص کے بعد باتفاق رائے مندرجہ ذیل تجاویز منظور کی گئیں:
(۱) سود، غصب، رشوت، چوری، جوا، سٹہ اور عقد باطل کے ذریعہ حاصل شدہ مال قطعی حرام ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اس کو اصل مالک کو لوٹانا ممکن نہ ہو، تو دفع وبال کی نیت سے غرباء میں تقسیم واجب ہے اور اس طرح کا مال اگر وراثت میں حاصل ہوا ہو اور اس کا مالک معلوم ہو، نیز واپس کرنا ممکن ہو تو مالک تک اس مال کا پہنچانا ضروری ہے۔ اور اگر مالک معلوم نہ ہو یا معلوم تو ہو؛ لیکن اس تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو ایسے مال کو بھی فقراء پر تقسیم کرنا واجب ہے۔
(۲) شریعت میں جو امور ناجائز ہیں، مثلاً: نوحہ کرنا، ناچ گانا اور بلا ضرورت تصویر کشی وغیرہ کو ذریعہ معاش بنانا جائز نہیں ہے اور ان سے حاصل شدہ آمدنی بھی ناجائز ہے۔
(۳) جو امور فی نفسہ جائز ہیں؛ لیکن وہ گناہ اور معصیت کا سبب بنتے ہیں، تو ان کو حتی الامکان ذریعہ آمدنی نہیں بنانا چاہیے؛ تاہم ان کی آمدنی حرام نہ ہوگی۔
(۴) خریدار پر حلال مال سے ہی واجب الاداء ثمن کو ادا کرنا لازم ہے؛ لیکن اگر کسی وجہ سے حرام مال سے ادائیگی کردی تو اس سے خریدے ہوئے سامان کے منافع اس کے لیے حرام نہ ہوں گے؛ البتہ خریداری میں صرف کردہ حرام مال کے بقدر اصل مالک تک پہنچانا، ورنہ فقراء پر خرچ کرنا ضروری ہوگا۔
(۵) فروخت شدہ سامان کی قیمت، گاڑی یا مکان کا کرایہ، اسکول یا مدرسہ کی فیس وغیرہ ایسے شخص سے وصول کرنا جائز ہے، جس کا ذریعہ آمدنی بظاہر حرام ہو۔
(۶) اگر کسی شخص کے پاس حلال اور حرام مال الگ الگ ہوں اور یہ معلوم ہو کہ وہ حلال مال میں سے ہی خرچ کر رہا ہے تو اس کی دعوت قبول کرنا اور اس سے ہدیہ وغیرہ لینا جائز ہے اور اگر متعین طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ حرام مال پیش کررہا ہے تو اسے لینا جائز نہ ہوگا۔ اور اگر حلال اور حرام مال مخلوط ہو تو جو وہ اپنے حلال حصہ کے بقدر مال میں سے پیش کرے تو قبول کرنا درست ہے اور اگر اس کا علم نہ ہو؛ لیکن حرام مال غالب ہو تو اس کے یہاں دعوت کھانا اور ہدیہ وغیرہ قبول کرنا جائز نہیں ہے۔
(۷) کسی ایسے محلہ میں دوکان کھولنا جہاں اکثر لوگ ناجائز کاروبار میں ملوث ہوں فی نفسہ جائز ہے؛ البتہ احتیاط یہ ہے کہ ایسی جگہوں پر دوکان کھولنے سے پرہیز کیا جائے۔
تجویز ۲: اجتماعی قربانی سے متعلق بعض تحقیق طلب مسائل
قربانی دین اسلام کا اہم شعار ہے، جس طرح قربانی کرنا عبادت ہے، اسی طرح اس کی ادائیگی میں تعاون کرنا بھی کار ثواب ہے۔ آج کل بدلتی ہوئی صورت حال میں اجتماعی قربانی کی ضرورت پیش آتی ہے؛ لہذا دوسروں کی طرف سے قربانی کا نظم کرنے والے افراد اور اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس عمل کو عبادت سمجھ کر پوری امانت ودیانت کے ساتھ انجام دیں، اس کو محض تجارت کے طور پر انجام دینا عبادت کی روح کے منافی ہے؛ کیوں کہ یہ معاملہ اپنے اندر مختلف جہتیں رکھتا ہے؛ اس لیے اس موضوع پر غور وفکر کے بعد مندرجہ ذیل تجاویز منظور کی گئیں:
(۱) مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی قربانی انفرادی طور پر خود کرنے کی کوشش کریں، یہ زیادہ موجب ثواب ہے، تاہم معتبر اجتماعی نظام کے تحت بھی قربانی کرانا جائز ہے۔
(۲) اجتماعی قربانی کا نظام بناتے وقت کوشش یہ ہونی چاہیے کہ سبھی شرکاء کے لیے جانور نامزد طور پر متعین ہوں؛ لیکن اگر کسی وجہ سے ایسا نہ کیا جا سکے تو مجموعی حصہ داروں کی نیت سے بھی جانوروں کی بلاتعیین قربانی درست ہوجائے گی۔
(۳) اگر تمام شرکاء جانور میں سے اپنے اپنے حصہ کا پورا گوشت لینا چاہتے ہوں تو وزن کے ساتھ تقسیم کیا جانا یا کم از کم ہر حصے کے ساتھ گوشت کے علاوہ دوسرے اعضاء (مثلاً: سری، پائے، چربی، گردہ اور دل) کے ٹکڑے رکھ دینا ضروری ہے۔
(۴) الف:- قربانی کا نظام وانتظام کرنے والے ادارے اگر جانوروں کی قیمت کا تخمینی اندازہ لگاکر فی حصہ متعین رقم کا اعلان کردیں اور اس کے مطابق رقومات وصول کریں اور رقم کم پڑنے کی صورت میں مزید مطالبہ کرنے کی صراحت بھی کریں، یا یہی طریقہ? کار ادارہ میں معروف ہو تو قبل از تعیین جانور کے ہلاک ہونے یا عیب دار ہونے کی ذمہ داری ادارے کی ہوگی۔ اور تعیین کے بعد اگر ہلاکت ہو یا عیب پایا جائے تو یہ حصہ دار کا نقصان شمار ہوگا۔ یہ تعیین خواہ خریداری کے وقت ہی کرلی جائے یا خریداری کے بعد۔اور اس صورت میں قربانی سے بچی ہوئی رقم کو قربانی کرنے والے کی (پیشکی یا قربانی کے بعد) اجازت کے مطابق استعمال کیا جا سکتا ہے؛ البتہ تعیین کے بعد شرکاء کے ناموں کی تبدیلی کا اختیار ادارہ کو نہ ہوگا۔
ب:- اور اگر ادارہ متعینہ رقم لے کر قربانی کرنے کی پوری ذمہ داری لیتا ہے اور رقم کم پڑنے یا زیادہ ہونے پر حصہ دار سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا تو اس طریقہ پر شرعی اصول وضوابط کے مطابق قربانی کرنے کی اجازت ہے۔ ایسی صورت میں قربانی کرانے والے ہر قسم کے نفع ونقصان سے برء الذمہ ہوں گے اور جانور ہلاک ہونے کی صورت میں ادارہ خود ذمہ دار ہوگا۔
(۵) قربانی کی رقم وصول کرنے والوں کے اخراجات کو بھی (عرف کے مطابق) دیگر اخراجات میں شامل کر کے حصہ داروں سے وصول کرنے کی گنجائش ہے۔
(۶) مدرسہ کے مال سے قربانی کے جانوروں کی حتی الامکان خریداری نہ کی جائے، اہل مدارس کو چاہیے کہ جانور فراہم کرنے والے لوگوں سے ادھار خریداری کا معاملہ کریں اور حصص کی رقومات حاصل ہونے کے بعد واجب الاداء رقم ان کے حوالے کردیں۔
(۷) قربانی کی کھال شرعاً ایک قیمتی شیء ہے؛ اس لیے حتی الوسع اس کو ضائع کرنے سے اجتناب کیا جائے اور اس سے نفع اٹھانے کی پوری کوشش کی جائے۔
مندرجہ بالا تجاویز کی خواندگی،بحث وتمحیص اور منظوری کے بعد اکابر علماء کرام کے بیانات ہوئے، مولانا محمود مدنی صاحب نے ادارہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، ان کی ضیافت اور خدمات کو خوب سراہا اور فرمایا کہ ضیافت، خدمات اور سہولیات کے اعتبار سے کشمیر کے بعد اس ادارہ کے انتظامات سب سے اعلی رہے۔ ادارہ فیض القرآن کے مہتمم حضرت مولانا ممتاز صاحب مظاہری نے کلمات تشکر میں فرمایا کہ یہ پروگرام ہمارے خوابوں کی تعبیر ہے اور ہم نے اس کے لیے جہاں اسباب کے تحت اپنی حتی المقدور کوشش کی، وہیں ہمارے ادارے کے ذمہ داران، اساتذہ اور طلبہ؛ حتی کہ بستی کی بہت سی خواتین بھی پچھلے دو مہینے سے اس سیمینار کی کامیابی کے لیے روزے رکھ رہی تھیں اور تہجد میں اس کے لیے خاص دعاؤں کا اہتمام کیا جا رہا تھا، ان کا یہ بیانیہ بہت اثر انگیز تھا۔ بہر حال حضرت مولانا ابو القاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے ناصحانہ کلمات اور آپ کی دعا پر پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا، بعدہ تناول ناشتہ کے بعد ہمارا قافلہ ائیرپورٹ کے لیے رخصت ہوگیا، بوقت رخصت منتظمین نے بہت شکریہ ادا کیا اور ضیافت کے حوالے سے بہت معذرت کی۔
اس سیمینار نے قلب ودماغ پر ایک خاص اثر چھوڑا، جس کی لذت ہنوز محسوس ہورہی ہے۔ اللہ تبارک وتعالی اس ادارہ کے ذمہ داران، اساتذہ اور طلبہ کو اپنی شایان شان جزاء عطا فرمائے، سب کو علم دین کی مخلصانہ خدمت کے لیے قبول فرمائے۔آمین!