حضرت الاستاذ مولانا ضیاء الدین قاسمی ندوی ؛ محمد حسن ابن محمد عمر کے فرزند ارجمند ہیں۔ اپ کا مَولد و مسکن صوبہ اتر پردیش کا مردم خیز ضلع اعظم گڑھ کاشاد و آباد قصبہ "خیرا باد” ہے جو موجودہ جغرافیائی حدبندی کے بموجب ضلع مئو میں پڑتا ہے۔ تہذیب و ثقافت، علم و ادب، تحقیق و تنقید اور فن و ہنر میں شہرت دوام رکھنے والے اس قصبے میں آپ کی ولادت 5 اگست 1957ءکو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ عربیہ منبع العلوم خیراباد میں ہوئی اور اسی مدرسے میں درس و تدریس سے بھی جڑے رہے ۔ 1976ء میں مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کا رخ کیا 1977ءمیں دارالعلوم دیوبند گئے اور 1979ء میں سند فراغت حاصل کر کے دوبارہ ندوہ العلماء تشریف لے آئے اور عربی زبان و ادب ،دعوت و ارشاداور تدریب و تخصص کے شعبوں میں رہ کر اپنی علمی انفرادیت کو قائم کیا۔ مختلف ادبی، علمی، انقلابی اور تعلیمی تنظیموں سے جڑے رہے ندوہ کے زمانۀ قیام میں حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ،مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، مولانا واضح رشید ندوی، مولانا سعید الرحمن الاعظمی اور مولانا نذر الحفیظ ازہری جیسے جلیل القدر علمائے ندوہ آپ کے اساتذہ میں شامل رہے جبکہ دارالعلوم دیوبند میں حضرت اقدس مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی ،حکیم الاسلام قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند، مولانا معراج الحق قاسمی صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند، مولانا انظر شاہ کشمیری ،خطیب الاسلام محمد سالم صاحب، مولانا قمر الدین صاحب، مولانا وحید الزماں کیرانوی، مولانا سعید صاحب پالن پوری رحمھم اللہ جیسے اساطین علم و فن سے کسبِ فیض کی سعادت نصیب ہوئی ۔
حضرت الاستاد کے تعلیمی سفر کے احوال و کوائف کا مختصر جائزہ لینے کے بعد ہم یہ یقین کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ آپ کے مزاج میں قاسمیت و ندویت دونوں تہذیبوں کی آمیزش کا ملنا فطری بات ہے آپ نہ زاہد خشک ہیں جسے دنیا سے بالکل بھی خبر نہ ہو اور نہ ابنائے وقت میں سے ہیں جسے خدا سے بالکل بھی مطلب نہ ہو بلکہ اعتدال آپ کا خاص وصف ہے آپ ہر چیز میں اعتدال پسندی کے قائل ہیں آپ کے مزاج میں تقویٰ ،خشیت الہی، سنت نبوی کی پابندی، اکابر علمائے ربانیین کے نقش قدم کی پیروی، اور سلف صالحین کی پاکیزہ روایات کی پاسداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ان کی ہمہ گیر وہ ہمہ جہت شخصیت میں قدیم صالح اور جدید نافع کی جھلک کو بھی صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور یہ ہر وقت اور ہر دم عیاں رہتا ہے جو قابل رشک بھی ہے اور قابل تقلید بھی آپ اپنے طلبہ کو بھی تعلیم، معاشرت، زندگی، تجارت اور ہر معاملات میں میانہ روی کو اختیار کرنے کی تعلیم کرتے ہیں طلبہ کو اسی "وصف خاص” اور "اندازِ کار”کو اپنانے کے لیے ہر ممکن ابھارتے ہیں ۔اہل سنت والجماعت کے تمام مسلکوں کے درمیان تعلقات کو قائم کرنے، انسانیت اور ایک کلمہ توحید کی بنیاد پر سب سے حسن اخلاق، عمدہ برتاؤ، استوار رکھنے کی تلقین کرتے ہیں یہ ان کی وسعت ظرف، بلندئ فکر، عالی حوصلگی اور ہمہ گیر و ہمہ جہت ہونےکی واضح دلیل ہے ۔
گندمی رنگت، دراز قد و قامت ،جھکی ہوئی نگاہیں، تیز گام، متواضع و منکسر، خوش اخلاق، خوش کلام، ساحر البیان ،پرمزاح اور پرشوخ شخصیت کے مالک مولانا ضیاء الدین قاسمی ندوی کو ہم نے زمانۀ طالب علمی میں متحرک اور ہر گھڑی فعال (active ) پایا ۔مدرسہ عربیہ منبع العلوم خیراباد کا سالانہ جلسہ ہو یا مسلم فنڈ خیراباد کی طرف سے منعقد ہونے والا اجلاس عام، انجمن اصلاح اللسان طلبہ مدرسہ عربیہ منبع العلوم خیراباد کا ہفتہ واری پر گرام ہو یا شہریہ پروگرام ،عربی اردو دیواری پرچےWall papers ہوں یا لائبریری میں سلیقے سے پڑی ہوئی کتابیں ، سب آپ کے حسن ذوق،عمدہ انتظام، عمدہ تربیت کی مرہون ہوتیں۔ ہر چھوٹی بڑی چیز خواہ مدرسے کی ہو یا باہر کی ؛ سب پر آپ گہری نظر رکھتے ہیں۔ کوئی یا کچھ اُن کی نظرِ احتساب سے نہیں بچ سکتا خاص طور سے طلبۀ مدارس کی تعلیمی ، اخلاقی، تمدنی، تہذیبی، تحریری، تقریری ،نصابی ،خارجی غرض کے جملہ قسم کی تربیت کا اللہ رب العزت نے انہیں خوب ملکہ عطا کیا ہے ۔نفاست پسندی آپ کے روم روم میں داخل ہے۔ صفائی ستھرائی(Cleanness) کا نہایت ہی اہتمام رکھتے ہیں اور اپنے طلباء کو بھی صاف ستھرا رہنے اور اپنے ماحولیات کو صاف(Clean) رکھنے کی ہمیشہ تلقین کرتے ہیں ۔اکثر کہا کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں مدارس میں یہ عام تصور قائم کر لیا گیا ہے کہ خدا ترس، زاہد، بزرگ وہی شخص ہو سکتا ہے جس کے کپڑے میلے ہوں، پھٹے پرانے ہوں، ٹوپی گندی ہو، تیل لگی ہوئی ہو، جو دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو حالانکہ یہ خلاف شرع بھی ہے اور خلاف طبع بھی ان کی پرمزاح و پرشوخ انداز بیان اس کی قباحت کو اور بھی دوبالا کر دیتا اور ہم طلبہ اکثر مسکرا دیتے یا ہنس دیا کرتے تھے۔ اگر کسی طالب علم کے سر پر تیل لگی ہوئی ٹوپی دیکھتے تو اپنے مخصوص لب و لہجہ میں نہایت برہم ہوتے اور کبھی کبھی درجہ سے نکال بھی دیتے غرض کے حضرت الاستاذ فعال( Active )انقلابی (revolutionary) اور ہم جہت وہ ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ جس سے مدرسہ منبع العلوم کا گوشہ گوشہ شعبہ شعبہ روشن شاد و آباد رہتا تھا ۔
حضرت الاستاذ مولانا ضیاء الدین قاسمی ندوی کی سب سے بڑی خوبی جو ان کی شخصیت کو دیگر سے ممتاز کرتی ہے اور ہر خاص و عام کو محبت کرنے پر مجبور کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ طلبہ کے ساتھ جہاں نرم رویہ اپناتے وہیں فولاد کی طرح سخت بھی ہوتے اگر کوئی طالب علم محنت سے جی چراتا ،سبق یاد نہیں کرتا ،عبارت درست طریقے سے نہیں پڑھتا، ادب کی گھنٹیوں میں حل الغات نہیں کرتا، فئیر کی کاپی تیار نہیں کرتا ،بلا وجہ ناغہ کرتا ، تو نہایت برہم ہوتے غصے سے پھٹ جاتے اور کئی بار پٹائی بھی کیا کرتے مگر وہیں جب کوئی طالب علم سلیقہ شعار ہوتا، محنتی ہوتا ، انجمن کی سرگرمیوں میں برابر حصہ لیتا، مطالعے کا شوقین ہوتا تو نہایت شفقت و محبت کے ساتھ پیش آتے
حضرت الاستاذ کے شرف اور ان کی علمی قابلیت و مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ تقریبا 42 سال سے درس و تدریس کے شعبے سے جڑے ہوئے ہیں اور درجات علیا کی کتابیں خاص طور سے ادبیات جیسے منشورات مختارات تفسیر قران کریم وغیرہ اپ کے زیر درس رہی ہیں اپ کے سینکڑوں تلامذہ بہار، جہار کھڈ، بنگال میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی اپنی جگہ پر علمی و سماجی خدمات انجام دینے میں سرگرم ہیں اور اپنے مخلص استاد کی قدر و عزت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے تعلیمی و تربیتی مشن کو بھی اگے بڑھا رہے ہیں جن میں یہ ناچیز بھی شامل ہے حضرت الاستاذ کے چند خاص تلامذہ ملک کے مشہور و مقبول عصری یونیورسٹیوں میں بھی اپنے استاد اور اپنے مادر علمی منبع العلوم خیرا اباد کا نام روشن کر رہے ہیں ۔
حضرت الاستاذ مولانا ضیاء الدین صاحب ندوی قاسمی کو مبدءِ فیض نے تربیتی و اصلاحی صلاحیتوں کے علاوہ بھی گوناگوں خوبیوں سے نوازا ہے آپ مدرس بھی ہیں، مقرر بھی ہیں ،اردو عربی زبان و ادب کے رمز شناس بھی ہیں، صاحب قلم بھی ہیں، اپنے طلباء کی تعلیمی اور ان کی تقریری ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ان کے کہنے پراکثر تقریریں مکالمے لکھ دیا کرتے ہیں جن کو طلبہ یاد کر کے مسابقہ تقریر میں پیش کرتے ہیں اور پوزیشن بھی حاصل کرتے ہیں ۔ اگرچہ آپ کی تمام تر تخلیقات طلباء کی ضروریات کی تکمیل کے واسطے ہوتی ہیں۔ مگر وہ سب کے سب ادبی نوادرات سے بھری پڑی ہوتی ہیں دیگر روایتی قسم کی تقریروں اور مکالموں سے بالکل الگ اور منفرد ہوتی ہیں آپ لکھتے ہیں اور خوب خوب لکھتے ہیں برجستہ لکھتے ہیں قلم برداشتہ لکھتے ہیں آپ کی تمام تر تخلیقات؛ تخلیق برائے فن ہیں۔ تخلیق برائے تربیت ہیں۔ تخلیق برائے ادب ہیں۔ تخلیق برائے اصلاح امت ہیں۔ تخلیق برائے اشاعت و نام و نمود ہرگز نہیں!! یہی وجہ ہے کہ آپ کے بہت سے تحریری مواد ضائع ہو گئے مگر جو کچھ بھی ہے عمدہ ہے مثالی ہے قابل مطالعہ اور قابل توجہ ہے جن میں اکثر مجموعہ تقاریر ہیں اورمقالات و مضامین کے مجموعے ہیں جو کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں ۔ سحر الکلام ،سحر اللسان ،اصلاح البیان، اصلاح اللسان، اصلاح الکلام، ضیاء اللسان، ضیاء البیان اور الخطب الضیائیہ وغیرہ مجموعہ تقاریر ہیں جو مشہور ہیں مدارس کے طلبہ و اساتذہ کے مابین بے حد مقبول ہیں جبکہ مومن کامل قران و حدیث کی روشنی میں اور نمونے کی زندگی مقالات و مضامین کے مجموعے ہین ان کی بہت سی تحریریں ان کے بہت سے شاگردوں کے پاس ہوں گیں میرے پاس بھی میرے عزیز دوست وھاج الدین اختر گیاوی کی ایک بیاض تھی جس میں حضرت والا کی لکھی ہوئی چار پانچ عمدہ غیر اشاعت تقریں تھیں ان سب کو یکجا کر کے شایع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا فیض اور بھی عام ہو سکے اور ذخیرۀ آخرت بھی!!! ہمیں یقین ہے کہ ان کے شاگردوں میں کوئی نہ کوئی اس کار خیر کو پورا کرے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ الحمد للہ آپ بقید حیات ہیں اور آپ کا قلم آج بھی رواں دواں ہے اللہ اپ کو صحت و تندرستی سے نوازے اور آپ کا سایۀ عاطفت ہم پہ مزید دراز کرے ۔آمین یارب العالمین
بقلم۔ ابوالبرکات شاذ قاسمی تعلیمی و ملی فاونڈیشن جگیراہان بتیا
ای میل ۔abulbarkat98@gmail.com