بقلم :مفتی شمشیر حیدر قاسمی
ملت اسلامیہ ہندیہ کی عظیم و قدیم تنظیم جمعیت علماء ہند اپنا کام کر رہی ہے، حالات جو بھی ہوں جیسے بھی ہوں ، جمعیت علماء کے اہداف کی تکمیل پوری سرگرمی کے ساتھ جاری وساری ہے، مختلف حالات وواقعات میں ملت کو درپیش مسائل کے حل کے لئے سب سے پہلے جو جماعت میدان میں آتی ہے وہ جمعیت علماء ہند ہے، فرقہ وارانہ فسادات کے ہاتھوں تباہ شدہ لوگوں کی اشک سوئی کا مسئلہ ہو یا جیل میں بند بے قصور مسلمانوں کی رہائی کا معاملہ، نوع بنوع فتنوں سے معرکہ آرائی ہو یا حکومت وقت کی غلط پالیسیوں کا رد ، مسلم معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کے لئے اصلاحی تحریک ہو یا زبوں حالی کی وجہ سے زندگی سے مایوس افراد کے اندر جینے کا جذبہ بیدار کرنا، ہر میدان میں ارکان جمعیت علماء ہند نے سب سے پہلے ،سب سے آگے آکر کام کرنا اپنا ہدف بنا رکھا ہے، انھیں اس کی ہرگز پرواہ نہیں ہے کہ کتنے لوگ ان کے کاموں کو سراہنے والے ہیں اور کتنے لوگ ان کے کاموں کو نشانۂ تنقید بنائیں گے ؟ ہمت ، جرأت، استقلال ، حق گوئی، مظلوموں کی حمایت ، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا، اسلام اور اسلامیات کے خلاف کی جانے والی سازشوں کو بے نقاب کرنا، شریعت مطہرہ کی روشنی میں زندگی گزرانے کی راہ ہموار کرنا اس تنظیم کا نصب العین ہے، جنھیں تنظیم کے افراد بڑی مضبوطی سے تھا مے ہوئے ہیں، اور شب و روز مقاصد کی تکمیل میں سرگرم عمل ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی حمایت ونصرت شامل حال رکھے اور سدا جانب منزل انہیں رواں دواں رکھے ۔
ادارہ مباحث فقہیہ جمعیت علماء ہند کا ایک نہایت ہی اہم ، متحرک ، فعال ، علمی و تحقیقی شعبہ ہے، نظام زندگی کو حدود شریعت سے مربوط رکھنے میں یہ شعبہ تحریکی کردار کا حامل ہے، درحقیقت یہ دنیا انقلاب پذیر ہے، اس میں نوع بنوع حالات جنم لیتے رہتے ہیں، طرح طرح کے مسائل سے انسانی زندگی کو گزرنا پڑتا ہے، واقعات و حالات کے تغیر سے بسا اوقات ایسی صورتیں سامنے آتی ہیں ، جن کے تعلق سے اجنبیت کا احساس ہوتا ہے، متقدمین و متاخرین کے گراں قدر علمی وتحقیقی مصادر اپنے وسیع تر ذخائر کے باوجود بظاہر اس کی اجنبیت دور کرتی نظر نہیں آتی ، ایسے میں اسلام اور اسلامیات کی آفاقیت و عالمگیریت پر یقین رکھنے والے اور اسلامی رموز و اسرار کے ماہرین کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس اجنبیت کے احساس کو بے نقاب کرکے یہ ثابت کریں کہ یہاں کوئی اجنبی نہیں ہے، یہ صورتیں سب کے سب ان ہی مآخذ و مصادر کے چشمۂ صافی سے نکلنے والا صاف و شفاف اور شریں و خوشگوار “آب حیات” کے اہم اجزاء ہیں، جنھیں ہم قرآن وسنت اور اجماع و قیاس سے تعبیر کرتے ہیں، بلاشبہ ادارہ مباحث فقہیہ انھیں ماہرین کی اجتماعیت سے عبارت ہے، جمعیت علماء ہند اس اجتماعیت کے محرک و مؤسس ہونے کے ساتھ اس کی تحریکیت کو تحفظ فراہم کرتی ہے، اس کے لئے اجتماعی غور وتدبر کے نقشے وشکلیں تیار کرتی ہے، پھر انکو بروئے کار لانے کے لئے اسباب وسائل فراہم کرتی ہے، اور نہایت خوبصورتی کے ساتھ ایسا حسین و پاکیزہ ماحول تشکیل دیتی ہے، جہاں سے قرآن و سنت اور اجماع و قیاس کے تہ میں مستور درہائے آبدار و چمکدار نکالنے میں بڑی سہولت ہوتی ہے، جمعیتِ علماء ہند کے اہم کارناموں اور عظیم الشان خدمات کے حوالے سے یہ نہایت ہی زریں کارنامہ ہے، جو قابل صد تحسین ہے، جمعیت علماءہند کے ارکان و منتظمین کو اس پر ہدیہ تبریک پیش کیا جانا اخلاقی اقدار کا حصہ ہے، ان کے اس کارنامے کی توصیف و تحسین احسان شناسی کی علامت و پہچان ہے، خداوند قدوس جمعیت علماء ہند کے جملہ منتظمین و کارکنان کو دنیاو آخرت دونوں جہان میں سرخروئی عطاء فرمائے اور اس سلسلے سے مربوط ان تمام اکابرین و اسلاف کے درجات بلند فرمائے جنھوں نے اس سلسلے کا خاکہ و تصور پیش کیا اور جمعیت علماء ہند کو تمام شرور و فتن سے اپنے حفظ و امان میں رکھے ، آمین
ادارہ مباحث فقہیہ کی طرف اٹھارہواں فقہی اجتماع 15، 16 اور 17 ستمبر کو منعقد ہونا طے پایا، اس بابرکت اجتماع کے لئے مغربی بنگال کی سر زمین اتردیناج پور کا انتخاب عمل میں آیا، اتر دیناج پور کے ٹھیکری باڑی میں واقع “ بافیض ادارہ “ “فیض القرآن “ نے اس فقہی اجتماع کے لئے آپنا آغوش محبت و عقیدت پیش کیا، جسے جمعیت علماء ہند کے منتظمین و کارکنان نے بخوشی شرف قبولیت بخشا اور بفضلہ تعالی یہ اجتماع حسب معمول اپنی پر وقار شان اور نظم و نسق کے اعتبار سے اپنی قابل تحسین پہچان کے ساتھ منعقد ہوا اور تمام تر خوبیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا، ملک کے ہر خطے اور ہر علاقے کے مفتیان کرام اور علماء ذیشان نے جمعیت علماء ہند کے زیر اہتمام اس عالیشان اجتماع کو اپنے ورود مسعود سے رونق بخشا۔
یہ فقہی اجتماع چند نشستوں پر مشتمل تھا، یہ نشستیں دو طرح کی تھیں ، خصوصی و عمومی ، عمومی نشستوں میں مقالات کی تلخیص ، زیر بحث مسئلہ کی توضیح و تشریح ، پھر ہر ہر جزء پر سیر حاصل مناقشے ہوئے اور خصوصی نشستوں میں تلخیص مقالات اور مناقشے کی روشنی میں ہر ہر مسئلہ کو نہایت ہی باریک بینی کے ساتھ جانچا و پرکھا گیا، اس پر مزید غور و فکر کیا گیا، پھر تجاویزی خاکے تیار کئے گئے۔ان تجاویزی خاکوں کو پھر سے ایک بار عمومی نشست میں پڑھا گیا، اس کے ایک ایک جملے نہیں ؛ بل کہ ایک ایک حرف کو پڑھا گیا اور آزادانہ طور پر بلا کسی فرق مراتب کے اجتماع میں شریک ہر مفتی اور عالم دین کو اس پر غور کرنے اور اس کے نوک و پلک پر تنقیدی نظر ڈالنے کا موقع فراہم کیا گیا اور اخیر میں متفقہ طور پر جو باتیں سامنے آئیں انہیں تجاویز کا نام دے دیا گیا۔ یہ ہے فقہی اجتماع کے تجاویز کی حقیقت!
اٹھارہواں فقہی اجتماع نظم و نسق کے اعتبار سے حسب معمول وروایت عمدہ ، خوب صورت اور دلکش تھا، مفتیان کرام اور علماء عظام کی آمد و رفت کے لئے مکمل سہولتیں فراہم کی گئیں ، ان کے قیام و طعام کا معقول انتظام کیاگیا، اجتماع گاہ میں مکمل اے سی کی سہولیات دست یاب تھیں ، حضرات علماء کرام کی خدمت میں سوٹ کیس ہینڈ بیگ ، بہت سی قیمتی کتابیں ، قلم اور بھی بہت سی چیزیں بطور ہدیہ پیش کی گئیں ، ادارہ فیض القرآن ٹھیکری باڑی کے طلبہ ، اساتذہ اور منتظمین ، جمعیت علماء اتر دیناج پور اور کشنگنج جمعیتِ علماء کے ارکان و ذمہ دران آنے والے مہمانان علماء کرام اور حضرات مفتیان عظام کی خدمت میں لگے نہیں ؛ بلکہ جان ودل فرش راہ کئے ہوئے تھے، اور ہر ممکن سہولتیں پہنچانے اور ضروریات کی تکمیل کے لئے ہمہ آن انتظار میں رہتے تھے، جمعیت علماء ہند دہلی مرکز سے تشریف لانے والے اکابر ، مشائخ ، منتظمین اور کارکنان اس پورے نظم و نسق کی ہمہ وقتی نگرانی فرما رہے تھے، اور پروگرام سے متعلق ایک ایک چیز پر گہری نظر جمائے ہوئے تھے، بطور خاص صدر جمعیت حضرت مولانا سید محمود اسعد صاحب مدنی، حضرت مولانا و مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، حضرت مولانا سید محمد عفان صاحب منصور پوری اور مولانا عبدالمالک رسول پوری وغیرہم ۔
اسی طرح پرگرام کی نشستوں میں پیش کردہ علمی مواد کی صحت و سقم پر بھی مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے اکابر اساتذہ کرام کے علاؤہ حضرت مولانا عتیق احمد صاحب بستوی،حضرت مولانا رحمت اللہ کشمیری، حضرت مولانا و مفتی شبیر احمد صاحب مدرسہ شاہی مرادآباد وغیرہم کی گہری نظر اور علی نگرانی حاصل تھی۔
اللہ تعالی ان تمام اکابرین کا سایہ تادیر قائم رکھے آمین ،
اٹھارہواں فقہی اجتماع کل پانچ نشستوں پر مشتمل تھا، پہلی نشست 15 ستمبر بروز جمعہ بعد نماز مغرب منعقد ہوئی، تین گھٹنے تک جاری رہی، اس نشست میں اجتماعی قربانی کے مسائل زیر بحث آئے، موضوع سے متعلق مقالات کی تلخیص کی خواندگی ہوئی، حضرت مولانا و مفتی سید محمد سلمان صاحب منصوری پوری زید مجدہ نے موضوع کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی ، اس کے بعد زیر بحث مسئلہ پر حضرات مفتیان کرام اور فقہ و فتاوی کے ماہرین نے جم کر مناقشے کئے ، اخیر میں چند مفتیان کرام پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ، جنھیں مناقشے اور تلخیص مقالات کی روشنی میں تجاویزی خاکے تیار کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی، اس کے بعد صدر جمعیت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی دامت برکاتہ نے ملکی و عالمی حالات کے تناظر میں چند بنیادی باتوں کی طرف علماء عظام کی توجہ مبذول کرائی، اخیر میں حضرت مولانا رحمت اللہ کشمیری کے خطاب اور دعاء پر اس نشست کا اختتام ہوا؛
دوسری نشست 16، ستمبر بروز سنیچر 8، بجے صبح سے شروع ہوئی اور تقریبا 30 – 1 تک جاری رہی ، اس نشست میں” مال حرام سے متعلق چند غور طلب امور ” پر موصول مقالات کی تلخیص کی خواندگی ہوئی، زیر بحث مسائل پر مختلف پہلوئوں سے غور و فکر کیا گیا، مناقشے ہوئے، خوب بحث و تمحیص ہوئی، نصوص ، دلائل اور فقہی جزئیات کو سامنے رکھ کر مباحثے اور تبادلۂ خیالات ہوئے، شخصیات سے بلند ہوکر دلائل و براہین کو مسائل کے حل کے لئے معیار بنایا گیا، اسی درمیان حضرت مولانا و مفتی راشد صاحب اعظمی دامت برکا تہ استاذ حدیث و نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند کا پرلطف خطاب بھی ہوا، مفتی عتیق احمد صاحب بستوی نے بھی مختصر خطاب فرمایا، پھر تجاویزی خاکے کے لئے چند اشخاص کے نام کا اعلان ہوا، اور یہ نشست اختتام کو پہنچی۔
تیسری خصوصی نشست 16، ستمبر تین بجے شام کو منعقد ہوئی جو درمیانی وقفے کے ساتھ مغرب تک جاری رہی،
دراصل یہ نشست دو الگ الگ حلقوں پر مشتمل تھی ، جس میں تجاویزی خاکے کی تیاری کرنے والے افراد شریک ہوئے، اور انھوں نے تلخیص مقالات اور سابقہ مناقشوں کو سامنے رکھتے ہوئے، تجاویزی خاکے تیار کرنے کا نہایت اہم فریضہ انجام دیا۔
چوتھی خصوصی نشست 16، ستمبر بعد نماز عشاء منعقد ہوئی ، جس میں تجاویزی خاکے تیار کرنے والے، حضرات مشائخ عظام اور فقہ و فتاوی کے ماہرین کی ایک جماعت شریک ہوئی، پھر سبھی حضرات نے مل کر ان تجاویزی خاکوں کے ایک ایک شق کو سامنے رکھا، اسے قرآن وسنت اور اصول فقہ کی روشنی میں جانچا، پرکھا، اور پوری دیانتداری سےتجاویز کا مسودہ تیار کیا۔
پانچویں و آخری نشست 17 ستمبر 2023 بروز اتوار منعقد ہوئی، یہ عمومی نشست تھی، اس میں فقہی اجتماع کے لئے تشریف لانے والے تمام علماء کرام ، مفتیان عظام اور مشائخ ذیشان شریک ہوئے، تجاویز کے مسودہ میں سے ایک ایک تجویز کو پڑھا گیا، تمام شرکاء کی رائے لی گی، پھر معمولی حذف و ترمیم کے بعد اس تجویز پرسب کے اتفاق سامنے آنے کے بعد اسے حتمی شکل دے دی گئی۔
تمام تجاویز کو اسی طرح اتفاقی مراحل سے گزرنے کے بعد ہی حتمی شکل دی گئی، تمام تجاویز پر اتفاق ہو جانے کے بعد حضرت مولانا عتیق احمد بستوی دامت برکاتہ العالیہ کا خطاب ہوا، جس میں انھوں نے مناقشے کی نوعیت و کیفیت کی ستائش کی ، مقالہ نگار حضرات کی محنتوں کو سراہا، اس کے بعد حضرت مولانا امیراللہ صاحب تلنگانہ نے نہایت ہی اچھوتے انداز اور ظریفانہ طرز پر چند منٹ خطاب فرمایا، پھر صدر جمعیت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب دامت برکاتہ العالیہ نے فقہی اجتماع میں تشریف تمام علماء کرام و مفتیان عظام کی خدمت میں کلمات تشکر پیش کیے، اور اسی کے ساتھ ادارہ فیض القرآن کے مہتمم حضرت مولانا ممتاز صاحب مظاہری کے حسن انتظام کی تعریف کی اور ان کا شکریہ ادا کیا، پھر ادارہ فیض القرآن کے مہتمم حضرت مولانا ممتاز صاحب مظاہری نے تمام مہمانان کرام شکریہ ادا کیا اور نہایت نے عاجزی و انکساری کے ساتھ مہمانان کرام کے تعلق سے اپنے جذبات و تاثرات کا اظہار فرمایا، اخیر میں صدراجلاس حضرت مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند کا مختصر ، پُرمغز اور جامع خطاب اور دعاء پر یہ اٹھارہواں فقہی اجتماع اپنے اختتام کو پہنچا۔
اٹھارہواں فقہی اجتماع —— جذبات قلبی
اٹھارہواں فقہی اجتماع کا دعوت نامہ موصول ہوا، ہجوم مشاغل کی وجہ سے مقالہ کی تیاری آج کل پر ٹالتا رہا، یہاں تک مقالہ ارسال کرنے کا وقت بالکل قریب آگیا اور میرے دل میں خیال آیا کہ شاید اس سال مقالہ نہیں بھیج سکوں گا، مگر رفیق گرامی حضرت مولانا و مفتی شکیل منصور صاحب قاسمی نے توجہ دلائی کہ ضرور لکھوں، اور بار بار ان کا اصرار ہوا؛ چنانچہ آخری ہفتہ میں جاکر قلم سنبھالا ، اللہ کا نام لیکر لکھنا شروع کیا ع
چل میرے خامہ بسم اللہ
چندیوم کی تاخیر ہوئی ،مقالہ تیار ہوگیا، مولانا عبد المالک صاحب رسول پوری کے نام تاخیر کے لئے معذرتی نوٹ کے ساتھ مقالہ ارسال کردیا، ان کا جواب آیا مقالے تلخیص کے لئے پہلے ہی ارسال کئے جاچکے ہیں، آپ کا مقالہ بھی بھیج دیتا ہوں، تلخیص میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے گی،
خیر ! میں اس پس و پیش میں تھا کہ شاید میرا مقالہ تلخیص میں شامل نہ کیا جا سکے ، مگر اجتماع کی تاریخ سے چند یوم قبل جناب مولانا عبد المالک صاحب رسول پوری نے جب تلخیص کی پی ڈی ایف فائل بھیجی ، تو اس میں میرا نام بھی شامل تھا، مجھے بڑی خوشی ہوئی، خیر اس مرتبہ میں نے حضرت مولانا محمد صابر صاحب نظامی قاسمی دامت برکاتہ( خازن جمعیت العلماء ،بہار) کی معیت میں اجتماع میں شرکت طے کیا، حضرت مولانا محمد صابر صاحب دامت برکاتہ نے 5 ، ستمبر 2023 ، کو دو ٹکٹ راجدھانی ایکسپریس سے بیگو سرائے ٹو کشنگنج نکوالیے، اور یہ ترتیب بنی کہ جمعرات کی شام میں ہی مونگیر سےبیگو سرائے آجاوں اور وہاں سے صبح ساڑھے پانج بجے راجدھانی میں بیٹھ کر کشنگنج پہنچ جاؤں ؛ مگر بعض نا گزیر نجی مجبوری کی وجہ سے جمعرات کی شام بیگو سرائے کے لئے نکلنے کے بعد راستے ہی سے وطن مالوف ارریہ پلٹ جاناپڑا، خیر اپنے وطن میں جمعہ پڑھ کر بذریعہ بس کشنگنج اور وہاں سے دیناج پور پہنچ گیا، حضرت مولانا محمد صابر صاحب نظامی کا جس کمرے میں قیام تھا، اسی میں میری رہائش بھی طے ہوئی تھی، بازو والے کمرے میں حضرت مولانا محبوب فروغ احمد صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا ومفتی اختر امام عادل صاحب دامت برکاتہما کا قیام تھا، پروگرام میں تشریف لائے بہت سے رفقائے گرامی سے ملاقات ہوئی، مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے تشریف لائے کئی اساتذہ کرام کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، رفیقان گرامی قدر حضرت مولانا اشرف عباس صاحب زید مجدہ استاذ دارالعلوم دیوبند ، حضرت مولانا مفتی دبیر صاحب زید مجدہ (مقیم گجرات) وغیرہما؛ مگر میری نگاہ دو شخصیتوں کو ڈھونڈتی رہی ؛ پَر وہ مل نہ سکیں ! ان میں سے ایک ہردلعزیز رفیق گرامی حضرت مولانا و مفتی مجتبی حسن قاسمی نور الله مرقدہ ، جن سے اس دنیا میں ملاقات ممکن نہیں ، دوسرے حضرت مولانا مفتی شکیل منصور صاحب قاسمی جو فقہی اجتماع کے لئے مقالے تو پابندی سے ارسال کرتے ہیں مگر سات سمندر پار بیرون ملک مقیم ہونے کی وجہ سے اکثر جسمانی طور پہ شریک نہیں ہوپاتے، ان دونوں رفقائے گرامی کی عدم موجودگی ہمارے لئے بہت ہی صبر آزما ہوتی ہے، ہم دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ایسی کوئی سبیل پیدا فرمادے، جس سے وہ بیرون رہنے کی بجائے مادروطن ہند ہی میں قرآن و سنت کی خدمات سر انجام دینے لگیں، اللہ تعالیٰ حضرت مفتی شکیل منصور صاحب قاسمی کو جزائے خیر عطا فرمائے انھوں نے حضرت مولانا محمد صابر نظامی صاحب دامت برکاتہ کے اس پروگرام میں شرکت کے لئےاصرار کیا، اور مولانا تیار بھی ہوگئے ، جس سے میری تنہائی بہت حد تک کم ہوگئی اور ایک مخلص ، تجربہ کار ، نیک مزاج اور بااخلاق رفیق کی صحبت میسر ہوگئی، اللہ تعالی مولانا کا سایہ شفقت تادیر قائم رکھے آمین،
القصہ مختصر اٹھارہواں فقہی اجتماع خوشگوار ماحول میں نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ اختتام پزیر ہوا۔
جامعہ ابی بنکعب اتردیناج پور میں چند ساعت
اردو زبان کی ابتدائی کتاب میں پڑھا تھا، جنگل میں منگل ہورہا ہے، مگر چوں کہ بچپن کا زمانہ تھا ، اس لئے صرف اتنا جانتا تھا کہ منگل ایک دن کا نام ہے، جو سوموار کے بعد آتا ہے، اس سے آگے اس محاورہ کے میم سے بھی ناآشنا تھا، وقت کے گزرنے کے ساتھ گرچہ کسی حد تک ٫٫جنگل میں منگل ،، سے غائبانہ طور پر کسی حدتک واقفیت ہوگئی تھی، مگر بالمشافہ ملاقات سے دورشباب کے بعد بھی محرومی ہی رہی، اللہ تعالی بھلا کرے رفیق گرامی مولانا و مفتی تنویرِ عالم صاحب قاسمی بانی و مہتمم جامعہ ابی ابن کعب کا کہ انھوں نے ہاتھ پکڑکے جنگل کے منگل کو نہ صرف دکھایا ؛بلکہ اس سے ملاقات بھی کرادیی۔
بات دراصل یہ ہے کہ کل 15 ستمبر 2023ء روز جمعہ میں ادارہ فیض القرآن ٹھیکری باڑی ، اتردیناج پور میں ادارہ مباحث فقیہہ کی طرف سے منعقد ہونے والےفقہی اجتماع میں شرکت کے لئے اپنے وطن ضلع ارریہ سے آرہا تھا، راستے میں ایک اجنبی نمبر سے فون آیا، علیک سلیک کے بعد پتہ چلا کہ رفیق گرامی مولانا و مفتی تنویر عالم صاحب ہیں، انھوں نے بتایا کہ پتہ چلا آپ فقہی اجتماع میں شرکت کے لئے آرہے ہیں، میں بھی اس وقت دہلی سے گھر آرہا ہوں، کل دوپہر تک گھر پہنچوں گا، میرا گھر ٹھیکری باڑی سے بس تین کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، کل شام کی ہمارے یہاں آپ کی دعوت رہے گی، میں نے ٫٫ان شاء اللہ،، کہہ کر دعوت کے قبول کرنے کا اشارہ دے دیا، 16 ستمبر بروز یکشنبہ عصر بعد فیض القرآن کے مسجد میں مفتی تنویر صاحب سے ملاقات ہوئی وہ اپنی گاڑی لیکر آئے تھے، میں اور حضرت مولانا محمد صابر نظامی صاحب قاسمی بیگو سرائے ، مفتی اشرف علی صاحب قاسمی شیخ الحدیث مدرسہ حسین بخش جامع مسجد دہلی اور بھی دو تین حضرات کی معیت میں ہم سب جامعہ ابی ابن کعب پہنچ گئے اور ایک دوسری گاڑی سے جناب مولانا ضیاء الحق صاحب المعروف بہ حاجی بابو، اور دیگر چند اور حضرات بھی پہنچے ، جامعہ ابی ابن کعب کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ اوہو یہی تو ٫٫ جنگل کا منگل،، ہے، خیر ایک وسیع و عریض، خوبصورت سرسبز و شاداب اور زرخیز احاطے میں ہم داخل ہوئے ، سامنے مغربی جانب ایک نہایت عالیشان خوب صورت مسجد تھی، احاطےکے بیچوں بیچ مسجد کی طرف جانے کے لئے راستہ بنا ہوا ہے، راستے کے دونوں طرف ہمارے استقبال کے لئے طلبہ قطار بنائے کھڑے تھے، سب ایک طرح کے کپڑے میں تھے، مسجد کے دونوں جانب مسجد کی دیوار سے متصل مدرسے کی دو منزلہ عالیشان بلڈنگ ہے، اس مدرسے کا قیام 2017 ء میں عمل میں آیا، صرف چھ سال میں مدرسہ کافی ترقی کیا، معلوم ہوا تقریبا ایک سو ستر طلبہ مدرسہ میں رہتے ہیں، تعلیم و تربیت کا نظام انتہائی مستحکم ہے، بچوں کو کھانا بھی اچھا دیا جاتا ہے، اساتذہ محنتی ہیں، مدرسے کے بانی و مہتمم حضرت مولانا و مفتی تنویرصاحب ، بڑے مخلص ، دین دار، محنتی ، جید الاستعداد ، متحرک اور فعال عالم دین ہیں، صرف چھ سال کے اندر انہوں نے جنگل میں منگل کی شان قائم کردی ہے، مدرسہ کو دیکھ کر ہم سب کو بے انتہاء مسرت حاصل ہوئی، اللہ تعالی مدرسے کو مزید ترقیات سے نوازے،
ہمارے آنےکے چند منٹ بعد مولانا منیر احمد صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند بھی تشریف لائے ، تھوڑی دیر مدرسے کے مہمان خانے میں ہم لوگ بیٹھے، چائے وغیرہ پیش کی گئی، اسی اثناء میں چند طلبہ سے قرآن کریم سناگیا ، سبھی طلبہ قرآن کریم بہت عمدہ پڑھ رہے تھے، پڑھنے کا انداز بڑا خوب صورت تھا ، قواعد تجوید کی مکمل رعایت کے ساتھ طلبہ قرآن کریم پڑھ رہے تھے، نیز انھیں تجوید کے قواعد کا استحضار بھی تھا، مغرب کی نماز بعد ایک مختصر پروگرام رکھا گیا ، جس میں حضرت مولانا محمد صابر نظامی صاحب اور مولانا منیر احمد صاحب کا مختصر مگر جامع اور پر مغز خطاب ہوا،
مفتی تنویر عالم صاحب قاسمی سے یہ ملاقات اور ان کے مدرسے کی زیارت سے ہمیں بے پناہ خوشی محسوس ہوئی،
تھوڑی دیر میں ہی ہم ان کے مدرسے سے لوٹ تو گئے مگر ان کی یادیں مدرسے کا نقشہ طلبہ و اساتذہ کا حسن سلوک ادب اور سلیقہ مندی ہمارے دلوں کے نہا خانے میں ثبت ہوگئے،
اللہ تعالی مدرسے کو ترقیات سے نوازے اور مفتی صاحب کے حوصلے بلند فرمائے ،آمین،
شمشیر حیدر قاسمی
مركز البحوث الاسلامية العالمي