(مفتی ابو القاسم نعمانی مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کا تسلی و تشفی بخش وضاحتی بیان)
[ یہ در اصل حضرت مہتمم صاحب کا مشقی مناظرے کے پروگرام میں طلبہ کے درمیان کیا گیا خطاب ہے ، جو کسی صاحب نے تحریر کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔
مہتمم صاحب نے بڑی وضاحت اور تفصیل سے مناظرے کے پس منظر و پیش منظر کو بیان فرمایا ہے ، جس سے بہت سے لوگوں کو تسلی و تشفی کا سامان فراہم ہو سکتا ہے۔
عنوان کے اضافے ، درست املا و رموز اوقاف املا کے اہتمام اور کسی قدر ترتیب و تہذیب کے بعد یہ تحریر پیش کی جا رہی ہے۔ خالد سیف اللہ صدیقی]
بعد خطبہ
محترم حضراتِ اساتذہ کرام و عزیز طلبہ!
انجمن تقویت الاسلام (شعبہ مناظرہ) طلبہ دارالعلوم دیوبند کا آج کا یہ پروگرام اپنے معمول کے اجلاس کا ایک حصہ ہے۔
ابتداء سال ، درمیان سال ، اور اختتام سال پر اس کے اجلاس ہوتے رہتے ہیں جس طرح اور انجمنوں کے اجلاس ہوتے ہیں۔ خاص طور سے بڑی انجمنوں کے النادی الأدبی ہے ، مدنی دارالمطالعہ ہے ، سجاد لائبریری وغیرہ۔
اس اعتبار سے آج کا یہ اجلاس کسی الگ نوعیت کا نہیں ہے ؛ لیکن اتفاق سے اشتہار کو کسی نے سوشل میڈیا کے اوپر وائرل کردیا جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کو اس کے سلسلے میں تشویش پیدا ہوئی ، اور کئی جگہ سے مطالبے آئے کہ آج کل کے ماحول میں مناظرہ نہیں ہونا چاہیے!
اگر یہاں میڈیا کے کچھ افراد موجود ہوں یا خبروں سے دلچسپی رکھنے والے تو ان کے سامنے میں یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی مناظرہ نہیں ہے اس مجمع کے اندر دونوں طرف دارالعلوم دیوبند کے طلبہ ہیں جو مسلک علمائے دیوبند کے حامل ہیں۔ دونوں ایک ہی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ان کے مشق و تمرین کا ایک حصہ ہے ، جس طرح انجمن میں تقریر کی مشق کرتے ہیں ، دیواری پرچوں میں اردو عربی اور دیگر زبانوں میں مضامین لکھ کر مضمون نویسی کی مشق کرتے ہیں ، اسی طرح مسائل کی تنقیح و تحقیق کے سلسلے میں اپنا نظریہ پیش کرنے اور اس کو مدلل کرنے کے سلسلے میں مشق و تمرین کیلئے انجمن تقویت الاسلام کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس میں جہاں اسلام سے خارج فرقوں مثلا : قادیانیوں اور عیسائیوں وغیرہ کے سلسلے میں مناظرے ہوتے ہیں ، وہیں مسلمانوں کے اندر جو فکری انحراف رکھنے والی جماعتیں ہیں اور ان سے ہمارے اکابر کے اختلافات ہیں ان سے گفتگو کے آداب اور اس کا سلیقہ سکھانے کے لیے بھی مناظرے کی مشق کی جاتی ہے۔
جہاں تک تعلق ہے مودودی جماعت کا تو ایک تو ہے ملکی مسائل میں ہر ایک کے ساتھ ہمارا تعاون و اشتراک ۔۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
جمعیت علمائے ہند ہمارے اکابر کی جماعت ہے۔ اس کا اپنا ایک منشور ہے اور ایک انداز فکر ہے ، انداز عمل ہے۔ لیکن مسلمانوں کے مشترکہ مسائل جب زیر بحث آتے ہیں تو تمام مسلم جماعتوں سے ، مسالک والوں سے اشتراک ہوتا ہے ، چاہے وہ جماعت اسلامی ہو ، چاہے جمیعت اہل حدیث ہو ، چاہے کچھوچھا سے تعلق رکھنے والے حضرات ہوں ، اور اگر بریلوی مسلک کے بھی معتدل مزاج کچھ لوگ ان میں شرکت کرنا چاہیں تو ان کو بھی شریک کیا جاتا ہے۔ وہ ملکی مسائل ہیں۔ مسلمانوں کے ملی مسائل ہیں ، ان میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا ، سب شانہ بشانہ کام کرتے ہیں ؛ لیکن جہاں تک مسلک اور نظریے کی بات ہے تو ہر ایک اپنے مسلک کے سلسلے میں پختہ ہے اور آزاد ہے۔ مودودی صاحب سے ہمارا فکری اختلاف ہے۔ وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں ، اور ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارے اکابر نے ان سے علیحدگی کیوں رکھی ہے؟ دوری کیوں بنائے رکھی ہے؟ ہمارے اور ان کے خیال میں کیا فرق ہے؟
حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی ، دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین ، شیخ الہند رحمت اللہ علیہ کے شاگرد ، مجاہد ازادی ، ان کو کیا پڑی تھی کہ وہ مودودی صاحب کے دستور اور اصول کو سامنے رکھ کر انہوں نے ان کے بارے میں سوالات قائم کیے اور گفتگو قائم کی؟!
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مودودی صاحب کی سب سے پہلے گرفت کرنے والے مولانا حسین احمد صاحب مدنی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہیں۔ جب جماعت اسلامی کا دستور شائع ہوا ، اس کے دفعہ 6 کے اندر یہ دفعہ موجود تھی کہ "کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو ، ہر ایک کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دیئے ہوئے معیار پر پرکھے”۔
حضرت مدنی رحمت اللہ علیہ کے کان کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو بھی ہم اسی طرح پرکھیں گے؟ ان کے بارے میں بھی جانچ پڑتال کریں گے؟ ان کی بھی تنقیح کریں گے؟ یا وہ ہماری تنقید سے بالاتر ہیں ؟ تو اس کا یہ جواب ملا کہ نہیں وہ تنقید سے بالاتر نہیں ہیں۔ ان کے اوپر بھی اسی طرح تنقید کی جائے گی۔ چنانچہ آگے کا پورا عمل اسی کے مطابق رہا کسی کو چھوڑا نہیں گیا۔
یہ بنیادی اختلاف شروع ہوا ہے یہاں سے۔ اور پھر تفصیلات کے اندر جائیں تو دین کی پوری تعبیر کو مودودی صاحب نے اپنے انداز سے بدل ڈالا۔ رب کا کیا معنی ہے؟ الہ کا کیا معنی ہے؟ دین کا کیا معنی ہے؟ عبادات کے اثرات و مقاصد کیا ہیں؟ نماز کس لیے پڑھی جاتی ہے؟ روزہ کس لیے رکھا جاتا ہے؟ زكاة اور حج کس لیے کیا جاتا ہے؟
ایک تو مفہوم اور اغراض و مقاصد ۔۔ وہ تو جو امت کے اندر متوارث چلے آرہے تھے ایک وہ ہے جو مودودی صاحب نے بیان کرنے کی کوشش کی۔
مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ جیسا یکسو عالم کہ جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کا کسی سے کوئی اختلاف نہیں تھا ، ہر ایک کے ساتھ وہ جڑ کر رہتے تھے اور ایک متفق علیہ شخصیت کی حیثیت رکھتے تھے ؛ لیکن ان کو بھی ان اصطلاحات کے سلسلے میں مودودی صاحب کے خلاف قلم اٹھانا پڑا۔
حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمت اللہ علیہ خانقاہ نشین ، محدث جلیل ، خالص درس و تدریس سے تعلق رکھنے والے ، یعنی اس زمانے میں جب ہندوستان کے اندر لیگ اور کانگرس کا شدید اختلاف چل رہا تھا۔ ایک طرف حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمت اللہ علیہ ، اور ان کے تلامذہ اور ان کے متوسلین جو دیانتا یہ سمجھتے تھے کہ لیگ کے ساتھ وابستگی مسلمانوں کے حق میں مفید ہے۔ ایک طرف حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی اور حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے دیگر تلامذہ ، جو یہ سمجھتے تھے کہ غیر مسلم برادران وطن کے ساتھ اشتراک کر کے ہمیں آزادی کی لڑائی لڑنی چاہیے وہ دیانتا مسلمانوں کے حق میں اس کو بہتر سمجھتے تھے۔ دونوں اپنے اپنے نظریے کے اوپر جمے ہوئے تھے ، اور بہت شدید اختلاف پیدا ہوگیا تھا ، اس زمانے میں بھی مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا جو طرزِ عمل تھا ، دونوں کے ساتھ یکساں تعلقات تھے ، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ ان کے ساتھ ہیں یا ان کے ساتھ۔
کسی کے سلسلے میں انہوں نے کبھی کوئی چیز نہیں لکھی ؛ لیکن مودودی صاحب کے سلسلے میں ان کو قلم اٹھانا پڑا۔
مولانا محمد یوسف بنوری رحمت اللہ علیہ علامہ کشمیری رحمت اللہ علیہ کے شاگرد ، خالص درسگاہی آدمی ، ان کو ان کے خلاف قلم اٹھانا پڑا۔
اور جب مودودی صاحب کی تحریک شروع ہوئی ہے ، اور ان کے قلم کا جادو اتنا سر چڑھ کر بولا کہ بڑے بڑے چوٹی کے علما ان کے ہمنوا ہو گئے ، جن میں مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی ہیں ، مولانا منظور نعمانی ہیں ، مولانا عبدالرحیم اشرف ہیں۔ اور اسی طریقے سے بڑے بڑے علماء تھے ؛ لیکن جب قریب گئے ہیں ، اور جماعت کے نظریات کو اور مودودی صاحب کے نظریات کو اور ان کے عمل کو دیکھا ، تو ایک ایک کرکے چھٹتے ہوئے سب کے سب الگ ہو گئے۔
مولانا منظور نعمانی رحمت اللہ تعالٰی علیہ اتنے اخلاص کے ساتھ انکے ساتھ گئے تھے کہ جب انہوں نے اپنا مستقر بریلی چھوڑا ہے ، اور وہ سیالکوٹ سفر کرکے گئے ہیں مودودی صاحب کی حمایت میں ، اس کا نام ہجرت رکھا تھا کہ میں گویا ہجرت کر کے آیا ہوں ، تن من دھن سے ان کے ساتھ ہو گئے تھے ؛ لیکن کچھ دن گزرنے کے بعد ان کو لکھنا پڑا "مولانا مودودی صاحب کے ساتھ میری رفاقت کی سرگزشت اور اب میرا موقف”۔ یہ پوری کتاب انہوں نے لکھی ہے۔
یہ چیزیں ہمارے طلبہ کے سامنے آنی چاہیے ، ان کے علم میں رہنی چاہیے ، اور اس وجہ سے خاص طور سے رہنی چاہیے کہ خاموشی اختیار کرنے کا اثر یہ ہوا ہے کہ آج دارالعلوم دیوبند کے احاطے میں مودودیت سے متاثر ہمارے طلبہ کی بڑی تعداد پیدا ہوگئی ہے ، اور تنبیہ اور ہدایت کے باوجود وہ اپنی سرگرمیوں کے اندر ملوث ہیں ، اور ان کے اندر سرگرم ہیں ، یہ بہت خطرناک چیز ہے۔ اس لیے حقیقت ہر ایک کے سامنے واضح ہونی چاہیے۔ آج کے اس مناظرے کا مقصد طلبہ کے درمیان مودودی صاحب کے فکر کا تعارف کرانا ہے اور جب یہ میدان عمل میں جائیں تو اپنے اکابر کے معتدل مسلک کے حامل بن کر جائیں۔
ہمارا اختلاف بہت سی چیزوں میں جماعت اہل حدیث کے ساتھ بھی ہے۔ بریلوی حضرات* کے ساتھ بھی ہے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ بھی ہے۔
یہ اختلاف صرف ہمیں ہی نہیں ہے ، ان کو بھی ہم سے اختلاف ہے ، مودودی صاحب کو بھی ہم سے اختلاف ہے ، جماعت اسلامی اور جمعیت اہل حدیث کو بھی ہم سے اختلاف ہے ، بریلویوں کو بھی ہم سے اختلاف ہے۔ اٍدھر سے بھی اختلاف ہے ، اُدھر سے بھی اختلاف ہے۔
لیکن وہ نظریات کا ہے ، مسلک کا ہے ، دین کے احکام کا ہے۔
اور جہاں تک ہندوستان کے اندر مسلمان کی حیثیت سے جینے اور زندگی گزارنے کا معاملہ ہے ، مسلمانوں کے حقوق کا مسئلہ ہے ، ان کے ملی مسائل کا مسئلہ ہے ، ہم سب ایک ساتھ رہتے ہیں۔
اور یہ مناظرہ کسی اسٹیج پر نہیں ہورہا ہے ، کسی میدان میں نہیں ہورہا ہے ، کوئی چیلنج نہیں کیا جارہا ہے ، یہاں دونوں طرف دارالعلوم دیوبند کے طلبہ ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ حقیقت سے واقف ہو جائیں۔
اس لیے جن طلبہ کے ذہن میں یہ بات ہے کہ اس کو موضوع نہیں بنانا چاہیے۔ ان سے بھی میں کہتا ہوں کہ اگر آپ اس سے واقف نہیں رہیں گے ، تو یا تو آپ ان کی فکروں کے شکار ہو جائیں گے یا اگر کبھی آپ کو گفتگو کی ضرورت پڑی ، تو آپ کو لاجواب ہوکر خاموش بیٹھنا پڑے گا۔
اس لیے جیسے اور دیگر موضوعات کے اوپر تیاری کرکے آپ کے ساتھی آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ ایک فریق اٍدھر کا بن جاتا ہے ، دوسرا فریق اُدھر کا بن جاتا ہے ، جب کہ دونوں ایک ہی فکر کے حامل ہیں۔ اسی طریقے سے یہاں بھی دو جماعتِ بناکر افکار کا تقابل کیا جائے گا ؛ تاکہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ مودودی صاحب کے اور جماعت اسلامی کے نظریات کیا ہیں ؟
اور ہمارے اکابر کے نظریات کیا ہیں؟ کیوں حضرت مدنی رحمت اللہ علیہ ، حضرت مولانا یوسف بنوری رحمت اللہ علیہ ، حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور مولانا نجم الدین اصلاحی رحمت اللہ علیہ ، ان جیسے اکابر نے آخر کیوں مودودی صاحب کے نظریات کی تردید کو ضروری سمجھا ؟!.
اس لیے آج اس مناظرے کو آپ غور سے سنیں ، اس کے مضامن کو ذہن میں رکھیں!
ہاں! مجادلہ ، مخاصمہ نہیں ہونی چاہیے ، دلائل کے ساتھ گفتگو ہونی چاہیے ؛ تاکہ آپ کے ذہن کے اندر دونوں طرف کے دلائل آجائیں۔ پھر آپ یہاں سے فارغ ہوکر جائیں گے ، اپنی درسگاہوں میں جاکر اپنے عمل میں مشغول ہو جائیں گے ، کوئی آپس کے اندر کا مباحثہ نہیں ہوگا۔ یہ ایک مشق ہے جیسے تقریر کی مشق ہوتی ہے۔ تحریر کی مشق ہوتی ہے۔ اسی طریقے سے گفتگو کرنے کی بھی مشق ہے۔
اور آپ جانتے ہیں اگر آپ نے الفوز الکبیر پڑھی ہے ۔۔ قرانی علوم کو جو حضرت شاہ ولی اللہ رحمت اللہ علیہ نے پانچ قسموں پر منقسم کیا ہے۔ اس میں ایک علم مجادلہ بھی ہے کہ دوسرے کے ساتھ گفتگو کرنے کا انداز بھی قران نے ہمیں سکھایا ہے : وجادلهم بالتي هي أحسن۔
اسی مجادلہ بالتی هي احسن کو سکھانے کے لیے انجمن تقویة الاسلام (شعبہ مناظرہ) کے ذریعے اس طرح کے پروگرام ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد نہ حقیقی مناظرہ ہے ، نہ کسی کو یہاں چیلنج کیا گیا ہے ؛ بلکہ طلبہ ہی کے دو جماعتوں کے درمیان مباحثے کی شکل پیدا کی جا رہی ہے ؛ تاکہ دونوں طرف کے دلائل ہمارے سامنے آجائیں ، اور ہم اپنے اکابر کے معتدل مسلک کے اوپر گامزن رہتے ہوئے آگے قدم بڑھائیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو صحیح عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے!
وٱخر دعوانا أن الحمدللہ رب العالمین!