از :مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی
تعلیم و تربیت کا کام مہتم بالشان فریضہ اور بلند پایہ عمل ہے،اس عمل کی کئی جہات ہیں، یہ خدمت بھی ہے، عبادت وطاعت بھی،اور فریضہ منصبی بھی ہے . یہ وہ عظیم فریضہ ہے جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کے سپرد کی . اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : لَقَدۡ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ ۚ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ –( سورۃ نمبر 3 آل عمران – آیت نمبر 164)
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا؛ جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں ، انہیں پاک صاف بناتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے.
مذکورہ آیت کریمہ میں تلاوتِ آیات، تعلیمِ کتاب وحکمت اور تزکیۂ نفوس کو کارِ نبوت قرار دیا گیا ہے… ان تمام صفات کی جلوہ گری بھر پور انداز میں صفت "معلم” میں ہے. اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :انما بعثت معلما (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث۲۲۹)یعنی مجھے تو پوری انسانیت کے لیے معلم بناکر بھیجا گیا ہے.. آپ نے ایک معلم کی حیثیت سے پوری انسانیت کو ایسا درس دیا جو اس کے دنیوی واخروی فوز وفلاح کا ضامن ہے…بلاشبہ درس و تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے معلم کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو معلم کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے۔ اسلام نے معلم کو بے حد عزت و احترام عطا کیا ہے۔
تمام اساتذہ معلمین کو دوران درس مکمل طور پر اس اسوہ کی مکمل پیروی کرنی چاہیے؛ جسے معلمِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا تھا..
زمانے کی برق رفتاری کے ساتھ درس وتدریس کے طریقوں میں بھی تبدیلی آئی ہے.. شریعت میں دی ہوئی عمومی اجازت کے مطابق ہمیں ان طریقوں سے بھی مستفید ہونا ہے. اور تدریس کے لیے معاون وسائل و ذرائع کا بھی بھر پور استعمال کرنا چاہیے.
میری اس تحریر کاعنوان ہے ’’اساتذۂ و معلمین کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں ‘‘ ہے. یہ بہت حساس اور اہم موضوع ہے ۔اوراس کے ضمن میں ذکر کردہ امور کو عملی طور پر برت کر اوراپنے اسباق ودروس میں انھیں نافذکر کے ہم اپنے موجودہ نصاب اور تعلیمی نظام کو مزید فعال ،متحرک ، بامقصد، نتیجہ خیز اور بارآوربنا سکتے ہیں۔اور اس کے ذریعہ ہم مستقبل کے معمار ، حال کے آبرو،قوم کے قیمتی سرمایہ اور اپنے سرپرستوں کی امانت، مدارس و جامعات میں زیر تعلیم مہمانان رسول/ طلبہ عزیز کی صحیح نہج پر، کم وقت میں زیادہ بہتر تربیت کرسکتے ہیں۔
ایک معلم کامقام ومرتبہ کتنا بلند وبالا ہے ہے۔اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشاد ’’انما بعثت معلما‘‘ (سنن ابن ماجہ ،باب فضل العلم والحث علی طلب العلم ،حدیث نمبر۲۲۹ )کے ذریعہ معلمیت کو اپنے اوصاف میں سے ایک ممتازوصف قرار دیا ہے باعث مسرت ہے کہ علماء کرام و اساتذۂ و معلمین کی معتد بہ تعداد نہ صرف یہ کہ اس وصف کے حامل ہوتی ے؛ بل کہ عملی طور پر اس پیشہ تدریس وتعلیم کو زندگی بھر اپنے لیے حرز جان بنائے رہتی ہے در.
در حقیقت علماء کرام معلم کی حیثیت سے بھی حضرت رسول اکرم کے جانشین ہیں ۔اسی طرح آںحضرتﷺکے مبعوث فرمانے کے جن مقاصد کو قرآ ن کریم نے خاص طور پر بیان کیا ہے، یعنی تلاوت آیات ،تزکیہ اخلاق، تعلیم کتاب وحکمت ا ن میں سے ہر ایک مقصد کو فروغ دینے کی کوشش میں مستقل لگارہنا بھی علماء کی عظمت کانشان ہے ۔اسی مفہوم کو عر ب کے مشہور شاعر شوقی نے اس انداز میں بیان کیاہے :
قم للــمعلم وفّہ الــتبــــــــجیلا کاد المــعــــــلّم ان یکون رسولا۔
(معلم کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاؤ. ان کی حرف گیری اوران پر بیجا تنقید سے اجتناب کرو، ان کی بھرپور تعظیم وتکریم کرو؛ اس لیے کہ معلم کا مقام نبوت کے مقام سے قریب ترہے)
لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ جس کا مقام جتنا بلند ہوتا ہے؛ اس کی ذمہ داریاں بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہیں. اساتذہ کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے طلبہ کی صحیح تعلیم وتربیت ۔ان کی اخلاق سازی اور کردار سازی اور صلاحیت سازی ہے.نیز ان کے اندر اتباع دین و شریعت اور عشق الہی اور محبت رسول کے ساتھ انسانیت اور ملک وملت کی خدمت اور دوسروں کے لیے ہر حال میں نفع بخش بننے کا جذبہ پیدا کرنا ہے.
اگر ہماری غفلت، طلبہ کے ساتھ غلط سلوک و تعامل، قلت مطالعہ، ناقص تیاری اور تدریس کے غلط اسلوب کی وجہ سے دین سے محبت، سنت و شریعت کی اتباع کا جذبہ نہیں پیدا ہوا یا طلبہ کے استعداد میں کوئی کم زوری رہ گئی اور ان کی صلاحیتیں پروان نہیں چڑھ سکیں یا سرے سے انھوں نے تعلیمی سلسلہ کو ترک کرکے مدرسہ کو خیر باد کہہ دیا اور ان کا مستقبل برباد ہوا؛تو اس کی تمام تر جواب دہی اساتذہ کرام، حضرات معلمین اور امور تدریس کے ذمہ داروں کی ہوگی اور شاید اللہ رب العزت اس دانستہ کوتاہی اور امانت میں خیانت کے اس عمل کو معاف نہ فرمائیں. اس لیے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کے تئیں حساس ہونا چاہیے اور اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو پوری دیانت اور مستعدی کے ساتھ انجام دینا چاہیے. ہم پر لازم ہے کہ الدین النصیحہ کے تقاضے پر عمل کرتے ہوئے ہر حال میں طلبہ کے ساتھ خیر خواہی کریں اور غیر اخلاقی رویہ سے مکمل اجتناب کرلیں. ضربِ مبرح کو فقہاء نے حرام قرار دیا ہے اس سے ہر حال میں بچیں. کردار وعمل میں طلبہ کے لیے نمونہ بنیں، وقت کے ضیاع سے بچیں اور خود بھی وقت کی قدر دانی کریں اور طلبہ کو بھی معمولات درس و مطالعہ اور روٹین کی پابندی کا مکلف بنایا جائے.. اگر ان امور کی پابندی کرلی جائے تو ایسے معلمین کا درس بھی بافیض ہو گا اور عند اللہ اور عندالناس مقبولیت بھی حاصل ہو گی.
ایک معلم ہی تو عرفان خدا دیتا ہے
فرد کو نفس کی پہچان کرادیتا ہے