صفحات:۴۲۴ مصنف:ڈاکٹر تابش مہدی
سن اشاعت : ۲۰۲۳ء قیمت :500
تعارف نگار: *ضیاء الحق خیرآبادی*
*ڈاکٹر تابش مہدی پرتاب گڑھی* (پ:1951) علمی وادبی دنیا کی ایک معروف شخصیت ہیں ، وہ ایک اچھے شاعر ، بلند پایہ ادیب ونقاد اور بہترین تذکرہ نگار ہیں ، ان کے قلم سے چار درجن سے زائد چھوٹی بڑی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، زیر نظر کتاب ان کی آپ بیتی ہے ، مجھے آپ بیتیوں اور سفرناموں سے خصوصی دلچسپی ہے ، اس لئے گزشتہ دنوں مکتبہ ندویہ لکھنؤ میں جب اس پر نظر پڑی تو خرید لیا اور چند نشستوں میں پوری کتاب پڑھ ڈالی۔
کتاب کیا ہے؟ نہایت شستہ وشگفتہ زبان اور رواں دواں اسلوب میں مصنف کی جفاکشی، محنت ولگن اور جہد مسلسل کی ایک داستان ہے۔ ایک بچہ ایک عام سے گھرانے میں پیدا ہوتا ہے ، اس کے نانیہال میں اس کی پرورش وپرداخت ہوتی ہے ، وہ ناناجان اور نانی کی محبتوں وشفقتوں کے سائے تلے پروان چڑھتا ہے ، ناناجان بزرگوں کے صحبت یافتہ ، ان کے دست گرفتہ ایک صاحب دل انسان تھے ، وقت کے مشہور بزرگ اور مصلح ورہنما مولانا سید محمد امین نصیرآبادی کی صحبت کیمیا اثر نے ان کو کندن بنادیا تھا ، بلا تفریق مذہب وملت پورا علاقہ ان کی روحانیت وبزرگی کا قائل تھا ۔
اس بزرگ شخصیت کا نام صوفی شاہ ثابت علی ناجیہ پوری تھا،[ناجیہ پور پرتاب گڑھ کا ایک گاؤں ہے] مصنف کتاب ان کے بارے میں لکھتے ہیں :
میرے نانا حضرت صوفی شاہ میاں ثابت علی ناجیہ پوری رحمۃ اللہ علیہ اپنی بعض مذہبی، اخلاقی اور خاندانی خصوصیات کی وجہ سے پورے علاقے میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اُنھیں اُس عہد کے نام ور مصلح و مجدد اور خانوادہ حضرت سید احمد شہید راے بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے جید و با کمال فرزند حضرت مولانا سید محمد امین نصیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ سے شرف ارادت حاصل تھا۔ وہ اپنی ذاتی و مذہبی زندگی میں حضرت نصیر آبادی کے نقوشِ قدم پر گامزن تھے۔ وہی جاہ و جلال، وہی جذبۂ اصلاح، وہی تقویٰ وطہارت اور مال و متاع سے بے نیازی کے آثار ان کی زندگی میں بھی ملتے تھے، جس کے لیے حضرت نصیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ دور دور تک جانے جاتے تھے،۔۔۔۔نا نا محترم کو علما اور بزرگوں سے غایت درجے کا تعلق تھا۔ حضرت نصیر آبادی سے تو ارادت کا تعلق تھا، بعض دوسرے علما اور بزرگوں سے ملنے کے لیے جون پور، مچھلی شہر ، پرتاپ گڑھ اور راے بریلی کے آئے دن سفر کرتے رہتے تھے۔(ص:25/23)
ان کا ایک واقعہ لکھا ہے جس سے علماء سلف کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی کا پتہ چلتا ہے:
ایک بارشب میں سوئے، صبح فجر کی نماز سے بہت پہلے اٹھے اور گھر میں کپڑا تلاش کرنا شروع کر دیا۔ جب کپڑ امل گیا تو اسی وقت ٹوپی سینے بیٹھ گئے۔ بعد میں بتایا کہ خواب میں مَیں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا تھا، ان کی ٹوپی ذہن میں نقش ہوگئی تھی۔ وہ ان جیسی ٹوپی ہی سی کر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ چناں چہ باقی پوری زندگی اسی انداز کی ٹوپی استعمال کی ، جو خواب میں حضرت امام ابو حنیفہ کے سر پر دیکھی تھی ۔ خود ہی سیتے بھی تھے۔(ص: 25)
اسی بزرگ شخصیت کی نگرانی وتربیت میں علم کا سفر شروع ہوا، اپنی فطری ذہانت وذکاوت اور ناناجان کے فیضان توجہ سے بڑی تیزی کے ساتھ علم کی راہ طے ہوتی رہی ، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ بچہ آگے چل کرایک بڑا عالم اور اپنے نانا کا جانشین ہوگا ،نانا کے عزائم بھی اپنے اس نواسے کے لئے بڑے بلند تھے ، وہ اسے جون پور ، ندوہ اور جامعہ ازہر تک بھیجنے کا عزم کئے ہوئے تھے، مگرقضا وقدر کے فیصلے کچھ اور تھے، عمر کی بارہویں منزل میں پہنچے تو اپریل 1962ء میں مختصر علالت کے بعد ناناجان کا انتقال ہوگیا ، کچھ عرصہ کے بعد نانی جان بھی اپنے مالک حقیقی سے جاملیں ، پھر تو زمین آسمان ایسے بدلے کہ نانیہال کی سرزمین اپنی تمام تر کشادگی کے باوجود اس پر تنگ ہوگئی ۔ ناز ونعم میں پلا یہ بچہ مختلف طرح کے ابتلاء وآزمائش میں گھرگیا ،لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری ، علم کا سودا اس کے سر میں سمایا رہا اور توفیق الٰہی اس کی رہنمائی کرتی رہی ، ناناجان کی صحبت بابرکت سےدین ، علم دین اور علماء واہل اللہ سے محبت وشیفتگی کی جو مضبوط ومستحکم بنیادپڑگئی تھی وہ زندگی کے کسی دور میں کمزور نہیں ہوئی ، اس کے اثرات ہر دور میں محسوس کئے جاتے رہے۔نانا کے انتقال کے بعد کے احوال پڑھ کر جگہ جگہ آنکھیں چھلک پڑتی ہیں ۔
کتاب کا ابتدائی حصہ پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ناناجان کی دعائیں پوری طرح اس بچے کے ساتھ تھیں ، کہیں کہیں تو ایسا لگا کہ اب تمام امید ختم ہوگئی ہیں آگے کوئی راستہ نہیں ہے، اور یہ کمسن و معصوم بچہ عام بچوں کی بھیڑ میں گم ہوکر کھوجائے گا، لیکن اسی وقت حیرت انگیز طور پر کوئی نہ کوئی شخص سامنے آگیا اور اس نے اس کے گرتے قدموں اور ٹوٹتے حوصلوں کو سہارا دیا اور تمام بگڑے امور درست ہوگئے ۔ نانا کے انتقال کے بعد یہ بچہ بیت العلوم پرتاپ گڑھ اوروہاں سے انوار العلوم مئو آئمہ پہنچا، وہاں مشہور قاری رحمت اللہ صدیقی کے مشورے سے مدرسہ سبحانیہ الہ آبادمیں داخل ہوا، داخلہ کی دلچسپ داستان کتاب میں موجود ہے ، مدرسہ سبحانیہ میں دوسال رہ کر اس بچے نے روایت حفص میں تجوید کی تکمیل کی اور قاری تابش مہدی بن گئے۔ بزرگوں سے جوقلبی تعلق ولگاؤ ان کی رگ وپے میں داخل ہوچکا تھا اس کی وجہ سے یہاں کے قیام کے دوران مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہ علیہ الرحمہ کی مجلس میں حاضری کا معمول رہا۔
قاری تابش مہدی کو اللہ تعالیٰ نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا ، شرافت ونجابت اور ذہانت ولیاقت کے ساتھ پوری محنت ولگن سے اپنی تعلیم میں لگے رہتے تھے ، اس کم سنی میں شاعری سے بھی رسم وراہ پیدا ہوچکی تھی ، گلا بھی بہت عمدہ تھا ، جہاں قرأت کرتے یا نعت ونظم پڑھتے سماں بندھ جاتا ، لیکن یہی چیز ان کے لئے مصیبت بن جاتی ، ان کی محبوبیت و مقبولیت بہت سی نگاہوں میں خار بن کر کھٹکنے لگتی اور کچھ کم ظرف لوگ سازشیں کرتے اورایسی صورتحال پیدا کردیتے کہ ان کے لئے اپنی جگہ چھوڑدینے میں ہی عافیت محسوس ہوتی ۔مدرسہ سبحانیہ میں یہی صورت پیش آئی تو اپنے ایک کرم فرما کے مشورہ سے مرادآباد کے مشہور قصبہ حسن پور میں ایک ماہر مجود قرآن قاری شوکت علی قاسمی کی خدمت میں پہنچ گئے اور سال بھر وہاں رہ کر تجوید میں مزید کمال پیدا کیا ۔ اس کے بعدوطن واپس آئے ، اسی دوران جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے داخلہ کی منظوری بھی آگئی لیکن کسی سرپرست کے نہ ہونے اور وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ اس سے فائدہ نہ اٹھاسکے۔
وسائل کی تہی دامنی کی وجہ سے وطن سے قریب ایک مدرسہ میں کچھ دن ملازمت اختیار کی، یہاں مولانا شاہ محمد احمد پرتاپ گڑھی کی حاضری کثرت سے ہوتی رہتی تھی ، ان کی مجالس میں حاضری کا سلسلہ بھی رہا ۔اس دوران دل میں حصول علم کا جذبہ برابر موج زن رہا، چند ماہ کی ملازمت کے بعد ضلع بہرائچ کے قصبہ نواب گنج علی آباد کے مولانا بلالی علی آبادی کی خدمت میں پہنچے ، اس کتاب کے ذریعہ پہلی بار ان کے نام سے آشنائی ہوئی اور معلوم ہوا کہ مولانابڑے صاحب علم وفضل اور زبردست قوت حافظہ کے مالک تھے، اسی کے ساتھ ایک اچھے مقرر اور شاعر بھی تھے ۔ انھوں نے قاری تابش مہدی کو اپنی سرپرستی میں لے لیا اور ایک مشفق ومہربان استاذ کی طرح ہر ہر موقع پر ان کی دستگیری کی، چونکہ تابش مہدی کو بھی شاعری سے شغف تھا اس لئے مولانا سے اپنے اشعار پر اصلاح بھی لیتے تھے ، اس دوران نواب گنج ، سیتاپور اور نان پارہ میں تدریس وامامت کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا ، تفصیلات کتاب میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔کچھ دنوں مولانا عبد الحلیم فاروقی کے مدرسہ دارالعلوم فاروقیہ کاکوری میں بھی پڑھا ۔
تابش صاحب جہاں بھی رہے اپنے استاذ محترم مولانا بلالی سے مربوط رہے اور اسی کے ساتھ وقت کے علماء وصلحاء سے ایک تعلق اور وابستگی رہی ۔ کاکوری سے آنے کے بعد اپنے استاذ مولانا بلالی سے خصوصی طور پر تعلیم حاصل کی ، ایک ڈیڑھ سال کی تعلیم کے بعدمولانا کی رائے ہوئی کہ کسی اچھے مدرسہ میں داخلہ لے کر باقاعدہ تعلیم حاصل کریں ، تو مولانا ابوالوفا شاہجہاں پوری کے مشورہ سے مدرسہ قرآنیہ جونپور میں داخلہ لیا ، جونپور کی ان کے دل میں بڑی اہمیت تھی اس لئے کہ اپنے نانا کی زبان سے انھوں نے جونپور کا ذکر بکثرت سنا تھا اور وہ ان کو وہاں تعلیم کے لئے بھیجنا بھی چاہتے تھے۔ اس وقت مدرسہ قرآنیہ کے صدر مدرس مولانا محمد ایوب صدیقی فیض آبادی تھے جو فارسی زبان کے زبردست ماہر تھے ، تابش مہدی وہاں داخلہ لے کر حصول علم میں منہمک ہوگئے ، بزرگوں کی طرف فطری رجحان ہونے کی وجہ سے مولانا کرامت علی جونپوری کے خانوادہ سےخاص تعلق رہا ، مولانا ظفر احمد صاحب سے تو یہ تعلقات ان کی اخیر حیات تک رہے، کتاب میں متعدد مواقع پر ان کا ذکرخیر ہے، ان کے انتقال پر تابش صاحب نے ایک تفصیلی مضمون بھی لکھا تھا۔ یہاں قیام کے دوران شعری محفلوں اور مشاعروں میں بھی شرکت ہوتی رہی ، شفیق جونپوری سے وہ بہت متاثر تھے ، ان کا تو چند سال پہلے انتقال ہوچکا تھا لیکن ان کے خانوادے سے تعلق رہا۔ جونپور میں بھی مدرسہ سبحانیہ والی صورت پیش آئی اور ایک بےبنیاد بات کی بناپر ایسی صورت پیدا کی گئی کہ تابش صاحب نے وہاں سے کنارہ کشی ہی مناسب سمجھی اور پرتاپ گڑھ آگئے اور کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد امروہہ مدرسہ چلہ آگئے ۔
امروہہ علماء ، ادباء ، شعراء اور اطباء کی سرزمین ہے ، یہاں ایک سے ایک صاحبانِ علم وفضل گزرے ہیں ، تابش صاحب یہاں پہنچے تو یہ جگہ ان کے ذوق ومزاج کے مطابق تھی ، یہاں ان کا جی خوب لگااور ان کے ذوق شاعری کو خوب جلا ملی، یہاں کے علماء وفضلاء اور شعراء وادباء کی صحبت سے انھوں نے جی بھر کے فیض اٹھایا ۔ یہاں مدرسہ چلہ ( مدرسہ حسینیہ ) میں تجوید کے مدرس ہوئے ، انھوں نے مدرسہ چلہ اوریہاں کے اساتذہ ومنتظمین کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے ، اسی کے ساتھ امروہہ کی اکثر اہم علمی وادبی شخصیات کا ذکربڑے والہانہ انداز میں کیا ہے۔ ان میں حکیم محمد احمد اثرعباسی کا ذکر بہت خوب ہے ، ان کا مشغلہ تو طب تھا لیکن ان کو عربی درسیات بھی پوری طرح ازبر تھیں ، اس کا ایک واقعہ تابش صاحب نے لکھا ہے۔ ان کے تذکرہ میں انھوں نے لکھا کہ ملاحسن جو فلسفہ کی مشہور کتاب ہے ، حالانکہ ملاحسن فلسفہ نہیں منطق کی کتاب ہے ، یہ منطق کے مشہور متن سلم کی شرح ہے۔ حکیم صاحب کی ایک غزل کے تین اشعار بھی لکھے ہیں جن میں سے یہ شعر بہت پسند آیا ؎
دنیائے تصور کی اللہ رے رعنائی
ہنگامے کا ہنگامہ تنہائی کی تنہائی
یہاں تابش صاحب نے علامہ شہباز امروہی کو شاعری میں اپنا باقاعدہ استاذ بنایا اور ان سے اصلاح لینے لگے ،اسی کے ساتھ یہاں کی ادبی وشعری مجالس میں شریک ہونے لگے۔اپنے استاذ پر انھوں نے مستقل ایک کتاب ’’ عرفانِ شہباز ‘‘ لکھی ہے۔ تابش صاحب کے ساتھ ایک عجیب بات رہی،کہ ان کی تعلیم وتربیت صوفیانہ ماحول میں ہوئی ، بزرگوں کے دامن تربیت سے وابستہ رہے، لیکن متعدد بار ان پر جماعت اسلامی سے وابستگی کا الزام لگایا گیا ، جبکہ امروہہ آنے تک ان کا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہ تھا ، یہاں آکر جب ہر طرح کے لوگوں سے ملاقاتیں رہیں اور مولانا عامر عثمانی کا تجلی مطالعہ میں آیا تو اس نے ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالااور جماعت اسلامی کے ممبر بلکہ داعی ومبلغ بن گئے اور ایک عرصہ تک خود کوتابش عامری بھی لکھتے رہے ۔ امروہہ کے بعد دیوبند ہی ان کا وطن بنا، مکتبہ تجلی میں ملازمت سے دیوبند کی زندگی کا آغاز ہوا تو پھر وہیں عثمانی خاندان میں ان کا نکاح ہوا اور دیوبند ان کا وطن ثانی بن گیا۔
امروہہ کے ذکر میں انھوں نے وہاں کی مشہور علمی شخصیت مفتی نسیم احمد فریدی کا شاندار تذکرہ لکھا ہے، تابش صاحب سچے اور جرأت مند انسان ہیں ، اس لئے بے تکلف وہ باتیں بھی لکھ دیتے ہیں جو ہر شخص نہیں لکھ سکتا ، انھوں نے مفتی صاحب کے تذکرہ میں یہ بات لکھی ہے کہ ایک ملاقات پر کہنے لگے کہ : ’’تابش! تم نے بہت سے بزرگوں کو دیکھا ہے ، ان کی صحبتیں اٹھائی ہیں ، اسی وجہ سے سنبھلے ہوئے ہو ، ورنہ اب تک تم جماعت اسلامی کے بہت برے مبلغ بلکہ قائد بن چکے ہوتے۔‘‘ ( ص: ۱۷۶)
یہاں کے بزرگوں میں ایک مولانا سراج احمد امروہی تھے جو حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی علیہ الرحمہ کے بڑے خلفاء میں سے تھے ، میرے استاذ مولانا اعجاز احمد اعظمی علیہ الرحمہ نے ان کی مستقل سوانح ’’ حیات سراج الامت ‘‘ لکھی ہے، تابش صاحب نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ :
’’ میں نے جب بھی انھیں درس گاہ میں، گھر میں یاراستے میں کہیں چلتے ہوئے دیکھا ، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ خوفِ الٰہی اور زندگی کی ایک ایک حرکتِ عمل پر آخرت کی جواب دہی سے ان کا رواں رواں لرز رہا ہے۔ ‘‘ (ص:۱۹۰)
غرض ذکرامروہہ جو سو صفحات سے زائد پر مشتمل ہے خاصا دلچسپ اور لائق مطالعہ ہے۔
امروہہ سے دیوبنداور وہاں سے مولانا محمد یوسف اصلاحی[مصنف آداب زندگی] کی دعوت پر رام پور گئے جہاں کچھ عرصہ ماہنامہ ذکریٰ سے وابستہ رہے ، یہاں سے دوبارہ دیوبند چلے گئے اورمکتبہ تجلی وماہنامہ تجلی سے سالہاسال وابستگی رہی،وہیں سے ایک رسالہ ’’ اجتماع ‘‘نکلا جس کے مدیر رہے ، جس میں خصوصیت کے ساتھ جماعت اسلامی کا دفاع کرتے ، اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیتے۔اہلیہ مولانا عامر عثمانی کی سعی وکوشش سے وہیں شادی ہوئی ، مکان بھی بنالیا۔یہ شادی دیوبند کے مشہور عالم مولانا اشتیاق احمد عثمانی ( صدر شعبۂ خطاطی دارالعلوم دیوبند) کی پوتی سے ہوئی ، یہ پورا خاندان کیا مرد کیا عورتیںسب بہترین خطاط تھے ۔ تابش صاحب نے جب یہاں سے ماہنامہ الایمان نکالا تو ان کی اہلیہ راضیہ خاتون نے ہمیشہ اس کی کتابت کی۔ دیوبند کے تذکرہ میں مولانا قاری محمد طیب ، مولانا انظر شاہ کشمیری ،مولانا نصیر احمد خاںاورحکیم عزیز الرحمٰن اعظمی وغیرہ کا تفصیلی ذکر ہے۔ قیام دیوبند کے دوران ان پر بڑے حالات آئےجس کا انھوں نے خندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کیا ، قلم وقرطاس سے وابستگی کے ساتھ جماعت اسلامی کے مختلف اداروں میں وقتی ملازمت بھی کی تاکہ معاشی حالات کسی قدر بہتر ہوسکیں ،ناموافق حالات کی وجہ سے انھیں ماہنامہ الایمان بند کرنا پڑا۔دیوبند کے تذکرہ میں مولانا کاشف الہاشمی کا ذکر اور اپنی تفسیر بارے میں ان کاطریقۂ کار قابل تحسین ولائق عمل ہے۔( ص: ۳۲۴)
اسی دوران یوکے اسلامک مشن ( لندن ) کی دعوت پر انگلینڈ کا سفر ہوا ، جہاں مختلف پروگراموں ، کانفرنس اور مشاعروں میں شرکت کی اور چھ ماہ قیام کیا ، اس کے بعد ہندوستان واپس آگئے، پھر پاکستان کا سفر کیا جہاں تین ماہ قیام رہا۔ہمارے دیار میں جماعت اسلامی کا معروف ادارہ جامعۃ الفلاح ہے،اس ادارہ سےتدریس کی پیشکش کی گئی اور یہاں آنے پر اصرار کیا گیا ،چونکہ تابش صاحب کا جماعت سےگہرا اور مخلصانہ تعلق تھا ، اس لئے انھوں نے اس دعوت پر لبیک کہا اور جون 1986ء میں یہاں بحیثیت مجود تشریف لائے ، تجوید کے ساتھ کچھ دوسرے ادبی مضامین کی تدریس بھی ان کے سپرد ہوئی ، تابش صاحب نے جامعۃ الفلاح سے ان کی وابستگی کی کیا بنیاد تھی اسے تفصیل سے لکھا ہے ، وہ اس ادارہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
جامعۃ الفلاح بلریا گنج کا قیام بیسویں صدی عیسوی کے بالکل اوائل میں عمل میں آیا۔ اس کے بعد یہ مختلف ناموں اور مراحل سے گزرتا رہا، لیکن یہ جامعۃ الفلاح کی حیثیت سے میں 1961ء میں سامنے آیا۔ اسی زمانے میں اسے ایک ایسے مدرسے کی شکل دے دی گئی جہاں سے طلبہ علم دین کی تکمیل کر کے نکل سکیں اور اس حد تک عصری تعلیم سے بھی اُنھیں آراستہ کر دیا جائے کہ وہ اپنے تعلیمی سلسلے کو عصری رخ دے کر آگے بڑھا سکیں ۔ جامعۃ الفلاح سے ہمیشہ مجھے قلبی تعلق رہا ہے۔ میں نے ہمیشہ اسے جماعت اسلامی کی اقامت دین کی مہم کے لیے مدومعاون تصور کیا۔ گرچہ وہاں سے پڑھ کر نکلنے والے میرے اس تصور پر کبھی پورے اترتے نظر نہیں آئے۔ نہ ان کی ظاہری ہیئت داعیانہ و مبلغانہ ملی اور نہ وہ اعمال اور کارناموں کے اعتبار سے ہی ایسے ملے کہ اُن سے دین وملت کے لیے کوئی اچھی امید کی جاسکے۔ تاہم میرا خیال یہی رہا کہ اسے جماعت نے قائم کیا ہے تو دیر سویر یہ ادارہ جماعت کے لیے ضرورت مفید ثابت ہوگا۔(ص: ۳۲۶)
لیکن جس شوقِ فراواں اور مخلصانہ جذبے کے ساتھ یہاں تشریف لائے تھے وہ بات انھیں یہاں نہیں ملی بلکہ اس کے برعکس کا تجربہ ہوا، انھوں نے اپنی بساط بھر یہاں کے طلبہ پر محنت کی اور ان کی ان تھک کوششوں کے نتیجہ میں طلبہ کی ایک کثیر تعداد نے علم تجوید کو حاصل کیااور عمدہ طرز وانداز میں قرآن پڑھنے کی مشق کی جس کے نتیجہ میں درست قرآن پڑھنے کا ایک ماحول بنا۔ تابش صاحب کوجامعۃ الفلاح کے بارے یہی احساس رہا کہ یہاں طلبہ واساتذہ میں غیر معمولی حد تک تدین کی کمی ہے، یہ بات انھیں عبادات ، لباس ، وضع قطع سے لے کر گفتگو اور چال ڈھال ہر سطح پر محسوس ہوئی ۔ انھوں نے وہاں کے تجربات اور بیتے ہوئے لمحات کو تفصیل سے لکھا ہے جن میں سے بعض حددرجہ افسوسناک ہیں ، ایک جگہ وہ لکھتے ہیں :
یہ بات میں نے خصوصیت کے ساتھ محسوس کی کہ وہاں کے طلبہ واساتذہ میں نہ روحانی قدریں ملیں اور نہ روحانی شخصیات کا ادب و احترام ملا۔ بل کہ روحانی شخصیتوں سے ایک قسم کا بُعد بل کہ تکدر محسوس ہوا۔ جن بزرگوں کا میں نے ہمیشہ احترام کیا، جن کا نام لینا میرے لیے ہمیشہ باعث سعادت رہا ہے، ان کا وہاں اکثر تمسخر اور مذاق اڑایا جاتارہا ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا علی میاں ندوی تو ان کے ہاں بس طفل مکتب محسوس ہوتے تھے۔ صحابہ کرام کی بھی وہ شان ان کے ہاں نہیں محسوس کی ، جو عام مسلمانوں کے ہاں ملتی ہے۔ (ص:۳۴۰)
ان کی اس بات سے سخت حیرت ہوئی کہ :
۔۔۔۔ طلبہ و اساتذہ میں تلاوت قرآن مجید کا کوئی رجحان نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے قد آور اساتذہ بھی اگر کبھی کسی عام مجلس میں درس قرآن دیتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی غیر زبان کی کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں ۔ نہ روانی، نہ کوئی حلاوت اور نہ لہجے میں کسی قسم کی شایستگی ۔( ایضاً)
۔۔۔۔’’ وہاں کے ایک بڑے عالم جو اپنے حلقے کے بڑے مفسر قرآن سمجھے جاتے ہیں ، ان کا یہ قول بہت مشہور ہے: تجوید تو بس جبڑوں کی ورزش کا نام ہے، یہ ورزش دوچار دن میں ہوسکتی ہے۔‘‘ (ص:۳۵۴ )
چار سال یہا ں رہ کر 1990ء میں مستعفی ہوگئے ، یہاں کے استعفیٰ کے بعد بعض منتظمین نے ان کے ساتھ کچھ ایسا سلوک کیا جو انسانیت کی پستی کی انتہا تھی ۔ جامعۃ الفلاح کے تذکرہ میں یہاں کے بعض حضرات کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کیا گیاہے جیسے مولانا صغیر احسن اصلاحی، ان کے فرزند اور موجودہ ناظم مولانا محمد طاہر مدنی ، مولانا طاہر مدنی کے خسر ماسٹر عبد الجلیل، دنیائے طب کی معروف شخصیت حکیم محمد ایوب وغیرہ ۔بلریاگنج سے دیوبند جانے کے بعد کچھ عرصہ دیوبند میں گزارنے کے بعد معاشی پریشانیاں دن بدن بڑھتی رہیں تو اہلیہ کے مشورے اور اصرار پر 1991ء میں دہلی جانے کا فیصلہ کیا، بعد میں وقت نے ثابت کردیا کہ اہلیہ کا یہ مشورہ بالکل صائب تھا ۔
اس کتاب کی ابتداء پرتاپ گڑھ کے ایک قصبہ ناجیہ پور سے ہوتی ہے اور اس کا اختتام قیام دہلی پر ہوتا ہے، 72؍ سالہ مصنف کی یہ 40؍ سالہ داستان ہے ۔ قیام دہلی سے اب تک کے حالات دوسری جلد میں آئیں گے ان شاء اللہ۔تابش صاحب کتاب کے پیش لفظ ’’ سخن گفتنی ‘‘میں لکھتے ہیں :
’’ ان شاء اللہ اس کا اگلا حصہ دہلی نامہ ہوگا ۔ اس میں 1991ء کے بعد کی روداد ہوگی ، اس کا انداز واسلوب بھی حصہ اول سے مختلف ہوگا اور ترتیبِ تحریر بھی اس سے بہ ہر حال مختلف ہوگی ۔ بہ وجوہ یہی ہونا بھی چاہئے۔‘‘
اس کتاب کوپڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تابش صاحب نے بغیر کسی تحفظ اور لاگ لپیٹ کے جو کچھ محسوس کیا تہذیب وشائستگی کے ساتھ بے کم وکاست لکھ دیا ہے۔ مجھے ایسی آپ بیتیوں سے خاص دلچسپی رہی ہے جو کسی ایسے شخص کے قلم سے ہوں جو ایک عام گھرانے سے تعلق رکھتا ہو اور اس کا کوئی خاص خاندانی پس منظر نہ ہو، اس کی سیرت وشخصیت کی تکمیل میں خود اس کی اپنی ذاتی محنت وکوشش اور جد وجہد کا دخل ہو، ایسی آپ بیتیوں کو پڑھ کر ایک عام انسان اور طالب علم کے اندر بھی یہ حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے جیسا ایک انسان اپنی ذاتی محنت وکوشش سے علم وفضل کی بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے تو ہم بھی اگر ویسی ہی محنت وجانفشانی سے کام لیں تو ہم کیوں وہاں تک نہیں پہنچیں گے، یہ چیز اس کے جذبۂ عمل کو بیدار کرتی ہے اور اس کے حوصلوں کو مہمیز کرتی ہے۔ ’’ تیز دھوپ کا مسافر ‘‘بھی ایسی ہی ایک آپ بیتی ہے۔طلبہ کو بطور خاص اسے پڑھنا چاہئے۔
کتاب دہلی میں مرکزی مکتبہ اسلامی ، دیوبند میں کتب خانہ نعیمیہ ومکتبہ النور اور لکھنؤ میں ندوی بک ڈپو ندوۃ العلماء سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
ضیاء الحق خیرآبادی
9235327576