از ـ محمود احمد خاں دریابادی
لیجئے ایک آدمی اور چلاگیا …….. بے باک ……… بےخوف …….. بےلاگ آدمی، جس کو گلزار اعظمی کہا جاتا تھا، ………. تھاتو وہ گوشت پوست کا ہی بناہوا مگر …….. اپنے افکار اور کردار، بےباکی وبے خوفی کی وجہ سے مرد آہن تھا، جس کو آج کی چلتی زبان میں ” لوہ پُرش” بھی کہتے ہیں ـ
یوں تو ایک عرصہ ہوگیا ہم کو ملی و سماجی میدانوں میں ٹوٹی پھوٹی خدمات انجام دیتے ہوئے، مگرآج ہم برملا یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے سماجی کام کرنے کا عزم، حوصلہ، جذبہ اور سلیقہ جن لوگوں سے سیکھا ہے اُس میں ایک بڑا اور اہم نام گلزار اعظمی کا ہے، حالانکہ ان کی اور ہماری عمر میں تقریبا تین دھائی کا فرق رہا ہوگا، مگر ہم لوگ اُن کو گلزار بھائی ہی کہتے تھے، ……….. صاف دل، منہ پھٹ، حقیقت پسند اور حق گو انسان تھے ـ جس بات کو صحیح سمجھ لیتے اُس پر ڈٹ جاتے تھے، صرف ڈٹتے ہی نہیں بلکہ فریق بن کر ساری لڑائی اپنے سر لے لیتے تھے ـ ……….. کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ اُن کو دو فریقوں کے درمیان صلح صفائی کے لئے پنچائت میں شامل کیا گیا، بات چیت آگے بڑھتی، اس دوران اگر گلزار بھائی کو یہ محسوس ہوجاتا کہ ایک فریق مسلسل زیادتی کررہا ہے، سمجھانے سے بھی نہیں مان رہا تب گلزار بھائی کی تیغ برّاں نکلتی اور اصل فریق ایک طرف رہ جاتا گلزار بھائی خود فریق بن جاتے،ایسے لوگوں کے لئےاُن کے پاس ہر طرح کا علاج دستیاب رہتا، ڈانٹ ڈپٹ، تیز گفتگو، آگر سامنے والا بدزبان ہوتا تو وہ بھی مادر پدر کرنے لگتے، سرکار، دربار کی نوبت آتی تو اس میں بھی پیچھے نہیں رہتے تھے ـ
گلزار بھائی عالم نہیں تھے، ممبئی کے انجمن اسلام ہائی اسکول میں بھی چند سال ہی پڑھا تھا، مگر علماء سے طویل صحبت، ذاتی مطالعہ، عصری تعلیم یافتہ افراد،وکلاء وغیرہ سے مستقل رابطے کے نتیجے میں حسب ضرورت عربی، انگریزی، ہندی، مراٹھی وغیرہ پڑھنے و سمجھنے کی صلاحیت موجود تھی ـ ہم نے اُنھیں مختلف فرقوں کے افراد سے پولیس اسٹیشن وغیرہ میں مناظرانہ گفتگو کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے ـ
بزرگانہ ہاو بھاو، ہٹو بچو کو نہ اپنے لئے پسند کرتے نہ دوسروں کے لئے،.......... چونکہ ہمارا مزاج بھی بہت زیادہ " مولویانہ“ نہیں رہا اس لئے ہم جیسے لوگوں سے خوب جمتی رہی، ........... سرکار دربار میں بے باکی سے گفتگو کرنا، چاپلوسی اور تملق سے پرہیز اُن کی خاص صفت تھی، وزیراعلی، پولیس کمشنر وغیرہ کے یہاں وفد لے کر جاتے تو بالکل صاف اور سخت گفتگو کرتے، پولیس یا انتظامیہ کی شکایت کرنی ہوتی تو صاف کہتے" آپ کی پولیس یہ کررہی ہے " ـ ........ کسی میٹنگ وغیرہ میں ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھتے تو چاہتے کہ کسی کے انتظار میں وقت ضائع کئے بغیر فورا گفتگو شروع کردی جائے جس کو آنا ہوگا آتارہے گا ـ ہرپانچ منٹ میں گھڑی دیکھتے، ہم لوگ مزاق میں کہتے بھی تھے کہ گلزار بھائی آخر کیوں جلدی کرتے ہیں، گھرجاکر ٹی وی ہی تو دیکھنا ہے! ( ٹی وی پر تمام اہم چینلس کی خبریں دیکھنے کی عادت تھی)
گلزار بھائی ممبئی میں اہل حق حلقہ دیوبند کا ایک اہم ستون تھے، جس زمانے میں بریلوی شرپسندوں نے بعض بیرون ملک مقیم غنڈوں کی مدد سے اہل حق کی مساجد پر قبضے کا سلسلہ شروع کیا، اسی دوران جامع مسجد ممبئی میں ہونے والے تبلیغی اجتماع میں شریک دو مسلمانوں کا ان ہی شرپسندوں نے "موب لنچنگ“ کے ذریعے قتل بھی کردیا تھا، وہ وقت ممبئی میں دیوبندیوں کے لئے نازک تھا، شہر کے مشہور شہ زور مخالف تھے، انتظامیہ اور پولیس بھی اُن کی نمک خوار تھی ـ ایسے نازک وقت میں گلزار اعظمی، ہارون موزہ والا، شہاب الدین شیخ و دیگر حضرات نے انجمن اہل السنت والجماعت کی تشکیل کی اور جان ہتھیلی پر لے کر اہل حق کے پرچم کو بلند کیا، بفضل خدا شرپسندوں کو اپنی تمام تر طاقتوں کے باوجود منہ کی کھانی پڑی اور حلقہ دیوبند کے خلاف اُٹھتا ہوا طوفان تھم گیا ـ
گلزار بھائی ممبئی کے جس علاقے میں رہتے تھے وہ قلب ممبئی کہلاتا ہے، وہاں اہل تشیع کی بھی کثیر آبادی ہے، محرم وغیرہ کے موقع پر اُن کی تقریبات ہوتی ہیں،اُن میں وہی تمام دل آزار چیزیں تبراء وغیرہ بھی ہوتا ہے، جن دنوں یوپی میں عزا داری پر پابندی لگی تب سے ممبئی ملک بھر کے اس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے ایک بڑا مرکز بن گیا، دور دور سے یہ لوگ یہاں آنےلگے ، نئی نئی تقریبات، نئی مجلسیں، نئے جلوس نکلنے لگے، مسلمانوں کی محترم شخصیات پر اشاروں کنایوں میں اور حسب موقع صاف صاف بھی طعن و تشنیع کا سلسلہ بھی دراز ہونے لگا ـ اہل تشیع کے کچھ بااثر اور مالدار افراد کی پشت پناہی کی وجہ سے پولیس وانتظامیہ میں بھی اُنھیں کا اثر زیادہ ہوگیا ـ .............. ایسے میں سب سے پہلے گلزار اعظمی صاحب میدان میں آئے لوگوں کو متوجہ کیا،پہلے انجمن خدام صحابہ پھر انجمن تحفظ ناموس صحابہ کی تشکیل ہوئی، اس کے تحت عوامی دباو کے ساتھ پولیس وانتظامیہ پر بھی پریشر بنایا گیا، عدالتی کارروائی اور الحمدللہ متعدد موقعوں پر " دست بدست " کاروائی کی سنت پر بھی عمل کرنے کا ثواب حاصل کیا گیا، محرم کے موقع پر اہل تشیع کے گڑھ میں مسلمانوں کے بھی دو بڑے جلسے ہوتے تھے، گلزار بھائی نے اُن کو مزید منظم کیاـ گلزار بھائی کی سرپرستی میں ہی عاشورے کے ایک دو دن بعد ہی مدح صحابہ کا مشاعرہ بھی وہیں منعقد ہونے لگا ............ ہم جیسے چھوٹے افراد بھی ان سب اقدامات میں گلزار بھائی کے ساتھ رہ کر کام کرنے کا طریقہ سیکھتے رہے ـ غرض ان ساری کوششوں کا نتجہ یہ نکلا کہ رافضیت معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئی، .......... پولیس کے اعلی افسران کی موجودگی میں باقاعدہ تحریری معاہدہ تیار ہوا جس میں اُن کی تقریبات کو محدود کیا گیا، بعض تقریبات میں شرکاء کی تعداد بھی متعین کی گئی، مثلا بعض گلیوں سے عَلَم کا جلوس زبردستی نکلتا تھا وہاں طے کیا گیا کہ یہاں سے صرف چار خاندان کے کل چار آدمی جو اسی گلی میں رہتے ہیں کے صرف چار علَم نکال سکیں گے، کوئی نعرہ، ماتم وغیرہ نہیں ہوگا، پوری گلی میں کہیں ٹہرے بغیر تیزی سے گزر جائیں گے ـ عاشورے کے دن عام سڑک پر رام لیلا کے طرز پر کربلا کے واقعات کھیلے جاتے تھے اس " کربلالیلا " کو موقوف کیا گیا ـ ............ اس موقع پر مجھے پولیس کے ایک اعلی افسر کے الفاظ یاد آتے ہیں جو اُس نے مجھ سے تنہائی میں کہے تھے کہ " گلزار بھائی جس دن مرے گا اُس دن یہ لوگ گھی کے چراغ جلائیں گے " ـ
سیاست میں بھی گلزار بھائی کا دخل رہا ہے، شوشلسٹوں سے قریب تھے، کانگریس کے خلاف جنتاپارٹی، جنتادل وغیرہ کے امیدواروں کے انتخابی جلسوں، ریلیوں میں بلائے جاتے تھے، حسب موقع پرجوش تقریریں بھی کرتےتھے ـ بعد میں شوشلسٹوں سے مایوس ہوکر کچھ کانگریسیوں سے بھی قربت ہوئی تھی، مگر کانگریس کے کسی جلسے میں کبھی گئے ہوں ہمیں یاد نہیں پڑتا ـ
جمیعۃ علماء سے گلزار بھائی کا " لِلّٰہی تعلق " تھا ـ اس اجمال کی تفصیل یہ کہ حضرت مجاہد ملت کے بعد ایک عرصہ ایسا بھی گزرا ہے جب مہاراشٹرا میں جمیعۃ کے چند لوگوں سے گلزار بھائی کی نہیں جمی، انھوں نے گلزار بھائی کو سائڈ لائن کردیا تھا، ان دنوں مرکز کے ارباب حل وعقد نے بھی اس زیادتی پر خاموشی اختیار کی ـ گلزار بھائی تو تھے ہی تیز مزاج ! .......... انھوں نے اس زیادتی پر کیا کیا اور کیسے کیسے تبصرے کئے، کبھی طنز کرتے کبھی " دشنامِ شریفانہ" کا سہارا لیتے، اس زمانے میں جمیعۃ کا بڑا ہو یا چھوٹا شاید ہی کوئی اُن کی کاٹ دار زبان سے بچا ہو ـ ........... مگر جب بھی جمیعۃ کا کوئی پروگرام ہوتا، کوئی تقریب کوئی تحریک ہوتی بغیر بلائے پہونچ جاتے تھے اور آگے بڑھ بڑھ کر تعاون کرتے تھے ـ مگر جب کام پورا ہوجاتا تو پھر اُن کے ساتھ وہی ........ " کس نمی داند کہ بھیا کون ہو " والا معاملہ پیش آتا ـ ایسے موقع پر ہم جیسے لوگ مزاق میں کہتے بھی تھے کہ گلزار بھائی ! جمیعۃ والے جب ضرورت ہوتی ہے آپ کو استعمال کرلیتے ہیں پھر پھینک بھی دیتے ہیں ـ گلزار بھائی اس پر مزید برہم ہوجاتے اور نئے نئے انداز کی گل افشانیاں کرنے لگتے ـ پھر جب دوبارہ جمیعۃ کا کوئی کام سامنے آتاسب کچھ بھول کر پھر دفترپہونچ جاتے تھے ـ گویا جمیعۃ کی محبت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، کوئی بلائے یا نہ بلائے ضرورت پر حاضر ! ـ ............ جبکہ دوسری کوئی تنظیم یا جماعت چاہے پرسنل لاء بورڈ ہو، یا ملی کونسل وغیرہ گلزار بھائی شاید ہی اُن کے کسی پروگرام میں شریک ہوئے ہوں ـ بلائے جاتے تب بھی نہ جاتے، ہم جیسے بے تکلف لوگ کبھی کبھی زور زبردستی کرکے وعدہ بھی کرالیتے تب بھی عین وقت پر پھسل جاتے تھے ـ
پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب جمیعۃ کے ارباب حل وعقد نے گلزار بھائی کو باقاعدہ ذمہ داریاں سونپیں، خاص طور پر ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سرکاری دہشت گردی کا شکار ہونے والے نوجوانوں کی قانونی واخلاقی داد رسی کا فریضہ گلزار بھائی کے سپرد کیا گیا ـ یہ کام آسان نہیں تھا، فرقہ پرستوں کی طرف سے دھمکیاں ملیں، فون کے ذریعے ڈرانے کی کوشش ہوئی، ......... مگر ہمارے گلزار بھائی " لوہ پُرش “ یوں ہی تھوڑی بن گئے تھے، فون پر دھمکانے والوں کی مغلظات کا جواب اُن ہی کی " ماتر بھاشا“ میں دیتے ـ دوسرے ذرایع سے ڈرانے والوں کے لئے باقاعدہ پریس کانفرنس منعقد کی اور پوری بے باکی سے فرمایا کہ ہمیں کسی دھمکی کی پرواہ نہیں، ہمیں ڈرایا نہیں جاسکتا، ہم مظلوموں کی حمایت یوں ہی کرتے رہیں گے ـ اچھی بات یہ تھی کہ اس پریس کانفرس میں دوسری ملی تنظیموں کے اعلی عہدے داران بھی گلزار بھائی کی حمایت کے لئے موجود تھے ـ.............. گلزار بھائی کی محنتوں کا ہی نتیجہ رہا کہ بہت سے بے گناہ رہا ہوئے، کچھ نوجوانوں کے لئے تو سزائے موت کا اعلان ہو چکا تھا،وہ باعزت بری ہوگئے ـ............ ناکردہ جرائم سے خلاصی پانے والوں میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث جیسے تمام مسالک کے افراد شامل ہیں ـ اب بھی بلا تفریق مسلک درجنوں بے گناہوں کی قانونی لڑائی گلزار بھائی کی سرکردگی میں لڑی جارہی تھی، ہمارا خیال یہ ہے کہ گلزار بھائی کی ملت کے لئے یہ اکیلی بے لوث خدمت ایسی ہے جو آخرت میں اُن کی سئیات کو حسنات سے بدل کر پروانہ نجات دلانے کے لئے انشااللہ کافی ہوگی ـ
کھانے پینے اور لباس کے معاملے میں انتہائی سادہ بلکہ لاابالی تھےـ عموما کرتا لنگی پہنتے تھے، جس دن علی گڑھ پاجاما پہن کر آتے تو جانکار سمجھ جاتے تھے کہ آج کمشنر یا کسی منتری کے یہاں میٹنگ میں جانا ہے ـ ........ ہم نے اُن کے ساتھ تقریبا پینتالیس سال کام کیا ہے، ان برسوں میں متعدد مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ہمارا اُن سے اختلاف ہوا، بلند آہنگ گفتگو، بحث وتکرار سے لے کر بعض اوقات " جدال " تک بھی نوبت پہونچی ہے ـ ایک بار تو اُن کے دفتر میں یہاں تک ہوا کہ زبردست مباحثے اور تکرار کے بعد گلزار بھائی نے ہم دوتین لوگوں کو دفتر سے نکالنے کے لئے پولیس کو بلوا لیا، چونکہ دونوں طرف کے لوگ پولیس کے لئے متعارف تھے اس لئے معاملہ ختم کرادیا گیا، بات آئی گئی ہوگئی ـ
گلزار بھائی کی خصوصیت یہ رہی کہ اس طرح کے متعدد جھگڑوں کے باوجود ہمارے لئے اُنھوں نے اپنے دل میں کوئی بغض نہیں رکھا، چونکہ ہم بھی اُن کے مزاج سے واقف تھے اِس لئے اکثر ہم ہی فون کرکے بات چیت کی پہل کرلیا کرتے تھے، ایسا بھی ہوا ہے کہ اُنھوں نے فون کیا یا کہیں سامنا ہوا تو مخاطب کرکے خیریت دریافت کرلی، اور پھر تعلقات معمول پر لوٹ آئے ـ اُن کے بڑکپن کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہم سے عمر میں بہت بڑے ہونے کے باوجود ہمیشہ ” محمود بھائی ” کہتے رہے ـ
اُن کے ساتھ کے کام کرنے والے لوگوں میں حضرت مولانا ظل الرحمن صاحب، حاجی شمس الدین صاحب، حاجی محمدعلی صاحب، مولانا ابرارصاحب، مولانا مستقیم احسن اعظمی، ہارون موزہ والا،محمد احمد زری والے، شبیراحمد راہی، وغیرہ پہلے ہی سدھار چکے تھے، حضرت مفتی عزیرالرحمان صاحب، قاضی زکریاقمر صاحب جیسے کچھ بزرگ ابھی پرانی یادگاروں میں سلامت ہیں،اللہ اِنھین تادیر سلامت رکھے ـ کچھ ہم جیسے چھوٹے بھی ہیں جنھوں نے اُن کی چشم وابرو کی جنبش سے قومی کام کرنے کا سلیقہ سیکھا ہے ـ
پتہ چلا ہے کہ چار دن قبل گلزار بھائی رات میں کھانے سے پہلے لڑکھڑاکر گر گئے تھے، مگر اس وقت کچھ پتہ نہیں چلا، اطمینان سے ساتھیوں کے ساتھ کھانا کھایا، کچھ دیر گفتگو بھی کی، تب تک بھی کوئی احساس نہیں تھا، رات میں سوئے، جب صبح وقت مقررہ پر بیدار نہیں ہوئے تب ساتھیوں نے جا کر دیکھا تو بےہوشی طاری تھی ـ اسپتال منتقل کیا گیا، معلوم ہوا گرنے کی وجہ سے سر کا پچھلا حصہ اور گردن کی ہڈی متاثر ہوئی ہے، آپریشن تجویز ہوا، آپریش کیا گیا، مگر حالت خراب ہوتی گئی، وینٹیلیٹر پر رکھا گیا، حالت تشویشناک ہوتی گئی، کئی دن قبل ہی ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کردیا تھا، پھر بھی کوششیں جاری رہیں،………..
ملک الموت کوضد تھی کہ میں جاں لےکےٹلوں
سربسجدہ تھا مسیحاکہ مری بات رہے
بالاخر قضاو قدر کا فیصلہ غالب آیا، اور ۲۰ اگست ۲۰۲۳ء صبح ساڑھےدس بجے کے قریب عالم فانی کا مسافر عالم جاودانی کی طرف پرواز کرگیا ـ
پسماندگان میں ماشااللہ ایک بھراپُرا خاندان ہے، چھہ صاحبزادے و پانچ صاحبزادیاں، الحمد للہ سب خوشحال اور صاحب اولاد ہیں ـ اہلیہ کا کئی سال قبل انتقال ہوچکا ہے ـ اللہ تعالی ان کے پورے خانوادے کو صبرجمیل اور ملت اسلامیہ کو ان کا نعم البدل عطافرمائے ـ
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
محمود احمد خاں دریابادی
۲۰ اگست ۲۰۲۳ء شب گیارہ بجے