بمبئ کا تجارتی شہر ، بھنڈی بازار کی پر رونق گلیاں اور ان گلیوں میں ایک میانہ قد ، وجیہ پرسنالٹی کا مالک ،بالکل سپید رنگت ، سادگی کا پیکر ، بلیک کلر کی اصلاحی ٹوپی، رنگین کرتا ، لنگی میں ملبوس ، پان سے سرخ دہن و ہونٹ اور اسکی کچھ چھینٹیں سفید ڈاڑھی کے کچھ بالوں پر اور بسا اوقات کرتے پر بھی ۔
آج سے قبل تک ان خصوصیات کا حامل کہیں اخبار میں مستغرق، یا موبایل پر نیوز سنتا کوئ شخص کہیں نظر آجائے تو آپ اسے گلزار اعظمی کہ سکتے تھے ۔
۲۰۱۰ سے ٢٠١٢ تک صابو صدیق ہاسپیٹل بھنڈی بازار میں ملازمت کے دوران شاید ہی کوئ دن ایسا گزرتا جب انکی زیارت نہ ہوتی ۔ میری ہاسپیٹل ڈیوٹی صبح نو بجے شروع ہوتی مگر میں ساڑھے آٹھ بجے جمعیت آفس پہنچ جاتا اور آدھا گھنٹہ اخبار بینی میں صرف کرتا ۔اس دوران الحاج گلزار اعظمی صاحب کی مصروفیات بھی دیکھتا ۔آپ جمعیت علماء قانونی امدادی کمیٹی کے ذمہ دار تھے بلکہ انھیں قانونی امدادی کمیٹی کا بانی کہا جائے تو بہتر ہوگا چنانچہ ملک بھر کے متاثرین ان سے ملنے آتے کبھی دیکھتا وکلاءسے صلاح و مشورہ کررہے ہیں کیسز کی باریکیاں سمجھ رہے ہیں کراس کوشچننگ کررہے ہیں کبھی کسی حبس بیجا کے شکار اہل خانہ سے مظلومیت کی داستان سن رہے ہیں آنسو پوچھ رہے ہیں داد رسی کررہے ہیں حوصلہ دے رہے ہیں قانونی امداد کے ساتھ مستحق اہل خانہ کو مالی امداد جارے کرنے کا حکم بھی دے رہے ہیں ۔
کبھی دیکھتا پریس کا نفرنس کررہے ہیں اور نپی تلی زبان میں میڈیا اہلکاروں کو مسکت جواب دے رہے ہیں ۔
جب کبھی کسی اسیر کی رہائ ہوتی تو وہ جیل سے سیدھا جمعیت آفس پہنچتا اس وقت گلزار صاحب کی خوشی دیدنی ہوتی چہرہ چمک رہا ہوتا سب کا استقبال کرتے گلے ملتے اور پھر میڈیا کو بریفنگ دیتے ۔
گلزار اعظمی صاحب عالم تو نہیں تھے عصری تعلیم یافتہ بھی نہیں تھے ۔مگر وہ اپنے سینے میں ملت کے لئے دھڑکتا دل رکھتے تھے بلاشبہ فراست ایمانی کے نور سے مزین تھے وہ ہمت وشجاعت کے پہاڑ تھے حق گو تھے اور اپنی بات ببانگ دہل کہتے تھے وہ قانونی داو پیچ کو ایک وکیل سے زیادہ جانتے اور برتتے تھے وہ بڑے سے بڑے آفیسر کے سامنے کبھی جھکتے تھے نہ ڈرتے تھے اور نہ تملقانہ انداز اختیار کرتے تھے
میں نے کئ بار ان سے سنا کہ انکی زندگی معصوم اسیروں کی رہائ کے لئے وقف ہوچکی ہے بلاشبہ یہی مشن ہی انکا اوڑھنا بچھونا تھا انکی اپنی کوئ ذاتی زندگی نہیں تھی انکی ہر صبح کسی امید کے ساتھ ہوتی مگر ہر شام کوئ نیا چیلینج انکا منتظر ہوتا
وہ معصوموں کی رہائ کا جو صبر آزما کانٹوں بھرا چیلینج لیکر کھڑے ہوئے تھے اسکا ہر قدم زندگی سے زیادہ موت سے قریب تھا مگر انکے چہرہ پر کبھی خوف کا سایہ نہیں دیکھا گیا ۔
وہ حکومتوں اور انکی ایجینسیوں کو عدالت میں چیلینج کرتے تھے مگر دھمکیوں کا انکے اعصاب پر کوئ اثر محسوس نہیں ہوتا تھا
وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس یقین کے ساتھ جیتے تھے کہ موت کے متعینہ وقت سے قبل کوئ موت نہیں دے سکتا
میں جب بھی انھیں دیکھتا یہی سوچتا تھا شہادت انکا مقدر بنے گی ۔
مگر ایسا نہیں ہوا
اسیروں کی آس ، مظلوموں کی امید، دکھے دلوں کا مرہم اور بے یارو مددگار آنکھوں کا یقین، بیوگی کی طرح زندگی گزارنے والی سیکڑوں خواتین کا سہارا گلزار اعظمی اب مرحوم ہوگئے ۔
اللہ انکی خدمات کو قبول فرمائے انکی آخرت کی ساری منزلیں آسان فرمائے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے
مگر یہ سوال منھ پھاڑے ملت ااسلامیہ ہندیہ کے ہر فرد کے سامنے کھڑا ہے کہ ان نازک ترین حالات میں الحاج گلزار اعظمی صاحب کا نعم البدل نہ سہی بدل کون بنے گا ۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرارشدقاسمی