ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟

عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی
مدیر تحریر ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور
Email: abdullahkhalid59@gmail.com
آج کل بڑے زوروشور سے ہندوستان کے فرقہ پرست عناصریہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ اسلام اور اس کے ماننے والے دوسرے مذہب والوں کو برداشت کرنے کے روادار نہیں، اسی لئے گھر واپسی کے عنوان سے ہندوستانی مسلمانوں اوردیگر اقلیتوں کے دھرم پریورتن)تبدیلی مذہب( کی ایک غیر آئینی مہم جاری ہے ، اور ہندوستانی معاشرہ کے امن و سکون کو غارت کیا جارہا ہے، حالانکہ یہ ایک گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے،اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں، یہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی عالمی سازش کا ایک حصہ ہے، واقعہ یہ ہے کہ اسلام دین ِرحمت ہے، اس کا دامنِ محبت ورحمت ساری انسانیت کو محیط ہے، اسلام نے اپنے پیرو کاروں کوسخت تاکید کی ہے کہ وہ دیگر اقوام اور اہل مذاہب کے ساتھ مساوات، ہمدردی، غم خواری ورواداری کا معاملہ کریں، اور اسلامی نظامِ حکومت میں ان کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی، بھید بھاو،امتیاز کا برتاو نہ کیا جائے، ان کی جان ومال، عزت وآبرو، اموال و جائداد اور انسانی حقوق کی حفاظت کی جائے۔ ارشاد قرآنی ہے:
لاینہکم اللہ عنِ الذِین لم یقاتِلوکم فِی الدِینِ ولم یخرِجوکم مِن دِیارِکم ان تبروہم وتقسِطوا اِلیہِم اِن اللہ یحِب المقسِطِین (الممتحنہ:
اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں دین کے سلسلہ میں اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک، بے شک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو۔
اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحم اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ : مکہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو آپ مسلمان نہ ہوئے اور مسلمان ہونے والوں سے ضد اور پرخاش بھی نہیں رکھی نہ دین کے معاملہ میں ان سے لڑے، نہ ان کو ستانے اورنکالنے میں ظالموں کے مددگار بنے، اس قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ بھلائی اور خوش خلقی سے پیش آنے کو اسلام نہیں روکتا، جب وہ تمہارے ساتھ نرمی اور رواداری سے پیش آتے ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور دنیا کو دکھلادو کہ اسلامی اخلاق کا معیار کس قدر بلند ہے،اسلام کی تعلیم یہ نہیں کہ اگر غیر مسلموں کی ایک قوم مسلمانوں سے برسرپیکار ہے تو تمام غیرمسلموں کو بلاتمیز ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کردیں ایسا کرنا حکمت وانصاف کے خلاف ہوگا۔)حاشیہ: ترجمہ شیخ الہند(
دیگر مذاہب والوں کے ساتھ تعاون اور عدم تعاون کا اسلامی اصول یہی ہے کہ ان کے ساتھ مشترک سماجی وملکی مسائل ومعاملات میں، جن میں شرعی نقطہ نظر سے اشتراک وتعاون کرنے میں کوئی ممانعت نہ ہو ان میں ساتھ دینا چاہیے۔
دیگر مذاہب یا اقوام کے کچھ لوگ اگر مسلمانوں سے سخت عداوت اور دشمنی بھی رکھتے ہوں تب بھی اسلام نے ان کے ساتھ رواداری کی تعلیم دی ہے:ارشاد ربانی ہے:
اِدفع بِالتِی ہِی احسن فاِذا الذِی بینک وبینہ عداو کانہ ولِی حمِیم)سورہ فصلت:(
بدی کا بدلہ نیکی سے دو پھر جس شخص کے ساتھ تمہاری عداوت ہے وہ تمہارا گرمجوش حامی بن جائیگا۔
ہندوستان کی موجودہ سماجی و معاشرتی فضا ایسی بنائی جارہی ہے جس میں مذہبی منافرت کو پروان چڑھایا جارہا ہے ،ایک دوسرے کے مذہبی و آئینی حقوق پر ڈاکہ زنی ہورہی ہے ،حکومت و اقتدار کے زور پر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے اور سراسر آئینی حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔
اسلام کی فطری تعلیمات ایسے حالات میں یہی ہیں کہ تمہارے مذہب اور تمہارے مذہبی شعائر سے پرخاش و عداوت رکھنے والے جو لوگ ہیں ان کی غلظ فہمیاں دور کی جائیں ، اسلامی تعلیمات سے ان کو روشناس کیا جائے ،ان کو کھول کر بتایا جائے کہ اسلام رحمت و رافت کا پیغامبر ہے ،اس کی تعلیمات میں پوری انسانیت کے لئے امن و عافیت ہے،اسلام کسی خاص گروہ اور جماعت کے لئے رہبری و رہنمائی نہیں کرتا ہے بلکہ اس کے دامن عافیت میں پوری انسانیت کو سکون ملے گا۔
آج جو یہ حالات پیدا ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں اس میں بہت بڑا دخل اس بات کا ہے کہ اسلام کی صحیح اور سچی تعبیر و تشریح دیگر برادران وطن کے سامنے ہم مسلمان نہیں کرپارہے ہیں اور اس کی کوشش بھی نہیں ہورہی ہے ،اگر اس جانب اقدام کیا جائے ،اور اس وقت اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے عنوان سے اس کو فریضہ کے طور پر اپنایا جائے تو یقین ہے کہ برادران وطن کی بہت ساری غلط فہمیاں دور ہونگی اور ان کی عداوت و دشمنی میں کمی ہوگی۔
ہمارے مذہبی شعار میں ایک بڑی اہم چیز پنج وقتہ نمازوں کے لئے اذان ہے ،پورے ملک کے تقریبا سبھی خطوں میں(جہاں دو چار گھر بھی مسلمان ہیں) اذان دی جاتی ہے ،غیر مسلم حضرات اس سے وحشت محسوس کرتے ہیں ،جہالت اور ہماری غفلت کی وجہ سے اکثریت کے ذہن میں یہ بات ہے کہ مسلمان اذان کے ذریعہ مغل بادشاہ اکبر کو یاد کرتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو اذان کی معنویت اور اور اس کا پیغام امن و عافیت ان کی زبان میں سمجھانے کی کوشش کی جائے ،ان کو بتایا جائے کہ اگر چہ یہ اسلامی شعار ہے لیکن اگر اس کے معنی و مفہوم کو دیکھا جائے تو یہ سراسر ہم سب کے پیدا کرنے والے اور سب کو پالنے والے پروردگار کی بڑائی اور اس کی کبریائی کا اعلان ہے، جس ذات نے ہم سب کو پیدا کیا پھر زندگی گذارنے کے لئے تمام چیزیں مہیا کیں ہیں ،عقل اور سمجھداری کی بات تو یہی ہے کہ پوجا اورعبادت و بندگی صرف اسی کی ہونی چاہئے ، اس اذان میں اسی بات کا اقرار ہے،انسانوں کی ہدایت اور دنیا وآخرت میں سکون اور چین کی زندگی ملے اس سلسلہ کی تعلیمات اور احکامات لے کراللہ کی طرف سے جس مقدس ہستی کو دنیا میں بھیجا گیا تھا اس کی رسالت و نبوت کی شہادت و گواہی اس اذان میں ہے ،دنیا و آخرت کی بھلائی اور کامیابی اسی پالنہار اور معبود حقیقی کے بتائے ہوئے طریقہ عبادت میں ہے ،اذان میں اسی طریقہ عبادت کی طرف بلایا جاتا ہے اور دنیا کو روزانہ پانچ وقت یہی سب یاد دلایا جاتا ہے۔
پالنہار حقیقی کو سب سے بڑا ماننا ،اسی کو معبود حقیقی ماننا،انسانوں کی بھلائی کے لئے اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر اور رسول و اوتار کی رسالت و نبوت کی گواہی دینا،دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی والے طریقہ عبادت کی طرف لوگوں کو بلانایہی تو اذان کا خلاصہ ہے ،اگر صحیح انداز سے اس کی تشریح کی جائے ،اس کے معنی و مفہوم کو بتایا جائے تو یقینا جو لوگ اس سے وحشت محسوس کرتے ہیں وہ بھی ان کلمات کے گرویدہ ہونگے ،باہمی منافرت ختم ہوگی۔
اذان کی برکات اور اس کے دنیاوی منافع واثرات جو احادیث وآثار صحابہ سے ظاہر ہیں ان کو عام کیا جائے ،ان کو بتایا جائے کہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اذان کے کلمات سے انسانوں کا سب سے بڑا دشمن شیطان بھاگ جاتا ہے، اسی طرح یہ بھی بتایا جائے کہ جب اذان ہوتی ہیتو آسیب ،جنات و شیاطین پریشان ہوکر دور چلے جاتے ہیں،پورا علاقہ جہاں تک اذان کی آواز جاتی ہے شیطانی اثرات سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔
لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم مسلمان پہلے خود اس اذان کے معنی و مفہوم اور اس کے تقاضہ سے واقف ہوں،ہم خود پہلے یہ جان لیں کہ اذان کی برکتیں کیا ہیں؟ اس کے دنیوی منافع کیا ہیں؟اذان کے اثرات کیا ہیں؟افسوس کا مقام ہے کہ ہم امت دعوت ہوکر اذان تک کے معنی و مفہوم سے واقف نہیں ہیں تو دیگر شعائر اسلام کے بارے میں ہمارا حال کیا ہوگا؟
ہندوستان کے موجودہ حالات میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ باہمی مفاہمت کا ماحول پیدا کیا جائے ،غیر مسلم حضرات کو اپنے سے قریب کیا جائے ،اسلامی تعلیمات کی ان کی زبان میں وضاحت کی جائے تاکہ اسلام کی فطری اور امن عالم کی ضامن تعلیمات کو یہ حضرات جانیں اوران کی وحشت ، ان کی نفرت ختم ہو، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم خود اپنے مذہب اور اس کی تعلیمات کا علم رکھیں گے ،ان کو سیکھنے اور برتنے کی کوشش کریں گے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے