ابناء ریاض العلوم کا گولڈن جبلی پر لا جواب تحفہ

*عبدالعلیم قاسمی*

نام : مدرسہ ریاض العلوم گرینی جونپور کے مثالی پچاش سال

مرتبین : عبیداللہ شمیم اعظمی، محمد اظہار الحق بستوی، طہ جون پوری

صفحات :792

ناشر: ابنائے ریاض العلوم گرینی جونپور( 9118480705)

مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گرینی کا شمار سرزمین جونپور ؛ بلکہ ہندوستان کے اہم اور نمایاں مدارس میں ہوتا ہے۔ مدرسہ نے قلیل مدت میں جو ترقی کی ہے، فی زماننا اس کی نظیر مشکل ہے، تعلیم و تربیت سے لیکر انتظامی امور تک میں جو حسن اور نستعلیقیت ہے وہ قابل تحسین و لائق تقلید ہیں، مزید برآں اصول و ضوابط کی سختی سے پابندی، اس کو دیگر مدارس سے نمایاں و ممتاز کرتی ہے۔ اس ننھے سے پودے کو آج سے پچاس سال قبل مرشد الامت حضرت مولانا عبدالحلیم امبیڈکر نگری، جونپوری (و: 1909ء، م : 1999) نے 17/صفر المظفر 1493ھ مطابق 23/مارچ 1973ء کو لگایا تھا، آج یہ پھل دار درخت بن چکا ہے، جس کے ثمرات سے پورا ہندوستان سیراب ہورہا ہے۔

عموما دیکھا جاتا ہے کہ اداروں کے پچاس/ سو سال پر جشن منایا جاتا ہے، تقریبات منعقد کی جاتی ہے، ایک یا چند راتوں میں اس کی کامیابی و کامرانی اور اس کی تاریخ کو بیان کردیا جاتا ہے،لیکن زیر نظر کتاب” مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گرینی جونپور کے مثالی پچاش سال” مدرسہ کے پچاس سال (golden jubilee) مکمل ہونے پر ابنائے مدرسہ کی جانب سے ایک بہترین اور لازوال خراج عقیدت اور عمدہ علمی تحفہ ہے۔

*ایک سرسری تعارف*

زیر مطالعہ عظیم کاوش 792/صفحات اور 10/ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب بانی مدرسہ مولانا عبدالحلیم صاحب کی حیات و خدمات پر مشتمل ہے، اس باب میں آٹھ مضامین ہیں، جس میں بانی مدرسہ کی زندگی، خدمات، آپ کا طریقہ تدریس، انداز تربیت، اساتذہ کے انتخاب کا طریقہ کار اور ملک کے تین مرکزی اداروں کی رکنیت شوری اور اس میں شرکت کی تفصیلات ذکر کی گئی ہیں۔

دوسرا باب "ریاض العلوم کی تاریخ مزاج اور منہاج ” پانچ مضامین پر مشتمل ہے، جس میں مدرسہ کے ابتدائی حالات، مدرسہ کے قیام کے پس منظر، تاریخ، مدرسہ کا مسلک و مشرب اور مدرسہ کی زیارت کرنے والے علماء و دانشوران کے تاثرات نقل کئے گئے ہیں۔

تیسرا باب "شعبہ جات : تعارف، امتیازات اور طریقہ ہائے کار ” بیس مضامین پر مشتمل ہے، جس میں ریاض العلوم کے جملہ شعبہ جات کا تعارف، تاریخ، خصوصیات و امتیازات، مدرسہ کا قواعد داخلہ، تدریس تفسیر و حدیث کا منہج، شاخ ہائے مدرسہ کا تعارف و اعداد و شمار، ریاض العلوم کے ترجمان "ریاض الجنہ”کی تاریخ و خصوصیات، کتب خانہ کا تفصیلی تذکرہ بطور خاص مخطوطات کا تعارف، انجمن تہذیب اللسان کی تاریخ،ابتداء،ارتقاء اور مسابقہ جاتی سرگرمیاں،جداری پرچوں کا تعارف اور اس کے اثرات اور غیر علمی شعبہ جات کے تعارف پر بطور خاص روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب کا انتہائی اہم باب ہے۔

چوتھا باب "شعبہ افتاء اور فتاوی ریاض العلوم” چار مضامین پر مشتمل ہے، پہلا مضمون تدریس افتاء کے منہج کے سلسلے میں ہے، دوسرے میں مفتیان مدرسہ کے فتوی کے منہج اور خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرا مضمون فتاوی ریاض العلوم کے تعارف اور اس کے امتیازات پر مشتمل ہے، آخری مضمون میں فتاوی ریاض العلوم کے متعلق اہل علم کی آراء و تاثرات کو نقل کیا گیا ہے۔

تیسرا باب بنام "کاروان با صفا” پندرہ مضامین پر مشتمل ہے، اس میں فی الحال مختلف شعبہ ہائے جات میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ و کارکنان کا تذکرہ ہے، ایک مضمون بعض ان مشاہیر اساتذہ کے متعلق بھی ہے جنہوں نے کبھی ریاض العلوم میں تدریسی خدمات انجام دی تھی، اس باب میں 26/ شخصیات کا تذکرہ ہے، موجودہ ناظم مولانا عبدالرحیم صاحب پر تین طویل مضامین،مولانا سعادت علی قاسمی پر دو مضمون، مفتی عبداللہ مظاہری، قاری محمد اسماعیل، قاری شمیم احمد اور مولانا جمیل احمد پر بالترتیب مستقل ایک ایک مضامین ہیں باقی لوگوں کا تذکرہ ضمنی ہے۔

چھٹا باب "پس مرگ زندہ” کے نام سے ہے، اس باب میں 15/ زندہ جاوید شخصیات کا تذکرہ ہے، دو شخصیات کو چھوڑ کر سب پر ایک ایک مستقل مضمون ہے۔

ساتواں باب بنام "برگ و بار ” تین مضامین پر مشتمل ہے، پہلا مضمون "چند ممتاز فضلائے مدرسہ ” ہے جس میں 16/ ممتاز فضلاء کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ دوسرا مضمون ریاض العلوم کے خوشہ چینوں کی تصنیفی و تالیفی خدمات کے متعلق ہے،اس باب میں 15/ مصنفین کے تصینفی و تالیفی کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرا مضمون "ابنائے ریاض العلوم مختلف مدارس و میدانوں میں ” ہے، جس میں مختلف اداروں میں خدمات انجام دینے والے فضلاء کا تذکرہ، مختلف علوم و فنون میں ماہر افراد اور دنیا کے مختلف شعبوں میں فضلاء کی نمائندگی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

آٹھواں باب "مادر علمی کی یاد” ہے جس میں چشمہ حلیمی سے سیراب ہونے والے چار مضمون نگاروں نے اپنی طالب علمی کی روشن یادوں کو پیش کیا ہے۔

نواں باب منظومات کا ہے، جس میں سات منظوم کلام نقل کیا گیا ہے۔

اخری باب "اساتذہ و فضلاء ریاض العلوم” ہے،اس باب میں سابق موجودہ اساتذہ،کارکنان مدرسہ، اراکین مجلس شوری اور دورہ حدیث و شعبہ افتاء کے فضلاء کی فہرست سال بہ سال کے اعتبار سے پیش کی گئی ہے۔چناں چہ 970/ فضلاء دورہ حدیث اور 366/فضلاء افتاء کا نام فہرست میں موجود ہے۔

کتاب کے شروع میں مولانا عبدالرحیم صاحب کے "کلمات دعائیہ”، مولانا جمال ندوی کا "پیغام تہنیت، مفتی رضوان اللہ صاحب کا ” کلمہ تبریک” ہے، اس کے بعد ” عرض مرتبین” ہے، جس میں اس شمارے کا پس منظر، کام کا نہج، کتاب کی خصوصیات وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ فاضل مرتبین اس خصوص شمارہ کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں :

ہمارا یہ خصوصی شمارہ "مدرسہ ریاض العلوم گورینی کے مثالی پچاس سال” بھی اصطلاحاً مدرسے کی باقاعدہ تاریخ نہیں ہے؛ مگر اس میں ریاض العلوم کی تاریخ کے جملہ نقوش ثبت کر نے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے ۔ اس شمارے میں ستر سے زائد عناوین پر ماہر و جدید قلم کاروں نے مادر علمی کے تئیں اپنے جذبات دروں کو پر کیف انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔موضوعات اور تحریروں کا تنوع ان شاء اللہ قاری کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا ۔ کوشش کی گئی ہے کہ مادر علمی کے جملہ گوشوں کو اس کے فضلاء اور فیض یافتگان کی نگاہ سے پیش کیا جاۓ ۔ گویا یہ مادر علمی کو اس کے فضلاء کی طرف سے پچاس سال کی تکمیل پر بہترین خراج عقیدت اور پچاس سال یادگاری مجلہ ہے ۔”

مولانا جمال ندوی اس عظیم کاوش پر تشکر و امتنان کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"مقام شکر ہے کہ گلشن حلیمی کے نو شگفتہ پھولوں نے اپنے ادارہ سے والہانہ عقیدت و محبت کا اعتراف نامہ تیار کیا ہے، جو مدرسہ عربیہ ریاض العلوم کی دینی ،علمی ، دعوتی ، فکری تاریخ اور زریں خدمات پرمشتمل ہے، یقینا یہ ایک وقیع تاریخی دستاویز ہے، جو ادارہ کی ہمہ جہت خدمات کا عکس جمیل ہے،فہرست پہ طائرانہ نظر ڈالنے سے اندازہ لگتا ہے کہ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی جونپور کی تاسیس کا پس منظر، بانی مدرسہ حضرت مولانا شاہ عبد الحلیم صاحب نور اللہ مرقدہ کی زندگی کے مختلف گوشوں کی تفصیلات اور بافیض اساتذہ کرام کی ایک خوش نما کہکشاں ہے، یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ ماضی کے شیراز ہند کی بازیافت ہورہی ہے، یقیناً فضلاء اورفیض یافتگان مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی نے اپنی مادر علمی سے علمی فکری اور روحانی وابستگی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ قابل قدر ہے، "پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ” کو اپنا شعار بناۓ ہوۓ ہیں اور اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ ” بوۓ گل ،گل سے جدا ہو کے بھٹکتی ہی رہی”۔ فضلا ء و فیض یافتگان مدرسه عربیہ ریاض العلوم گورینی نے اپنے اساتذہ کرام نیز بانی مدرسہ اور ناظم اعلی حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب مدظلہ سے عقیدت و محبت کا نذرانہ پیش کیا ہے، یہ اپنے مادر علمی سے عقیدت و محبت کی ایک عظیم سوغات ہے۔”

*امتیاز و خصوصیات*

زیر نظر کتاب ظاھری و باطنی حسن سے مزین، امتیاز و خصوصیات سے بھری ہوئی ہے، بعض وہ خصوصیات بھی ہیں جو اس عظیم کاوش کو اس طرح کی دیگر کاوشوں سے جدا کرتی ہے۔ راقم نے دوران مطالعہ ایسے چند نکات نوٹ کئے ہیں، جو درج ذیل ہیں۔

1۔ یہ کتاب اگرچہ مدرسہ کی مختصر تاریخ نہیں ہے لیکن کسی مدرسہ کی تاریخ میں جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں، اس کتاب میں مدرسہ کے متعلق ہر ہر گوشے کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

2. اعداد و شمار کا خاص طور سے اہتمام کیا گیا ہے۔ مثلا ریاض العلوم کی شاخوں کے ذکر میں، 36 شاخوں کا نام، ان میں کتنے اساتذہ پڑھاتے ہیں اور کتنے طلبہ پڑھتے ہیں، کے اعداد و شمار لکھے گیے ہیں، اسی طرح شرکائے تجوید و قرات کے اعداد شمار،غرض اسی طرح ہر جگہ اعداد و شمار کا التزام کیا گیا ہے۔

3۔ اساتذہ کی فہرست میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ سابق اساتذہ کب سے کب تک رہے ہیں اور موجودہ اساتذہ کی تقرری کا سن رقم کیا گیا ہے۔ اسی طرح رکن شوری کے متعلق بھی۔

4۔ مدرسہ کے جملہ تعلیمی و انتظامی نظام کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

5۔ تفسیر، حدیث، فقہ، قرآت اور دیگر علوم فنون کے تدریسی انداز پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

6۔ جملہ شعبہ جات کا مکمل تعارف اور خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔

7۔ مضمون نگاروں میں سے اکثر ؛ بلکہ تمام مقالہ نگاران مدرسہ کے فضلاء یا کم از کم خوشہ چیں ہیں بالفاظ دیگر گلشن حلیمی سے براہ راست سیراب ہونے والے تشنگان علوم کی یہ ایک عظیم کاوش اور لاجواب خراج تحسین ہے۔

8۔ کتاب کو درجہ استناد حاصل ہے، کتاب کے حرف حرف سے معلوم ہوتا ہے کہ ذاتی معلومات و مشاہدہ اور دفتری دستاویز کی روشنی میں مرتب کی گئی ہے۔

*چند لائق توجہ نکات*

زیر نظر کتاب تاریخ ریاض العلوم کا اولین نقوش ہے، نقش اول میں بعض کمیوں اور خامیوں کا آنا عام بات ہے، یہاں چند ایسے نکات اس نیت سے پیش کئے جاتے ہیں کہ نقش ثانی میں اس جانب توجہ دی جائے، وہ درج ذیل ہیں۔

1۔ بعض مضامین و مقالات میں طوالت، غیر ضروری طویل تمہیدیں، بیجا تفصیلات کی وجہ سے بعض اوقات ایک قاری تکان اور بوریت کا شکار ہوسکتا ہے۔ کئی شخصیات پر دو دو تین تین مضامین ہیں،میرے خیال سے ایک شخصیت پر ایک ہی مضمون ہونا چاھئے۔ بعض مضامین جو شخصیات پر لکھے گئے ہیں بہت طویل ہیں، خاکہ زیادہ سے زیادہ دس بارہ صفحات پر مشتمل ہونا چاھئے۔

2۔ چوں کہ کتاب مقالات و مضامین کا مجموعہ ہے، اس لیے تکرار ناگزیر ہے؛ لیکن مرتبین کو یہ کوشش کرنی چاھئے تھی کہ تکرار کو ختم کیا جاتا، مدرسہ کی تاریخ اور شعبوں کے تعارف کے سلسلے میں بہت ہی زیادہ تکرار ہے۔ بعض شخصیات کے ذکر میں بھی تکرار ہے۔

3۔ حوالہ جات کی کمی۔ کتاب میں خصوصا شخصیات کے باب میں،مدرسہ کی تاریخ کے سلسلے میں بعض مقامات پر حوالے بالکل ہی نہیں دئے گئے ہیں، جدید دنیا میں حوالہ جات کی اپنی اہمیت و افادیت ہے، حوالہ جات ہی سے کتاب کی استنادی حیثیت متعین کی جاتی ہے۔ اگر کسی کی تحریر یا کسی سے معلومات حاصل کرکے لکھا گیا ہے خواہ جس کے بارے میں لکھا گیا ہو معلومات بھی انہیں سے حاصل کی گئی ہو، تب بھی اس کا حوالہ دینا ضروری ہے۔ یہ چیز کتاب میں بالکل خال ہی خال نظر آتی ہے۔

*صدائے دل*

مجموعی اعتبار سے کتاب عمدہ اور لاجواب ہے، مدرسہ کی تاریخ کا یہ اولین نقوش ہے۔ کتاب کے مرتبین مولانا عبید اللہ شمیم قاسمی، مولانا اظہار الحق بستوی اور مولانا طہ جونپوری اہل علم اور وابستگانِ گلشن حلیمی کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے "پچاس سال ” مکمل ہونے پر اپنی مادر علمی کو بہتر سے بہتر انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے جس کے لیے فاضل مرتبین اور جملہ مقالہ نگاران مبارکبادی کے مستحق ہیں۔

کتاب کی غیر معمولی طوالت کی وجہ سے دل کی یہ صدا ہے کہ اگر باغ حلیمی سے وابستہ کوئی اہل علم و صاحب قلم اس کتاب کی روشنی میں مدرسہ کی تاریخ مرتب کرے یا بالفاظ دیگر اس کتاب کی تلخیص کچھ اس طرح سے تیار کرے کہ کتاب 300/350 صفحات پر مشتمل ہو تاکہ اس سے استفادہ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوجائے۔ امید ہے کہ اہل علم حضرات اس جانب توجہ دیں گے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے