غامدی صاحب کا تصور سنت ذہنی آوارگی اور فضلات کے سوا کے کچھ نہیں

غلام نبی کشافی

آنچار صورہ سرینگر

___________________

پچھلے دنوں میں نے ایک مضمون جاوید احمد غامدی کی تنقید میں ایک مضمون لکھا تھا ، تو ان کے حلقہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے علم اور دلیل کی زبان استعمال کرنے کے بجائے گالم گلوچ اور بد زبانی کا سہارا لیا تھا ، لیکن میں نے اس بد تمیز شخص کا کوئی جواب نہیں دیا ۔

پچھلے چند سالوں میں مجھے سخت قسم کے تجربات ہوئے کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ مولانا وحید الدین خان اور جاوید احمد غامدی کے حلقوں اور جماعت اہلحدیث سے تعلق رکھنے والے اکثر نوجوانوں کی اتنی غلط تربیت ہوئی ہے کہ وہ رد میں گالم گلوچ اور بد تمیزی کی زبان استعمال کر کے اپنی بھڑاس نکالنے کی کوشش کر لیتے ہیں ، اور پھر یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ میں ان کے کمنٹس کو ڈلیٹ کر دیتا ہوں ، تو ظاہر ہے کہ میں کیسے ان کے اوقات اور ظرف پر اتر کر ان کو انہی کی زبان میں جواب دے پاؤں گا ، اس لئے میں ایسے لوگوں سے ہارنا اور شکست کھانا زیادہ پسند کرتا ہوں ۔

میرا آج کا یہ مضمون جاوید احمد غامدی صاحب کے نظریہ سنت کے حوالے سے ہے ، میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس کو غور و فکر کے ساتھ پڑھیں گے اور اگر مناسب سمجھیں تو اپنے دوستوں کے ساتھ شئیر بھی کرسکتے ہیں ۔

________________________

ایک نوجوان نے ایک سوال اس طرح کیا ہے ۔

” جاوید احمد غامدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ منکر حدیث ہیں ، لیکن آپ نے ان کی ویڈیوز میں دیکھا ہوگا کہ وہ جب شریعت اسلامی کے ماخذ کی بات کرتے ہیں ، تو اس وقت وہ ” کتاب و سنت” کے الفاظ دوہراتے ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک آپ کی تحقیق کے مطابق سنت سے کیا مراد ہے ؟ "

جاوید احمد غامدی کی اصل فکر یا ان کا تصور دین ان کی کتاب ” میزان ” میں موجود ہے ، لیکن یہ کتاب انتہائی مغالطہ انگیز اور گمراہ کن ہے ، اور اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ، لیکن بعد کے ایڈیشنوں میں بہت سی باتوں میں رد و بدل بھی کیا گیا ہے ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غامدی صاحب کو بعض اہل علم کی طرف سے جس شدید قسم کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ، تو پھر انہوں نے بعد میں خود ہی کئی باتوں کو حذف بھی کیا ہے ، لیکن اس رد و بدل سے کچھ بھی فرق نہیں پڑا ، کیونکہ اس کتاب سے اسلام کی صحیح ترجمانی نہیں ہوتی ہے ، بلکہ یہ کتاب اسلام کا وہ نیا ایڈیشن پیش کرتی ہے ، جو غامدی صاحب کی ذہنی اختراع کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

لیکن جہاں تک غامدی صاحب کے تصور سنت کا تعلق ہے ، اس سلسلہ میں ان کا موقف سلف و خلف اور جمہور علماء امت سے مختلف ہی نہیں ، بلکہ متضاد بھی ہے ۔ اور وہ اتنا مبہم اور غیر واضح ہے کہ عام تعلیم یافتہ افراد کے لئے اسے سمجھنا بہت ہی مشکل ہے ، کیونکہ اس کتاب میں نماز ، زکوٰۃ ، روزہ اور حج وغیرہ کے حوالے سے ایک ہزار سے زائد احادیث پڑھنے کو ملتے ہیں ، جس کی وجہ سے انہیں اس بات پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ غامدی صاحب کیسے منکر حدیث ہوسکتے ہیں ، جبکہ انہوں نے اپنی اس کتاب میں اتنی ساری احادیث کو نقل بھی کیا ہو ؟

لیکن سنت یا حدیث کے حوالے سے کسی عالم کا موقف جاننے کے لئے اس کے خود کے اصول و مبادی کا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا ہے ، تاکہ پتہ چلے کہ وہ بنیادی طور پر سنت یا حدیث کو کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں ؟

مثال کے طور پر ” مبادی تدبر سنت ” کے تحت غامدی صاحب اپنے پہلے اصول میں سنت کے بارے میں اس طرح وضاحت کرتے ہیں ۔

” سنت سے صرف وہی چیز ہو سکتی ہے ، جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین ہو ، قران اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالی کے نبی اس کا دین پہنچانے ہی کے لئے مبعوث ہوئے تھے ، ان کے علم و عمل کا دائرہ یہی تھا ، اس کے علاوہ اصلاً کسی چیز سے انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی ، اس میں شبہ نہیں کہ اپنی حیثیت نبوی کے ساتھ وہ ابراہیم بن آذر بھی تھے ، موسیٰ بن عمران اور عیسیٰ بن مریم بھی تھے ، اور محمد بن عبداللہ بھی ، لیکن اپنی اس حیثیت میں انہوں نے لوگوں سے کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا ، ان کے تمام مطالبات صرف اس حیثیت سے تھے کہ وہ اللہ کے نبی ہیں اور نبی کی حیثیت سے جو چیز انہیں دی گئی ہے ، وہ دین اور صرف دین ہے جسے لوگوں تک پہنچانا ہی ان کی اصل ذمہ داری ہے "

(میزان : ص 57/ ایڈیشن 2013ء لاہور)

اس مغالطہ انگیز اقتباس سے غامدی صاحب کا سنت کے حوالے سے کوئی واضح تصور سامنے نہیں آتا کہ جس سے ایک قاری دو اور دو چار کی طرح سمجھ لیتا کہ سنت سے حقیقی معنوں میں کیا مراد ہے ؟ لیکن اسی کتاب میں اس سے پہلے ” میزان اور فرقان ” کے عنوان کے تحت غامدی صاحب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوحنیفہ و شافعی ، بخاری و مسلم اور جنید و شبلی وغیرہ جیسے اہل علم میں شامل کرکے سب کو قرآن کی تشریح و تعبیر کے حوالے سے ایک ہی درجہ میں رکھ کر ہوں خامہ فرسائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

” قران سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی ، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے ، اس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا ، دین میں ہر چیز کے رد و قبول کا فیصلہ اس کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہوگا ، ایمان و عقیدہ کی ہر بحث اس سے شروع ہوگی ، اور اسی پر ختم کر دی جائے گی ، ہر وحی ، ہر الہام ، ہر القا ، ہر تحقیق اور ہر رائے کو اس کے تابع قرار دیا جائے گا ، اور اس کے بارے میں یہ حقیقت تسلیم کی جائے گی کہ بو حنیفہ و شافعی ، بخاری و مسلم ، اشعری و ماتریدی اور جنید و شبلی ، سب پر اس کی حکومت قائم ہے اور اس کے خلاف ان میں سے کسی کی کوئی چیز بھی قبول نہیں کی جا سکتی "

( میزان : ص 25)

اس گمراہ کن اقتباس میں علماء امت کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت پر شب خون مارتے ہوئے ان سے تحدید و تخصیص کا اختیار بھی چھننے کی مذموم کوشش کی گئی ہے ، لیکن اگر اس عبارت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر حذف کر دیا جائے ، تو پھر یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی کو بھی قرآنی آیات بینات میں ترمیم و تغیر تو دور کی بات ہے ، وہ تحدید و تقصیص کا بھی اختیار نہیں رکھتے ہیں ، لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عام علماء کے درجہ میں رکھنا انتہائی توہین آمیز جسارت ہے ۔

اسی میزان نامی کتاب میں ایک عنوان ” نماز کی تاریخ ” ہے ، چنانچہ اس کے تحت ابتدائی سطور میں غامدی صاحب رقمطراز ہیں ۔

” نماز کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے ، جتنی خود مذہب کی ہے ، اس کا تصور تمام مذاہب میں رہا ہے ، اور اس کے مراسم اور اوقات کم و بیش متعین رہے ہیں ، ہندوؤں کے بھجن ، پارسیوں کے زمزمے ، عیسائیوں کی دعائیں اور یہودیوں کے مزامیر ، سب اسی کی یادگاریں ہیں ، قران نے بتایا ہے کہ اللہ کے تمام پیغمبروں نے اس کی تعلیم دی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جس دن ابراہیمی کی تجدید کے لئے ہوئی ، اس میں بھی اس کی حیثیت سب سے زیادہ نمایاں ہے "

( میزان : ص 274)

یہ مضحکہ خیز اقتباس تو اپنی جگہ ہے ، لیکن اس مضمون کی آخری سطور میں ہمارے غامدی صاحب کیا تحریر فرماتے ہیں ؟ وہ بھی یہاں پر نقل کیا جاتا ہے ۔

” یہ نماز کی تاریخ ہے ، اس سے واضح ہے کہ قران نے جب لوگوں کو اس کا حکم دیا تو یہ ان کے لئے کوئی اجنبی چیز نہ تھی ، وہ اس کے آداب و شرائط اور اعمال و اذکار سے پوری طرح واقف تھے ، چنانچہ اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قران اس کی تفصیلات بیان کرتا ، دین ابراہیمی کی ایک روایت کی حیثیت سے یہ جس طرح ادا کی جاتی تھی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قران کے حکم پر بعض ترامیم کے ساتھ اسے ہی اپنے ماننے والوں کے لئے جاری فرمایا ، اور نسلاً بعد نسل ، وہ اسی طرح اسے ادا کر رہے ہیں ، چنانچہ اس کا ماخذ اب مسلمانوں کا اجماع اور ان کا عملی تواتر ہے "

(میزان : ص 280)

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی دین اسلام کا ادنیٰ درجے کا طالب علم مشرکین مکہ کے حوالے سے غامدی صاحب کے ان الفاظ

” تو یہ ( نماز) ان کے لئے کوئی اجنبی چیز نہ تھی ، وہ اس کے آداب و شرائط اور اعمال و اذکار سے پوری طرح واقف تھے "

پر یقین کرسکتا ہے ؟ اور قرآن اور احادیث صحیحہ تو دور کی بات ہے ، کیا وہ ضعیف تو کجا موضوع حدیث ہی سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ مشرکین مکہ نماز کے آداب و شرائط اور اعمال و اذکار سے پوری طرح واقف تھے ؟ حالانکہ اس کے برعکس غامدی صاحب کی ان احمقانہ باتوں کی قرآن میں کھلی تردید ثابت ہے ، جیساکہ اللہ تعالی مشرکین مکہ کی نماز کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے ۔

وَمَا كَانَ صَلَاتُـهُـمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَـآءً وَّتَصْدِيَةً ۚ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُـمْ تَكْـفُرُوْنَ ۔

( الانفال: 35)

اور بیت اللہ ( یعنی خانہ کعبہ) کے پاس ان کی ( نام نہاد) نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہیں تھی ، سو تم عذاب (کا مزہ) چکھو اس وجہ سے کہ تم انکار کرتے تھے ۔

مولانا امین احسن اصلاحی اور غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق سورہ ماعون کا زمانہ نزول مکی ہے ، چنانچہ اس سورت کی ان دو آیات میں انہی مشرکین کے حقیقی نماز کے آداب و شرائط سے بے خبر پر وعید کے بارے میں یہ ارشاد آیا ہے ۔

فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ ۔ اَلَّـذِيْنَ هُـمْ عَنْ صَلَاتِـهِـمْ سَاهُوْنَ .

( الماعون : 4- 5)

پس ان ( مکی مشرکین ) نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے ، جو اپنی نماز ( کے آداب و شرائط اور اعمال و اذکار ) سے غافل ہیں ۔

ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین مکہ نماز کے آداب و شرائط اور اس کے خشوع و خضوع وغیرہ تمام چیزوں سے مطلق بے خبر تھے ، اس لئے اللہ تعالی نے خانہ کعبہ کا تقدس پامال کرنے اور اس کے سامنے سیٹیاں اور تالیاں بجانے والی نام نہاد نماز پر ہلاکت و تباہی کی وعید فرمائی ہے ۔

واضح رہے قرآن میں کئی مقامات ایسے بھی ہیں ، جن کو یا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح و تبیین کے بغیر سمجھنا ممکن ہی نہیں ہوتا ہے اور یا پھر ان سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حلال و حرام کا اختیار بھی ثابت ہوتا ہے ، مثال کے طور پر قرآن میں سورہ نساء آیت 23 میں جن خواتین کے ساتھ نکاح کرنا حرام قرار دے دیا گیا ہے ، ان میں ایک یہ حکم بھی آیا ہے ۔

وَاَنْ تَجْـمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ۔

( النساء : 23)

اور یہ (بھی حرام ہے )کہ تم پر دو بہنوں کو (ایک نکاح میں ) اکٹھا کرو ، مگر جو پہلے ہو چکا سو ہوچکا ، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔

اس قرآنی حکم کے مطابق دو بہنوں کو جمع کرکے ان کے ساتھ نکاح کرنا حرام قرار دے دیا گیا ہے ، لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم میں مزید یہ اضافہ بھی فرمایا ہے کہ کسی عورت سے نکاح کے معاملہ میں بیک وقت اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کے ساتھ بھی دوسرا نکاح کرنا جائز نہیں ہے ، چنانچہ اس ممانعت کا حکم اس حدیث میں آیا ہے ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا يُجْمَعُ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا، وَلَا بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَخَالَتِهَا .

(صحيح البخارى : كِتَابُ النِّكَاحِ : بَابٌ لَا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا : رقم الحديث 5109)

سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی عورت کو اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں جمع نہ کیا جائے ۔

اس حدیث سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت حاصل ہوتی ہے ، لیکن جاوید احمد غامدی اس قرآنی حکم میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

” زن و شو کے تعلق میں بہن کے ساتھ بہن کو جمع کرنا اگر اس سے فحش بنا دیتا ہے تو پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی کو جمع کرنا بھی گویا ماں کے ساتھ بیٹی کو بیٹی ہی کو جمع کرنا ہے، لہذا قران کا مدہ لا ریب یہی ہے کہ ، ان تجمعوا بين الاختين و بين المرأة و عمتها و بين المرأة و خالتها ، وہ یہی کہنا چاہتا ہے ، لیکن ، بین الاختین ، کے بعد یہ الفاظ اس لئے نہیں لاتا کہ مذکور کی دلالت اپنے عقلی اقتضا کے ساتھ اس مفہوم پر ایسی واضح ہے کہ قرآن کے اسلوب سے واقف اس کا کوئی طالب علم اس کے سمجھنے میں ہرگز غلطی نہیں کرسکتا "

( میزان : ص 38)

یہ تو کھلا مذاق ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت کو ختم کرنے کے لئے یہ کہنا کہ ” قرآن کے اسلوب سے واقف اس کا کوئی طالب علم اس کے سمجھنے میں ہرگز غلطی نہیں کرسکتا ” ذہنی اختراع اور ارشادات نبوی کو بے اعتبار اور بے وقعت بنانے کی ایک ناکام اور مذموم کوشش ہے ؟

سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی صحابہ کرام کے زمانے کی کوئی مثال ملتی ہے کہ انہوں نے قرآن کے علاوہ قرآن کے اسلوب سے حلال و حرام کے احکام خود اخذ کئے ہوں ، اور امت مسلمہ میں ان کو وہی مقام و مرتبہ حاصل ہوا ، جو قرآن کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دئے گئے احکام کو قبول عام حاصل ہے ، اور ان پر اسی طرح عمل کرنا لازم ٹھہرا دیا گیا ہو ، جس طرح کسی قرآنی حکم پر یا حدیث و سنت سے ثابت شدہ حکم پر عمل کرنا لازم قرار دے گیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس کی مثال دور دور تک بھی نظر نہیں آتی ہے ۔

غامدی صاحب جیسے تجدد پسندانہ خیالات رکھنے والے نام نہاد مفکرین کے حوالے سے ہی علامہ اقبال نے اس طرح اشعار کہے تھے ؛

احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر

تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پازند

قرآن کو بازیچہ تاویل بنا کر

چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد

حقیقت یہ ہے غامدی صاحب کے افکار و نظریات میں حدیث اور سنت دونوں کے بارے میں متضاد اور گمراہ کن تصورات پائے جاتے ہیں ، جن کی دور صحابہ یا سلف و خلف کے زمانے میں کوئی مثال نہیں ملتی ، لیکن بعد کے ادوار میں کچھ گمراہ فرقے ، جیسے فرقہ معترلیہ ، فرقہ قدریہ اور فرقہ جبریہ وغیرہ ، ضرور پیدا ہوئے ، بالکل اسی طرح موجودہ کے منکرین حدیث و سنت کا جو ٹولہ انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں پیدا ہوا ، جس کے سرغنوں میں سرسید احمد خان عبد اللہ چھکڑالوی ، غلام احمد پرویز ، اسلام جیراج پوری وغیرہ ، جیسے لوگ تھے ، اور پھر اس شر انگیز ٹولے میں اضافہ ہوتا چلا گیا ، یہاں تک کہ موجودہ دور میں اس فرقہ ضالہ کی باگ ڈور عنایت اللہ سبحانی ، الطاف اعظمی ، راشد شاز اور جاوید احمد غامدی جیسے آزاد منش اور آزاد طبیعت دانشوروں نے سنبھال رکھی ہے ۔

اگرچہ جاوید احمد غامدی اور راشد شاز کے لٹریچر کو مقبول حاصل نہیں ہوسکا ، کیونکہ ان کے اسلوب تحریر میں کوئی کشش نہیں ہے ، مگر ان لوگوں نے اپنی تقاریر کا سہارا لیکر سوشل میڈیا یا یوٹیوب چینلز کا سہارا لیکر آج کل وہ نئی نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔

لیکن افسوس اور دکھ اس بات کا ہےکہ عنایت اللہ سبحانی کے انکار حدیث پر مبنی لٹریچر کو جماعت اسلامی کے مکتبوں پر بیچنے کی سہولت حاصل ہے ، اور یہ وہی جماعت ہے ، جس کے بانی مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے ” سنت کی آئینی حیثیت ” جیسی شہکار کتاب لکھ کر اپنے زمانے کے منکرین حدیث کو خاموش کر دیا تھا ۔ لیکن اب لگتا ہے کہ شاید ان کی یہ جماعت اپنے منشور و دستور سے ہٹ چکی ہے اور یا پھر ایک طرح سے یہ جماعت اپنی میعاد پوری کرکے ایکسپئر (Expire) ہوچکی ہے ۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے