محرم الحرام فضائل ومنکرات اور رسوم و بدعات

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی النبی الکریم اما بعد:

اللہ تبارک و تعالی اپنی بسائی ہوئی دنیا سے بڑی محبت فرماتے ہیں،جس کی کثیر تعداد میں میں آیاتِ قرآنیہ اور احادیث نبویہ تائید و توثیق کرتی ہیں۔چنانچہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن کریم کی کی پہلی آیت الحمدللہ رب العالمین۔ترجمہ:تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے مختص ہیں جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے۔ میں اپنی ربوبیت کا اعلان اس عمومیت و شمولیت کے ساتھ فرمایا ہے کہ اس میں ناصرف یہ کہ اس میں عامۃ الناس داخل ہیں؛ بلکہ زمین و آسمان میں بسنے والی تمام مخلوقات شامل ہیں، اب چاہے وہ انسان ہو یا پھر جنات ملائکہ ہو یا پھر غیرِ ملائکہ،جاندار ہوں یا پھر غیر جاندار؛ الغرض شریعتِ مطہرہ سے تعلق رکھنے والی کوئی ایک عبارت یا پھر کوئی ایک ایسا حکم نہیں ملے گا جو دنیا و مافیہا سے شئی واحد تک کو اس کی ربوبیت سے مستثنیٰ قرار دیتا ہو۔ نیز اسی ربوبیت اور شفقت و محبت سے تعبیر کئی ایک ایسے واقعات احادیث میں مل جائینگے جن کی بنا پر حضورِ باری سے جنت و جہنم کے فیصلے صادر ہوئے ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی ایک عورت صرف اس بنا پر جہنم میں ڈال دی گئی کہ اس نے ایک بلی کو باندھ کر بھوکا مار دیا تھا۔ (بخاری و مسلم) اور ایک شخص کو اللہ نے اس بناء پر بخش دیا کہ اس نے اسکی ایک مخلوق پر ترس کھا کر کتے کو پانی پلا دیا ۔(بخاری و مسلم)اور اگر اکرام و احترام،اہمیت و فضیلت کو لیکر بنی آدم کے حوالے سے بات کی جائے تو باری تعالی نے بنی آدم کو کرامت و شرافت میں اپنی جمیع مخلوقات پر فوقیت و برتری سے نوازا ہے۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے :ترجمہ: ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی ہے، ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سواری دی ہے، اور ہم نے ان کو پاکیزہ اور نفیس رزق عطاء فرمایا ہے، اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت و فضیلت سے نوازا ہے۔ چنانچہ فرمانِ باری ہے:ولقد کرمنا بنی آدم وحملناھم فی البر و البحر ورزقنٰھم من الطیبات وفضلنٰھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلاً. (بنی اسرائیل:الآیۃ:٧٠) ترجمہ: ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی ہے، ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سواری دی ہے، اور ہم نے ان کو پاکیزہ اور نفیس رزق عطاء فرمایا ہے، اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت و فضیلت سے نوازا ہے۔اور پھر اولادِ آدم میں بھی امتِ محمدیہ علیٰ صابہا الصلوٰۃ والسلام کو منجانب اللہ خاص قربت ومحبت،لگاؤ و اپناپن اور مقام و مرتبہ بحاصل رہا ہے، گو کہ امتِ محمدیہ سے پہلے بھی کئی ایک سی اقوام و ملل گزری ہیں جو کہ اللہ کی طرف سے امتیازات کی بنا پر ماسبق سے ممتاز اور منفرد رہی ہیں؛ لیکن امتِ محمدیہ کو جو جامعیت و مرکزیت،حرمت و شفقت،امتیاز و اعزاز اور فضیلت و فوقیت میں جو مقام و مرتبہ ملا ہے اس کی نظیر ادوارِ ماضیہ میں گزاری امتوں کے میں ملنا بعید ہے، چنانچہ اللہ تعالی امت محمدیہ سے خاص لگاؤ او اور دیگر امتوں پر اس کی برتری کا اعلان کرتے ہوئے گویا ہیں: کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر (آل عمران:١١٠) ترجمہ:تم وہ بہترین امت ہو جو پوری انسانیت کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو(آسان تفسیر) نیزہ حدیثِ نبوی ہے انکم تتمون سبعین امۃً انتم خیرہا وکرمھا علی اللہ.(الجامع للترمذی: رقم الحدیث:٣٠٠١) ترجمہ:بے شک تم ستر امتوں کو مکمل کرو گے ،اور تم عند اللہ ان سب میں بہترین اور مکرم و معزز ہو۔ اسی خاص مناسبت اور اپنا پن کی بناء پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا اور آخرت ہر دو جگہ میں میں اس امت مرحومہ کی دلداری و دلجوئی کا سامان فراہم کیا ہے کہ کہیں امتِ محمدیہ دیگر امتوں کی دراز عمر اور کثرتِ عبادت کو دیکھ کر احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوجائے، چنانچہ اللہ تعالی نے اس امت کو اسکے کوتاہ عمری کےنقصان کی بھرپائی اور اس کے روحانی ارتقاء کی خاطر خیرات وحسنات کے ایسے ایسے میقات و مواقع سے نوازا ہے جن میں انعامات و احساناتِ خداوندی کا حساب و شمار نہیں ہے ۔اور ایسا نہیں ہے کہ یہ خدائی عطیات و نوازشات کوئی متعین محدود ہوتے ہیں؛ بلکہ ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں میں برقرار رہتے ہیں۔

یہ دیکھئے!! ماہِ شعبان آیا اور رحمت و مغفرت کی سوغات امت کے حوالے کر کے اپنے اختتام و انجام کو پہنچا، جیسے ہی شعبان ختم ہوا رمضان المبارک نے اپنے رب کے حضور سے رحمت و مغفرت کے حسین لمحات لیکر دستک دی اور نیکیوں سے معمور یہ موسم بہار امتِ مرحومہ کے سروں پر پورے مہینے فلاح اور نجات کے ہمہ رنگ پھول بکھیرتا رہا، اور بالآخر ہلالِ عید کے ساتھ سال بھر کے لئے الوداع کہہ گیا،اور ابھی اللہ تعالی سے امت کا رستہ تھوڑا سا کمزوری کا شکار اور تعلق مع اللہ مضمحل ہوا تھا کہ ماہِ ذی الحج کی آمد ہوگئی اور فریضہ حج کی تیاریاں شروع ہوئی اور آناً فاً یہ ماہ مبارک بھی ایثار و قربانی کا درس دیتے ہوئے ہم سے جدا ہو گیا ،اور سال اپنے اختتام کو پہنچا ،اب نئے سال کے ساتھ ماہِ محرم نے دستک دی جذبات میں ایک نیا جوش و خروش پیدا ہوا ،عمرِ مستعار کے بیتے ہوئے لمحات کا احتساب اور آئندہ ایام کے حوالے سے منصوبہ بندی کا خیال آنے لگا؛ لیکن وقت کو قرار کہاں دیکھتے ہی دیکھتے یہ بھی گزر جائے گا اور خوش قسمت بندگانِ خدا حسب توفیق خداوندی اعمالِ صالحہ سے اپنی آخرت کو سنوار لیں گے،اور بد قسمت لوگ اپنی بد بختی میں پڑکر اپنی عاقبت برباد کر لیں گے، زیرِ قلم تحریر سے مقصود اسی ماہ ”محرم الحرام“ کے فضائل و اعمال کا بیان اور دینِ اسلام کی شبیہ کو مسخ کر دینے والی بدعات و خرافات سے آگاہ کرنا ہے، تاکہ میانہ روی کے ساتھ امورِ مأموربہا کو انجام دیا جا سکے اور امورِ منہیہ سے بچا جا سکے۔

محرم الحرام اسلامی سال کا ابتدائی اور پہلا مہینہ ہے، اسی سے اسلامی سال کی ابتداء ہوتی ہے؛بلکہ یوں کہیے کہ امتِ مرحومہ پر برسنے والے انعامات و احسانات، خیرات و حسنات اور موفق بندوں کے لئے اجر ثواب کی ابتدا ہے۔شریعتِ مطہرہ کی نگاہ میں اس مہینے کی بڑی قدر و منزلت اور فضیلت و اہمیت ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سال کا آغاز حرمت والے مہینے« محرم الحرام »سے کیا اور اس کا اختتام بھی حرمت والے مہینے «ذی الحجہ» سے کیا لہٰذا رمضان کے بعد پورے سال میں محرم الحرام سے بڑھ کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں زیادہ عظمت والا کوئی دوسرا مہینہ نہیں ہے۔(لطائف المعارف:ص٧٩)شریعت میں محرم الحرام کے پورے مہینے کو ایک مخصوص مقام و مرتبہ اور عظمت حاصل ہے جس کی تفصیل ان شاء اللہ تعالی آئندہ سطور میں قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ کی روشنی میں پیشِ خدمت ہے۔

٭ *محرم کی حرمت کا قرآن بھی شاہد ہے*

چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالی اس مہینے کے احترام و اکرام کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھراً فی کتٰب اللہ یوم خلق السمٰوات والارض منھا اربعۃ حرم الآیۃ.(البقرۃ:٣٦)ترجمہ: بے شک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ ہے، جو اللہ کے فیصلے کے مطابق اسی دن سے ہے جس دن کے اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا،ان میں سے چار مہینے خاص أدب و احترام کے ہیں۔حضور علیہ السلام نے اس آیت کے تفسیری نکات بیان کرتے ہوئے فرمایا:کہ وہ مکرم و محترم چار مہینے یہ ہیں:ذو القعدہ،ذوالحجہ،”محرم“ اور رجب۔(البخاری:رقم الحدیث:٤٦٦٢)

٭ *محرم الحرام اللہ کا مہینہ ہے*

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: افضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم.(الصحیح للمسلم:رقم الحدیث:١١٦٣) ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ رمضان کے روزوں کے بعد سب سے بہتر اور افضل ترین روزے ”اللہ کے مہینہ محرم“ کے روزے ہیں۔ یوں تو تمام ماہ و سال اللہ تعالی کی مخلوق ہیں اور اسی کے حکم کے تابع ہیں ؛لیکن اس ماہِ مبارک کے احترام واکرام اور فضیلت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے مقصد سے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے،اس لئے کہ اللہ تعالی کی طرف اسکی خاص خاص مخلوقات کی ہی نسبت کی جاتی ہے،جیساکہ بیت اللہ ،ناقۃ اللہ وغیرہ ہیں ۔

٭ *محرم رمضان کے بعد روزوں کے لئے افضل ترین وقت*

محرم الحرام شام جو کہ اشھرِ حرم میں سے ہے اور ان مہینوں میں اعمالِ صالحہ (عبادات)کا حکم اور اعمالِ سیئہ ( گناہوں )سے بچنے کی تاکید وارد ہوئی ہے؛ اس میں میں بھی خاص طور پر ممکنہ حد تک بندوں کو گناہوں سے بچ کر اعمال صالحہ کے انجام دہی کی کوشش کرنی چاہیے، اور چونکہ روزہ بھی ایک عبادت ہے اس لئے محرم میں روزہ کا بھی خاص اہتمام کرنا چاہئے، اگرچہ دوسرے ایام میں روزہ رکھنے کے بھی فضائل احادیثِ نبویہ میں وارد ہوئے ہیں ، لیکن محرم الحرام کے روزوں کو جو خاص قسم اور نوعیت کی فضیلت حاصل ہے اس نوعیت کی فضیلت رمضان کے بعد محرم کے روزوں کے علاوہ کسی دوسرے اوقات میں روزہ رکھنے کی نہیں ہے۔ چنانچہ حدیثِ نبوی ہے۔عن ابی ھریرۃ قال جاء رجل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال ای الصیام افضل بعد شھر رمضان قال شھر اللہ الذی تدعونہ المحرم.(ابن ماجہ: رقم الحدیث:١٧٤٢)ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے: کہ ایک شخص نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا (یا رسول اللہ) رمضان کے بعد کون سے مہینے کے روزے افضل ہیں؟ فرمایا اللہ تعالیٰ کا وہ مہینہ جس سے تم محرم کہتے ہو۔

*ملحوظہ* حدیث شریف میں جو صیامِ محرم کی فضیلت بیان کی گئی ہے اس سے صرف یومِ عاشورہ کا روزہ مراد نہیں ہے؛ بلکہ اس سے محرم کے عام نفلی روزے مراد ہیں؛لہذا محرم المحرم میں کسی بھی دن روزہ رکھنے سے مذکورہ فضیلت کا حصول ہو جائے گا۔

٭ *محرم کا ایک روزہ تیس روزوں کے برابر ہے* چنانچہ حدیثِ نبوی ہے:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:من صام یوماً من المحرم فلہ بکل یوم ثلاثون یوماً.(الترغیب والترہیب/ج٢/ص٧٠)۔ ترجمہ:

حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ماہِ محرم کے کسی بھی دن میں روزہ رکھے تو اس کو ہر دن کے بدلے میں تیس دن روزہ رکھنے کے برابر ثواب ملے گا۔

٭ *محرم نزولِ رحمت اوررفعِ زحمت کا مہینہ ہے۔*

اس ماہِ مبارک کو ایک انفرادیت و امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں، چنانچہ تاریخ کے محافظین لکھتے ہیں:کہ اللہ تبارک و تعالی نے آسمان و زمین اور حضرت آدم علیہ السلام کو اسی مہینے کی دس تاریخ کو پیدا فرمایا ،اسی ماہ مبارک کی دس تاریخ کو حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اور حضرت ادریس علیہ السلام کو بھی اسی ماہ میں آسمان پر اٹھایا گیا، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی تمام پریشانیوں سے محفوظ ہو کر اسی مہینے میں لنگر انداز ہوئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ کی خلعت اور نارِ نمرود سے خلاصی بھی اسی ماہ محرم سے مربوط ہے، اسی ماہ کی دس تاریخ کوحضرت خلیل اللہ علیہ السلام کو حضرت ذبیح اللہ علیہ السلام جیسے طاعت شعار فرزند ارجمند سے نوازا گیا،حضرت یوسف علیہ السلام کو قید سے رہائی بھی اسی محرم الحرام میں نصیب ہوئی، اور اپنے والدِ بزرگوار سے ملاقات بھی، حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے چھٹکارا بھی اسی مہینے میں نصیب ہوا، ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کا عقدِ مسنون حضور علیہ السلام سے اسی مہینے کی دس تاریخ کو انجام پایا ،اور اسی محرم الحرام کی دس تاریخ کو وہ المناک اور کربناک واقعہ رونما ہوا جس کو نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت سے یاد کیا جاتا ہے، دنیا میں بارش جیسی نعمت اور رحمت کا نزول بھی پہلی مرتبہ اسی مہینے میں ہوا، اور دنیا کا آخری دن بھی اسی مہینے کی دسویں تاریخ کا دن ہوگا۔اور بھی بہت سارے واقعات کا تعلق اس مہینے سے رہا ہے، ان مذکورہ تمام واقعات میں دو چیزیں قدرِ مشترک ہیں:ایک نزولِ رحمت اب چاہے اس کی کوئی بھی صورت رہی ہو ،اور دوسرے آفات و آلام سے چھٹکارا،غرضیکہ کسی وقت یا پھر دن اور مہینہ کو عظمت و فضیلت ہونے کی اصل وجہ تو اللہ تعالیٰ کی خاص تجلیات و انوار و برکات کا اس مہینے میں متوجہ اور ظاہر ہونا ہے؛لیکن بعض اہم واقعات کا اس وقت میں واقع ہو جانا بھی دوسرے درجے کی فضیلت رکھتا ہے جیسا کہ رمضان المبارک میں نزولِ قرآن اور وجودِ شبِ قدر اس کے لئے فضل و کمال کی دلیل ہے؛لہذا تاریخ کے عظیم ترین واقعات کا اس مہینے میں انجام پانا یہ اس کی انفرادیت اور عظمت کی بین دلیل ہے۔

یہ چند معروضات قرآن و حدیث کی روشنی میں محرم الحرام کے فضائل و مناقب کے حوالے سے تھیں جو اگرچہ کافی تو نہیں ہیں: البتہ اس مہینے کے قدردانوں اور سچی طلب رکھنے والوں کے لئے شافی ضرور ہو سکتی ہیں۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

*منکرات و رسوم و بدعات*

قارئینِ کرام : محرم الحرام ایک متبرک و محترم مہینہ ہے، جو کہ امت محمدیہ کے لیے حصولِ سعادت و صداقت کا بڑا ہی سنہرا اور زریں موقع ہے اور ایک ایسا پر نور و برکات و تجلیات مہینہ ہے جس میں رحمتِ خداوندی اللہ کے بندوں کی طرف خاص طور پر متوجہ رہتی ہے ،بندگانِ خدا کے لئے اپنے رب سے اپنے تعلقات کو استوار کرنے اور اپنی عاقبت سنوارنے کا بہترین اور افضل ترین موقع ہے؛لیکن ایک بہت بڑا المیہ اور افسوسناک صورتحال یہ بھی ہے کہ جس قدر اس ماہِ محرم کے فضائل ومناقب ہیں اسی قدر اسلام اور دین متین کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی چاہ رکھنے والوں کی طرف سے دین کے نام پر بدعات و خرافات اور واہیات عقائد و نظریات امت مسلمہ کے سامنے پروس دیے گئے ہیں ، اور منکرات و رسومات کا جس قسم کا چلن اور پھر اس میں امت محمدیہ کا ابتلاء کا منظر اس مہینے میں دیکھنے میں آتا ہے شاید سال کے بقیہ مہینوں میں نظر آتا ہو، اور اہلِ بیت سے اظہارِ محبت کے نام پر ایسی ایسی تخریب کاریاں پھیلائی جاتی ہیں جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس نازک اور بگڑتی ہوئی صورتحال میں دو طبقوں میں بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، (١) علماء کرام (٢)عوام۔ اہلِ علم حضرات کی امت کے تئین یہ ذمہ داری ہے کہ علماءِ کرام اس ماہِ مبارک سے متعلق امت کے سامنے قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح تعلیمات پیش کریں، اور عوام الناس کی صراطِ مستقیم کی طرف دستگیری فرمائیں تاکہ لوگوں میں صحیح تعلیمات کا چلن عام اور من گھڑت باتوں کا خاتمہ اور نشاندہی ہوسکے۔

اور ایک ذمہ داری عوام الناس پر بھی لازم آتی ہے کہ ناصرف یہ کہ عوام علماءِ کرام اور دین کے صحیح جانکاروں اس ماہ مبارک کے متعلق رہنمائی حاصل کرے بلکہ اپنی عام زندگی میں بھی ان کے رہنمائوں کو ہاتھ سے جانے نہ دے، پہلے اپنے اعمال و عقائد کا جائزہ علماءکرام سے کرا لیں پھر ان کے کہے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں۔

چونکہ محرم الحرام کے متعلق خصوصاً دس محرم کے حوالے سے بہت سی بدعات و خرافات بھی ایجاد کی ہوئی ہیں جن سے اجتناب و احتراز از حد ضروری ہے؛ لہذا مختصراً اور آسان انداز میں ان کی نشاندہی کی جاتی ہے تاکہ ان سے بچنا آسان ہو سکے۔

٭ *دس محرم الحرام کو ماتم کرنا*

دینِ اسلام کی تنسیخ و تخریب میں حصہ داری رکھنے والوں کی طرف سے جو دس محرم کے آتے ہی بدعات و خرافات کے ذریعے سب سے پہلے جو حملہ ہوتا ہے وہ اسی ماتم اور تعزیہ داری نامی بدعت کے ذریعہ سے ہوتا ہے، اس دن میں ایک طرف تو حقیقی مسلمانوں میں جوش و خروش اور عاشوراء کا تقدس نظر آتا ہے، تو وہیں دوسری طرف دینِ متین کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والوں کی دنیاوی سزا رونے دھونے، چیخ و پکار کی صورت میں شروع ہوجاتی ہے چیخ و پکار سے اپنا سکون تو غارت کرتے ہی ہیں ساتھ ہی دوسرے لوگوں کے بھی سکون کو ہضم کر جاتے ہیں، جابجا امام باڑوں اور بازاروں میں تفعن وپرا گندگی پھیلاتے ہیں، یاد رہے کہ یہ جس کو زنجیروں سے زخمی اور چاقو مار کر لہولہان کرتے ہیں یہ جسم اللہ کی امانت ہے اور اللہ تعالی اس کا مالک ہے تو پھر ضربیں لگانے، سینا پیٹنے، گریباں چاک کرنے، پیروں کو آگ میں جھلسا کر تکلیف دینے کا حق و جواز کہاں سے پایا،ایسے لوگوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث نبوی ہے :قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لیس منا من ضرب الخدود وشق الجیوب ودعا بدعوی الجاھلیۃ.(الصحیح للبخاری: رقم الحدیث:١٢٩٧) ترجمہ:جو بندہ اپنے رخسار پیٹے، گریباں پھاڑے،اور عہدِ جاہلیت جیسی باتیں کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ یہ رسومات و بدعات عہدِ رسالت و صحابہ میں نہیں تھیں؛بلکہ یہ سب اس کے بعد کی پیداوار ہیں ۔علامہ ابنِ کثیر دمشقی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں: کہ ٣٥٢ھ محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو اس وقت کے خلیفہ معز الدولہ کے ایماء و حکم حکم پر یہ سب ہوا (البدایہ والنہایہ ٢٦١/١٠) اور ماتم منانا اہلِ حق کے نزدیک حرام ہے اور اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔(کتاب النوازل ٣٠٧/١)

٭ *تعزیہ داری اور اس میں شرکت*

زمانہ جو جو گزرتا گیا نت نئی خرافات معاشرے میں آتے گئ انہی میں سے ایک ماتمی جلوس نکالنا ہے، تعزیہ نکالنا حرام ہے۔فرمانِ باری ہے:اتعبدون ماتنحتون.(الصافات:٩٥) ترجمہ:کیا تم ان کی عبادت کرتے ہو جنہیں تم اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہو۔چلو خیر نکالنے والے تو نکالتے ھی ہیں؛ لیکن مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد شرکت کے لیے نہ سہی مگر نظارہ کرنے پہنچ ہی جاتی ہے اور ظلم یہ ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ و خرابی بھی نہیں سمجھتے ہیں ،حالانکہ اس میں بہت سی خرابیاں ہیں، جیسا کہ دشمنانِ اسلام اور صحابہ کی رونق میں اضافہ کرنا اور یہ حرام ہے۔چنانچہ حدیثِ نبوی ہے:قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم:من کثر سواد قوم فھو منھم.(کشف الخفاء ٣٢٤/٢) ترجمہ:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: جس نے جس قوم کی رونق بڑھائی وہ انہی میں سے ہے۔ دوسری یہ ہے جس طرح سے عبادت کرنا اور دیکھنا ثواب رکھتا ہے بعینہٖ اسی طرح گناہ کرنا اور اس کو بخوشی دیکھنا بھی گناہ ہے ،اور تیسری یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے غیض وغضب کے نزول کی جگہیں ہیں یہاں جانا بھی گناہ سے خالی نہیں ہے۔

٭ *محرم الحرام کی دسویں کو کھچڑا پکانا*

کھچڑا یا حلیم یا پھر کوئی اور قسم و نوعیت کا کھانا پکانے کی شریعت میں کوئی ممانعت نہیں ہے، جب چاہیں بنا کر کھا سکتے ہیں؛ البتہ غیر اللہ کے نام پر پکانا، خاص دن کا اہتمام کرنا ،یا اس کو ثواب سمجھ کر پکانا،یا پھر کسی رسم و رواج کی پیروی کرنا یہ سب غلط اور ناجائز ہیں، اور سخت قسم کا گناہ ہے ۔حافظ ابن کثیر دمشقی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کی خوشی میں خوارج دسویں محرم کو مختلف گلہ جات ملا کر پکایا کرتے تھے ۔فکانوا الی یوم عاشوراء یطبخون الحبوب.(البدایہ والنہایہ٨/٢٠٢بیروت) ترجمہ:وہ لوگ عاشوراء کی دسویں کو مختلف اناج (ملاکر)پکایا کرتے تھے ۔

٭ *کالے کپڑے پہننا*

شرعاً سیاہ رنگ کے کپڑے پہننے میں کوئی قباحت نہیں ہے؛ بلکہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے مستحب تک لکھا ہے۔ویستحب الأبیض والاسود (شامی ٩/٥٠٥) چونکہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ثابت ہے ۔چنانچہ حدیثِ نبوی ہے:عن عائشۃ رضی اللہ عنہا صنعت لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بردۃ سوداء فلبسھا.(ابو داؤد: رقم الحدیث:٤٠٧٤) ترجمہ: حضرتِ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے میں نے ایک سیاہ رنگ کی چادر تیار کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زیب تن فرمایا۔ البتہ اگر کسی خاص موقع اور رسم کے تحت پہنیں جائیں تو قطعاً جائز نہیں ہے۔ شریعت میں صرف عورت کو اس کے شوہر کی عدت تک اور کسی دوسرے کے لئے تین دن تک سوگ جائز رکھا ہے؛ چہ جائیکہ محرم کے مہینے میں اظہارِ غمِ حسین میں مرد عورت سبھی سیاہ لباس پہنیں،پس ایک صحیح العقیدہ بندے کو محرم کے مہینے میں سوگ وغیرہ کے لئے سیاہ کپڑے پہننا بالکل بھی جائز نہیں ہے۔

٭ *محرم الحرام میں مچھلی نا کھانا*

بعض علاقوں میں ایسے افراد بھی ہیں جو کہ محرم الحرام کا چاند دیکھتے ہی مچھلی کھانا چھوڑ دیتے ہیں، اور ساتھ ہی گھر والوں کو بھی نہ کھانے کی تاکید کر دیتے ہیں، تو یاد رکھیں کہ مچھلی سال کے کسی بھی مہینے اور کسی بھی دن اور وقت میں کھانا جائز ہے، اور اگر کوئی حرام ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے تو یہ عقیدہ رکھنا بھی حرام ہے۔(فتاویٰ رحیمیہ ١٩١/٣)

٭ *محرم الحرام میں سبیلیں لگانا*

ایصالِ ثواب کے جائز ہونے میں شک نہیں، اور احناف کے نزدیک تو بدنیہ اور مالیہ ہے دونوں طرح کی عبادات کا ثواب پہنچا سکتے ہیں، اب چاہے وہ شربت پلاکر ہو،یا فیرنی بانٹ کر،یاپھر کھانا وغیرہ کے ذریعہ سے ہو؛ البتہ اس کوکسی خاص سبب کے پس منظر میں کرنا جیسا کہ دسویں محرم کو تو بدعت اور قابل ترک عمل ہے۔(مستفاد از کفایت المفتی ٢٣٥/١)

٭ *محرم الحرام میں شادی بیاہ نا کرنا*

اس ماہِ محرم کے ساتھ زمانے کی ایک ستمگری یہ بھی ہے کہ لوگ اس میں شادی بیاہ کو انجام دینے سے کتراتے ہیں، اور یہ ساری دین بدکار اور بد نام اہلِ تشیع کی ہے جو کہ اس ماہِ مبارک کو شہادتِ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی وجہ سے منحوس گردانتے ہیں، اس لئے وہ لوگ محرم میں شادی بیاہ نہیں کرتے اس کے بر عکس ہمارے یہاں نہایت ہی محرم نہایت ہی مہتم بالشان مہینہ ہے جیسا کہ سابق میں بیان کیا گیا ہے،اور تو اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کا حضرت علی سے ایک روایت کے مطابق نکاح بھی اسی ماہِ مبارک میں انجام پایا، اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ سے عقدِ مسنون بھی اسی ماہ میں ہوا؛ لہذا اس ماہ میں نکاح جائز ہی نہیں بلکہ اس غلط عقیدے کو توڑنے کی نیت سے نکاح کرنا موجبِ ثواب ہو گا۔ ان شاء اللہ تعالی۔

نیز انکے علاوہ اور بھی بہت ساری قباحتیں ہیں جیسا کہ مٹھائی تقسیم کرنا ،عید کی طرح سے زیب و زینت اختیار کرنا، شہدائے کربلا کے لئے قرآن خوانی اور مرثیہ خوانی کرنا ،خاص دس محرم کو آنکھ میں سرمہ ڈالنا کہ اس سے آنکھ میں بیماری نہیں ہوگی وغیرہ سارے امور ایسے ہیں جو کہ ازروئے شریعت ناجائز ہیں، یا تو اس وجہ سے کہ ان کی کوئی دلیل ہی نہیں ہے نا دورِ رسالت میں، نا دورِ صحابہ میں اور نا ہی تبعِ تابعین کے عہد میں،یاپھر دلائل بھی ہیں اور فی نفسہ جائز بھی ہیں؛ لیکن التزام مالایلتزم اور بدعقیدگی کی بناء پر مذکورہ تمام افعال بدعت کی فہرست میں شامل ہیں اور حدِ جواز سے خارج ہیں ۔

*خلاصۂ کلام*:یہ ہے کہ محرم الحرام اشہرِ حرم کا ایک مکرم و محترم مہینہ ہے جس میں بندوں کو زیادہ سے زیادہ اعمالِ صالحہ کے انجام دینے کی سعی کرنی چاہیے ،اور اعمالِ سیئہ خصوصاً محرم الحرام میں انجام دی جانے والی بدعات و خرافات سے بچنا چاہیے، جو کہ نہ صرف یہ کہ وہ گناہ ہیں بلکہ ان میں سے بعض تو آدمی کو دائرۂ اسلام سے ہی خارج کر دیتی ہیں، امام ابوبکر الجصاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ ان اشہرِ حرم کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ ان مہینوں میں جو شخص عبادت کرتا ہے اس کو سال کے بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح سے جو بندہ ان مہینوں میں اپنے آپ کو برے کاموں اور گناہوں سے بچا لیتا ہے تو باقی ماندہ سال میں بھی اس کو برائیوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے ،اس لیے لیے ان مہینوں سے فائدہ نا اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے(احکام القرآن للجصاص ١٤٠/٣) نیز یہ بھی خیال رہے کہ جس طرح ان مبارک مہینوں میں اور دنوں میں عبادات کا زیادہ ثواب ہے اسی طرح ان میں معصیت پر گناہ بھی زیادہ ہوتا ہے لہذا اس ماہِ مقدس کی سب مسلمانوں کو قدر کرنی چاہیے، اور بدعات و خرافات سے بچتے ہوئے اعمالِ صالحہ کی فکر کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین۔

وسیم احمد محمود میواتی خادم التدریس مدرسہ سراج العلوم قصبہ تاؤڑو میوات

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے