حضرت مولانا سید محمد طاہرحسین گیاوی

مولانا ناصرالدین مظاہری

وہ اک تارا جو ضو فگن تھا ،حیا ت کے مغربی افق پر

سیاہیء شب کے پاسبانو! خوشی مناؤ کہ وہ بھی ڈوبا

وہ اک سفینہ جو ترجماں تھا،بہت سی غرقاب کشتیوں کا

ہماری حالت پر ہنسنے والوں ، ہنسی اڑاؤ کہ وہ بھی ڈوبا

مناظر اسلام حضرت مولانا سید محمد طاہرحسین گیاوی کی زندگی کا ٹمٹماتا چراغ ہواؤں کے رحم وکرم کبھی کم کبھی زیادہ ہورہا تھا،ان کی طبیعت اخیردنوں میں کافی علیل رہی،ان کا سفینہ حیات ہچکولے کھاتا،ساحل مراد کی طرف بڑھتا،ڈگمگاتا بڑھتا چلا جارہا تھا وہ اپنی طبعی عمر عرصہ پہلے پوری کر چکے تھے،ان کی پوری زندگی احقاق حق اور ابطال باطل سے عبارت تھی،انھوں نے کبھی بھی مصلحتوں سے سمجھوتہ نہیں کیا، انھوں نے ہردور میں باطل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کا کردار اداکیا،آندھیاں آئیں، بجلیاں گریں،برق بے امان سے الجھے،طوفانوں سے ٹکرائے، حوادث سے نبرد آزما رہے،ایسے ایسے علاقوں میں جاگھسے جہاں باطل کا مضبوط گڑھ تھا،ایسے ایسے باطل سورماؤں کو پٹخنی دی جن کو اپنے علوم اور علمیت پر غرہ تھا،ایسی ایسی بستیوں میں جادھمکے جہاں ان کا داخلہ ممنوع تھا،ایسے ایسے مضبوط لوگوں سے پنجہ آزمائی کی جن سے لوگوں کو خوف محسوس ہوتا تھا۔سید طاہرحسین گیاوی ایک نام نہیں ایک تحریک تھے، ایک مناظر نہیں ایک سد سکندری تھے، طبقہ دیوبند کے پشتیبان تھے،ان کے علمی دلائل کے آگے باطل کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی،وہ جس موضوع پر بولتے تھے پہلے خود مکمل تیاری کرتے تھے۔

مجھے یاد ہے ایک دفعہ مدرسہ امدادالعلوم زیدپور بارہ بنکی میں تشریف لائے اس علاقہ میں کہیں تقریری پروگرام تھا سردیوں کا موسم تھا تیسری منزل پر کتب خانے کے سامنے چھجے پر مولانا کے لئے مسند بچھادی گئی،مولانا کانام ہرکوئی جانتا تھا ،مولانا نے جن جن کتابوں کا تقاضا کیا تمام کتابیں ان کے سامنے رکھ دی گئیں کتابوں کا اتنا بڑا چٹہ کہ مولانا اس چٹے میں گم ہوگئے۔کبھی یہ کتاب کبھی وہ کتاب،کبجی اس کتاب سے کوئی نوٹ، کبھی اس کتاب سے کوئی اقتباس ،نہ کھانے کا فکر نہ ملنے والوں سے کوئی لینا دینا، انھیں تو بس اپنے مسلک کی ترجمانی کی دھن تھی، انھیں حق کے احقاق کا جنون تھا، چنانچہ مولانا کایہی جنون بھارت میں قبولیت اور محبوبیت کی قابل رشک شکل اختیار کرگیا،انھوں نے اپنے مطالعے کا نچوڑ لکھنا شروع کیا ایک دونہیں کم وبیش ایک درجن کتابیں ان کے قلم سے نکلی ہیں۔

آہ! ہم اب انھیں قیامت تک نہ دیکھ سکیں گے نہ براہ راست سن سکیں گے۔

اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ایک شخص نہیں گیا ایک تحریک ایک ترجمان اور ایک داعی چلاگیاہے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے