معاش اور تدریس کے بارے میں کچھ قیمتی نصیحتیں

محمد توصیف قاسمی

معاش کا مسئلہ دنیا کے ہر انسان کا مسئلہ ہے، سطح و مرتبہ ، کمیت و کیفیت ، نوعیت و حیثیت وغیرہ کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے۔دینی یا عصری یافتہ ہو اسے بھی معاشی وسیلہ کی ضرورت ہے، اگر کوئی جاہل و ناداں ہے تو وہ بھی کھانے کمانے کا محتاج ہے۔اسلام میں معاشیات و معاملات مستقل باب اور حصہ ہے ، اس کے بہت سے اصول و فروع ہیں، جو کتابوں میں دستیاب ہیں۔البتہ کچھ چیزیں تجربات و مشاہدات کی قبیل سے ہیں، ان تجربات کو برتنے کے لئے بس اتنی سی شرط ہے کہ وہ شرعی مسائل میں حائل نہ ہوں، بلکہ معین و مددگار ہوں۔

طالب علمی کے اختتام پر مجھے دو لوگوں نے اپنے موقع سے ذریعہ معاش کے بارے میں دو نصیحتیں کیں، اور آج تک مجھے ان سے بڑا فائدہ ہوا ، ذریعہ معاش کے انتخاب اور اس پر دوام میں بڑی ہمت و قوت ملی ، طبیعت میں ادھر ادھر کا بہاو اور بھٹکاو نہیں آیا۔
پہلی نصیحت میرے محسن و مشفق جناب نور عالم علوی صاحب مرحوم کی ہے ، آپ شیخ المشائخ شاہ نیاز بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں تھے ، میرے بڑے کرم فرما تھے ، سب سے بڑا احسان ان کا یہ تھا میں نے ان کے ذریعہ ہردوئی داخلہ کی سفارش کرائی تھی ، اور الحمدللہ داخلہ بھی ہوا ، ادارہ احیاء السنہ واصلاح المنکرات کے نام سے دینی پمفلت ، کیلنڈر، کتبے کتابچہ وغیرہ شائع کیا کرتے تھے ، دیکھے سنے احوال کبھی فرصت سے قلمبند کروں گا انشاء اللہ۔
کہتے تھے : ذریعہ معاش کو سہاگن کا کنگن سمجھو ، جب ٹوٹ جائے تو فورا دوسرا ہاتھ میں ڈال لو۔
تبصرہ: آج کل خصوصا نوجوانوں کی صورتحال نہایت افسوسناک ہے، اپنے وہمی شرائط و معیار کی حرص میں اپنی زندگی کا قیمتی وقت ، اپنی معاشی اہلیت و استعداد گھر بیٹھے بخوشی برباد کررہے ہیں۔
اگر کاروبار کی حیثیت و تجربہ نہیں، اور ملازمت پیشہ ہے تب تو خاص کر ایک کے بعد دوسرے میں بلاوجہ تاخیر نہیں کرنا چاہئے، اول تو معقول عذر ایک جگہ سے چھوڑے ہی نہیں، البتہ اگر معاملہ ختم ہوہی جائے تو دوسری جگہ کی تلاش و سعی میں کوئی کسر نہ رکھی جائے۔

دوسری نصیحت میری والدہ معظمہ دامت برکاتہا کی تھی ، زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں، لیکن دینی مطالعہ رہا ہے ، اس کی برکت سے میری زندگی کے بہت سے فلسفے اور سخت الجھی گتھیوں کو بھی اللہ نے ان کے ذریعے سلجھا دیا ، اور حل کیا۔
کہتی ہیں: "مطلوبہ معیار و ترقی ، حسب اشتہا و اشتیاق یا اعلی سطح کی جگہ پانے کے لئے گھر بیٹھے انتظار کرنا بیوقوفی ہے ، شجر دار درخت کے پاس سے گزرنے والے انسان کی پہلی پسند پڑے ہوئے پھل نہیں ہوتے ، گرنے سے اور پڑے رہنے سے ان کی افادیت و معنویت غیر ہوجاتی ہے، یا کم از کم مشکوک ضرور ہوجاتی ہے نہ جانے کوئی کیڑا نہ لگ گیا ہوا ، وہ پتھر مار کر دوسرا پھل گراتا اور لے کر چلتا بنتا ہے ؛ تو پتھر درخت پر لگے ہوئے پھل پر ہی چلتے ہیں، زمین میں پڑے پھل پر نہیں۔
ایسے ہی عمدہ و اعلی جگہ چاہئے تو اس کے انتظار میں گھر بیٹھ کر اپنی استعداد و صلاحیت برباد مت کرو، جو جگہ ملے قبول کرلو ، وہاں سے آپ کے کام اور کارنامے دیکھ کر دوسرے خود آفر و موقع دیں گے ، لگے ہوئے لوگوں کو گھر بیٹھے کی نسبت زیادہ کام کا اہل سمجھا جاتا ہے۔

اور تکمیل کے بعد اس مختصر سے 12-13 سال کے عرصہ میں میں نے اسے خوب آزمایا ، جب کبھی اتفاق سے گھر بیٹھا رہا تو کوئی معقول آفر نہیں ملا ، اور جب تدریسی خدمات سے منسلک ہوا تو اچھی سے اچھی جگہ کے بلاوے آئے ، نیز بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ کسی جگہ نہ چاہتے ہوئے بھی گیا ، اور الحمدللہ وہاں سے اس سے اچھی کا موقع مل گیا۔

یہ دونوں باتیں تو عام معاشی ذرائع و وسائل کو شامل ہے ،البتہ خاص دینی و تدریسی خدمات میں رد و قبول کا کیا معیار ہو؟
اس بارے میں میرے استاذ و مرشد عارف باللہ حضرت مولانا محمد افضال الرحمن صاحب دامت برکاتہم(خلیفہ حضرت مولانا محمد ابرارالحق صاحب نور اللہ مرقدہ ) کا قیمتی فرمان ہمیشہ پیش نظر رہا ، فرماتے ہیں : دینی و تدریسی کام میں دو باتیں پیش نظر رہیں؛ ایک تو یہ کہ مالی معاملات ضرورت کی تکمیل کی حد تک ہوں، بہت زیادہ کی حرص اچھی نہیں، اس سے کم پر رہ کر اپنا ایمان خراب بھی کرنا مناسب نہیں۔
دوسرے یہ کہ دینی خدمت و علمی فائدہ بھی ہو ، صرف ملازمت اور نوکری کی جگہ نہ ہو ۔
مجھے جب ضرورت پڑی تب حضرت نے یہی مشورہ دیا ، اور باوجود استحضار کے ہمیشہ اس بابت مشورہ ، تاکہ یہ بات تازہ ہوسکے۔
دینی کام کرنے والوں کے لئے یہ نہایت وقیع اور زریں مشورہ ہے ، ورنہ کہیں تو صرف مالیات کی ہوڑ ہوتی ہے، علم و خدمت ندارد ، اور کہیں دینی خدمت کی آڑ میں ایمان فروشی کی جارہی ہے ۔
واللہ ولی التوفیق

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid029AAyYQReQBzA7cnqw2Z5i8C31JJZrq8mamFA97QUnPPbXEvMxhDwDoitjzS7xo5Cl&id=100001234948103&mibextid=Nif5oz

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے