حضرت مولانا بدر الحسن القاسمی
دار العلوم دیوبند میں 1969 کی اسٹرائک شروع ہوئی تو میں طالب علم تھا دار العلوم میں ہنگاموں کا یہ پہلا تجربہ تھا اور میں اس سے بے بہرہ منظر اور پس منظر سے نا واقف اور نہ اس پردہ زنگار ی کے پیچھے معشوق کی پہچان کی صلاحیت سے بھی اسوقت محروم تھا
نہایت پرجوش تقریر خطابت کے تمام عناصر سے بھر پور چند گنٹوں کے وقفہ سے ہم طلبہ کے ماحول بر انگیختہ کرجاتی اور جوش وجذبہ سے پورے مجمع کو اس طرح بھر دیتی کہ یہ یقین ہوتا کہ جو کچھ کہا جارہا ہے سبھی سچ ہے اور جلد ہی زبر دست تبدیلی آنے والی ہے اور طلبہ کی مدد کیلئے علیگڑھ اور دہلی سے جلد ہی کمک آنے والی ہے
یہ مولانا طاھر حسین گیاوی کی خطابت کا کمال اور اس خطابت کی اث انگیزی تھی
بولنے والے مولانا اعجاز اعظمی اور دوسرے اسٹرائیک کے بنیادی اراکین بھی تھے مگر مولانا طاھر گیاوی کی بات ہی کچھ اور تھی
اسٹرائیک کا سارا نشانہ مولانا معراج الحق صاحب نائب مہتمم اور انکی بکری اور مرغیان تھیں جو انہوں نے اپنے کمرے اس پال رکھی تھی معراج گیٹ کا نام بدل کر عثمانی گیٹ کردیا گیا
شاعری کے ذر یعہ عزیزالرحمن فتحپوری (مفتی اعظم بمبئی اور خلیفہ وروحانی مرشد نے سے پہلے ) اور حیدر آباد کے سید اکبر الدین نے اسٹیج سنبھال رکھا تھا
بند کیاہے نان شبینہ
جائز حق کو ہم سے چھینا
کب تک سہینگے ہم داد
انقلاب زندہ باف
کبھی مولانا معراج الحق صاحب کی بکری سے انٹرویو تو کبھی مرغی سے منظوم انٹرویو اور مکالمے
طرح طرح کے دل خوشکن نعروں خوشخبریوں اور وعدوں کے بعد ہماری آنکھیں اس وقت کھلیں کہ جب پولیس کی نگرانی میں اراکین شوری نے دار العلوم کو دوگھنٹوں میں خالی کرانے کا اسی اسٹیج سے اعلان کیا جو باب الظاھر کے قریب طلبہ کے قائدین نے اپنے لئے بنایا تھا: اسٹرائیک کا اختتام 35 طلبہ کےاخراج کے اعلان پر ہوا جن میں سرفہرست مولانا طاھر گیاوی
مولانا اعجاز اعظمی
مولانا عزیز الرحمن فتحپوری
اکبر الدین حیدر آبادی اور مولانا نورعالم ان اور مولانا عبد المنان مظفرپوری وغیرہ تھے
: مناظرہ
*****
ایک یاد اور بھی مولانا طاھرگیاوی کےساتھ وابستہ جھریا کے مباظرہ کی ہے
دھنباد سے قریب جھریا شہر میں ایک مناظرہ بریلویوں کے ساتھ طے ہوگیا چنانچہ مقررہ تاریخ سے چند د ن ہے دیوبند کے مبلغین مولانا ارشاد صاحب مولانا سیف اللہ اور بو الکلام صاحب اور اساتذہ دارالعلوم میں مولانا محمد حسین بہاری صاحب اور مولانا فخر الحسن صاحب وغیرہ کے ساتھ یہ فقیر بھی اور حکیم عز یز الرخمن صاحب اعظمی ایک قافلہ کی شکل میں کتابوں کے پشتارہ کے ساتھ ٹریں سے روانہ ہوئے
مجھ سے کسی نے کہا کہ یہ حکم صاحب کو آپ لوگ مناظرہ میں ساتھ کیوں لے جا رہے ہیں۔ ؟
کہا کہ حکیم صاب کو مناظرہ میں ساتھ لیجانے کا مقصد یہ ہے کہ
طب کی روشنی میں حکیم صاحب ثابت کریںگے کہ احمد رضا خاںصاحبا ببریلوی کو مالیخولیا کی بیماری تھی اس وجہ سے انہوں نے علمائے دیوبند کی تکفیر کی ہے
افسوس ہے کہ مناظرہ کے دوسرے فریق نے مناظرہ کیلئے ایک ایسی مسجد طے کر لی تھی جس کا مکمل کنٹرول بریلویوں کے ہاتھ میں ہو چنانچہ مناظرہ شروع ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا مولانا طاھر گیاوی کی ایک ہی تقریر ہوئی کہ فریق مخالف کی سازش سامنے آگئی اور کاروائی ختم کردی گئی
مولانا طاھر صاحب : خطابت میں اتنے مشہور ہوئے کہ وہ دینی جلسوں کی کامئابی کاعنوان بنگئے دوسری طرف وہ مناظروں کیلئے بھی بہر قیمت بلائے جانے لگے
اور انہوزں نے رد بدعت پر اپنی کئی کتابیں انہوں نے یادگار چھوڑی ہیں
بعش جگہوں اہل بدعت نے انہیں دھوکہ دیکر اذیت پہنچانے کی
بھی کوشڈ کی
مولانا طاھرگیاوی اپنی خطابت زور بیان اور اپنی اپنی مناظرانہ حاضر دماغی کے لحازذسے یاد رکھے جائیں گے اللہ تعالی انکی مغفرت کرے اور فردوس بریں میں جگہ دے آمیں