: محمد طلحہ ادروی
تفسیر اور اصول تفسیر کی کتابوں میں تفسیر کی ایک خاص قسم ذکر کی جاتی ہے جس کا مدار نصوص کے ظاہری اور بے غبار معنی کے بجائے ” باطن ” پر ہوتا ہے ،صوفیاء اس تفسیر کو تفسیر اشاری کا نام دیتے ہیں ،اس قسم کی تفسیر میں صوفیاء کا اپنا خاص ذوق اور انکی اپنی اصطلاحات اور تعبیرات کارفرما ہوتی ہیں ، معتبر صوفیاء اسے تفسیر نہیں کہتے بلکہ لطائف اور اشارات کا عنوان دیتے ہیں ،اور تفسیر قرآن اسی معنی کو سمجھتے ہیں جسے مفسرین کرام تفسیر کہتے ہیں ، تفسیروں میں اس کی ڈھیروں مثالیں مل جائیں گی، ایک دو ملاحظہ فرمائیں۔
( 1) اذھب إلی فرعون ° إنه طغی ° ۔ بعض صوفیاء کہتے کہ فرعون سے اشارہ ہے نفس کی طرف کہ نفس کی اصلاح کی کوشش کرو کیونکہ کہ وہ سرکش ہو رہا ہے
(2 ) سورہ نساء کی جس آیت میں مختلف قسم کے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا بیان ہے اس کا ایک ٹکڑا یہ ہے کہ
” والجار ذي القربی والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل "
اس کی تفسیر میں حضرت سہل سے منقول ہے الجار ذی القربی سے مراد ” قلب ” ،جارالجنب سے مراد ” نفس "،الصاحب بالجنب سے مراد "عقل "اور ابن السبیل سے مراد ” الجوارح المطیعہ ” ہے( حقائق التفسیر لابی عبدالرحمن السلمی ) ۔
تفسیر کے باب میں صوفیاء کا یہ ذوق امت کے حق میں کوئی اچھی خبر نہیں تھی، پھر بھی یہاں تک معاملہ قابل برداشت تھا ،لیکن امت میں سے ہی باطنیہ کے نام سے ایسا گروہ وجود میں آیا جس نے نہ صرف تفسیر قرآن بلکہ جمیع اسلامی اصطلاحات کے خلاف ایک پورا محاذ بنا کر اسلام کی حقیقیت ہی کو ختم کرنے کی کوشش کی ، انھوں نے اس کے لیے ” باطن ” کا سہارا لیا ،اور کہا کہ ہر چیز کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن ،یہ جو قرآن میں الفاظ و اصطلاحات دکھ رہے ہیں ان کا ظاہر مراد نہیں ہے بلکہ ان کا باطنی معنی مطلوب ہے ،ان کے ایک دو تفسیری نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
(1) "الذي جَعلَ لکم منَ الشّجرِ الأخضرِ ناراً "
ترجمہ : (وہی ذات) جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی ۔
باطنیہ میں سے بعض نے کہا کہ ” الشجر الاخضر” سے مراد حضرت ابرہیم علیہ السلام ہیں اور ” نارا ” سے مراد حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں ۔
(2) ” من ذا الذي یشفع عندہ إلا بإذنه "
ترجمہ: کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کر سکے ؟
بعض باطنی ملاحدہ نے اس آیتِ کریمہ کے ساتھ جو تفسیری حرکات کی ہیں اسے دیکھ کر ان کی بد بختی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ،انھوں نے اس طرح اس کی تفسیر کی
"من ذلّ ذی یشف عُ "
ذَلَّ، ذُلِ سے مشتق ،ذی اسم اشارہ ہے جس سے نفس مراد ہے ، یشف ،شفاء سے مشتق جبکہ "عُ” وعی سے مشتق ہے ،
گویا اس آیت کریمہ کے تلفظ سے مکمل دوسری آیت ہی بنا ڈالی ۔
یہی نہیں بلکہ اسلامی اصطلاحات "طہارت صلاۃ ،حج ، صوم کعبہ ،صفا مروہ ” وغیرہ سب کا الگ معنی متعین کیا اور اسے ہی اصل شریعت بتایا ،چنانچہ انکے یہاں کعبہ سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،باب سے مراد حضرت علی کرم اللہ وجہہ ،صفا سے مراد نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور مروہ سے مراد علی رضی اللہ عنہ ہیں ،طہارت سے مراد باطنی مذہب کے علاؤہ ہر مذہب سے براءت ،صیام سے مراد راز کھولنے سے بچنا وغیرہ وغیرہ ۔
باطنیہ تو ختم ہو گئے لیکن ان کے اثرات لیٹریچر کی دنیا میں آج کے اس دور میں بھی پائے جاتے ہیں ، پہلے باطنی تفسیریں ظاہر کے انکار کی شکل میں سامنے آئی تھی جب کہ آج کی باطنیت ” وطنی تفسیر” اور ” سائنسی تفسیر” کی صورت میں سامنے آرہی ہے ۔دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔
(1) قرآن پاک میں پاکستان کے انتخاب و انتباہ کا تذکرہ۔
مقدس آیات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے گا کہ
”جب تم تعداد میں بہت کم تھے، اس وقت کو یاد کرو اور زمین میں تمہاری حیثیت بھی نہ تھی، تمہیں ہر وقت ڈر لگا رہتا تو اللہ نے تمہیں زمین عطاءکر دی (سرزمین وطن) اور اپنی مدد سے تمہیں مضبوط کر دیا۔ (بہادر فوج اور محسن پاکستان کا بنایا ہوا ایٹم بم) تاکہ تم اللہ کے شکرگزار بندے بن جاﺅ۔“ (سورة انفال 28/8)یہ تو ذکر ہے انتخاب کا۔
اب انتباہ بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔ اللہ تعالیٰ بحوالہ سورة ابراہیم 14/28 میں فرماتے ہیں کہ ”کیا آپ نے کبھی ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت (پاکستان) کی ناشکری کی اور ان لوگوں (پاکستانیوں) کو ذلت کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔“
ترجمہ نگار پاکستان کے کوئی صاحب ہیں ۔
(2) دوسری مثال ” شیخ الاسلام” ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے ایٹمی قسم کے ترجمہ سے لیجیے ۔
وَٱلنَّـٰزِعَـٰتِ غَرۡقࣰا ، وَٱلنَّـٰشِطَـٰتِ نَشۡطࣰا ، وَٱلسَّـٰبِحَـٰتِ سَبۡحࣰا ،فَٱلسَّـٰبِقَـٰتِ سَبۡقࣰا ، فَٱلۡمُدَبِّرَ ٰتِ أَمۡرࣰا ۔
صحیح تفسیری ترجمہ: قسم ہے ان فرشتوں کی جو کافروں کی روح سختی سے کھینچتے ہیں ،اور جو مومنوں کی روح کی گرہ نرمی سے کھولتے ہیں ،پھر فضا میں تیرتے ہوئے جاتے ہیں ،پھر تیزی سے لپکتے ہیں ،پھر جو حکم ملتا ہے اسکو پورا کرنے کا انتظام کرتے ہیں
طاہر القادری صاحب کا ایٹمی ترجمہ :
توانائی کی ان لہروں کی قسم جو مادہ کے اندر گھس کر کیمیائی جوڑوں کو سختی سے توڑپھوڑ دیتی ہیں ،توانائی کی ان لہروں کی قسم جو مادہ کے اندر سے کیمیائی جوڑوں کو نہایت نرمی اور آرام سے توڑ دیتی ہیں ،توانائی کی ان لہروں کی قسم جو آسمانی خلا وفضا میں بلا روک ٹوک چلتی پھرتی ہیں ،پھر توانائی کی ان لہروں کی قسم جو رفتار ،طاقت اور جاذبیت کے لحاظ سے دوسری لہروں پر سبقت لے جاتی ہیں ،پھر توانائی کی ان لہروں کی قسم جو باہمی تعامل سے کائناتی نظام کے بقا کے لئے توازن اور تدبیر قائم رکھتی ہیں ۔
نوٹ : طاہر القادری صاحب نے ایک ترجمہ صحیح والا بھی کیا ہے ،یہ ترجمہ انھوں نے حاشیہ پر ذکر کیا ہے ۔
محمد طلحہ ادروی