لا کمیشن آف انڈیا نےیونیفارم سول کوڈ پر عوام سے 15 جولائی 2023 تک تجاویز طلب کیں ہیں
از: مولانا محمد برہان الدین قاسمی
انگریزی سے ترجمہ
از: معاذ مدثر قاسمی
ایل سی آئی کی جانب سے پبلک نوٹس
لا کمیشن آف انڈیا (ایل سی آئی) نے 14 جون، 2023 کو ‘یکساں سول کوڈ’ کے عنوان سے ایک تازہ پبلک نوٹس جاری کیا ہے جس میں عام لوگوں، سول سوسائٹی کے اراکین اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے 15 جولائی 2023 تک تجاویز طلب کی گئیں ہیں۔ یہ پبلک نوٹس ایل سی آئی کی ویب سائٹ
https://lawcommissionofindia.nic.in/notice/uniform-civil-code-public-notice/
پر موجودہے، جس میں ہے:
"وزارت قانون اور انصاف کے ذریعہ 17 جون، 2016 کو بھیجے گئے امورکے تعلق سے، ہندوستان کا 22 واں لاء کمیشن یکساں سول کوڈ کے موضوع کی جانچ کر رہا ہے۔ ابتدائی طور پر ہندوستان کے 21 ویں لاء کمیشن نے یکساں سول کوڈ کے موضوع کا جائزہ لیا تھا اور 07/10/2016 کو ایک سوالنامہ کے ساتھ اپنی اپیل کے ذریعے تمام اسٹیک ہولڈرز کی آراء طلب کی تھی، مزید برآں لاء کمیشن نے مؤرخہ 19/03/2018، 27/03/2018 اور 10/04/2018 کو عوامی اپیل/نوٹس بھی طلب کی تھی۔ اس تعلق سے کمیشن کو کافی زیادہ جوابات بھی موصول ہوئے۔ بعد ازاں 31/ 08/ 2018 کو 21 ویں لاء کمیشن نے "عائلی قوانین کی اصلاحات” پر مشاورتی پیپر جاری کیا تھا۔ چونکہ مذکورہ مشاورتی پیپر جاری کیے جانے کے بعد سے تین سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیاہے اور اس موضوع کی اہمیت اور حساسیت کے پیش نظر، اور اس معاملے پر عدالتوں کی جانب سے مختلف احکامات کی وجہ سے ہندوستان کے 22 ویں لاء کمیشن نے مناسب سمجھاکہ اس موضوع پر نئے سرے سے غوروفکر کیاجائے۔
اسی مناسبت سے، 22ویں لاء کمیشن آف انڈیا نے یکساں سول کوڈ کے تعلق سے دوبارہ وسیع پیمانے پر عوام اور قابل ذکر مذہبی تنظیموں کے آراء اطلب کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ جو حضرات اپنی آراء پیش کرنے کے خواہشمند ہیں وہ نوٹس جاری ہونے کی تاریخ سے 30 دنوں کے اندر اندر لاء کمیشن آف انڈیا کو “click here” بٹن کے ذریعے یا membersecretary-lci@gov.in پر ای میل کے ذریعے اپنے خیالات پیش کر سکتے ہیں۔ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو بھی یکساں سول کوڈ سے متعلق کسی بھی مسئلے پر مشاورت/گفت وشنید/ ورکنگ پیپرز کی شکل میں اپنی گزارشات پیش کرنے کی کلی اجازت ہے۔ وہ اپنی گزارشات ‘ممبر سکریٹری: لاء کمیشن آف انڈیا، 4 ویں منزل، لوک نائک بھون، خان مارکیٹ، نئی دہلی – 110003، پر بھیج سکتےہیں۔ اگر ضرورت پڑی تو کمیشن کسی فرد یا تنظیم کو انفرادی سماعت یا گفت وشنید کے لیے بلا سکتا ہے۔”
مذکورہ پبلک نوٹس تمام بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عام ہے، خاص کر مسلمانوں کے درمیان، اور اہل قلم حضرات پورے جوش وجذبہ کے ساتھ لاء کمیشن آف انڈیا کو اپنی چھوٹی بڑی تحریروں کے ذریعہ جواب اور مشورے دے رہے ہیں۔ بیرون ملک رہنے والے بہت سے ہندوستانی حضرات کو بھی لاء کمیشن آف انڈیاکے نام خط لکھتے ہوئے اور ‘قانون سازی کے اس عمل’ میں فعال طور پر حصہ لیتے ہوئے دیکھا جارہاہے، جویقینا ہندوستانی جمہوریت کے لیے ایک اچھی چیز ہے، لیکن سوال یہ ہےکہ تحریرات کے ان انبار کو کون پڑھے گا؟ اور اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ کیا عام آدمی کے ان مخلصانہ مشوروں کی طرف کوئی ذرہ برابر بھی توجہ دے گا؟ اس کاعلم لاء کمیشن آف انڈیا ہی کوہوگا۔ بہر کیف حکومت ہندنے تقریباً پانچ سالوں بعد اس پولرائزنگ اور جذباتی مسئلہ کو ایک بار پھربڑے ہی کامیابی کے ساتھ موضوع بحث بنایاہے، تاکہ آئندہ 2024 کے عام انتخابات میں اسے ایک آسان سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
بنیادی حقوق بمقابلہ ہدایتی اصول
دستورہند کے آرٹیکل 12 تا 35 بنیادی حقوق سے متعلق ہیں۔ یہ بنیادی انسانی حقوق ہندوستان کے تمام شہریوں کو عطا کیے گئے ہیں۔ دستور کے مطابق یہ حقوق ناقابل تسخیر اور ناقابل تنسیخ ہیں۔ ہندوستانی شہریوں کے چھ بنیادی حقوق ہیں جن کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے:
1۔ برابری کا حق (آرٹیکل 14 تا 18)
2۔ آزادی کا حق (آرٹیکل 19 تا 22)
3۔ استحصال اور حق تلفی کے خلاف حق (آرٹیکل 23 تا 24)
4۔ مذہب کی آزادی کا حق (آرٹیکل 25 تا 28)
5- ثقافتی اور تعلیمی حقوق (آرٹیکل 29 تا 30)
6- دستوری اصلاحات کا حق (آرٹیکل 32)
آئین ہند کی دفعہ 25 بنیادی حقوق میں سے ایک ہے جس میں لکھا ہے:
"… تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق ہے ۔”
اس کے برعکس، اسی آئین ہند کی دفعہ 44 جو کہ ایک ہدایتی اصول(Directive Prinsiple) ہے، جس کے الفاظ اس طرح ہیں: "مملکت یہ ‘کوشش’ کرے گی کہ بھارت کے پورے علاقے میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ کی ضمانت ہو۔” سیدھی سی بات یہ ہے کہ کوئی ڈائریکٹیو پرنسپل ۔ جس کی حیثیت ایک مشورے یا اختیاری کام کی ہے کسی بھی شہری کے بنیادی حقوق کو ختم نہیں کر سکتا۔ "ہدایتی اصول” کا مطلب ہے کہ اس نے ہندوستان کے مستقبل کے قانون سازوں کے لیے صرف ایک ‘طاقت’ پیدا کی ہے نہ کہ ‘فرض’۔ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کافی بحث و مباحثے کے بعد یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کو محض ایک ’کوشش‘ کے طور پر رکھنے پر راضی ہوئی۔ یہ اس حقیقت کو بھی آشکارا کرتاہے کہ یکساں سول کوڈ اس وقت بھی ہندوستان کے کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی معاشرے میں ناقابل عمل تھا اور وہی متنوع آبادی والی حالت آج بھی موجود ہے، بلکہ پہلے کی بنسبت زیادہ واضح ذاتی شناخت اور الگ افتخار کے ساتھ۔
جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے، آئین ہند کی دفعہ 25 کے علاوہ دفعہ 26 اور 29 بھی ‘شہریوں کے حقوق’ میں شامل ہیں۔ دفعہ 26 "مذہبی امور کے انتظام وانصرام کی آزادی کے بارے میں ہے: … ہر مذہبی فرقہ یا اس کے کسی بھی طبقے کو حق حاصل ہوگا (الف) مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لیے ادارے قائم کرنے اور برقرار رکھنے کا۔ (ب) مذہب کے معاملے میں اپنے معاملات کوخود حل کرنا؛…”
دفعہ 29 اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کے بارے میں ہے: "(1) ہندوستان کی سرزمین یا اس کے کسی بھی حصے میں رہنے والے شہریوں کے کسی بھی شخص کو اپنی الگ زبان، رسم الخط یا منفرد ثقافت کی حفاظت کا حق حاصل ہوگا۔ "
یکساں سول کوڈ کےنفاذ سے ہندوستانی آئین کے دیگر اور کئی دفعات متاثر ہونگے بشمول ان بنیادی حقوق کے جو دفعہ 25، 26 اور 29 میں پوری وضاحت کے ساتھ مذکورہیں۔ مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی لانےکے اقدام کو ہندوستانی مسلمانوں نے ہمیشہ مذہب اور مذہبی اعمال میں مداخلت گرداناہے، اس لئے یہ آئینی طور پر فراہم کردہ بنیادی حقوق کے سراسر خلاف ہے۔ ایک ہدایتی اصول کسی بھی بنیادی حق یا حقوق کو منسوخ نہیں کر سکتا اور نہ ہی ہرگز ایسا ہوناچاہئے، بصورت دیگر یہ ہندوستانی آئین کے بنیادی اصول کے خلاف ہو گا- یعنی وہ حقوق جو کہ آئین ہند کی تمہید میں مذکور ہے، نیز اس طرح کرنے کی صورت میں یہ ‘تنوع میں اتحاد’ کی ثقافت کے حوالے سے اپنی منفر شناخت رکھنے والے ہندوستان کی مثالی جمہوری اقدار کو زبردست چوٹ پہنچانے کے مترادف ہوگا۔
یکساں سول کوڈ ہندوستان میں نا ممکن کیوں ہے؟
تنوع بھارت کی خوبصورتی ہے۔ آئین ہند تمام شہریوں کے لیے “سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف” کا خواہاں ہے۔ اس نے مذہبی اور نسلی اقلیات اور سماجی و اقتصادی طور پر پس ماندہ طبقات جیسے درج فہرست برادریاں اور درج فہرست قبائل کے حقوق کے تحفظ کے لیے مختلف طریقے اپنائے ہیں۔ جس طرح مختلف قسم کے پھولوں سے باغ کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح سے مختلف مذاہب، ثقافتوں اور رنگوں کے حامل افراد ہی اس عظیم ملک کی خوبصورتی ہیں۔ یہ ہندوستان کا منفر اور بنیادی تصور ہے۔
ایک ملک ایک قانون کا نظریہ یہاں ممکن نہیں ہے۔ آدی واسی لوگوں کی اپنی تہذیب اور رسوم و رواج ہیں۔ ایک مرد کے پاس ایک سے زائد بیویاں ہو سکتی ہیں، اسی طرح ایک عورت بھی ایک سے زائد شوہر رکھ سکتی ہے۔ ان کے یہاں شادی کے مختلف طریقے ہیں اور میت کی تدفین کے لیے مختلف رسوم۔
ہندؤوں کی ایک بڑی تعداد مختلف مقامات پر مختلف مذہبی رسوم پر عمل کرتی ہے۔ ہندو، مسلم اور دیگر اقلیتوں کے پرسنل قوانین کے تقابلی مطالعے سے معلوم ہوگا کہ ان قوانین میں واضح اختلافات موجود ہیں جن میں عقیدہ جاتی تقدس بھی شامل ہے جو کسی بھی پرسنل لاء میں یکسانیت کو نا ممکن بناتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود ہندو قانون کا تنوع کچھ اس طرح کا ہے کہ صرف یکساں ہندو قانون بھی جارج از امکان ہے۔
ہندو میرج ایکٹ 1955کے تحت اگر صرف شادی کی بات کی جائے تو ہندو کی تعریف کے ذیل میں آنے والے مختلف افراد کی شادیاں ان کے اپنے اپنے رسوم و رواج کے مطابق انجام دی جائیں گی۔ مثال کے طور پر شمالی ہند میں رائج سپت پدھی (سات پھیرے) طریقۂ ازدواج کے مطابق شادی کا عمل مکمل اور نافذ تصور کیا جاتا ہے یعنی اگر کوئی جوڑا مقدس آگ کے گرد سات چکر لگا لے، جنھیں “سات پھیرے ” سے تعبیر کیاجاتا ہے یعنی اس کے بعد ہی اس جوڑے کا رشتۂ ازدواج میں بندھنا مکمل تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف جنوب ہند میں ازدواج کے سویامریا تھائی (عزت نفس) اور سیرتھی روتھا (اصلاح شدہ) طریقہء شادی رائج ہیں۔ ان طریقوں کے مطابق اگر طرفین کی جانب سے رشتے داروں کے سامنے یہ اعلان کر دیا جائے کہ یہ جوڑا ایک دوسرے سے شادی کر رہا ہے، یا جوڑا ایک دوسرے کو ہار پہنا دے، یا ایک دوسرے کی انگلی میں انگوٹھی پہنا دے، یا اگر دولہا دلہن کی گردن میں تھالی یا منگلم (خاص دھاگے) باندھ دے تو شادی مکمل سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح سے جنوبی ہند میں ایک ہندو اپنی چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد، یہاں تک کہ اپنی بھانجی اور بھتیجی سے شادی کر سکتا ہے، مگر ملک کے دوسرے حصوں کے ہندو ایسے رشتے داروں سے شادی نہیں کر سکتے۔ نیز یہ کہ ہندو شادی قانون (ایچ ایم اے) 1955 کے تحت شادی کے نافذ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ شادی کو کم از کم ایک پارٹی کے رسوم و رواج کے مطابق انجام دیا جائے۔ چنانچہ اگر کوئی جین کسی بدھ مذہبی سے سکھ مذہب کی رسوم کے مطابق شادی کرے تو قانوناً اس شادی کو نافذ نہیں سمجھا جائے گا۔ (شکنتلا بنام نیل کنٹھ 1972ماہ ایل آر31، پارس دیوان کے ذریعہ فیملی لا میں درج کردہ)
قابل غور بات یہ ہے کہ ہندو میرج ایکٹ کے حصہ 2 (1) ( (b کے مطابق "کوئی بھی شخص جو سکھ، جین اور بدھ مذہب سے تعلق رکھتاہو اسے بھی ہندو مذہب کا ہی حصہ مانا کیاگیا ہے ۔۔۔” یہاں ہندوستانی آئین کے صرف ایک ہی دفعہ ـــ ہندومیرج ایکٹ 1955 میں، ہم شناخت مذہبی گروہ جنہیں ایکٹ کے اندر ایک ہی سمجھا جاتا ہے، انکی شادی کی رسومات بھی یکساں رسومات نہیں مانی جاتی ہیں۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں اس بات کوعیاں کرنے کےلئے کہ ہندوستان کے اندر بہت زیادہ ثقافتی، مذہبی اور نسلی تنوع موجود ہے جوملک کی الگ الگ ریاست اور خطوں میں مختلف ہیں۔ اور یہ سب "انڈین سول لاء” کے اندر ہیں۔ چنانچہ یہ سوال بالکل فطری ہے کہ آیا ان متنوع قوانین کو یکساں کرنا اور سب کے لیے یکساں یا عام قانون بنانا ممکن اور قابل عمل ہے، جو تمام طبقات کے لیے قابل قبول ہو؟
ہندوستان کے پاس پہلے سے ہی ‘اسپیشل میرج ایکٹ 1954’ کی شکل میں ایک اختیاری قانون موجود ہے۔ اس قانون میں ان لوگوں کے لیے جو کسی مذہبی قانون سے بچنا چاہتے ہیں، بشمول مماثل قوانین جیسے ‘انڈین سکسیشن ایکٹ 1952’، شادی سے متعلق تمام امور، جیسے طلاق، نان نفقہ اور وراثت کے لیے ایک بہترین قانونی راستہ موجود ہے۔
ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کا شوشہ ایک مغالطہ اور سیاسی حربہ بازی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ بات قطعاً ناممکن اور غیر معقول ہے کہ تمام پھدکتے ہوئے چوزوں کو ایک ہی چھوٹی سی ٹوکری میں اکٹھا کر دیا جائے۔ اس لیے موجودہ حکومت، لا کمیشن آف انڈیا کے ذریعے عام شہریوں کے لیے یہ ہسٹریائی ماحول کیوں پیدا کر رہی اس کے پس پردہ مقاصد کا ادراک کوئی کر پائے یا نہ کر پائے، موجودہ وزیر اعظم صاحب اور وہ لوگ جو ناگپور میں واقع آر ایس ایس کے دفتر میں بیٹھے ہیں اچھی طرح جانتے ہیں. میری نظر میں، اس طرح کی کوششیں ہندوستان کے اندر اقلیتوں کے لئے باعث تکلیف، ملک میں افراتفری اور انتشار کاسبب بنے گی، اور دنیا میں ایک سیکولر جمہوری ملک کےطور پر ہندوستان کی شبیہ کو داغدار کرے گی۔
مسلم پرسنل لاء (شریعہ) اپلیکیشن ایکٹ 1937
ہندوستان میں مسلم پرسنل لا غیر آئینی نہیں ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کا عائلی نظم ونسق ایک غیر ترمیم شدہ دفعہ کے ذریعہ ہوتاہے، اور یہ دفعہ دوسرے بہت سے دفعات کی طرح برطانوی قوانین سے مستعار لیے گئے ہیں۔
شریعت ایپلیکیشن ایکٹ جو 7 اکتوبر 1937 میں وضع گیا تھا اور اسی وقت سے نافذالعمل رہا ہے، جو چھ نکات پر مشتمل ہے اور اب تک ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء کو عملی طور پر نافذکرتا ہے۔ ایکٹ کے سیکشن 2 میں ان معاملات کی فہرست دی گئی ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ مسلم پرسنل لاء کے طور پر لاگو ہوں گے۔ شریعت ایپلیکیشن ایکٹ،1937 جس کا دائرہ عمل پورا ہندوستان ہے، میں یہ باتیں مذکور ہے:
"مسلمانوں پر پرسنل لا کا اطلاق۔ اس کے خلاف کسی رواج یا عمل کے باوجود، درج ذیل معاملات کے حل میں (زرعی زمین سے متعلق معاملات کو کوچھوڑکر) چاہے وہ وصیت، جانشینی سے متعلق ہو، خواتین کی خصوصی جائیداد بشمول ذاتی، وراثت میں ملی یا معاہدہ یا تحفہ یا کسی کے تحت حاصل شدہ مال، پرسنل لاء کی کوئی شق، نکاح، فسخ نکاح، بشمول طلاق، ایلا، ظہار، لعان، خلع و مُبارات، نفقہ، مہر، ولایت، تحائف، امانتیں، ٹرسٹ کی جائیدادیں، اور وقف (خیرات اور خیراتی اداروں نیز خیراتی اور مذہبی اوقاف کے علاوہ)، ان تمام معاملات میں جن میں فریقین مسلمان ہیں، فیصلے کا اصول مسلم پرسنل لا (شریعت) ہوگا۔”
یہ بجا طور ایک عام خیال ہے کہ یونیفارم سول کوڈ، پرسنل لاء کو ہٹا دے گا جس کے ضمن میں شادی، طلاق، وراثت اور تمام اقلیتوں، بشمول مسلمان جن کے پرسنل لاء ان کے مذہب اور عبادت کا حصہ ہیں، کے منفرد خاندانی اور سماجی طریقے آتے ہیں، ختم ہو جائیں گے. یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پرسنل لاز تمام بڑے مذاہب اور سماج کے الگ الگ شناخت کے لازمی حصے ہوتے ہیں۔ پرسنل لاز کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ ان لوگوں کی زندگی کے تمام شعبوں میں مداخلت کے مترادف ہوگی جو روایتا اور رسما، نسل در نسل یہ لوگ کرتے آرہے ہیں۔ ہندوستان ایک سیکولر ریاست ہے اور اسے ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جس سے لوگوں کی مذہبی اور ثقافتی اقدار کو خطرہ ہو۔
بہت سے سماج خاص طور پر اقلیتی سماج – مسلمان، عیسائی اور سکھ وغیرہ، یونیفارم سول کوڈ کو اپنی مذہبی آزادی اور مختلف شناخت پربےجا قدغن سمجھتے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ ایک کومن کوڈ (مشترکہ ضابطہ) ان کی روایات کو مسخ کر دے گا اور ایسے قوانین نافذ کر دے گا جو بنیادی طور پر اکثریتی مذہبی برادریوں یا برہمن قوانین سے متاثر ہوں گے۔ ہندوستان کی آئین میں اپنی پسند کے مذہب کی آزادی کا حق دیاگیاہے۔ یکساں قوانین کوبنانے اور اسکو زبردستی لاگو کرنے سے آزادیئے مذہب کا دائرہ کم ہو جائے گا یا اسے بہت زیادہ محدود کر دیا جائے گا۔
یکساں سول کوڈ کی تشکیل اوراسکے نفاذ کی کوشش، جس کا ذکر دفعہ 44 کے تحت آئین کے ہدایتی اصولوں میں کیا گیا ہے، مذہبی آزادی کے حقوق اور اقلیتی حقوق کو لازمی طورپرمتاثر کریگا، جن کو دستور ہند کے دفعہ 12 سے 35 کے اندر بنیادی حقوق کے طور پر یقین دہانی کرائی گئی ہے، اور یہ حقوق آئین کی دیگر تمام دفعات پر فوقیت رکھتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ زبردستی یکساں سول کوڈ کی کوششوں سے پورے ہندوستان میں فرقہ واریت میں اضافہ کاخدشہ ہے اوریہ بیرون ملک میں ہندوستان کی شبیہ کو خراب کرنے کا ذریعہ بھی ہوگا۔ لہٰذا، ملک کے مفاد میں یہی بہتر ہوگاکہ یونیفارم سول کوڈ کے معاملے کو ہمیشہ ہمیش کے لئے پس پردہ ڈال دیاجائے اور یہی دانشمندی اور سمجھداری ہوگی۔
مولانا محمد برہان الدین قاسمی, مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر،ممبئی کے ڈائریکٹر اور ایسٹرن کریسینٹ (انگریزی مجلہ) کے ایڈیٹر ہیں.